از قلم: ڈاکٹر طلعت فہمی
جیسا کہ ہم یہ سمجھ چکے ہیں کہ مربی تربیتی عمل میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور اس کا واضح کردار صحیح تربیتی ماحول بنانے اور نصاب کے ایسے نفاذ میں ہوتا ہے جو اس کے زیر تربیت شاگردوں کی بہتری کا سبب بنے۔
ہمیں معلوم ہی ہے کہ اس کے لیے ہمیشہ اعلیٰ انسانی رویے اور خوش اخلاق برتاؤ کی ضرورت ہوتی ہے جو شاگردوں کے ساتھ آسانی پیدا کرے اور انہیں اخوت، بھائی چارے اور بلند انسانی اقدار کا حامل بنائے۔
جیسا کہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے ہدایت کا سرچشمہ اور مربیوں کے لیے معتبر حوالہ اور مشعل راہ ہے، تو میں نے اس دروازے میں داخل ہونا مناسب سمجھا تاکہ رسولِ انسانیت، سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ انسانی رویوں کو چار پہلوؤں کے ذریعے جانچ سکوں:
اول: جامع اور مضبوط تعارف۔
دوم: مؤثراورعمدہ رابطہ۔
سوم: دوسروں کے جذبات کا احساس۔
چہارم: نفسیاتی ضروریات کی تکمیل۔
تاکہ
مربیوں کو اپنے بھائیوں کے ساتھ جامع اور گہرا تعارف حاصل کرنے میں، ان کی شخصیات، صلاحیتوں، قابلیتوں، جذبات اور احساسات کو سمجھنے میں مدد مل سکے، جو باہمی تفہیم اور یکجہتی کا سبب بنے۔
اور مربیوں کی مدد ہو سکے کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ مؤثر اور عمدہ تعلق قائم کریں، ان کی خوشیوں، غموں اور زندگی کے تمام پہلوؤں میں شریک ہوں۔
اور مربیوں کی مدد ہوسکے کہ وہ اپنے ان بھائیوں کے جذبات کو محسوس کریں جن کے دل اپنے رب کی محبت پر متحد ہیں، اطاعتِ الٰہی پر اکٹھے ہوئے ہیں اور شریعت کی حمایت کے عہد پر قائم ہیں۔
اور مربیوں کی مدد ہوسکے کہ وہ اپنے بھائیوں کی نفسیاتی ضروریات کو پورا کریں؛ کیونکہ وہ ایک دل، ایک جسم اور ایک روح ہیں۔
تیسرا پہلو: دوسروں کے جذبات کا احساس کرنا
پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کے جذبات کو محسوس کرنے کے لیے جو طرزِ عمل اختیار کیا، اس سے ہم ان کی قیادت میں درج ذیل طریقوں کو جان سکتے ہیں:
الف) اپنے صحابہ میں سے غیر حاضر افراد کے بارے میں دریافت کرتے۔
ب) اپنے صحابہ میں سے بیماروں کی عیادت کرتے۔
ج) صحابہ کے خاص مواقع پر (تقریبات وغیرہ میں) شرکت کرتے۔
د) مسلمانوں کے غموں اور خوشیوں میں شریک ہوتے۔
ہ) مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے۔
و) دوسروں کے مسائل سننے اور ان کی باتیں توجہ سے سننے میں مہارت رکھتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نرم دل، رقیق القلب اورحساس طبیعت کے مالک تھے، لوگوں کی خوشی اور غم کے اسباب سے واقف تھے اور ان کی دلجوئی کرنے، ان کی خیریت دریافت کرنے، غائب افراد کے بارے میں پوچھنے، بیماروں کی عیادت کرنے، ان کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہونے، ان کے مسائل حل کرنے اور ان کی معاشی مشکلات آسان بنانے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ ذیل میں چند مثالیں مشتے نمونہ از خروارے پیش کی جارہی ہیں:
- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابہ کی حالت زار پر توجہ دینا: جب خباب بن الارت ایمان لائے تو وہ ایک ظالم عورت کے غلام تھے جو انہیں سخت اذیت اور تعذیب کا نشانہ بناتی تھی (1)۔ اس مشکل وقت میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت کرتے، ان کے پاس آیا کرتے۔ اور ان کے اورجبرؓ بن عتیک کے درمیان مؤاخات کا رشتہ قائم کیا۔ (2)۔
- جب خالد بن سعید بن العاص ایمان لائے، تو ان کے والد نے انہیں مارا اور کھانے پینے سے محروم کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی حوصلہ افزائی کرتے، ان کے ساتھ رہتے، ان پر شفقت فرماتے اور انہیں اپنے قریب رکھتے (3)۔
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی ایسے شخص کو ایمان لاتے دیکھتے جس کے پاس مال و متاع نہ ہوتا، تو ایک یا دو افراد کو اس فرد کے ساتھ شامل کر دیتے تاکہ اس کی کفالت کی جا سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غریب اور بے سہارا شخص کے معاش کا خاص خیال رکھتے اور اس کی بنیادی اور انسانی ضروریات پوری کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔
- اس کا ایک مظہر مواخات کا عظیم اور شان دار نظام ہے جونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعدمدینہ میں انصار اور مہاجرین کے درمیان قائم کیا۔ مہاجرین مکہ سے اپنے گھر اور مال و اسباب اللہ کے لیے چھوڑ آئے تھے۔ یوں ایک بہت بڑی تعداد کو رہنے کے لیے چھت اور بنیادی انسانی ضروریات کااسامنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا، جس سے مہاجرین کو اپنے بھائیوں کے ساتھ رہنے کے لیے گھر اور سہولیات میسر آئیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کے گھر میں ان کی شادی میں شرکت کی۔ امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی اپنی سند کے ساتھ سہل سے روایت کیا کہ جب ابو اسید الساعدی نے شادی کی، تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو دعوت دی۔ ان کے لیے سوائے ان کی اہلیہ، ام اسید (دلہن) کےاورکوئی کھانا تیار کرنے یا پیش کرنے والا نہ تھا۔ (4) [حدیث]
ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک صحابی کی شادی کے موقع پر ان کے گھر دعوت میں شریک ہوتے ہیں، اور دلہن اسلامی آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے مہمانوں کی خدمت میں مصروف رہتی ہیں۔
امام بخاری نے اپنی سند کے ساتھ خالد بن ذکوان سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ربیع بنت معوذ بن عفراء نے فرمایا: "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری شادی کے دن صبح تشریف لائے(5)، اور میرے بستر پر بیٹھ گئے، جیسے آپ میرے قریب بیٹھے ہیں، اور لڑکیاں دف بجا رہی تھیں”…(6) [حدیث]
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو دلہن کو شادی کے دن اس کے گھر میں مبارکباد دینے کے لیے تشریف لے جاتے ہیں!
صحابہ کے گھرتشریف لے جانا اور ان کے بچوں سے محبت:
امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی اپنی سند کے ساتھ انس بن مالکؓ سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ مل جلکر رہتے تھے۔ میرے ایک بھائی تھے جنہیں ابوعُمَيْر کہا جاتا تھا، غالباََ وہ کمسن تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب آتے تو کہتے، "اے ابو عُمَيْر، نُغَير(پرندے) کا کیا ہوا؟”(7) [حدیث]
(يا أبا عُمَيْرٍ ما فعل النُّغَيْرُ) ایک طرح کا ہم آواز مصرع جس سے ابو عمیر خوش ہوتے۔ (مترجم)
صحابہ کی دعوتوں کو قبول کرنا:
امام بخاری نے اپنی سند کے ساتھ ابن مالک سے روایت کی کہ ان کی نانی، ملیکہ ؓ نے رسول اللہ کو دعوت دی، تو آپ اس میں شریک ہوئے، کھانا تناول فرمایا اور اس کے بعد فرمایا: "اٹھو، میں تمہارے لیے نماز پڑھاؤں گا۔” تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری (تعلیم اور برکت( کے لیے دو رکعتیں ادا کیں اورپھر واپس روانہ ہوئے۔ (8) [حدیث]
یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوت قبول کرتے ہیں، صحابی کے گھر جاتے ہیں، ان کے ساتھ کھاتے ہیں، اور ان کے ساتھ نماز بھی ادا کرتے ہیں۔
مریض صحابہ کی عیادت:
امام بخاری نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عمرؓ سے روایت کی کہ حضرت سعد بن عبادہؓ بیمار ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبد الرحمن بن عوف اور حضرت سعد بن ابی وقاص کے ساتھ ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ (9) [حدیث]
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو اپنے ایک بیمار صحابی کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو اور صحابہ بھی ہیں!
امام مسلم نے اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سائبؓ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: "اے ام سائب، تم کیوں کانپ رہی ہو؟”(10) انہوں نے کہا: "بخار ہے، اس میں کوئی برکت نہیں۔” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بخار کو برا مت کہو، یہ بنی آدم کے گناہوں کو اس طرح دور کرتا ہے جیسے بھٹی لوہے کی میل کچیل کو صاف کرتی ہے”۔ (11)
صحابہ کا خاص خیال اور دشمنوں کے ہاتھوں سے آزاد کرانے کے طریقوں کی تلاش:
ابنِ ہشام نے اپنی سیرت میں روایت کیا ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تھے، تو فرمایا: "کون ہے جو عیاش بن ابی ربیعہ اور ہشام بن العاص کا ذمہ لے؟” وہ دونوں مکہ میں قید تھے۔ ولید بن ولید بن مغیرہ نے عرض کیا: "یا رسول اللہ، میں آپ کے لیے ان کا ذمہ لیتا ہوں۔” چنانچہ وہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں خفیہ طور پر پہنچے۔ انہوں نے ایک عورت کو دیکھا جو کھانے کا سامان لے جا رہی تھی، تو اس سے پوچھا: "اے اللہ کی بندی، کہاں جا رہی ہو؟” اس نے کہا: "ان دو قیدیوں کے پاس، اور اس کی مراد وہی دو قیدی تھے۔ انہوں نے اس کا پیچھا کیا اور ان کا مقام معلوم کر لیا۔ وہ دونوں ایک ایسے گھر میں قید تھے جس کی چھت نہ تھی۔ جب رات ہوئی تو ولید نے ان کے پاس پہنچ کر دیوار پھلانگی، اور ایک پتھر لے کر ان کی زنجیروں کے نیچے رکھا، پھر اپنی تلوار سے زنجیروں کو کاٹ دیا۔ (12) اس تلوار کو بعد میں "ذو المروہ” کہا جانے لگا۔ پھر انہوں نے دونوں کو اپنے اونٹ پر بٹھایا اور روانہ ہوئے۔ راستے میں اونٹ لڑکھڑا گیا اور ان کی ایک انگلی زخمی ہو گئی، تو انہوں نے کہا:
تم بس ایک انگلی ہی تو ہے، جو اللہ کی راہ میں خون آلود ہوگئی(13)
پھر وہ دونوں کو لے کر مدینہ منورہ پہنچے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے نکلنےاور معاملے کا لوگوں سےپہلے ہی علم ہو گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز ادا کی اور پہلی رکعت کے رکوع کے بعد، سجدے سے پہلے ان کے لیے دعا کی:
اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مکہ کے کمزور مؤمنوں کو نجات عطا فرما۔
اے اللہ! مضر ) قریش کی ایک شاخ ) پر سختی فرما، اور ان پر قحط کے وہ سال مسلط کر جو یوسف کے زمانے میں آئے تھے۔ (14)
یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دو صحابہ کے معاملے کی کتنی فکر رکھتے ہیں، جنہیں مشرکوں نے مکہ میں قید کر رکھا تھا اور وہ مدینہ جا کر مسلمانوں سے ملنے سے قاصر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی خلاصی اور رہائی کے بارے میں مسلسل غور کرتے رہے، یہاں تک کہ ولید بن ولید نے اس کام کے لیے پیش قدمی کی۔ وہ مکہ گئے، ان دونوں کو رہا کروایا، اور مدینہ منورہ لے آئے۔
وارثینِ شہداء اور ان کی ضروریات کا خیال:
ابن ابی شیبہ اور امام احمد نے حضرت انسؓ سے روایت کیا کہ اکیدر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد کا ایک مٹکا تحفے میں دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے اپنے صحابہ کو دینا شروع کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابرؓ کو بھی ایک ٹکڑا دیا، پھر دوبارہ انہیں ایک اور ٹکڑا دیا۔ جابر نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! آپ نے مجھے دوبارہ دے دیا ہے۔” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ عبد اللہ کی بیٹیوں کے لیے ہے” یعنی ان کی بہنوں کے لیے، کیوں کہ جابر بن عبد اللہ اپنے والد عبد اللہ ؓ کی شہادت کے بعد اپنی بہنوں کی کفالت اور پرورش کر رہے تھے، جو غزوۂ احد کے دن شہید ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان شہید کی بیٹیوں کو نہیں بھولے۔ [حدیث](15)
صحابہ کی تکالیف پر رنجیدہ ہونا اور اُن کے ساتھ مشفقانہ رویہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مؤمنوں کی آپس کی محبت، رحمت اور ہمدردی کی مثال ایک جسم کی مانند ہے؛ اگر جسم کے کسی ایک عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم بے خوابی اور بخار کے ساتھ کی وجہ سے تکیلف محسوس کرتا ہے۔” (16)
جب حضرت ابوبکرؓ اللہ کے دین کی دعوت دینے کے لیے کھڑے ہوئے، تو مشرکین نے انہیں شدید زدوکوب کیا یہاں تک کہ ان کے اہل خانہ انہیں مردہ سمجھ کر چادر میں اٹھا کر لے گئے۔ جب حضرت ابوبکرؓ دن کے اختتام پر مسلمانوں کے پاس دارِ ارقم پہنچنے کے قابل ہوئے، جہاں وہ جمع ہوتے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری توجہ ان کی طرف فرماتے ہوئے ان کا بوسہ لیا۔ اور باقی مسلمان بھی ان کی طرف منہمک ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بے حد نرمی اور شفقت کا مظاہرہ کیا۔
سب کا خیال:
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ احد سے واپس لوٹے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی، سر زخمی تھا، اور چہرے پر بھی چوٹ آئی تھی۔ اس وقت بنو عبد الأشہل کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے کا ارادہ رکھتے تھے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاونت کرکے انہیں سکون کے ساتھ گھر پہنچا سکیں۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذؓ کو بلایا اور فرمایا "اے ابو عمرو! تمہارے قبیلے کے افراد عمومی طور پر زخمی ہیں، اور قیامت کے دن ان میں سے ہر ایک کا زخم اپنی حالت میں ظاہر ہوگا؛ خون کا رنگ ہوگا، لیکن خوشبو مشک کی ہوگی۔ لہٰذا جو بھی زخمی ہے وہ اپنے گھر میں رہے اور اپنے زخم کا علاج کرے، اور میرے ساتھ میرے گھر تک نہ آئے۔ یہ میرا حکم ہے۔”
چنانچہ حضرت سعد بن معاذ نے اعلان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ بنو عبد الأشہل کا کوئی زخمی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ جائے۔ اس حکم کے بعد تمام زخمی افراد رک گئے اور اور آگ جلا کر رات گزاری اور پھر اپنے گھروں میں زخموں کی مرہم پٹی کرنے لگے۔ (17)
اس وقت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر چوٹ تھی، پیشانی میں زخم تھا، نیچے کا ہونٹ اندر سے زخمی تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کمزور ہو گئے تھے، دائیں کندھے اور گھٹنے پر خراشیں تھیں۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زخمی صحابہ کا کتنا خیال رکھا اور ان سے فرمایا کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں اور ان کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان پر گھر سے نکلنے کی پابندی لگائی۔
ضروریات کا خیال: نفسیاتی، جذباتی اور دنیاوی
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ آئے تو آپؐ کلثوم بن ہدم کے گھر ٹھہرے۔ وہاں سے لوگوں کے ساتھ مل کر سعد بن خيثمہ کے گھر جاتے تھے، (18) کیونکہ وہ مجرد تھے، یعنی ابھی شادی نہیں کی تھی اور یہیں پر مہاجرین میں سے جو جو بے نکاح تھے، ٹھہرا کرتے تھے۔
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لوگوں کے حالات کی رعایت کا بہترین مظہر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جگہ ٹھہرتے تھے اور دوسرے دن صبح کو ایک دوسرے صحابی کے ساتھ مختلف جگہ پر بیٹھتے تھے، تاکہ ان کی عزت نفس کو محفوظ رکھا جا سکے اور کوئی میاں بیوی (لوگوں کی آمد ورفت سے) تکلیف محسوس نہ کرے۔
مسائل کا ادراک اور ان کا حل:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مختلف مواقع پر دیکھا کہ چھوٹے لوگوں کو بڑے لوگوں نے ظلم کا نشانہ بنایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مدد کے لیے اپنی ذات کو پیش کیا اورتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشکل کام کو تن تنہا انجام دیا۔
ابنِ اسحاق کہتے ہیں: مجھ سے عبد الملک بن ابی سفیان ثقفی نے روایت کی، وہ ایک قابل اعتبار شخص تھے(19)۔ انہوں نے کہا: ایک شخص اریش سے اونٹوں کے ساتھ آیا، تو ابو جہل بن ہشام نے ان سے سودا کیا اور قیمت ادا کرنے میں ٹال مٹول کرنے لگا۔ وہ شخص قریش کے پاس آیا اور اس نے کہا: قریش کے لوگوں! کوئی ایسا ہے جو ابو جہل بن ہشام کے ظلم کے خلاف میری مدد کرے؟ میں اجنبی ہوں اور حق تلفی کا شکار ہوں۔اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک گوشے میں بیٹھے تھے۔
اس مجلس کے لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کر کے کہا:”وہ شخص تمھاری مدد کرے گا۔” کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ابو جہل سے دشمنی ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانا چاہتے تھے۔
اراشی شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گیا اور ان کو سارا معاملہ بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ساتھ لے کر اٹھے، قریش نے ایک آدمی کو پیچھے بھیجا تاکہ وہ دیکھےکیا ہورہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جہل کے گھر پہنچ کر دستک دی۔ ابو جہل نے پوچھا "کون ہے؟” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”محمؐد، باہر آؤ” تو وہ باہر آیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اراشی کا حق ادا کرنے کو کہا تو اس نے خوف سے ہامی بھر لی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹھہرنے کی درخواست کی۔ پھر وہ اندر گیا اور تمام رقم اراشی کو ادا کردی۔ وہ اراشی قریش کے پاس آیا اور ان سے کہا، "خدا اس کا بھلا کرے، اس شخص نے میرا حق مجھے لے دیا ہے۔” قریش حیران رہ گئے اور ایک شخص کو انھوں نے تماشا دیکھنے بھیجا تھا اس سے پوچھنے لگے، اس نے کہا "میں نے عجیب ماجرا دیکھا، ابو جہل اندر گیا اور مال لے کر باہر آگیا”۔ پھر کچھ دیر بعد ابو جہل آیا۔ لوگوں نے اس سے پوچھا: تجھے کیا ہوگیا؟ اللہ کی قسم! ہم نے کبھی ایسی چیز نہیں دیکھی۔
اس نے کہا: "اے لوگو! اللہ کی قسم! وہ تو صرف میرے دروازے پر دستک تھی، میں نے اس کی آواز سنی تو دہشت محسوس ہوئی، پھر میں باہر آیا۔”(20)
حضرت ابی حدرد اسلمی سے مروی ہے کہ ایک یہودی کے ان پر چار درہم قرض تھے وہ ان کے ساتھ ظلم و زیادتی سے پیش آنے لگا اور ایک مرتبہ بارگاہ نبوت میں بھی کہہ دیا کہ اے محمد اس شخص نے میرے چار درہم ادا کرنے ہیں لیکن یہ ادا نہیں کرتا اور مجھ پر غالب آگیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اس کا حق ادا کرو، میں نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے مجھے ادائیگی کی قدرت نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا حق ادا کرو، میں نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اس پر قدرت نہیں رکھتا البتہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ ہمیں خیبر کی طرف بھیجنے والے ہیں امید ہے کہ ہمیں وہاں سے مال غنیمت حاصل ہوگا تو واپس آ کر قرض اتاردوں گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ اس کا حق ادا کر و نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جب تین مرتبہ کسی کام کے لئے کہہ دیتے تو پھر اصرار نہ فرماتے تھے۔ یہ دیکھ کر میں اسے بازار کی طرف نکلا میرے سر پر عمامہ اور جسم پر ایک تہنبد تھا میں نے سر سے عمامہ اتارا اور اسے تہبند کی جگہ باندھ لیا اور تہنبد اتار کر اس سے کہا یہ چادر مجھ سے خرید لو اس نے وہ چادر درہم میں خرید لی اسی اثناء میں وہاں سے ایک بوڑھی عورت کا گزر ہوا اور کہنے لگی کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تمہیں کیا ہوا میں نے اسے ساراواقعہ سنایا اس پر وہ کہنے لگی کہ یہ چادر لے لو یہ کہہ کر اس نے اپنے جسم سے ایک زائد چادر اتار کر مجھ پر ڈال دی۔ (21)
محمد بن عمر الاسلمیؓ سے مروی ہے کہ یزید بن رومان، اور ابو نعیم نے، ابو یزید مدنی، اور ابو فرعہ الباہلیؓ سے نقل کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے، ان کے ساتھ کچھ صحابہ تھے، کہ زبیدی کا ایک آدمی آیا اور کہا: قریش کے لوگو! تمہارے پاس سامان کیسے آتا ہے؟ یا تمہارے پاس سامان لایا جاتا ہے؟ یا تاجر یہاں آ کر کاروبار کرتے ہیں، اور تم یہ سلوک کرتے ہو کہ جو تمہارے حرم میں آئے اس کے ساتھ ظلم کرتے ہو؟ وہ حلقہ باندھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور ان کے صحابہ کے ساتھ بات کی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے ساتھ کس نے ظلم کیا؟ اس نے ذکر کیا کہ وہ تین اونٹوں کے ساتھ آیا تھا، جو اس کے بہترین اونٹ تھے۔ ابو جہل نے انہیں ایک تہائی قیمت پر خرید لیا، لیکن انہیں خریدنے کے لیے کوئی اور نہ آیا – ابو جہل کے باعث – پھر اس نے کہا: ابو جہل نے میرے مال کی قیمت گرا دی، اور مجھے نقصان پہنچایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "تمہارے اونٹ کہاں ہیں؟” اس نے کہا: "یہ ہیں حزورہ میں۔” تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اٹھے، اور اونٹوں کو دیکھا، تو انہوں نے ایک خوبصورت اونٹ دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیدی سے بات چیت کی، یہاں تک کہ وہ راضی ہو گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے دو اونٹ بیچ دیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے بہتر اونٹ کا خود سودا کیا اور بنی عبد المطلب کی بیوہ خواتین کو اسکی قیمت دی۔ ابو جہل بازار کے کنارے خاموش بیٹھا تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور کہا: "اے عمرو! دوبارہ وہی نہ کرنا جو اس دیہاتی کے ساتھ کیا تھا، ورنہ وہی دیکھو گے جو پسند نہیں۔” وہ بار بار کہنے لگا: ” دوبارہ نہیں کروں گا، یا محمد! دوبارہ نہیں کروں گا۔” پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے گئے۔ (22)
مصادر:
(1): السيرة النبویہ للدكتور الصلابي (ص: 157)، سیر اعلام النبلاء (479/2)
(2): المستدرک علی الصحیحین، کتاب: معرفت صحابہ، تذکرہ حضرت خباب بن ارتؓ، نمبر(470/2) 5642
(3): السيرة النبوية للدكتور الصلابي (ص:160)
(4): رواه البخاري عن سهل بن سعد -رضي الله عنه- كتاب النكاح – باب: شادی کے گھر میں قیام، ان کی خود سے خدمت (رقم: 5182) ومسلم؛ كتاب: الأشربة – باب: نبیذ کی اباحت،اگر اس میں نشہ نہ ہو (رقم: 5233)
(5): البناء هو الدخول بالزوجة (الزفاف)
(6): بخاري؛ عن الربيع بنت معوذ -رضي الله عنها- كتاب المغازي، معرکہ بدر میں فرشتوں کا ثبوت (4001) ، ابو داؤد، ترمذی، ابن حبان
(7): عن انسؓ، اسے صحاح ستہ کی تمام کتب نے نقل کیا ہے سوائے نسائی کے۔
(8): بخاري عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- كتاب: الصلاة – باب: الصلاة على الحصير (رقم: 380)، ابو داؤد(612)، ترمذی(234) حسن صحیح
(9): رواه البخاري؛ عن عمر -رضي الله عنه- كتاب جنازہ – باب: مریض کی عیادت (رقم: 1304)
(10): تُزْفزِفِين
(11): رواه مسلم؛ عن جابر -رضي الله عنه- كتاب: البر والصلة والآداب (6570)
(12): المروہ
(13): بخاري؛ عن جندب بن سفيان -رضي الله عنه- كتاب: الجهاد والسير – باب: من ينكب في سبيل الله (رقم: 2802)، (6146) کتاب الادب
(14): رواه ابن أبي شيبة؛ عن أبي هريرة كتاب: الصلاة، 7119، مصنف عبد الرازق 4028، ابن حبان ایضا
وقال الأرنؤوط: إسناده صحيح على شرط، الشيخين۔ و رواہ احمد فی مسندہ، بخاری (6200)، كتاب: التفسير – باب: {ليس لك من الأمر شيء} (رقم: 4560)
(15): ابن ابی شیبہ: عن انس کتاب الجہاد: مشرکین سے ھدیہ لینا(34126-34128)، احمد(12224)
(16) : رواه أحمد؛ عن النعمان بن بشير -رضي الله عنه- (30 / 323 – رقم: 18373، 30 / 330 – رقم: 18380) اور ارناؤوط اسے شیخین کی شرط پر صحیح کیتے ہیں۔ مسلم؛ كتاب: البر والصلة والآداب–باب: تراحم المؤمنين، وتعاطفهم، وتعاضدهم (رقم: 6586)
(17): سبل الهدى والرشاد (4 / 229) ونسبه إلى ابن أبي حاتم عن عكرمة مرسلا؛ اور ہم نے جرح و تعدیل اور علل میں اس پہ کلام نہیں پایا۔
(19): اس کا نام: كهلة الأصغر بن عصام بن كهلة الأكبر بن وهب بن ذئبان بن سيلان بن مودِّع بن عبد اللہ؛ جیسا کہ عیون الأثر لابن سید الناس (1 / 204) میں ہے۔
(20): السيرة النبوية لابن هشام لأبي محمد بن عبد الملك بن هشام بن أيوب الحميري
(21): رواه أحمد (24 / 241، 242 – رقم: 15489) وقال الأرنؤوط إسناده ضعيف
مترجم: زعیم الرحمان