رمضان کے دن تیزی سے گزرتے گئے یہاں تک کہ سال کے سب سے عظیم ایام اختتام کی طرف بڑھنے لگے۔ ماہ رمضان اپنے صفحات سمیٹنے والا اور رخصت ہونے والا ہے، اور مومنین کے دلوں کو حزن و ملال سے بھر گیا۔ اس پر آخری دس ایام جو اپنے ساتھ خوشبو اور آبِ حیات لاتے ہیں جو رحمت کی ہواؤں سے لپٹے ہوئے ہوتے ہیں جس سے مغفرت کی روشنی پھوٹ رہی ہوتی ہے۔ ان ایام میں ہر محنتی مومن آگ (جہنم) سے آزادی کی امید لگاتا ہے۔
آخری عشرہ ایک ایسے مہینے میں آتا ہے جو سراسر نیکی، برکات، ایمان، خیرات، نفس کی پاکیزگی، اور ہدایت پھیلانے سے بھرا ہوا ہے۔ اس میں عزم و ہمت والے لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور پوری طرح کوشش کرتے ہیں۔ ہر کوئی اللہ کی رحمت، مہربانی، بخشش، اور اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔ جس کا اجر ان آخری راتوں میں اور بڑھ جاتا ہے۔
شیخ محمد صالح المنجد کہتا ہے: اللہ کا فرمان سچا ہے: "گنتی کے چند دن” [سورہ البقرہ: 184]۔ یہ دن اب تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ رمضان مہینوں یا سالوں میں نہیں ہوتا ہے یہ تو چند گذرنے والے دن ہیں جو جلدی گزر جاتے ہیں۔ جب یہ دن چلے جاتے ہیں تو مومنین کے دلوں میں غم اور یادوں کی ایک حسرت رہ جاتی ہے۔
اے میرے ساتھیو! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ان آخری دس راتوں میں داخل ہوتے تو عبادت میں جاگتے، اپنے گھر والوں کو جگاتے، اور پوری طرح اللہ کی رضا کے لیے لگ جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو قیام، تھکاوٹ کے بغیر محنت، اور اپنی عبادت پر کار بند رہتے ہوئے رمضان کو بہترین اسلوب پر ختم کرتے تھے۔
رمضان کی آخری دس راتوں کی فضیلت:
اللہ نے پورے رمضان کے ایام میں سے آخری عشرے کو منتخب کیا ہے اور انہیں خاص برکتوں اور اجر عظیم سے مالا مال کیا ہے۔ ان راتوں میں "لیلۃ القدر” بھی ہے، جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:
"بے شک ہم نے اس (قرآن) کو ایک بابرکت رات میں نازل کیا…” [سورۃ الدخان: 3]۔
اور فرمایا:
"لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس رات میں فرشتے اور جبرائیل علیہ السلام اپنے رب کے حکم سے ہر امر کا فیصلہ لے کر اترتے ہیں۔ یہ رات فجر تک سراسر سلامت ہوتی ہے۔” [سورۃ القدر: 3-5]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کی آخری دس راتوں میں دوسرے وقتوں کے مقابلے میں عبادت کے لیے بہت زیادہ محنت کرتے تھے” [صحیح مسلم]۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں:
"جو شخص ایمان اور احتساب کی امید سے لیلۃ القدر میں عبادت کرے، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اور جو رمضان کا روزہ ایمان اور احتساب کی نیت سے رکھے، اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں” [صحیح بخاری]۔
علامہ ابن کثیر تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ اس بابرکت رات میں فرشتے، جن میں جبرائیل علیہ السلام بھی شامل ہیں، اللہ کی برکتیں اور رحمت لے کر اترتے ہیں۔ اس رات فرشتوں کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے قرآن پڑھنے پر فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ [تفسیر ابن کثیر سورۃ القدر:4]
آخری دس راتوں میں صحابہ کرامؓ اور اسلاف کا طرز عمل:
صحابہ کرام اور سلف و صالحین آخری دس راتوں اور شب قدر کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ ان کی محنت اور لگن کو ان اشعار میں دیکھا جا سکتا ہے۔
” اے رات گزارنے والو! محنت کرو،
کیونکہ بہت سی دعائیں بے اثر رہ جاتی ہیں۔
رات کو نماز میں صرف وہی کھڑا رہے گا
جس کے دل میں عزم اور سچی لگن ہو۔”
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ ان دس راتوں میں جتنا اللہ چاہتے، نماز پڑھتے رہتے۔ جب آدھی رات قریب آتی تو وہ اپنے گھر والوں کو جگاتے اور کہتے: "نماز کا وقت ہے! نماز کا وقت ہے!”
ابراہیم بن وکیؒع نے بیان کیا "میرے والد نماز پڑھتے تو ہمارے گھر میں کوئی بھی ان کے ساتھ نماز میں شامل ہونے سے نہیں رُکتا تھا، چاہے وہ ہماری کالی لونڈی ہی کیوں نہ ہو”
ہمارے اسلاف(سلف صالحین) آخری دس راتوں کا بے تابی سے انتظار کرتے۔ کچھ لوگ غسل کرکے اچھے کپڑے پہنتے تھے۔ مثلاً ایوب سختیانیؒ 23ویں اور 24ویں راتوں میں غسل کرتے، نئے کپڑے پہنتے، اور خوشبو لگاتے تھے۔
امام نوویؒ نے فرمایا: "رمضان کے آخری دس دنوں میں عبادات کی کثرت کرنا اور راتوں کو نماز میں گزارنا بہتر ہے۔” امام شافعیؒ اس سے متفق ہوئے اور کہا: "دن کے وقت بھی رات کی طرح عبادت میں اُسی طرح محنت کرنی چاہیے۔”
سفیان ثوریؒ نے کہا : "جب رمضان کی آخری راتیں شروع ہو جائیں تو میری خواہش ہوتی ہے کہ لوگ رات کو نماز پڑھیں، عبادت میں محنت کریں، اور اگر ممکن ہوسکے تو اپنے گھر والوں اور بچوں کو بھی نماز کے لیے جگائیں۔”
وہ صرف خود پر ہی توجہ نہیں دیتے تھے بلکہ اپنی بیویوں اور بچوں کو بھی نماز کے لیے جگاتے تھے، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل تھا۔ ابن رجبؒ نے وضاحت کی: "جب رمضان کے دس دن باقی رہ جاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں میں سے کسی کو سونے نہیں دیتے تھے اگر وہ نماز پڑھنے کی طاقت رکھتے ہوں—آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جگا دیتے تھے۔”
افراد کی تربیت اور عزم کی مضبوطی میں داعیوں کا رول:
رمضان داعیوں کے لیے اپنے ایمان کو مضبوط کرنے اور روحانی ترقی حاصل کرنے کا ایک اہم وقت ہے، تاکہ وہ دوسروں کو مؤثر طریقے سے رہنمائی کرسکیں۔ ایک داعی کی زندگی روزمرہ کی روحانی عبادات جیسے نماز، ذکر الہٰی، اور تسبیح وتہلیل کے بغیر ادھوری ہے۔ تاکہ وہ عملی طور پر لوگوں کی مدد بھی فعال انداز میں کر سکے، جیسے کہ:
- رمضان کی آخری دس راتوں کے لیے لوگوں کو ابتدا ہی سے تیار کرنا: لوگوں کو ان راتوں کے فضائل اور ان میں کیے جانے والے نیک اعمال کے بارے میں بتائیں۔
- روحانی اعتکاف (اعتدال کے ساتھ) منظم کرنا: یقینی بنائیں کہ اعتکاف شرکاء کی تعداد اور ان کی ذاتی/سماجی ضروریات کے مطابق ہو۔
- مسجد میں نمائشی بورڈز لگانا: آخری دس راتوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور لوگوں کو نیکی کی ترغیب دینے کے لیے پوسٹرز یا بورڈز استعمال کریں۔
- عملی نمونہ بن کر رہنمائی کرنا: داعی کو خود اعتکاف کی قیادت کرنی چاہیے اور اس کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنی چاہیے۔
- مقامی برادری کے ساتھ تعاون کرنا: مسجد کے قریب رہنے والے خاندانوں اور پڑوسیوں کے ساتھ مل کر اعتکاف کی منصوبہ بندی کریں اور سب کو شامل کریں۔
- واضح پروگرام ترتیب دینا: اعتکاف میں شامل شرکاء کے ساتھ ایک سادہ شیڈول طے کریں۔ کسی ذمہ دار کو پروگرام کو سنبھالنے اور اسے بہتر طریقے سے چلانے کی ذمہ داری سونپیں۔
آخری دس راتوں میں ایمان کو بڑھانے کی کوشش:
جیسے ہی اس مقدس مہینے کے آخری عشرے کی پہلی رات کا آغاز ہوتا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے "ایمرجنسی الارم” بجنے لگا ہو۔ یہ راتیں اس بات کی علامت ہیں کہ یہ بابرکت روحانی موسم اختتام کے قریب ہے۔ ان راتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے اور اپنے ایمان کو مضبوط بنانے کے لیے ہر شخص کو یہ اقدامات کرنے چاہئیں:
1. نیت کو تازہ کریں: اپنی تمام عبادات اور اعمال کو خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے کرنے کی خلوصِ دل سے نیّت کریں۔
2. غریبوں کی مدد کریں اور انہیں کھانا کھلائیں: ضرورت مندوں کی مدد کریں اور بھوکوں کو کھانا فراہم کریں۔ اس عمل سے آپ کو اللہ کے اذن سے کئی گنا ثواب ملے گا اور دل نرم ہوں گے۔
3. اللہ کو کثرت سے یاد کریں: اللہ کی یاد دلوں کو سکون بخشتی ہے، روحوں کو پاکیزہ بناتی ہے، اور گناہوں اور ناپاکیوں سے صاف کرتی ہے۔
4. خیرات میں فراخدلی دکھائیں: ان دس راتوں کے لیے خیرات تیار کریں، اور کچھ حصہ ان مبارک دنوں میں دینے کے لیے خاص رکھیں۔
5. نفل نمازیں اور عبادات بڑھائیں: سنتوں اور نفل نمازوں کو ترک نہ کریں، بلکہ انہیں پابندی سے ادا کریں۔
6. تمام گناہوں اور مشغلوں سے بچیں: گناہوں، غلط کاموں، اور ہر اس چیز سے مکمل پرہیز کریں جو اس روحانی ماحول کو خراب کر سکتی ہو۔
قیام اللیل کی اہمیت:
رمضان کے دوران اور خاص طور پر ایسی مبارک راتوں میں، ایک مسلمان کے لیے وقت گزارنے کا بہترین طریقہ قرآن پر توجہ مرکوز کرنا ہے: اس کی تلاوت کرنا، اس کے معانی پر غور کرنا، اور اس کا مطالعہ کرنا۔ یہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی ہے، کیونکہ جبرائیل علیہ السلام ہر رمضان میں آپ کو قرآن کا دورہ کرانے کے لیے آتے تھے۔ جس سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، انہوں نے قرآن کا دو بار دورہ کیا۔ علماء رمضان میں قرآن کی تلاوت کو سخاوت کی علامت قرار دیتے ہیں، جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک صحیح حدیث میں آیا ہے: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے، اور آپ کی سخاوت رمضان میں عروج پر ہوتی تھی جب جبرائیل علیہ السلام ہر رات آپ کو قرآن کا دورہ کرنے آتے تھے۔ اور جس وقت جبرائیل علیہ السلام آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی بن جاتے تھے۔” [صحیح البخاری]
یہ قیام اللیل (رات کی نماز) کے علاوہ، جو کہ مقدس شریعت نے مومن کے لیے عزت کا باعث قرار دیتے ہوئے اس کی ترغیب دی ہے، کیونکہ یہ بندے کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے اور بے پناہ ثواب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اِن اعمال میں سے ایک خاص دعا ہے: "اے اللہ! تو سب سے زیادہ بخشنے والا ہے، اور بخشش کو پسند کرتا ہے، پس مجھے بخش دے”( [ترمذی]۔
ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں اس مبارک رات کے متعلق بہترین نمونہ ملتا ہے :آپ صلی اللہ علیہ وسلم (عبادت کے لیے) کمر کس لیتے، رات کو نماز میں گزارتے، اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔ [بخاری ومسلم] یہ رات ایک منفرد فضیلت رکھتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس میں خیر و مغفرت کے دروازے کھول دیتا ہے اور ثواب کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔
جماعت کے ساتھ نمازوں کو برقرار رکھنا اور انہیں مسلسل ادا کرتے رہنا انتہائی ضروری ہے۔ ابن المسیبؒ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : "میں نے چالیس سال تک کوئی جماعت کی نماز نہیں چھوڑی، پچاس سال تک پہلی تکبیر (اللہ اکبر) بھی نہیں چھوڑی، اور پچاس سال تک نماز میں کسی شخص کی پیٹھ کی طرف دیکھا تک نہیں۔”
رات کی نمازوں میں نور ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں ڈالتا ہے جو انہیں قائم رکھتے ہیں۔ ایک مرتبہ الحسن بصریؒ سے پوچھا گیا۔ "رات کو نماز پڑھنے والوں کے چہروں پر سب سے زیادہ نور کیوں ہوتا ہے؟ " انہوں نے جواب دیا "کیونکہ وہ راتوں کو خفیہ طور پر الرحمٰن کے ساتھ راز و نیاز کرتے ہیں، تو وہ اپنے نور سے انہیں مزین کر دیتا ہے۔”
آخری عشرہ اور رمضان کے بعد کی زندگی:
رمضان کے اختتام پر سورج غروب ہوتے ہی زندگی اکثر اپنی سابقہ حالت پر لوٹ آتی ہے، گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ قرآن مجید ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے، زبانیں ذکر و دعا سے خالی ہو جاتی ہیں جو کبھی گرمجوشی سے پڑھی جاتی تھیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر مسلمانوں کو ضرور غور کرنا چاہیے۔ انہیں اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) کے ایسے مخلص بندے بننے کی کوشش کرنی چاہیے جو ہر وقت اس کی عبادت کریں، نہ کہ صرف "رمضان کے مخصوص عبادت گزار” بن کر رہ جائیں۔ انہیں اس مہینے کی برکتوں، خاص طور پر آخری دس دنوں—جہاں عبادات، ذکر، اور نیک اعمال میں شدت آجاتی ہے، سے روحانی غذا حاصل کرنی چاہیے تاکہ یہ رمضان کے بعد بھی ان کی رہنمائی کر سکے۔ داعیوں کو بھی چاہیے کہ وہ ان چیزوں پر مداومت دکھائیں:
- رمضان کے بعد بھی لوگوں کے ساتھ مستقل رابطہ اور مشغولیت برقرار رکھیں، جیسا کہ انہوں نے رمضان کے مہینے میں رکھی تھی۔
- لوگوں کو شیطان کے جالوں اور چالوں کے بارے میں تعلیم دیں، خاص طور پر اطاعت اور عبادت کے دنوں کے بعد، کیونکہ شیطان ان کی کوششوں کو خراب کرنے اور انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ایک مسلمان کو رمضان کے بعد خود احتسابی اور تبدیلیوں کا جائزہ لینا چاہیے:
- پہلی خود احتسابی ہم نے رمضان سے کیا حاصل کیا؟
- دوسری خود احتسابی: "اُس عورت کی طرح نہ بنو جس نے اپنا کاتا ہوا اون کھول دیا” [قرآن 16:92]۔ بدبخت ہیں وہ جو صرف رمضان میں اللہ کو جانتے ہیں۔
- تیسری خود احتسابی: "اپنے رب کی عبادت کرو یہاں تک کہ یقین (موت) آجائے” [قرآن 15:99]۔ ایک مومن کو اللہ کی اطاعت جاری رکھنی چاہیے، اس کے قانون پر ثابت قدم رہنا چاہیے، اور سیدھے دین پر رہنا چاہیے۔
- چوتھی خود احتسابی: استغفار اور شکرگزاری میں مشغول رہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے صوبوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ رمضان کو صدقہ اور استغفار کے ساتھ اختتام تک پہنچائیں۔
- پانچویں خود احتسابی: کیا تمہارا روزہ اور رات کی نماز قبول ہوئی؟ حضرت علی بن ابی طالبؓ نے فرمایا: "اپنے اعمال کی قبولیت کی فکر خود اعمال سے زیادہ رکھو۔ کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا : "اللہ صرف پرہیزگاروں کے اعمال قبول کرتا ہے” [سورۃ المائدہ: 5:27]؟ ” نیک سلف رمضان تک پہنچنے کے لیے چھ مہینے دعائیں کرتے تھے، پھر اگلے چھ مہینے یہ دعا کرتے کہ ان کے اعمال قبول ہو جائیں۔
- چھٹی خود احتسابی: تکبر اور غرور سے بچو۔ عزیز و غفار (اللہ) کے سامنے عاجزی اور فروتنی کو اپنا شعار بناؤ۔
اطاعت جاری رکھنے کے لیے شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر مبنی ہے: "جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر شوال کے چھ روزے مزید رکھے، تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے” [ابو ایوب انصاریؓ سے روایت، صحیح مسلم]۔
آخری بات
اللہ کی برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ رمضان المبارک اختتام کے قریب پہنچ رہا ہے، اور ایک مسلمان یہ نہیں جانتا کہ وہ اگلے سال اسے دوبارہ پا سکے گا یا نہیں۔ لہٰذا، ان باقی ماندہ لمحات کی قدر کرو اور نیکیوں کو سمیٹنے کے لیے اپنی پوری کوشش کرو۔ یاد رکھو کہ نیک اعمال اور عبادت کا سلسلہ پورے سال جاری رہنا چاہیے۔ ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کرے، اللہ کی اطاعت میں ثابت قدم رہے، اور ہر حال میں تقویٰ اختیار کرے۔
مآخذ و حوالہ جات:
- على أعتاب العشر الأواخر: 13 مايو 2020
- محمد ويلالي: العشر الأواخر من رمضان وليل الصالحين، 11 أكتوبر 2009 ،
- رمضان فوزي بديني: الداعية والعشر الأواخر من رمضان، 3 يونيو 2018
- شيماء إبراهيم: كيف تستثمري العشر الأواخر من رمضان، 2 يونيو 2018
- سناء الدويكات: أعمال ليلة القدر، 7 مارس 2021
- أبو نور: وماذا بعد رمضان؟ https://bit.ly/3upRzko
مترجم: سجاد الحق