میں ایک پچیس سال کی لڑکی ہوں، میں نے یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم مکمل کی، میں ایک سینئر وکیل کے دفتر میں کام کرتی ہوں، خدا کا شکر ہے کہ میں اپنے کام میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہوں، میں نے شادی کرنے سے انکار کر دیا، کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میں اپنے والدین اور بھائیوں کی طرح ازدواجی زندگی میں ناکام ہو جاؤں گی۔ مجھے شادی سے ڈر لگتا ہے کیونکہ زندگی کے چیلینجز کا سامنا کرنے کے لیے مضبوط اعصاب کی ضرورت ہے، مجھے یقین ہے کہ والدین کے تجربے نے ہمیں نفسیاتی طور پر تباہ کر دیا ہے، کیونکہ شادی ایک سماجی کردار ہے جو ہم اپنے آس پاس کے لوگوں سے سیکھتے ہیں، ہمارے آس پاس کے لوگ ناکام ہوے ہیں، تو ہم ایک کامیاب تجربے کو کیسے دہرا سکتے ہیں؟!
محترمہ سائلہ !
تمہارا ڈرنا اپنی جگہ صحیح ہے، اور جو شخص بھی آپ کے جیسے حالات سے گزرا ہو، ایسا قدم اٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچے گا، اور آپ کے مسئلے کا پہلا علاج بولنا اور اظہار کرنا ہے- جیسا کہ آپ نے کیا- اکثر جب ہم اپنے خیالات دوسروں کے ساتھ شئیر کرتے ہیں تو ہمارے دل میں مسئلے کی شدت کم ہو جاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری بات سننے والے شخص کی قدر ہمارے یہاں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اب آپ کے شادی کی ناکامی کے خوف کو ظاہر کرنے کے بعد، ہم آپ کو کچھ اہم باتوں کی تلقین کرتے ہیں۔
ہمارے ارد گرد کے حالات کے پیش نظر کچھ برا ہونے کا ڈر اور اندیشہ ایک غلط سوچ ہے؛ کیونکہ حالات اور لوگ مختلف ہوتے ہیں۔ یہ سوال کہ شادی کامیاب ہوتی ہے یا نہیں، جینیاتی مسئلہ نہیں ہے جسے ہم والدین سے حاصل کرتے ہیں اور اسی طرح کے نتائج پیدا کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا، تو ہم یہ بارہا مشاہدہ کرتے کہ تمام طلاق یافتہ والدین کے بچوں کی شادی کی ناکامی کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے!
حقیقت یہ ہے کہ ایسا کبی کبھی ہو سکتا ہے، لیکن یہ کوئی ضروری بھی نہیں. بہت سے لوگ ناکامی کی کوکھ سے کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ البتہ سوال یہ کہ کیا اقدام کرنے والا پہلا قدم خیر کی امید لے کر اٹھاتا ہے یا وہ خوف اور اندیشوں کو اپنے سینے میں پالتے ہوئے یہ قدم اٹھاتا ہے؟!
کوچنگ کے علمبرداروں کا ماننا ہے کہ نتائج ہمارے افکار و خیالات کے مطابق ہوتے ہیں۔ اس لئےکہ جو اچھے کی امید رکھتا ہے، اسے اچھا ہی ملتا ہے اور اس کے برعکس بھی، یہ مطلب ہمیں ایک عربی کہاوت اور محاورے میں واضح نظر آتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ أم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی یہ بات مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: "مصیبت بولنے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔”
قاضی ابن بہلول نے بھی اسی معنی میں شعر کہے ہیں:
وہ بات ہرگز نہ کہو جس سے تم نفرت کرتے ہو، کبھی کبھی زبان سے کسی حادثے کا ذکر، اس حادثے کے کا سبب بنتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ بھلائی کے بارے میں پرامید رہو اور تم اسے پا لو گے، ہم ہرگز آپ کو درویش بننے کے لیے نہیں کہیں گے، آپ اچھا اور عمدہ سوچیں اور اس کے بعد انتخاب کا قدم اٹھائیں، یہ بات کسی صاحب عقل کی بات نہیں ہے۔ ایک مختلف فیصلہ کرنے سے پہلے آپ کو کچھ مثبت اقدامات اٹھانے ہوں گے:
- جیسے کہ کسی نفسیاتی مشیر کے پاس جانا جو آپ کے برے تجربے کے اثرات سے چھٹکارا حاصل کرنے میں آپکی مدد کرے۔
- ازدواجی زندگی کے کامیاب تجربات کو دیکھیں، اگر وہ آپ کے آس پاس ہیں، تو مشورہ کے لیے ان سے اجازت مانگیں، آپ کو جو لوگ خوش نظر آتے ہیں، ان کے لیے پھولوں سے سجی زمین نہیں ملے گی، انہوں نے مل کر مشکلات پر قابو پا لیا ہوگا، اور انہوں نے شادی کی کامیابی کی قدر وقیمت کو خدا کے ارادے کے مطابق بنایا: سکون، محبت اور رحمت؛ یہ ایک عظیم مقصد ہے جس کے لئے وہ ہر قیمتی اور عمدہ چیز کو قربان کرتے ہیں، لہٰذا ان کی شادی کے بندھن مضبوط ہوتے ہیں۔
- ازدواجی زندگی کے بارے میں مطالعہ کرنا، اور شادی کی قانونی حیثیت کے بارے میں خدا کی مرضی کا مطالعہ کرنا، ایک واضح نقطہ نظر فراہم کرنے میں مدد کرتا ہے، اور اس عزم کو دہرانا کہ تم ایک مختلف تجربہ حاصل کرنے والی خاتون بن جاؤ۔
- ویب اور انٹرنیٹ پر شادی کی بحالی و اہلیت کے کورسز موجود ہیں، لہٰذا ان میں سے کسی ایک پروگرام کا حصہ بنیں، ان شاء اللہ آپ کو ضرور فائدہ ملے گا۔
شادی کرنا خدا کی عطا کردہ وہ جبلت ہے جس پر اسنے مخلوق کو قائم رکھا ہے تاکہ زندگی جاری رہے، اگر یہ جبلت آپ کے اندر کچھ عرصے کے لیے معطل ہو جائے تو لامحالہ آپ کے اندر اس کی تجدید ہو جائے گی، لیکن اسے بہت زیادہ متاثر نہ ہونے دیں، مناسب عمر (جیسے آپ کی عمر) میں شادی بہتر ہے، اور تاخیر کرنا اسے نفسیاتی اور حیاتیاتی طور پر زیادہ مشکل بنا دیتی ہے۔
آپ کہتی ہیں کہ آپ اپنے کام میں اچھی طرح سے پیش رفت کر رہی ہیں، یہ پیش رفت آپ کو دھوکہ دے سکتی ہے اور آپ کو شریک حیات سے بے نیازی کے خیال کو مزین کر سکتی ہے، یہ ایک ایسی وبا ہے جس کی اس دور کی بہت سی لڑکیاں شکار ہیں ، کیونکہ انہیں اپنی زندگی میں مردوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے- حد تو یہ ہے کہ وہ کہتی پھرتی ہیں کہ ان کے پاس ایک خاندان ہے جو انہیں گلے لگاتا ہے، اور معاش کی فراہمی سے انہیں آرام دہ زندگی فراہم ہے۔ مگر وہ اس بات سے غافل ہیں کہ یہ حالت ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے۔ اس لیے والدین زندگی بھر اپنے بچوں کے لیے نہیں رہیں گے۔
محترمہ سائلہ!
شریعت نے ہمیں انتخاب کے طریقوں کی طرف رہنمائی کی: ) اگر کوئی ایسا شخص تمہارے پاس پیغام نکاح لے کر آئے، جس کے اخلاق اور دین داری تمہیں پسند ہو، تو اس سے نکاح کر لو، اگر تم ایسا نہ کرو گے، تو زمین پر فتنہ اور فساد پھیل جائے گا(۔، شریعت نے اس طریقے کی پیروی نہ کرنے کو فساد کبیر سے تعبیر کیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم فساد پھیلانے والوں میں سے نہ ہوں!
اس کے علاوہ فیصلہ سازی میں استخارہ اور مشاورت جائز ہے، پس جب تمہیں کسی کا پیغام ملے تو استخارہ کریں اور دوسروں سے مشورہ لیں، یہاں تک کہ آپ مطمئن ہوں، اور اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز بے یارومدد گار نہیں چھوڑے گا۔
آپ کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے درجہِ ذیل کام کرنے کی ضرورت ہے:
خیالات و افکار کو تبدیل کریں۔
نفسیاتی معالج کی مدد سے ماضی کے زخموں کا علاج کریں۔
شادی کی شرعی حیثیت پر خدا کی مرضی پر غور کریں اور انتخاب کے مرحلے میں اپنی حد تک تمام اسباب کو اختیار کریں۔
خدا پر بھروسہ کریں اور یہ یقین کریں کہ دوسروں کے تجربات صرف اپنے منصوبے کو کامیاب بنانے کے لئے ہمارے عزم میں اضافہ کریں گے۔
آخر میں، دعا کرنا نہ چھوڑ دیں کہ خدا آپ کو ایک اچھا شوہر عطا کرے گا، کیونکہ وہ اس کا نگہبان ہے اور ایسا کرنے پروہ ذات قادر ہے۔
مترجم: ڈاکٹر بہاء الدین