مالک بن نبی کا شمار اسلامی دنیا کے عظیم ترین مصلحین میں ہوتا ہے۔ ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو اسلامی تمدن کی ترقی کے بارے میں گہرے خیالات و افکار کے ساتھ آئے۔ انہوں نے تہذیبوں کے ظہور اور ترقی اور پیش آمدہ مہلک امراض کا مطالعہ کرنے میں ابن خلدون کے نقطہ نظر کی پیروی کی، جو انہیں ایک سنجیدہ تحقیقی نقطہ نظر کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔ چنانچہ وہ ایک ایسا وژن رکھتے تھے جس کی بنیاد اسلامی فکر تھی اور جو معاصر عملی اور سائنسی چلینج سے پوری طرح آگاہ تھی۔
وہ اسلامی تہذیب کے زوال کے اسباب کے بارے میں اپنے گہرے ادراک کے حوالے سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک ملت اسلامیہ کے زوال کے اسباب میں سے اہم ترین وجہ اخلاقی پستی ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اس مرض کا علاج کرنے اور اسلامی معاشرے کو ترقی اور عروج کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے فرد اور معاشرے کی بہترین تعلیمی اور اخلاقی تربیت پر توجہ دی۔
مالک بن نبی کون ہیں؟
مالک بن عمر بن الخضر بن مصطفیٰ بن نبی، ذوالقعدہ 1322 ہجری بمطابق جنوری 1905 عیسوی کو الجزائر کی ریاست قسنطین کے شہر تبسہ میں ایک غریب، مذہبی خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ قسنطین میں اپنے چچا کے ساتھ رہتے تھے، اور وہ اپنے چچا کی وفات تک اپنے والدین کے پاس واپس نہیں آئے۔
ان کے والدین غربت کے باوجود، اپنے بیٹے کی اعلیٰ تعلیم کے خواہشمند تھے اور انہوں نے اسے ایک فرانسیسی اسکول میں داخل کرایا، جب کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے قسنطین جانے سے پہلے ہی مساجد میں اسلامی علوم حاصل کرتے رہے۔ ان کی دادی انہیں اچھے اور نیک کاموں کی جانب راغب کرتیں، اور انہیں نیکی اور ثواب کے بارے میں بتاتی رہتیں۔ وہ انہیں اللہ کی قربت اور اس کی بہترین اطاعت کے بارے میں بتاتی رہتی تھیں جس کا ان کی شخصیت پر گہرا اثر پڑا اور وہ کافی متاثر ہوئے۔ دادی انہیں حب الوطنی سکھاتی، اور ساتھ ساتھ فرانسیسی حکومت کی طرف سے الجزائر کے لوگوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا بھی بتاتی رہتیں تھیں، جس سے وہ کافی متاثر ہوئے۔
مالک بن نبی اپنے فرانسیسی استاد کی علمی لیاقت سے کافی متاثر تھے۔ اس کے علاوہ وہ مسلم اسکالرز کی انجمن سے بھی متاثر تھے، جس کی سربراہی عبدالحمید بن بادیس کر رہے تھے، جس نے انہیں علم اور مطالعہ سے محبت کرنے پر اکسایا، اور ان کی فکر کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے فرانس کا سفر کیا، جہاں ان کے لیے راستہ ہموار نہ تھا، کیونکہ انہوں نے مسیحی عقائد پر بڑی حد تک ڈائیلاگ میں حصہ لیا تھا۔ انہوں نے 1931 عیسوی میں ایک فرانسیسی خاتون سے شادی کی جس نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔ وہ لگاتار سیکھنے، پڑھنے کے شوقین رہے یہاں تک کہ خود کو ممتاز کرلیا اور وہ پیرس میں مراکشی اتحاد کے اہم رہنما کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اسی سال انجینئر کی حیثیت سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ 1935ء میں الجزائر واپس آئے، لیکن جلد ہی 1939ء میں پیرس واپس چلے گئے، اور اپنے آپ کو فکری اور صحافتی کام کے لیے وقف کر دیا۔ انہوں نے Le Monde اخبار میں بطور صحافی کام کیا، اور اپنی پہلی کتاب "الظاھرۃ القرآنية” شائع کی۔
وہ 1956ء میں قاہرہ چلے گئے اور 1963ء تک وہیں رہے۔ اس عرصے کے دوران ان کی علمی وابستگی ایک سے زیادہ سمتوں میں بڑھی، وہ عربی زبان پر عبور حاصل کرنے کے قابل ہو گئے، اور متعدد یونیورسٹیوں اور اداروں میں لیکچرز دیتے رہے۔ ان کا گھر ایک فکری فورم کی شکل اختیار کرگیا جہاں ہر وقت بہت سے دانشوروں، سیاسی قائدین اور مفکرین کا تانتا بندھا رہتا۔
فرانس سے آزادی حاصل کرنے کے بعد وہ 1963 عیسوی میں الجزائر واپس آئے اور بہت سے اعلیٰ علمی عہدوں پر کام کیا، لیکن 1967 عیسوی میں انہوں نے اپنے آپ کو علم اور اپنی فکر کی ترویج کے لیے وقف کر دیا اور اسلامی لائبریریوں کو اپنی خداداد صلاحیتوں سے مدد فراہم کرتے رہے یہاں تک کہ 4 شوال 1393 ہجری بمطابق اکتوبر 1973ء کو اس دار فانی سے اس وقت کوچ کر گئے جب ان کی عمر اڑسٹھ برس تھی۔
مالک بن نبی اور اسلامی بیداری کے لیے تربیتی فکر کی اہمیت و خصوصیات:
تعلیمی و تربیتی عمل پیچیدہ اور کثیر الجہتی ہے اور یہ صرف ایک پہلو یا میدان تک محدود نہیں ہے، جس کی بنیاد ملک بن نبی نے اپنے نظریہ کے فریم ورک میں رکھی ہے، جیسا کہ انہوں نے محسوس کیا کہ کسی بھی معاشرے کا مسئلہ بنیادی طور پر تہذیبی ہوتا ہے۔ کوئی معاشرہ کسی مسئلے کو اس وقت تک سمجھ یا حل نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ انسانی واقعات کے بارے میں اپنے خیالات کو نہیں اٹھاتا، اور جب تک وہ تہذیبوں کی تعمیر یا تباہی کے عوامل کے بارے میں اپنی سمجھ کو گہرا نہیں کرتا۔
مالک بن نبی کا خیال ہے کہ ایک پڑھا لکھا شخص اپنے خیالات اور محسوسات کی بنیاد پر یہ سمجھتا اور محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا خود خالق ہے۔ تاہم اس کی مذہبی تربیت اس کی تعلیم کو مذہب سے جوڑ دیتی ہے۔ کیونکہ کوئی بھی تہذیب خواہ وہ تین عناصر(انسان – مٹی – وقت) پر مبنی ہی کیوں نہ ہو لیکن مذہبی عنصر ان سب کو یکجا کرتا ہے جو اخلاقیات سے بھرپور فرد اور معاشرے کی تعمیر پر مبنی ہوتا ہے۔
ثقافتی اور تہذیبی حوالہ کے بغیر کوئی تعلیمی نظام نہیں ہے جو اسے ترتیب دیتا ہے اور انسانی ثقافتوں کی کثرت تعلیمی نظاموں کی کثرت کا بہترین ثبوت ہے۔ ہر انسانی معاشرہ اپنے تہذیبی وژن کے مطابق اپنے تعلیمی و تربیتی نظام کو تشکیل دیتا ہے۔
لہٰذا اچھی اور کامیاب تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان مسائل اور رکاوٹوں کا مقابلہ کرے جو قوم، معاشرے اور فرد کی راہ میں حائل ہوں اور ان کا علاج کرنے کی کوشش کریں اور ان سے علمی، تحقیقی اور منطقی نقطہ نظر کے ساتھ نبرد آزما ہوں۔
ڈاکٹر علی صباغ کہتے ہیں: اس وجہ سے "مالک بن نبی” جدید تعلیمی فکر سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں، جن کا خیال ہے کہ تعلیم کی بنیادی ذمہ داریاں تعلیم یافتہ فرد کو انفرادی اور سماجی سطح پر درپیش چیلنجز اور مسائل کی نوعیت کو سمجھنے کے قابل بنانا ہے۔ اور اس طرح اسے مسائل حاضرہ کے مطابق ڈھالنے اور مستقبل کے امکانات کا اندازہ لگانے کے لیے تیار کرنا ہے۔
اگر ہمیں ایسی تعلیم کی حاجت ہو جو قوم کے تشخص اور امتیازات کو محفوظ رکھتی ہو، تو ہمیں ایسی تعلیم کی اشد ضرورت ہوگی جو تعلیمی نظام کو نظریاتی تحقیق کی تنگنائیوں سے باہر نکال کر جدید تجربات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے وسعت دے، جو ملت اسلامیہ کے ماضی سے ہم آہنگ ہوکر اس کے حال اور مستقبل کی تعمیر کرے۔
تعلیم کے تصور اور نوعیت کے بارے میں "مالک بن نبی” کی ثقافتی فکر سے جو بات نکل کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اصلیت اور جدیدیت تعلیمی و تربیتی عمل کے دو لازم و ملزوم عناصر ہیں۔ روایت، یعنی اپنی بنیادوں اور تراث سے وابستہ رہنا، جو کہ ترقی کے ساتھ بقائے باہمی کو یقینی بناتی ہے۔ اور روایت پر قائم رہنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ جدیدیت کو رد کیا جائے۔ بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ان کے درمیان ایک مرکب اور انضمام ہونا چاہیے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس سے تعلیمی عمل کو تقویت ملتی ہے۔
تعلیمی اقدار پر اخلاقیات کا اثر:
مالک بن نبی نے مطالعہ اور تحقیق کے لیے اخلاقی اقدار کو الگ نہیں کیا، سوائے اس کے جب انہوں نے ثقافت کے تصور کے اپنے تجزیے میں انہیں شامل کیا، جسے وہ اخلاقی خصوصیات اور سماجی اقدار کا مجموعہ سمجھتے ہیں، جو فرد کو اس کی پیدائش سے متاثر کرتی ہیں اور لاشعوری طور پر وہ رشتہ بن جاتا ہے جو اس کے طرز عمل کو اس ماحول کے طرز زندگی سے جوڑتا ہے جس میں وہ پیدا ہوا تھا۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مالک بن نبی کے مطابق ثقافت کس طرح بنیادی طور پر اخلاقی اقدار پر مبنی ہوتی ہے، جو بچپن سے ہی فرد کی تشکیل اور پرورش پر اثر انداز ہوتی ہے، تاکہ وہ اس کی زندگی سے گہرا تعلق اور اس کے طرز عمل کی ایک مخصوص خصوصیت بن جائے۔ جسے وہ اپنی زندگی کے ہر لمحے کو اس نمونے کے مطابق بناتا ہے جس میں اس نے پرورش پائی ہوتی ہے۔
مالک بن نبی کے مطابق تہذیبی و ثقافتی نظام ان چار بنیادی عناصر پر مشتمل ہوتا ہے:
- بہترین اجتماعی نظام کی تشکیل کے لیے اخلاقی رہنمائی
- ذوق سلیم کی تشکیل کے لیے جمالیاتی رہنمائی
- عوامی سرگرمیوں کی تعیین کے لئےعلمی، منطقی اور سائنسی تجربات کی رہنمائی
- صنعت یا اپلائیڈ آرٹ کی رہنمائی جو کہ ہر معاشرے کی ضرورت ہے
مالک بن نبی کہتے ہیں: "اس کے مطابق، ہم دیکھتے ہیں کہ کسی خاص معاشرے کی زندگی میں نظریات کی اہمیت دو صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے: یا تو وہ سماجی زندگی کی ترقی کے عوامل کے طور پر اثر انداز ہوتے ہیں، یا وہ pathogenic عوامل کے طور پر کام کر کے مخالف کو متاثر کرتے ہیں جو سماجی ترقی کو مشکل یا ناممکن بنا دیتے ہیں۔
مالک بن نبی کے سماجی نظریات کی بنیاد اس معاشرے کے ساتھ وابستہ تھی جس میں وہ رہتے تھے۔ استعمار کی طرف سے وطن کی شناخت کو مٹانے کی کوششیں بھی اس کے تمام پہلوؤں میں عرب اور اسلامی معاشرے کے المیوں سے گزرتی تھیں۔ کیونکہ سامراج نے انہیں ان مسائل کے حل کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا، لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی مزاحمتی فکر میں یہ سوال خاص طور پر اٹھایا گیا کہ استعماری طاقت سے کیسے نجات حاصل کی جائے اور معاشرے میں پائی جانے والی پسماندگی کی دھول کو کیسے جھاڑ دیا جائے۔
چنانچہ مالک بن نبی نے اخلاقی اقدار کو معاشی اقدار پر فوقیت دی ہے، یہ سمجھتے ہوئے کہ انسان ہی ہر تہذیبی و تمدنی ترقی کا ذریعہ ہے۔ کسی بھی تہذیبی و تمدنی ترقی کا ظہور اس انسان کی مرضی پر منحصر ہے جو ایک ایسے عقیدے پر یقین رکھتا ہے جو تہذیبی اقدار کو اپنے اندر سمیٹ کر انہیں بھرپور نشونما دیتا ہے۔
مالک بن نبی کی تعلیمی و تربیتی فکر میں عملی اقدام کی مرکزیت:
تہذیب کی منزلیں انسانی زندگی کے ان مراحل سے ملتی جلتی ہیں جن کا ذکر قرآن پاک میں کیا گیا ہے۔ کمزوری، پھرطاقت سے بھرپور جوانی ، پھر کمزوری اور زوال۔ اس نے بہت سے دانشوروں کو اس زوال اور انحطاط کے اسباب و علل کی تلاش کرنے پر اکسایا جس سے تہذیبیں دوچار ہوتی ہیں، لیکن ان تصورات کی حیثیت کتابوں کی حد تک محدود رہی جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
اسی لیے مالک بن نبی کا خیال ہے کہ تعلیم اس وقت تک اپنا پھل نہیں دیتی جب تک کہ اسے حقیقت پسندی سے نہ جوڑا جائے، اوراگر تعلیم محض فلسفیانہ موشگافیوں کی حد تک محدود رہ جائے اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
جب انسان اپنے فرائض کی طرف گامزن ہوتا ہے تو اسے اس بات کا بخوبی احساس ہوتا ہے کہ حقیقت کا سامنا اس کے تمام منفی پہلوؤں کے ساتھ کرنا ناممکن نہیں ہے، اور اسی طرح اس تصویر کو کم کرنا بھی آسان نہیں ہے جو اسے مسائل اور ان کی وجوہات کی گہرائی میں جانے کے بغیر سطحی طور پر حقیقت کو پیش کرتا ہے۔
لہٰذا، حقیقت کا مطالعہ سائنٹفک نقطہ نظر پر مبنی ہونا چاہیے، تاکہ رسمی اور سرسری نقطہ نظر ہمیں یہ باور کرکے گمراہ نہ کر سکے کہ تجدید ہو رہی ہے اور چیزیں ٹھیک ٹھاک چل رہی ہیں۔
حقیقت کو فراموش کرنا یا نظر انداز کرنا، اور ایک نیا اور خود ساختہ تعمیراتی عمل شروع کرنا، ایسی غلطیوں اور خطرات کا باعث بنتا ہے جن سے بچنا ضروری ہے۔ شاید یہ ایک ایسے معاشرے کی طرح ہے جو اپنے آپ کو اپنی تاریخی جڑوں سے الگ کرتا ہے، جب اس کا مقصد اپنے حال اور مستقبل کی ترقی کرنا ہوتا ہے۔ جو اس کے سماجی اور سیاسی ڈھانچے کی سنگین غلطیوں کو آشکار کرتا ہے۔
یہ بات مالک بن نبی کو اس وقت محسوس ہوئی جب انہوں نے مردہ اور غیر متعلق خیالات اور مہلک نظریات کے مسئلے سے نمٹا، کیونکہ اس نے دیکھا کہ روایت اور جدیدیت کے معاملے میں ایک متضاد پولرائزیشن ہے، جس کی وجہ سے اکثر خیالات کی دنیا میں انتشار اور عدم توازن پیدا ہوتا ہے، اور اس کے نتیجے میں رویے کی دنیا میں ہنگامہ آرائی ظاہر ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں مالک بن نبی کا خیال ہے کہ تہذیب کا تصور زیادہ گہرا ہے، کیونکہ یہ آزادی کی طرح ہے جو صرف وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو عقلی ہو، اپنے وقت سے باخبر ہو، مٹی کے ساتھ تعامل رکھتا ہو، اپنے ورثے اور روایت سے ہم آہنگ ہو، اور عالمی حالات کا صحیح ادراک اور فہم رکھتا ہو۔
تہذیبی سائیکل کی تعلیمی و تربیتی جہت:
مالک بن نبی کا خیال ہے کہ نوجوانوں کو ملنے والی تعلیمی اقدار اور معاشرے میں رائج ثقافتی اقدار کے درمیان عدم مطابقت کی وجہ سے اسلامی معاشرے اپنے تہذیبی دور سے ہٹ چکے ہیں۔
زوال اور تہذیبی بحران کی وجہ ایمان کی کمزوری یا ایمان و عقیدے کی تاثیر کا کم ہونا ہے، جس کا آغاز قرآن مجید کا ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کے معاملات سے بے دخلی سے ہوا۔ اس کے علاوہ، ذہنی اور جذباتی غفلت، اور ثقافتی دنیا میں عدم توازن (خیالات کی دنیا – لوگوں کی دنیا – چیزوں کی دنیا)، جو ایک دنیا کے دوسرے پر غلبہ کا باعث بنے گی، اور اصول کی عدم موجودگی۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ثقافتی "جائزہ” اور "تنقید”، اس فکری اور تعلیمی یلغار کا ذکر نہیں کرتا ہے جس نے نوآبادیاتی دور میں اسلامی عوام کو متاثر کیا۔
اسی طرح یہ تثلیث (دین / اخلاقیات / تہذیب) مالک بن نبی کی تہذیبی نشاۃ ثانیہ کے منصوبے میں دلچسپی کے اہم مراکز میں سے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے کی تشکیل کے فوراََ بعد پہلا اقدام اجتماعی تعلقات کے نیٹ ورک کو جوڑ کر مضبوط کرنا ہے (جیسے اسلامی معاشرے کے معاملے میں بھائی چارہ پیدا کرنا) پھر سب سے پہلی چیز جس سے معاشرہ اپنی موت کی طرف بڑھتا ہے وہ اس کے اخلاقی ڈھانچے کا زوال ہے۔
ان کا خیال ہے کہ سماج کی تشکیل انسان کی ایک فطری جبلت ہے اور مہذب معاشرہ وہ ہے جو اس جبلت کو معمول پر لاتا ہے اور اس کی رہنمائی کرتا ہے اور افراتفری اور انتشار سے بچنے کے لیے اخلاق کے ساتھ اس کی سطح کو بلند کرتا ہے۔ یہ چیز انبیاء علیہم السلام کے اخلاقیات میں سے ہے کیونکہ ان کا مقصد افراد کو ایک دوسرے سے جوڑنا تھا، جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس جانب اشارہ کرکے فرماتے ہیں: "اور مومنوں کے دل ایک دُوسرے کے ساتھ جوڑ دیے، تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو اِن لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقیناً وہ بڑا زبردست اور دانا ہے” [الأنفال] لہٰذا، اخلاقی پہلو عمومی طور پر معاشرے کی سمت کی تعیین کا بنیادی ستون ہوتا ہے۔
مالک بن نبی نے پسماندہ دنیا کے اہم ترین مسائل پر کتابوں کا ایک بڑا سلسلہ لکھا جس کا آغاز انہوں نے سب سے پہلے پیرس سے کیا اور پھر مصر اور الجزائر میں بھی جاری رکھا۔ جن میں سے چند کتابوں کے نام یہ ییں:
- الظاهرة القرآنية 1946۔
- شروط النهضة صدر بالفرنسية في 1948م وبالعربية في 1957۔
- وجهة العالم الإسلامي 1954۔
- الفكرة الإفريقية الآسيوية 1956۔
- النجدة…الشعب الجزائري يباد 1957۔
- فكرة كومنولث إسلامي 1958۔
- مشكلة الثقافة 1959۔
- الصراع الفكري في البلاد المستعمَرة 1959۔
- حديث في البناء الجديد 1960 (ألحق بكتاب تأملات)۔
- تأملات 1961۔
- في مهبِّ المعركة 1962۔
- آفاق جزائرية 1964۔
- القضايا الكبرى۔
- مذكرات شاهد للقرن _الطفل 1965۔
- إنتاج المستشرقين 1968۔
- الإسلام والديمقراطية 1968۔
- مذكرات شاهد للقرن _الطالب 1970۔
- معنى المرحلة 1970۔
- مشكلة الأفكار في العالم الإسلامي 1970۔
- دور المسلم ورسالته في الثلث الأخير من القرن العشرين (محاضرة ألقيت في 1972)۔
- بين الرشاد والتيه 1972۔
- المسلم في عالم الاقتصاد 1972۔
- من أجل التغيير۔
- ميلاد مجتمع۔
- لبيك حج الفقراء۔
مالک بن نبی نے اپنے فکری منصوبے میں تہذیب کے تصور کو ایک عظیم مقام دیا، جس کی نمائندگی ان اخلاقی اور مادی حالات و وسائل سے ہوتی ہے جو اس نے اپنے ہر فرد کو فراہم کی ہیں۔ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک کی زندگی کے ہر مرحلے میں مالک بن نبی کو انسانی تہذیب کے تحفظ اور بقاء میں اس کی اہمیت و افادیت نظر آتی ہے۔ تہذیب کی تعمیر میں اقدار کو فعال کرنے کی دعوت، اور اخلاقیات اور انسانی رویے کو بہتر بنانا تہذیب کا بنیادی اور اولین ہدف ہے۔
مصادر و مراجع:
- مولود عويمر: مالك بن نبي رجل الحضارة: مسيرته وعطاؤه الفكري، دار الأمل للطباعة والنشر والتوزيع، الأردن، 2007م، صـ10 وما بعدها۔
- عبدالحميد أبو سليمان، الرؤية الحضارية القرآنية، القاهرة: دار السلام للطباعة والنشر والتوزيع والترجمة، 2009، صـ 19۔
- الدكتور علي صباغ: ، العدد الأول، مجلة جيل العلوم الإنسانية والإجتماعية، الجزائر۔
- أسامة خضراوي: ، 2 يناير 2019۔
- مالك بن نبي، بين الرشاد والتيه، دار الفكر، دمشق، سوريا، الطبعة السادسة، 2006۔
- ناصر هواري: (قراءة في منطلقات وفاعلية المنهج)، مجلة جيل العلوم الإنسانية والاجتماعية، الجزائر، العدد 68۔
- الدكتورة صبرينة حديدان: مقومات البناء الحضاري عند مالك بن نبي، مجلة علوم الإنسان والمجتمع، المجلد 8، العدد 1، 2019، صـ 41۔
- بوعرفة عبد القادر: الإنسان المستقبلي في فكر مالك بن نبي، دار الغرب للنشر والتوزيع، وهران، الجزائر، طـ 1، 2001، صـ 8۔
- حسان عبد الله حسان: ، المسلم المعاصر، العدد 160، 13 أبريل 2016۔
- عبدالحليم مهورباشة: الفكر التربوي عند مالك بن نبي، مجلة الكلمة، العدد 95، السنة 24، 2017
مترجِم: عاشق حسین پیرزادہ