جب میں اپنے ایک ساتھی سے اپنے بچے کے اردگرد کی ہر چیز کے بارے میں بے حسی اور بے توجہی کی شکایت کرنے لگا تو میں نے محسوس کیا کہ وہ بھی میری طرح اسی مسئلے کا شکار ہے۔ اور اس نے بھی بچوں کی بے حسی کے بارے میں وہی اندیشہ ظاہر کیا، یہاں تک کہہ دیا کہ ہمارے بچے انٹرنیٹ، گیمز اور یوٹیوب کی دنیا میں مگن ہیں، اور انہوں نے ورچوئل دنیا کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ ان کا حال یہ ہے کہ اپنے گھر والوں کے سامنے بیٹھنے کو وہ ایک بھاری بوجھ سمجھنے لگے ہیں جو کہ ان کی لطف اندوزی میں خلل ڈالتا ہے۔ اور ان کی بے حسی و عدم توجہی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ وہ اپنے کمروں کی صفائی یا اپنے بدن کی صفائی سے بھی لاتعلق ہوگئے ہیں۔
میں پوچھتا ہوں کہ ہمارے معاشرے کا مستقبل کیسا ہوگا، جب ہمارے بچوں کا حال ورچوئل لائف میں ڈوبا ہوا ہے اور فعال، مثبت اور پریکٹیکل زندگی سے بہت دور ہے؟ کیا ہمیں انہیں اپنے حال پر چھوڑ کر انتظار کرنا ہوگا اور معاشرے کے ساتھ اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے، چاہے وہ کچھ بھی ہوں؟ یا ہمیں فوری طور اقدام کرکے مختلف، متنوع اور دلچسپ ذرائع سے انہیں زندگی کی طرف راغب کرنا شروع کرنا چاہئے، تاکہ وہ پریکٹیکل زندگی کی طرف لوٹ آئیں اور وہ اپنی غلطیوں، کامیابیوں اور ناکامیوں سے سبق سیکھیں؟ یہ سب کچھ کس طرح ممکن ہے؟
جواب: بچے کی مثبت تشکیل
میرے پیارے بھائی، میں اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ آپ اس معاملے کو درست کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور انٹرنیٹ کی دنیا میں گم ہمارے بچوں کے قیمتی وقت کے ضیاع کے برے نتائج کے بارے میں فکرمند ہیں۔ بہرحال ہر چیز کا حد سے زیادہ استعمال، چاہے وہ اپنی ذات میں کتنا ہی بہتر ہو، نقصان دہ ہے۔
اگرچہ کھانا پینا جائز و حلال ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے اسراف سے منع کیا ہے۔ چنانچہ قرآن میں ہے (اور کھاؤ پیو اور اسراف نہ کرو)۔ پس اعتدال اور میانہ روی ہمارے تمام معاملات کی اصل ہے۔
ورچوئل دنیا شاندار، آسان، تفریحی، اور خوابیدہ ہوتی ہے، بچے رضاکارانہ طور پر اس سے دور رہنے کا انتخاب نہیں کرسکتے، پس ہمیں انہیں اعتماد میں لے کر ایسے حقیقت پسندانہ اصول و قوانین وضع کرنے چاہئیں جن پر عمل درآمد ممکن ہو اور ایسی سزائیں تجویز کرنی چاہئیں جنہیں بھگتنا ممکن نہ ہو۔ اور جن پر وہ خود بھی متفق ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے نماز کے اوقات کو کچھ اس طرح مقرر کیا ہے کہ ان کے ارد گرد ہماری زندگی اور اس کا پورا نظام گھومتا ہے۔ ہمیں کام کے اوقات اور تفریح اور کھیل کود کے اوقات مقرر کرنے چاہئیں تاکہ ہمارا دن ثمر بار ہو اور وقت کا ضیاع نہ ہو۔ کیونکہ انسان سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنی عمر کہاں کھپائی۔
ہم اس سلسلے میں کچھ ماؤں کی کوششوں کا تذکرہ بہت سے خاندانوں میں لاگو ہونے والے حل کے اشارے کے طور پر کرتے ہیں:
- کچھ ماؤں نے باہم رضامندی کے ساتھ بچے کو فون کے مخصوص اوقات دے کر، یا مخصوص ایپلی کیشنز ڈاؤن لوڈ کر کے فون کے استعمال کو ریگولیٹ کر کے، مختلف خیالات کے ساتھ فون کے وقت کو منظم کرنے کی کوشش کی، دوسری ایپلیکیشنز کو سبسکرائب نہ کرنا یا بلاک کرنا آپ کو محدود ایپلی کیشنز سے تنگ کر دے گا اور زیادہ دیر تک فون پر رہنے سے گریز کی راہ ہموار کرے گا۔
- ان میں سے کچھ اپنے بچوں کو صرف ہر تین دن بعد فون چارج کرکے دیتی ہیں، جس سے وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اسے لمبے عرصے تک چارج رکھا جائے اور اس کے استعمال کو محمود کیا جائے۔
- کچھ مائیں شام کے وقت گھر میں موجود ہر فرد کے لیے گھر کے وائی فائی راؤٹر کو بند کر دیتی ہیں تاکہ گھر کا ہر فرد جلدی سو سکے اور اپنا وقت ادھر اُدھر فضول چیزوں میں ضائع نہ کرے۔
یہ تمام اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ صورتحال واقعی پریشان کن ہے، جسے روکا جانا چاہیے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ بعض اوقات والدین بھی اپنے بچوں کے لیے رول ماڈل کے طور پر پیش نہیں ہوتے۔ بچے انہیں مختلف ایپلی کیشنز میں مصروف دیکھتے ہیں اور وہ بچوں سے عدم توجہی کے ساتھ بات کرتے ہیں، کیونکہ فون ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اور ماں بھی گھر کے کاموں میں مصروف کبھی ادھر تو کبھی أدھر پھر رہی ہوتی ہے اور بچوں کی تربیت کی طرف زیادہ دھیان نہیں دے پاتی۔
جب ہم ان کے سامنے بطور رول ماڈل پیش ہوں گے؛ ہم محدود فائدے اور بہت کم اثر والی بیان بازی اور تقریروں سے بے نیاز ہوں گے۔
ایک نہایت حکیمانہ قول ہے: "ایک آدمی کا ایک ہزار آدمیوں کے سامنے کوئی عمل ہزارہا لوگوں کے وعظ اور تقریروں سے بہتر ہے” جس کا مطلب اعمال کی تاثیر باتوں اور تقاریر سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص ایمانداری پر مبنی ایک اخلاقی مؤقف اختیار کرتا ہے، تو یہ ہزاروں لوگوں کے بیچ ایمانداری پر دیے گئے ایک ہزار لیکچرز پر بھاری ہو گا، لہٰذا بطور والدین ہم اپنے حالات پر جتنا زیادہ کام کریں گے، اللہ ہمارے بچوں کے احوال کو اتنا ہی بہتر بنائے گا۔
ہم اس بات سے انکارنہیں کرتے کہ اس ورچوئل دنیا میں بچوں کی موجودگی نے انہیں بہت سے فوائد پہنچائے، جیسا کہ اس نے ان کے علم کے دائرے کو وسعت دی، ان کے ادراک کو وسعت دی، اور انہیں مختلف ممالک کا سفر کرایا، تو وہ سفر کے خواب دیکھنے، ملک در ملک گھومنے اور مختلف ثقافتوں کو جاننے کی کوششوں میں لگ گئے، یہ سب تو نہایت حوصلہ افزا اور خوبصورت ہے، لیکن وہ حقیقت میں ان چیزوں کی تب تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ وہ فون کو نہیں چھوڑیں گے اور حقیقی زندگی کی راہوں میں جدوجہد اور محنت نہیں کریں گے، اور حقیقت پر مبنی زمین پر اترنے کے لیے کچھ اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے وضاحت کی ہے اور آگے ہم مزید اس کی وضاحت کریں گے، ان شاء اللہ۔
یہاں ہم کچھ اہم پریکٹیکل (عملی) حل پیش کرتے ہیں:
بچوں کو مختلف سرگرمیوں میں شامل کرنا جن کا تعلق حقیقی زندگی سے ہو۔ یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ ہمارے بچے فرضی اور خیالی دنیا میں مگن رہیں جس کے نتائج بہت ہی خطرناک ہیں۔
اس بات کو یقینی بنائیں، خاص طور پر چھٹیوں کے دوران، کہ آپ کے بچے (لڑکے) اپنے جاننے والوں کے ساتھ کام پر جائیں اور انہیں مختلف شعبوں میں تربیت دیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، وہ ایسے تجربات حاصل کریں گے جو انہیں پریکٹیکل (عملی) زندگی کے ساتھ وابستہ ہوئے بغیر حاصل ہونا ممکن نہیں ہیں۔
اسی طرح بیٹیاں خاص طور پر چھٹیوں میں گھر کے صحن میں جاتی ہیں، تو ماں ان میں سے ہر ایک کو اپنی عمر اور استطاعت کے مطابق کام تقسیم کرے، اور ان کی مزاحمت کو نہ مانے، وہ پہلے پہل تو مزاحمت دکھائیں گی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اشتراک عمل کے عادی ہو جائیں گی۔
انفرادی ذمہ داری، بچوں کے کپڑے، ان کے بستر، ان کے برتن وغیرہ، ان کی مکمل انفرادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے، ماں یا کوئی اور ان کی طرف سے ان کے برتن یا کپڑوں کی ذمے داری نہ اٹھائے۔
بلکہ، ہمیں اپنے بچوں کے لیے ایسے حالات کو فروغ دے کر فعال اور مثبت ہونا سکھانا چاہیے جس میں وہ بغیر رہنمائی کے ذمہ داری کے ساتھ پہل کرکے کاموں کو بحسن و خوبی انجام دیں۔ نیز ان کی حوصلہ افزائی کے لیے اچھے الفاظ کا استعمال کرنا چاہیے اور کبھی کبھار انعامات سے بھی نوازنا چاہیے۔
ہمیں ان میں اچھے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کا شوق پیدا کرنا چاہیے۔ جیسے کہ اگر ہمارے گھر کوئی مہمان آئے تو اس کی تعظیم یا استقبال کے لیے کھڑے ہونے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کا عادی بنانا چاہیے۔
جیسے کہ باپ پانی کا گلاس مانگتا ہے تو حکم نہیں دیتا بلکہ کہتا ہے”کون ہے جو باپ کے لیے پانی لاکر انعام کا حقدار ہوگا؟” یا "کون ماں کی خاطر چائے کا ایک کپ بنائے گا؟” اسی طرح دروازے کی گھنٹی بجنے پر "کون دروازہ کھولنے میں پہل کرے گا؟” وغیرہ۔
نامساعد حالات میں کسی کو حکم نہ دیں بلکہ معاملہ سب پر یکساں چھوڑ دیں تاکہ وہ اپنی جگہ سے اٹھنے اور نیک کاموں میں جلدی کرنے کے عادی ہو جائیں اور الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو بیان کرکے ان کی حوصلہ افزائی کریں: "تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہترین ہو۔”
- مثبت سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے احادیث کا سہارا لینا: بچوں میں مثبت سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے مختصر اور آسان احادیث کا سہارا لینا چاہیے۔ جیسے "راستے سے نقصان دہ چیز کو ہٹانا نیکی ہے” اگر وہ بڑے ہو کر نیک کاموں میں سبقت لیتے ہیں، جیسے کہ راستے سے پتھر ہٹانا، تو مطلب وہ ان معانی کے ساتھ پروان چڑھتے ہیں، اور ان میں مردانگی اور بہادری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ وہ ضرورت مندوں اور محتاجوں کی مدد کرتے ہیں۔ وہ مثبت رویے کے ساتھ پروان چڑھتے ہیں اور اپنے حلقوں میں مفید اور بااثر بن جاتے ہیں۔
- ایک اچھا لفظ صدقہ ہے”خاموشی ہمیشہ مددگار نہیں ہوتی، اور بسا اوقات لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے چند اچھے الفاظ کا بولنا ضروری ہوتا ہے۔ کوئی بچہ اگر سچ بولے تو اس کی حوصلہ افزائی لازماََ کرنی چاہیے جس کا اس کی شخصیت پر گہرا اثر پڑتا ہے۔
ہمیں سلیمان علیہ السلام کی کہانی میں چیونٹی کی مثبتیت کو یاد دلانے کی ضرورت پڑسکتی ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں جہاں بچے کچھ کہنے یا کرنے سے ہچکچاتے ہیں جس کی انہیں زیادہ قدرو قیمت نہیں ہوتی، اور انہیں یاد دلاتے ہیں (ایک چیونٹی نے کہا، اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان علیہ السلام اور اس کے لشکر تمہیں کچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو) اور انہیں بتائیں کہ کون کون سلیمان کی چیونٹی کی تقلید کرنا پسند کرے گا جو خراب حالات میں دوسروں کی نجات کا سبب بنی تھی۔
موبائل باکس: بعض گھر کی بزرگ خواتین گھر کے افراد کے اکھٹے جمع ہونے کے اوقات میں ان بکسز کا استعمال کرتی ہیں جن میں گھر کے سارے افراد اپنے موبائل فون جمع کرتے ہیں تاکہ سب لوگ اکٹھے ہوکر خوشگوار ماحول میں مل جل کر بیٹھنے سے لطف اندوز ہوں۔
لہٰذا، موبائل فون میں غرق ہونے کے برخلاف ایک ایسی پرکشش گرینڈ محفل کا انعقاد کیا جانا چاہیے جس میں گھر کے سارے لوگ موبائل فون کو بکس میں رکھ کر جمع ہوں، بچے جس کے شوق سے منتظر ہوں، اس میں تجدید، تفریح، اور بوریت کی کیفیت کو توڑنا شامل ہو! اس طرح کی مجالس کا اہتمام دور رَس نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔
ہمارے معاشرے اور سماج کو ایسے افراد کار کی ضرورت ہے جو ترقی کی راہوں سے باخبر ہوں اور جدید ترین ٹیکنالوجیز کے استعمال سے پوری طرح واقف ہوں، انٹرنیٹ اور یوٹیوب جیسی دیگر چیزوں کے فوائد اور نقصانات سے باخبر ہوں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ موبائل فون کے جائز استعمال کا بچوں کو پابند بنایا جائے اور انہیں اس بلبلے سے نکال کر پریکٹیکل (عملی) زندگی سے متعارف کرایا جائے تاکہ وہ صالح معاشرے کی تعمیر میں اپنا بھرپور حصہ ڈال سکیں۔ لہٰذا اگر آپ واقعی اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے فکرمند ہیں تو ان کی بہترین تربیت کیجئے۔ کیونکہ آپ میں کا ہر ایک چرواہا ہے اور ہر ایک اپنے ریوڑ کا ذمے دار ہے۔
مترجِم: عاشق حسین پیرزادہ