عبادات اور سنتیں رمضان المبارک کے مہینے میں متنوع ہوتی ہیں، رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور نیکیاں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں، ان بلند ہمت لوگوں کے لیے، جو کوئی لمحہ بھی نیک عمل کے بغیر گزارنے نہیں دیتے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں، جو اس مبارک مہینے کے دنوں اور راتوں میں نیکیوں کو بہت زیادہ بڑھا دیتے تھے، یہاں تک کہ اللہ نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔ یہی طریقہ صحابہ کرام، پھر تابعین اور ان کے بعد آنے والے نیک لوگوں نے اختیار کیا، اور قیامت تک جو بھی بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرے گا، وہ اسی راستے پر چلے گا۔
ایک تحقیق بعنوان "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اعتکاف: فقہی احکام اور تربیتی اقدار کے درمیان” میں محقق محمد عبد الحکیم القاضی کا کہنا ہے کہ چونکہ اعتکاف بہترین عبادتی سنتوں میں سے ایک ہے اور ایک مؤثر روحانی و تربیتی طریقہ ہے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حوالے سے سیرت کو جاننا انتہائی مفید ہے، تاکہ اس پر عمل کرنا آسان ہو اور بدعات کا دروازہ بند کیا جا سکے۔
اعتکاف نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، ایک قددیم فریضہ:
یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اعتکاف درحقیقت ان قدیم سنتوں میں سے ایک ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے کی ہیں۔ اس بات کی طرف ہمیں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہایت شدت سے متوجہ کرتا ہے:
وَعَهِدْنَآ إِلَىٰٓ إِبْرَٰهِۦمَ وَإِسْمَٰعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِىَ لِلطَّآئِفِينَ وَٱلْعَٰكِفِينَ وَٱلرُّكَّعِ ٱلسُّجُودِ
اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔ [البقرة: 125]
پس آیت میں مذکور عاکفون سے مراد اعتکاف کرنے والے ہی ہیں، چاہے ابن عباسؓ نے اسے بیٹھنے والے سے تعبیر کیا ہو، عطاءؒ نے مکہ میں مجاورت اختیار کرنے والے کہا ہو، یا ابن عمرؓ نے وہ لوگ جو بیت الحرام میں قیام کرتے ہیں بیان کیا ہو۔ اسی لیے امام رازیؒ نے اس بات کو راجح قرار دیا کہ عاکفون سے مراد وہ لوگ ہیں جو وہاں مقیم رہتے اور مجاورت اختیار کرتے ہیں، اور یہی مفہوم ابو طالب القیسی کا بھی انتخاب ہے۔
ابو محمد عبد الحق بن عطیہ الغرناطیؒ نے فرمایا کہ اس کا مطلب ہے کہ وہ لوگ جو اللہ کی رضا کے لیے بیت اللہ کو لازم پکڑتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ یہ تھی کہ وہ سابقہ انبیاء کی سنتوں کو زندہ فرماتے، خاص طور پر اپنے جدِ امجد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو، جو دینِ حنیف اور عظیم دعوت کے حامل تھے۔
چنانچہ مسجد میں اعتکاف کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپؐ کا مستقل معمول تھا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے ان دنوں کا انتخاب فرمایا جو اللہ کے نزدیک سب سے عظیم ہیں، اور اس مہینے کو چنا جو تمام موسموں میں سب سے بابرکت ہے، بلکہ اگر کہا جائے کہ سب سے بہترین مہینہ ہے تو غلط نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو وفات دے دی [مسلم]۔
یہ اس بنیاد پر تھا کہ قربت کے خاص اوقات میں عبادات کے لیے کمر کس لی جائے، اور برکتوں کے خزانے سے فیض حاصل کیا جائے جب راستے کھل جائیں اور پردے ہٹ جائیں۔ یہ عبادت کے ان طریقوں میں سے ہے جو سچائی کے ساتھ اللہ سے محبت کرنے والوں کو نصیب ہوتے ہیں، اور طاعت کے اس فہم میں سے ہے جو اللہ کی جانب سفر کرنے والوں کو عطا کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کے پیشوا، راہنما اور رہبر تھے، انہی کی پیروی کی جاتی ہے اور انہی سے ہدایت حاصل کی جاتی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ سید الجرجانی نے اعتکاف کا ایک تربیتی پہلو اجاگر کیا جب انہوں نے اسے یوں بیان کیا کہ اعتکاف دنیا کے مشاغل سے دل کو خالی کرنے اور اپنی ذات کو اللہ کے سپرد کرنے کا نام ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اعتکاف اور عکوف کا مطلب اقامت ہے، یعنی میں تیرے در سے ہٹوں گا نہیں جب تک تو مجھے بخش نہ دے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کہاں کرتے تھے؟
بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اعتکاف کا مقام ستونِ توبہ کے پاس تھا، چنانچہ نافع مولیٰ ابن عمر فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر نے مجھے وہ جگہ دکھائی جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔
ہاں، یہی آثار کی پیروی، سنت کی جستجو اور راستے کی اقتداء ہے، اور یہی ہدایت کا طریقہ اور کامیابی کی اصل بنیاد ہے۔ اس مقام کی وضاحت ابن ماجہ کی روایت کرتی ہے، جو نافع نے ابن عمر سے نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف فرماتے تو آپ کے لیے بستر بچھا دیا جاتا یا آپ کا تخت ستونِ توبہ کے پیچھے رکھا جاتا۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور بوصیری نے اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے اور اس کے راوی معتبر ہیں۔
ستونِ توبہ وہی جگہ ہے جہاں ابو لبابہ نے توبہ کی تھی وہ رفاعہ بن عبد المنذر تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے اور بنی قریظہ کے حلیف تھے انہوں نے ان کو وہ اشارہ دیا جس سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے بارے میں فیصلہ سمجھ گئے جو کہ قتل تھا پھر وہ توبہ کرنا چاہتے تھے چنانچہ مسجد میں آئے اور خود کو ایک ستون سے باندھ لیا اور کئی راتیں اسی حالت میں رہے یہاں تک کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر دیا۔
یہ ستون منبر کی طرف سے چوتھا ستون ہے اور مشرق کی جانب سے یہ ستون عائشہ کے ستون کے بالکل متصل ہے اور قبر مبارک کی طرف سے دوسرا اور قبلے کی طرف سے تیسرا ہے اس ستون کے مشرقی جانب ایک اور ستون ہے جس کا نام ستون السریر ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر اسی کے پاس رکھا جاتا تھا یہاں تک کہ ابن فرحون نے یہ گمان کیا کہ یہی ستون درحقیقت ستونِ توبہ ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ بستر ان دونوں ستونوں کے درمیان رکھا جاتا تھا کیونکہ یہ بستر ستونِ توبہ کے پیچھے رکھا جاتا تھا یعنی مشرقی ستون کے سامنے اور اس سے ان دونوں ناموں کے درمیان مطابقت پیدا ہو جاتی ہے۔
صاحب الذخائر القدسیہ کے بیان کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ستونِ توبہ کے پیچھے قبلے کی طرف اعتکاف فرماتے تھے اور یہ بات بھی ان دونوں ناموں میں مطابقت پیدا کرنے میں مدد دیتی ہے۔
خیمہ اور خلوت صحیحہ:
یہ معروف بات ہے کہ نبی اکرم – صلی اللہ علیہ وسلم – کا اعتکاف ایک خیمے میں ہوتا تھا، جو قُبّہ (گنبد نما خیمے) کی طرح کا تھا، اور یہ خلوت کے لیے زیادہ معاون تھا، کیونکہ اس میں اللہ کی طرف یکسوئی سے متوجہ ہونا، دنیاوی مشاغل سے الگ رہنا اور مکمل طور پر سکون کے ساتھ اللہ سے مناجات کرنا ممکن ہوتا تھا۔
ہم امام ابن القیم کے یہ الفاظ مستعار لیتے ہیں، جن میں وہ معتکف کی خلوت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے:
"اعتکاف کو مشروع کیا، جس کا مقصود اور اس کی روح یہ ہے کہ دل اللہ تعالیٰ کے ساتھ جُڑ جائے، اس کی طرف مکمل یکسو ہو، اس کے ساتھ خلوت کرے، مخلوق سے تعلقات محدود کرے اور صرف اللہ کے ساتھ مشغول ہو جائے۔ یہاں تک کہ اس کا ذکر، محبت اور اس کی طرف متوجہ ہونا دل کے سارے خیالات اور سوچوں پر غالب آجائے۔ نتیجتاً، بندہ اللہ سے ایسا مانوس ہو جائے کہ مخلوق سے انس کا کوئی اثر باقی نہ رہے۔ یہی اعتکاف کا سب سے بڑا مقصد ہے۔”
جہاں تک نبی کریم – صلی اللہ علیہ وسلم – کے خیمے کا تعلق ہے، تو وہ "ترکی قُبّہ تھی، جس کے دروازے پر چٹائی کا پردہ تھا” جیسا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے صحیح ابن خزیمہ میں بیان کیا ہے۔ راویوں نے اس کی مزید وضاحت کی ہے کہ یہ کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی قُبّہ تھی، جس کا دروازہ بھی کھجور کی چٹائی کا تھا۔ امام قرطبی "المُفهِم” میں لکھتے ہیں کہ "یہ ایک چھوٹا سا ترکی خیمہ تھا جو موٹے اُون (لَبَد) سے بنا ہوا تھا”۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کھجور کے پتوں، چٹائی اور موٹے اُون کا انتخاب، جب کہ کپڑے کی مختلف اقسام بھی دستیاب تھیں، سادگی اور دنیاوی ساز و سامان سے بے نیازی کی علامت ہے، جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خلوت اختیار کرنے کے لیے موزوں ہے۔
وقت اعتکاف نبیؐ:
جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتکاف کے وقت کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک یا اختلاف نہیں کہ آپ رمضان میں اعتکاف فرماتے تھے، اور ایک مرتبہ شوال میں بھی اعتکاف کیا۔ اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ آپ کا آخری معمول رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا تھا، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات تک رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔
البتہ جو بات راویوں کے ذریعے منقول ہے وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے رمضان کے ابتدائی دس دنوں میں اعتکاف فرمایا، پھر درمیانی دس دنوں میں۔ اس کی دلیل حضرت ابو سعید کی وہ حدیث ہے جو ابن خزیمہ اور طبرانی نے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے رمضان کے ابتدائی عشرے میں اعتکاف فرمایا، پھر درمیانی عشرے میں، اور یہ سب لیلۃ القدر کی تلاش میں تھا۔ پھر جب آپ پر وحی کے ذریعے واضح ہوا کہ یہ رات آخری عشرے میں ہے، تو آپ نے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا، اور پھر وفات تک ہمیشہ یہی معمول رہا۔ اسی طرح ام سلمہ سے بھی طبرانی میں مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سال رمضان کے ابتدائی عشرے میں اعتکاف فرمایا، پھر درمیانی عشرے میں، اور پھر آخری عشرے میں، اور فرمایا کہ میں نے لیلۃ القدر کو دیکھا تھا مگر بھلا دیا گیا۔ چنانچہ آپ ان تینوں عشروں میں اعتکاف فرماتے رہے یہاں تک کہ آپ کا وصال ہو گیا۔
ان احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کی لیلۃ القدر کی تلاش میں جدوجہد کا پہلو نمایاں ہے، اور اس میں ایک تربیتی نکتہ بھی ہے جو نیکیوں کے حصول میں سنجیدگی اختیار کرنے اور ہدایت کی جستجو اور فضائل کی تلاش میں مایوس نہ ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ ان احادیث سے ایک فقہی مسئلہ بھی مستنبط کیا جا سکتا ہے، اور وہ یہ کہ اعتکاف کی صحت کے لیے روزہ شرط ہے۔ یہی جمہور سلف اور اکثر صحابہؓ کا مؤقف ہے، اور اسی کو امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ نے اختیار کیا ہے، نیز یہ متاخرین حنابلہ کے ہاں بھی معتمد روایت ہے، اور یہی وہ درست قول ہے جس کی طرف ہمارا رجحان ہے۔
صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ثابت ہے، وہ فرماتی ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو فجر کی نماز پڑھ کر اپنے معتکف میں داخل ہوتے”۔ یہ الفاظ صراحت کے ساتھ اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز کے بعد معتکف میں داخل ہوتے تھے، اس سے پہلے نہیں۔ جب کہ بخاری میں ہے: "تو میں آپ کے لیے خیمہ نصب کر دیتی، پھر آپ صبح کی نماز پڑھ کر اس میں داخل ہوتے”۔
امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کا کہنا ہے کہ جو شخص کسی خاص مہینے میں اعتکاف کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے غروب آفتاب سے پہلے اعتکاف میں داخل ہونا چاہیے، اور یہی رائے اصحاب الرائے (فقہائے احناف) کا بھی ہے۔
بعض متأخرین نے اس قرینہ کو مضبوطی سے پکڑا اور اچھا کیا۔ علامہ صنعانی نے "سبل السلام” میں حدیث ذکر کرنے کے بعد فرمایا: اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ اعتکاف کا وقت فجر کی نماز کے بعد ہے، اور یہ بات ظاہر بھی یہی ہے۔ اس کی مخالفت ان لوگوں نے کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر دن میں اعتکاف کرنا ہو تو طلوع فجر سے پہلے مسجد میں داخل ہونا چاہیے، اور اگر رات کا اعتکاف کرنا ہو تو غروب آفتاب سے پہلے۔ انہوں نے حدیث کی یہ تاویل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کے وقت مسجد میں موجود ہوتے تھے، اور فجر کی نماز کے بعد اپنے لیے مخصوص کردہ اعتکاف کی جگہ میں خلوت اختیار کرتے تھے۔
جہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معتکف سے نکلنے کا تعلق ہے، تو میں کسی ایسی صحیح اور صریح روایت پر مطلع نہیں ہو سکا جو وقت کے تعین میں واضح ہو۔ البتہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سنت یہ تھی کہ آپ معتکف سے نکل کر نماز کے لیے تشریف لے جاتے، یعنی عید کی نماز کے لیے۔ ابراہیم کہتے ہیں: "لوگوں کو یہ پسند تھا کہ جو شخص رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرے، وہ شب عید مسجد میں گزارے، پھر مسجد سے عیدگاہ کی طرف روانہ ہو”۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اعتکاف میں طریقہ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتکاف میں عظیم تربیتی اقدار موجود تھیں، یہ اللہ کی طرف شوق اور اس کی پناہ میں جانے کا اظہار تھا، اور دوسروں سے کٹ کر صرف اللہ سے مشغول رہنے کا طریقہ تھا۔ آپ کا وقت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کے مذاکرے، نماز، قرآن کی تلاوت اور دیگر روحانی عبادات میں گزرتا تھا۔ اس مشغولیت کے باعث آپ بیمار کی عیادت یا جنازے میں شرکت نہیں کرتے تھے، کیونکہ سنت یہ ہے کہ معتکف بیمار کی عیادت نہ کرے، جنازے میں نہ جائے، اپنی بیوی کو نہ چھوئے، نہ اس سے مباشرت کرے، اور کسی ضرورت کے بغیر باہر نہ نکلے۔ اگر بیمار کی عیادت ضروری ہوتی، تو آپ راستے میں گزرتے ہوئے حال پوچھ لیتے، لیکن ٹھہرتے نہیں تھے۔ آپ بیت الخلاء کی حاجت کے لیے ہی گھر جاتے، یہاں تک کہ جب کنگھی کرنا چاہتے تو اپنا سر حجرۂ عائشہ میں باہر نکال دیتے اور وہ آپ کے بال سنوار دیتیں، لیکن خود باہر نہ نکلتے۔
اسی لیے ابن منذر اور دیگر علماء نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ معتکف کے لیے پیشاب، پاخانے کے لیے باہر جانا جائز ہے، اور اسی میں کھانے پینے کی ضروریات بھی شامل ہیں، اگر وہ کسی اور کو لانے کے لیے نہ کہہ سکے یا مسجد میں اس کا بندوبست نہ ہو، بشرطیکہ اس سے مسجد یا نمازیوں کو تکلیف نہ پہنچے۔
تاہم یہ مبارک اعتکاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض مباحات سے نہیں روکتا تھا، بلکہ آپ نے کچھ مباح امور کیے تاکہ امت کو ان کی اجازت کا پتہ چلے۔ جیسے دن یا رات کے کسی حصے میں مہمانوں سے مختصر گفتگو کرنا، خاص طور پر اپنی ازواج سے۔ آپ نے اپنی زوجہ صفیہ بنت حیی کا استقبال کیا اور دونوں نے کچھ دیر گفتگو کی، پھر آپ نے فرمایا: جلدی نہ کرو، میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ پھر آپ ان کے ساتھ مسجد کے دروازے تک گئے۔
حافظ نے کہا کہ اس حدیث سے کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں، جیسے معتکف کے لیے مباح امور میں مشغول ہونے کا جواز، زائر کے ساتھ چلنا، دوسروں سے گفتگو کرنا، معتکف کا اپنی بیوی کے ساتھ خلوت اختیار کرنا اور عورت کے لیے معتکف کی زیارت کرنا۔
کسی نے بھی اس بات میں اختلاف نہیں کیا کہ معتکف کے لیے بعض وقت مباحات میں مشغول ہونا جائز ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی واضح ہے کہ اعتکاف کی اصل غرض اللہ تعالیٰ کے ساتھ خلوت اختیار کرنا ہے، اس لیے انسان کو ہر اس چیز سے اجتناب کرنا چاہیے جو اسے اللہ سے غافل کرے، اور یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا۔
صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کے دوران بھی معتکفین کی خیر خواہی فرماتے اور انہیں معروف کا حکم دیتے۔ امام احمد اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعتکاف کرنے والے صحابہ نے بلند آواز میں قرآن پڑھنا شروع کر دیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر خیمے سے باہر نکالا اور فرمایا: سنو! تم میں سے ہر ایک اپنے رب سے مناجات کر رہا ہے، لہٰذا کوئی دوسرے کو ایذا نہ دے اور نہ ہی اپنی آواز کسی اور پر بلند کرے۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایک قائد کسی بھی حال میں اپنی قیادت سے کنارہ کش نہیں ہوتا اور اپنی خلوت کے لمحات میں بھی اپنے ساتھیوں کی بھلائی کے لیے کوشاں رہتا ہے، کیونکہ خیر کے دروازے ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہوتے بلکہ ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں۔
قضائے اعتکاف:
اعتکاف نبی – صلی اللہ علیہ وسلم – ان لوگوں کے لیے ایک نمونہ تھا جو اس سنت پر عمل کرنا چاہتے ہیں اور اس کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں بلکہ جب کسی عذر کی وجہ سے اس سنت کو ترک کیا تو جیسے ہی موقع ملا اس کی قضا بھی کی اور یہی کچھ سید البشر نے کیا جب رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف نہ کر سکے تو شوال میں اس کی قضا کی۔
آپؐ جب بھی کسی وجہ سے اعتکاف نہ کر پاتے تو اس کی تلافی فرماتے جیسا کہ ترمذی نے انس سے روایت کیا کہ نبی – صلی اللہ علیہ وسلم – نے ایک سال رمضان میں اعتکاف نہیں کیا تو اگلے سال بیس دن اعتکاف کیا اور ظاہر یہی ہے کہ اس سال اعتکاف نہ کرنے کی وجہ سفر تھی کیونکہ نسائی اور ابن حبان نے ابو بن کعب سے ایک واضح روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم – رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا کرتے تھے لیکن ایک سال سفر کی وجہ سے اعتکاف نہ کر سکے تو اگلے سال بیس دن اعتکاف فرمایا۔
یہی نبی کریم کا ہر عبادت میں معمول تھا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ – صلی اللہ علیہ وسلم – کو عبادت سے بے پناہ محبت تھی، اس کے ساتھ ہمیشہ وابستہ رہنے کا شوق تھا، اور اپنی ذات کو اللہ کی رضا کے لیے مکمل طور پر وقف کیے رکھتے تھے۔ اس میں آپ کے پیروکاروں اور علم و عمل کے وارثوں کے لیے بہترین زاد راہ ہے۔
مصادر:
تفسیر ابن عطیہ
التعریفات (جرجانی)
فاطمہ محبوب (الموسوعۃ الذھبیہ)
ابن القیم (زاد المعاد)
مترجم: زعیم الرحمان