ہم ایسے زمانے میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں فساد کے ذرائع عام ہوگئے ہیں اور برائی نے اپنے دانت دکھا دیے ہیں۔ اس لیے والدین پر لازم ہے کہ وہ بچوں کو تمام برائیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک صالح تربیتی ماحول تیار کریں، بلکہ اس ماحول کو ازسرِ نو تشکیل دیں، اسے بلند کریں، اس کی حفاظت کریں، اسے مضبوط بنائیں اور اس میں پیدا ہونے والی خرابیوں کا علاج کریں۔
بلاشبہ اس مطلوبہ ماحول کی تیاری کا عمل بچے کی پیدائش کے بعد شروع ہوتا ہے، جس میں بچہ محبت، شفقت اور پیار سے بھرے گھریلو ماحول میں زندگی گزارتا ہے، تاکہ وہ کان لگا کر، بیدار دل سے اور ادب سے ہدایات حاصل کرے۔ والدین پر لازم ہے کہ اپنے بچوں کو زندگی کی پریشانیوں اور مشغولیات سے، ان کے وقت، صحت، اخلاق، بلکہ ہر چیز کی حفاظت کریں، تاکہ وہ ایسی نسلیں تیار کریں جو زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرسکیں۔
تربیتی ماحول کی تیاری کا مفہوم اور اس کی اہمیت:
تربیتی ماحول کی تیاری سے مراد بچوں کے لیے ایک ایسی صالح جگہ مہیا کرنا ہے جہاں وہ صحیح عقیدہ سیکھیں، کلمہ توحید "لا الہ الا اللہ” کا مفہوم، اس کے تقاضوں اور معانی کو سمجھیں، اور اللہ تعالیٰ کی محبت ان کی صفات اور انسانوں پر ان کی نعمتوں کا ذکر کر کے حاصل کریں۔
اس ماحول میں بچے بچپن سے ہی عبادات کی عادت ڈالتے ہیں، معروف سے محبت کرتے ہیں اور برائی سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ سب تدریجی طور پر ہوتا ہے، نہ کہ سختی سے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو، دس سال کی عمر میں انہیں (نہ پڑھنے پر) مارو، اور ان کے بستر الگ کر دو” [صحیح ابو داؤد]، اور یہی معاملہ باقی عبادات کا بھی ہے۔
والدین اس ماحول میں محبت کے ساتھ اچھے اخلاق بچوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں، سختی اور تشدد سے دور رہتے ہیں، اور والدین کی طرف سے بچوں کو امن کا احساس ہوتا ہے، جب بیٹا اپنے والدین کو مثلاً سچا دیکھتا ہے تو وہ ان سے یہ عادت سیکھتا ہے۔ اس طرح بچہ پروان چڑھتا ہے اور اسے اسلام کی روشنی میں دنیا اور آخرت کی زندگی کے لیے تمام پہلوؤں سے مکمل طور پر تیار کیا جاتا ہے، یا یوں کہہ لیں: یہ اللہ کی شریعت کے مطابق فرد اور معاشرے کی مکمل تشکیل ہے۔
بچوں کی تربیت کے لیے اس صالح ماحول کی اہمیت اس لیے ہے کہ یہ وقت کو مؤثر انداز میں ایسے امور میں استعمال کرتا ہے جو بچوں کو دین اور دنیا میں فائدہ دیتے ہیں، یہ متوازن شخصیت کی تعمیر اور اس کو صیقل دینے میں مدد کرتا ہے تاکہ تکامل، توازن اور اعتماد حاصل ہو۔ یہ دینی اور سماجی اقدار کو بچوں کے دلوں میں جڑیں پکڑاتا ہے اور انہیں تباہ کن خیالات اور منفی اقدار سے محفوظ رکھتا ہے، انہیں معاشرے میں شامل کرتا ہے، غلط رویے کو درست کرتا ہے اور مثبت رویہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اور اسی وقت ضروری حاجات اور رجحانات کو پورا کرتا ہے اور مثبت صلاحیتوں اور رجحانات کو پروان چڑھاتا ہے۔
اسلام میں تربیتی ماحول کی تیاری:
اسلام نے بچوں کے لیے تربیتی ماحول کی تیاری پر زور دیا ہے، اللہ عزوجل اپنی پاک کتاب میں والدین کو بچوں کی تربیت کا حکم دیتا ہے، جہاں اللہ فرماتا ہے: "اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں” [التحریم: 6]، نیک پرورش اچھے ماحول سے آتی ہے، اگر والدین اپنی ذمہ داری پوری کردیں اور نتیجہ ان کی کوششوں کے برعکس نکلے تو ان کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے، اللہ تعالیٰ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہے گمراہ کرتا ہے؛ لیکن یہ نری سادگی ہے کہ کوئی اپنے بچوں کے لیے گمراہی اور ضلالت کے راستے آسان کرے، پھر قسمت کا بہانہ کرے۔
شریعت نے اچھے ماحول اور نیک صحبت کا انتخاب کرنے کی وصیت کی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اور اپنے دل کو اُن لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اُسے پکارتے ہیں” [الکہف: 28]، اور اسی طرح اسلام نے برے ساتھیوں کی صحبت اختیار کرنے سے منع کیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اور جاہلوں سے منہ پھیر لو” [الاعراف آیت 199]۔
بچوں کی اچھے ماحول میں تربیت کے لیے سب سے اہم چیزوں میں سے ایک اللہ سے پاکیزہ اور صالح اولاد مانگنا ہے؛ جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے مانگی تھی: "اے پروردگار، مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو” [الصافات: 100]، اور زکریا علیہ السلام نے اللہ سے مانگی تھی: "پروردگار! اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر تو ہی دعا سننے والا ہے” [آل عمران: 38]۔ اور رحمٰن کے بندوں کی صفات میں سے یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: "اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا ” [الفرقان: 74]۔
والدین کو تربیت اور اچھے ماحول کی تیاری کی ذمہ داری دی گئی ہے؛ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: "ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے؛ پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں، جیسے جانور صحیح سالم بچہ پیدا کرتا ہے، کیا تم اس میں کوئی کمی محسوس کرتے ہو” [بخاری]۔
والد کی اپنے بچے کے تئیں ذمہ داریوں میں سے: صحیح عقیدہ کی تلقین، اس کے دل میں ایمان کا بیج ڈالنا، اور اس کی نگہداشت، انہیں نماز سکھانا، اس کی ترغیب دینا، اس کی حوصلہ افزائی کرنا، نماز کے معاملے میں انہیں ویسے ہی نگرانی کرنا جیسے تعلیم میں نگرانی کرتا ہے، اور باپ اپنے بچوں کے دلوں میں اچھے اخلاق جیسے سچائی، وفا، حسن خلق، اچھا سلوک، علم اور علماء سے محبت، صبر، حلم وغیرہ پیدا کرتا ہے۔
بچوں کے لیے اچھا ماحول مہیا کرنا ایک عظیم ذمہ داری اور بڑی امانت ہے، جس کے بارے میں والدین سے پوچھا جائے گا؛ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا، امام نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا، مرد اپنے گھر میں نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا” [بخاری اور مسلم]۔
ابن القیم رحمہ اللہ نے بعض اہل علم سے نقل کیا ہے: "بیشک اللہ سبحانہ والد سے اس کے بچے کے بارے میں قیامت کے دن پوچھے گا قبل اس کے کہ بچے سے اس کے والد کے بارے میں پوچھے؛ کیونکہ جس طرح باپ کا اپنے بیٹے پر حق ہے، اسی طرح بیٹے کا بھی اپنے باپ پر حق ہے… پس جس نے اپنے بچے کو وہ تعلیم دینے میں غفلت کی جو اسے فائدہ دے، اور اسے بے سہارا چھوڑ دیا؛ تو اس نے اس کے ساتھ حد درجہ برائی اور زیادتی کی۔ اور زیادہ تر بچوں کی خرابی والدین کی طرف سے ہی آتی ہے اور ان کی ان کے حق میں غفلت کی وجہ سے، اور انہیں دین کے فرائض اور سنتیں سکھانے میں کوتاہی کی وجہ سے، انہوں نے انہیں بچپن میں ضائع کر دیا، پھر نہ تو وہ خود فائدہ اٹھا سکے اور نہ ہی بڑھاپے میں اپنے والدین کو فائدہ پہنچا سکے، جیسا کہ ایک شخص نے اپنے بیٹے کو نافرمانی پر ڈانٹا؛ تو اس نے کہا: "ابا جان! آپ نے میرے ساتھ بچپن میں نافرمانی کی تو میں نے آپ کے ساتھ بڑھاپے میں نافرمانی کی، اور آپ نے مجھے بچپن میں ضائع کیا تو میں نے آپ کو بڑھاپے میں ضائع کر دیا”۔
جب ابن خلدون رحمہ اللہ نے شہریوں اور دیہاتیوں کے درمیان بعض فرق کا ذکر کیا تو انسان پر ماحول کے اثر کے بارے میں کہا کہ یہ وراثت کے اثر سے زیادہ طاقتور ہے: "انسان اپنی عادات اور مانوس چیزوں کا بیٹا ہے، نہ کہ اپنی فطرت اور مزاج کا، کیونکہ جس چیز کی اس نے عادت ڈال لی حتیٰ کہ وہ اس کا خلق، ملکہ اور عادت بن گئی، وہ فطرت اور جبلت کی طرح ہو جاتی ہے، اور اس کو انسانوں میں دیکھو- یعنی اس کی پیروی کرو- تم اسے بہت صحیح پاؤ گے، اور اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے”۔
تربیت کے لیے صالح ماحول کی شرائط:
بچوں کے لیے صالح تربیتی ماحول کی تیاری کے عمل کے لیے کچھ شرائط ہیں جنہیں پورا کرنا اور ان کی پابندی کرنا ضروری ہے تاکہ ایک صالح نسل تیار ہو جو مستقبل کا سامنا کرے اور امت کو فائدہ پہنچائے، اور ان میں سے بعض شرائط یہ ہیں:
- صالح بیوی کا انتخاب: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورت سے چار چیزوں کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے: اس کے مال کی وجہ سے، اس کے خاندان کی وجہ سے، اس کے حسن کی وجہ سے، اور اس کے دین کی وجہ سے، پس دیندار عورت کو حاصل کرو تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں” [مسلم]۔
- بچوں کو اسلامی اخلاق اور آداب کی عادت ڈالنا، اور انہیں برے ساتھیوں سے بچانا اور ان کی نگرانی اور پیروی کرنا تاکہ اچھے اور صالح دوستوں کا انتخاب کیا جاسکے۔
- اچھا نمونہ پیش کرنا: والدین پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے اچھا نمونہ بنیں؛ انہیں دین اور نماز سکھا کر اور ایسا ماحول مہیا کرکے جس میں وہ اپنے رد عمل میں توازن اور نفسیاتی استحکام سے لطف اندوز ہوں، تاکہ وہ منفی، تباہ کن، مایوس کن اور نفسیاتی طور پر ٹوٹی ہوئی شخصیات نہ بنیں، جو زندگی کے دباؤ کا سامنا نہ کرسکیں۔
- اس ماحول کے اندر استعمال ہونے والے سرگرمیوں کے وسائل میں تخلیقی صلاحیت، خاص طور پر بچوں کی دلچسپیوں سے متعلق، جیسے متنوع اور مختلف الیکٹرانک آلات اور کھیل، کھیلوں کے سامان جیسے کھیل کے میدان وغیرہ، اور اس میدان میں موجود ترقی کے ساتھ تسلسل کے ساتھ ہم آہنگ رہنا؛ کیونکہ فاسد ماحول سے مقابلہ بہت سخت ہے۔
- تربیت کے ماحول میں منعقد ہونے والی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی اور مضبوط تیاری تاکہ فاسد ماحول سے امتیاز اور تخلیقی صلاحیت ظاہر ہو۔
- تربیت کے ماحول میں رحم، محبت اور بھائی چارے کا عام ہونا، جو مربی اور اس کے بچوں کے درمیان تعلق کو مضبوط کرتا ہے اور بچوں کی یکجہتی کو بڑھاتا ہے، اور ان کی نفرت کو کم کرتا ہے۔
- بچوں کو فائدہ پہنچانا، خاص طور پر ان کی خود سازی، ان کے مسائل کو حل کرنے اور ان کے مواقع پر ان کی سماجی شرکت سے متعلق۔
- اطراف کے ماحول سے خوف نہ کرنا چاہے وہ فاسد ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ بچوں کی تربیت اور رہنمائی انہیں- اللہ کے حکم سے- برے ماحول کے خطرات سے محفوظ رکھتی ہے۔
والدین کے لیے نصائح:
بچوں کے لیے صالح تربیتی ماحول تیار کرنے کے لیے ہم والدین کو کچھ نصائح پیش کرتے ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں:
- خشک احکامات نہیں جو بچوں میں الٹے نتائج لاتے ہیں، رہنمائی واضح، ایمانی اور ربانی ہونی چاہیے کیونکہ یہ بچوں میں خواہش اور جوش پیدا کرتی ہے اور مطلوبہ صالح ماحول کو بلند کرتی ہے۔
- سخت اور کٹھن محاسبہ نہیں جس میں نفسیات واضح طور پر ظاہر ہوتی ہیں۔
- نگرانی کے وقت راز رکھنا ضروری ہے، اور بچوں کو والدین کے ان پر حرص کا احساس ہونا چاہیے، تاکہ شفقت اور محبت کے معانی عام ہوں۔
- ملاحظات میں شفافیت، ہم اپنے بچوں کے بارے میں کوئی ایسی بات نہ کہیں جس کے برعکس ہم نے پہلے ان کے سامنے کہا ہو۔
- قدردانی، تعریف، حوصلہ افزائی اور بچوں کی اچھائی کی نسبت ان کی طرفداری کرنا، حباب بن منذر کی نصیحت پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس طرف جاؤ جہاں حباب نے اشارہ کیا” اور یہ بیٹے کو اپنے والدین کے نزدیک اس کی اہمیت کا احساس دلاتا ہے۔
- مسائل کا حل: سرپرست کو اپنے بچوں کے قریب ہونا چاہیے اور ان کے ساتھ رہنا چاہیے، اور ان کے مسائل مناسب طریقے سے، مناسب وقت پر اور مناسب انداز میں حل کرنا چاہیے۔
- خرابی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس کی بروقت سرکوبی کرنی چاہئے۔
- بچوں کے لیے وقت مقرر کرنا تاکہ ان کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھی جائے یا ان کے ساتھ اللہ کی تخلیق پر غور کرنے کے لیے تفریحی سفر پر جایا جائے۔
- سماجی دورے، رشتہ داری میں صلہ رحمی کی ترغیب، اور بیماروں کی عیادت پر توجہ دینا۔
- روشن پہلو کی طرف توجہ دلانا اور دکھ بھرے واقعے کو مثبت معنی میں تبدیل کرنا صالح ماحول کا حصہ اور اس کے معاونین میں سے ایک ہے۔
- ان رکاوٹوں کا تعین کرنا جو صالح ماحول کو کمزور کرتی ہیں اور ان کا علاج کرنا، حسد اور نفرت کے اسباب کا تعین کرنا اور خاندان میں دستیاب بہترین طریقوں سے انہیں کم کرنا۔
صالح تربیتی ماحول کی تیاری بچوں میں اعلیٰ اخلاق کے حصول کا سبب بنتی ہے اور انہیں فاسد ماحول میں پڑنے سے بچاتی ہے جو ہمارے موجودہ دور میں پھیل گئے ہیں، چاہے حقیقی دنیا میں یا الیکٹرانک میدان میں، کیونکہ انسان اپنے ماحول کی پیداوار ہے، جو اس پر اس کی زندگی کے بہت ابتدائی مرحلے سے مثبت اور منفی دونوں طرح سے اثر انداز ہوتا ہے۔
مصادر و مراجع:
- عبدالرحمن بن عائد العائد: بچوں کی شرعی آداب پر تربیت
- وسام طلال: اسلام میں بچوں کی تربیت کا طریقہ
- محمد الدوسری: بچوں کی صالح تربیت
- ابن القیم الجوزیہ: نوزائیدہ کے احکام کے ساتھ محبت کا تحفہ، صفحہ 124
- سہیلہ علی: بچوں کی تربیت کے مراحل… بچے کی تربیت کے لیے صالح ماحول کو جانیں
- علاء احمد: تربیت پانے والوں کے لیے پرکشش تربیتی ماحول کی تیاری… وقتی اور مستقل ضرورت
- ابن خلدون: تاریخ ابن خلدون: 1/156
مُترجِم: عاشق حُسین پیرزادہ