علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ قرآنی قصے تفریح کے لیے نہیں ہیں بلکہ ان کہانیوں میں تمام لوگوں کے لیے اہم نصیحتیں اور دروس موجود ہیں۔ انہی کہانیوں میں سے ایک کہانی اصحاب کہف کی ہے، جو نوجوانوں کا ایک گروہ ہوتا ہے، جو اُس وقت کے ظالم بادشاہ کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے اپنے دل میں دین لے کر بھاگ نکلتے ہیں۔ وہ ایک غار میں پناہ لیتے ہیں اور ایک لمبی مدت تک اس میں سوئے رہتے ہیں، جس کی مدت تین سو نو سال بتائی جاتی ہے۔ جب وہ بیدار ہوئے تو انہیں لگا کہ وہ ایک دن یا دن کا ایک حصہ سوئے ہوئے تھے۔ وہ غار سے باہر آئے اور لوگوں سے ملے۔ لوگوں نے انہیں پاگل سمجھا، اس لیے انہوں نے لوگوں کو اپنی کہانی سنائی، تو لوگوں نے ان پر یقین کر لیا اور ان کے دین کی پیروی کرنے لگے۔
اس کہانی میں بہت سے تعلیمی دروس اور نصیحتیں ہیں، جن میں، اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی اہمیت اور ہر قسم کے حالات میں اس پر ثابت قدم رہنا، بت پرستی سے اجتناب، صبر اور حق پر ثابت قدمی، اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اثبات جس کے ذریعے وہ ایک حالت کو دوسری حالت میں بدلتا ہے۔ اس کے علاوہ علم و معرفت کی اہمیت، اسباب کو اپنانا، جانوروں سے نرمی برتنا اور عدل و احسان شامل ہیں۔
اصحاب کہف کی مختصر کہانی:
اصحاب کہف کا قصہ قرآن کریم کی سورۂ کہف میں مذکور ہے، جو قرآن مجید کی اٹھارہویں سورت ہے جس کی آیات کی تعداد 110 ہے اور اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
کہانی کا آغاز اس وقت ہوا جب بادشاہ دقیانوس کے زمانے میں نوجوانوں کے ایک گروہ کو ایک دعوت میں شرکت کے دوران اپنی قوم کی گمراہی کا پتہ چلا، جہاں بتوں اور مورتیوں کی پوجا ہورہی تھی۔
یہ نوجوان اپنی قوم کی عبادت چھوڑ کر ایک اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرنے لگے، لیکن وہ لوگوں کے ظلم سے ڈر کر اس کا اظہار نہیں کرسکے۔
انہوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ ان کا معاملہ آسان کردے اور خدا نے انہیں یہ بات الہام کر دی کہ وہ ایک غار میں داخل ہوجائیں جو اندر سے بہت وسیع تھا اور اس کا دروازہ شمال کی سمت میں تھا جہاں سے سورج نہیں پڑتا تھا۔
وہ غار میں داخل ہوئے اور وہاں تقریبا 309 سال تک سوئے، اور خدا نے اسی حالت میں ان کی دائیں اور بائیں کروٹیں بدلا کر ان کے جسموں کو محفوظ رکھا۔
یہ ان پر خدا کی مہربانی تھی کہ غار میں ہوا اور (بادِ) نسیم چلتی تھی ، اور سورج اس میں داخل نہیں ہوتا تھا ، جس نے ان کے جسموں کو سڑنے اور بوسیدہ ہونے سے بچانے میں مدد کی۔
خدا نے ان کی آنکھیں کھلی رکھ کر سلایا تاکہ وہ ہوا سے مس ہوتی رہیں اور بوسیدہ نہ ہوں۔
اللہ نے ان کی حفاظت اس طرح کی کہ جو بھی غار میں انہیں دیکھتا تھا اللہ اس پر رعب ڈال دیتا تھا اسے لگتا کہ وہ جاگ رہے ہیں اور وہ ڈر سے بھاگ کھڑا ہوتا۔
جب وہ بیدار ہوئے انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ کتنی دیر سو چکے ہیں، انہوں نے ان میں سے ایک کو چھپ چھپا کے لوگوں سے ڈرتے ہوئے پیسوں کے ساتھ شہر بھیج دیا۔
لیکن ان کی قوم کب کی مر چکی تھی نئی نسلیں ابھری تھیں، اور ان کی کہانی ان نسلوں تک منتقل ہو چکی تھی۔
جب سوداگر نے یہ پیسے دیکھے تو اسے معلوم ہوا کہ یہ قدیم زمانے کے ہیں، اور اسے پتہ چل گیا کہ یہ نوجوان کون ہیں، اور ان کی کہانی لوگوں میں پھیل گئی۔
اصحاب کہف کی صفات :
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن مجید میں اصحاب کہف کو بہت سی صفات کے ساتھ بیان کیا ہے جن میں یہ شامل ہیں:
- اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا: وہ اللہ پر ایمان لانے والے، توحید پسند تھے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "یہ وہ نوجوان ہیں جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا” [الکہف: 13]۔
- حق پر ثابت قدمی: چونکہ وہ اپنے دین پر ثابت قدم رہے اور ظلم و ستم کے باوجود اس کو ترک نہیں کیا اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے : "اور ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کیا جب وہ اٹھے اور کہا کہ ہمارا رب وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے، ہم اس کے سوا کسی اور خدا کو نہیں پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو بالکل بیجا بات کریں گے۔ [الکہف: 14]۔
- مصائب پر صبر: انہوں ظالم بادشاہ کے ظلم و ستم پر صبر کیا اور اپنے دین پر قائم رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں 309 سال کی عمر کے بعد نصرت عطا کی، اللہ نے کہا: "اور وہ تین سو نو سال تک اپنے غار میں رہے "۔ [الکہف: 25]
- تقویٰ اور پرہیزگاری: وہ پرہیزگار تھے، متقی تھے، اللہ تعالیٰ سے ڈرتے تھے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے۔ اللہ جل و اعلیٰ نے فرمایا: "اور ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ وہ ایک دوسرے سے سوال کریں، ان میں سے ایک نے کہا کہ تم کتنے عرصے غار میں رہے ؟، انہوں نے کہا: ایک دن یا دن کا کوئی حصہ، دوسروں نے کہا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ ہم کتنا عرصہ رہے ہیں۔ پس تم میں سے کسی ایک کو اس نوٹ کے ساتھ شہر کی طرف بھیج دو تاکہ وہ کوئی پاک و صاف غذا دیکھ کر اس میں سے تمہارے لیے کھانا لے کر آئے اور اتنی خاموشی کے ساتھ واپس آئے تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے۔ [الکہف: 19]۔
- علم حاصل کرنے کا شوق: وہ علم کی تلاش میں تھے، اور انبیاء اور صالحین سے سیکھتے تھے۔
- حکمت: ان کی باتیں اور اعمال حکمت اور معقولیت پر مبنی تھے، جو چیزوں کے بارے میں ان کے شعور اور فہم کی تصدیق کرتے ہیں۔
- انصاف: انہوں نے باہم اور دوسروں کے ساتھ عدل و انصاف کا برتاؤ کیا اور یہ ان کے اچھے اخلاق کا ثبوت ہے۔
- رحمت: وہ کمزوروں اور مسکینوں پر رحم کرتے تھے، جو ان کی انسانیت اور ہمدردی کا ثبوت ہے۔
اصحاب کہف کے قصے میں تربیتی اور دعوتی فائدے:
اصحاب کہف کے قصے پر غور کرنے سے ہمیں اس میں بہت سے تعلیمی اور دعوتی فوائد ملتے ہیں، جن میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
- قرآنی کہانیاں نصیحت کے لیے ہیں حیرت انگیزی کے لیے نہیں: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ( کیا تم سمجھتے ہو کہ اصحاب کہف اور رقیم والے ہماری انوکھی نشانیوں میں سے تھے) (الکہف:9)، یعنی ان کا معاملہ ہماری سلطنت اور قدرت میں کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ چنانچہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق، رات اور دن کا الٹ پھیر، سورج، چاند اور سیاروں کی تسخیر اور دیگر عظیم نشانیاں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشاندہی کرتے ہیں، اور یہ کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے اور اسے کوئی چیز بھی عاجز نہیں کرسکتی چاہے اصحاب کہف سے عجیب تر ہی کیوں نہ ہو۔
- دعا مومنوں کا ہتھیار ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (جب لڑکوں نے غار میں پناہ لی اور انہوں نے کہا کہ اے ہمارے رب، ہم پر رحمت نازل کر اور ہمارے معاملے میں ہماری رہنمائی فرما ) (الکہف:10) اللہ تعالیٰ ان لڑکوں کے بارے میں بتاتا ہے جو اپنے دین کو لے کر لوگوں سے دور بھاگ گئے تاکہ وہ انہیں دین سے نہ پھریں، وہ وہاں سے نکل گئے اور پہاڑ کے ایک غار میں پناہ لے کر اپنی قوم سے چھپ گئے۔ اور اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت اور مہربانی کی دعا مانگتے ہوئے اس میں داخل ہوئے۔ یہ داعیوں اور مصلحین کے لیے ایک عملی سبق ہے کہ وہ دعا کے ہتھیار کو نظر انداز نہ کریں۔
- فتنہ کے وقت گوشہ نشینی کی قانونی حیثیت: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (جب لڑکوں نے غار میں پناہ لی اور کہا کہ ہمارے رب، ہمیں اپنی رحمت عطا کر اور ہمارے امر میں ہدایت نصیب کر” (الکہف:10) یعنی فتنہ کے زمانے میں عزلت جائز ہے تاکہ دین کی حفاظت ہو سکے اور ایسا نہ ہو کہ ظلم غالب آ جائے سوائے اس کے کہ کوئی شخص فتنہ سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ایسے شخص پر واجب ہے کہ فتنہ کو دور کرنے کی کوشش کرے پھر حالات اور استطاعت کے مطابق چاہے فرض عین سمجھ کر کرے یا فرض کفایہ۔
- ایمان اور نیک عمل ہدایت کا سبب ہیں: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (یہ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے اپنے رب پر ایمان لایا اور ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا ) (الکہف: 13) وہ اپنی قوم کو چھوڑ کر اللہ پر ایمان لائے جس کا کوئی شریک نہیں تھا، پس اللہ نے ان کے ایمان کے بدلے ان کو نوازا ، ان کی ہدایت میں اضافہ کیا، یعنی ان کے ایمان لانے کی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت میں بڑھایا جو علم نافع اور نیک اعمال ہیں۔
- اللہ تعالیٰ اس کے دل کو قوت بخشتا ہے جو اس کی اطاعت پر قائم رہتا ہے اور اسے مصائب برداشت کرنے کی توفیق عطا کرتا ہے، (اور ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کیا جب وہ اٹھے اور کہا کہ ہمارا رب وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کے رب ہے، ہم اس کے بغیر کسی معبود کو نہیں پکاریں گے، اگر ہم ایسا کریں گے تو بالکل بیجا بات کریں گے ) یعنی ہم نے انہیں صبر عطا کیا اور ثابت قدم رکھا اور ہم نے ان کے دلوں کو اس پریشان کن صورت حال میں اطمینان بخشا اور یہ ان پر رب کی مہربانی اور لطف کی وجہ سے ہے کہ اس نے انہیں ایمان اور ہدایت، اور صبر و ثبات کی توفیق دی۔
- اصحاب کہف ایک امت ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: (جب وہ اٹھے اور کہا ہمارا رب، آسمانوں اور زمین کا رب ہے ) تو وہ ایک ہاتھ بن گئے انہوں نے ایک دوسرے کی مدد کی اور سچے بھائی بن گئے اور ایک قول پر راضی ہو گئے تاکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکیں۔
- دعوی کے حق میں دلیل ہونی چاہیے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (یہ ہماری قوم ہے جنہوں نے اللہ کے بغیر معبود بنائے ہیں، وہ اس پر واضح دلیل کیوں نہیں لاتے ) (الکہف:15)، یعنی انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ ہماری قوم بغیر کسی دلیل کے اندھی تقلید میں بتوں کی عبادت کرتے ہیں، تو کیا وہ اپنے اعمال کو واضح اور صحیح دلیل کے اوپر ثابت کر سکتے ہیں۔ لہذا ہر وہ شخص جو اپنی رائے یا دعوی رکھتا ہے اس پر واجب ہے کہ اسے ثابت کرنے کے لیے دلیل لائے ورنہ وہ خالی دعوی ہوگا۔
- مخالفین کے ساتھ معقول بحث: یہ اس کہانی سے ایک اہم تعلیمی سبق ہے، کیونکہ اصحاب کہف نے جب اپنے معاشرے میں شرک کی تردید کی تو انہوں نے منطقی ثبوت پیش کیے۔ یہ دشمنوں کے ساتھ انبیاء کا معاملہ کرنے کا طریقہ ہے، جبکہ بغاوت کو ختم کرنے کے لئے طاقت کا استعمال ایک ایسی چیز ہے جس کا سہارا اس وقت لیا جاتا ہے جب دلیل سے بات نہیں بنتی ہے، یا جب مخالف معقول طریقے میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔
- اللہ کی طرف رجوع کرنا مومن کی خصوصیت ہے، وہ اس کا مددگار اور معاون ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (تمہارا رب تم پر اپنی رحمت پھیلائے گا اور تمہارے کام میں آسانی فرمائے گا ) اور جب انہوں نے اس کی طرف رجوع کرکے اسے پکارا تو اس نے انہیں پناہ دی، ان کی حفاظت کی اور جو کچھ انہوں نے رحمت، ہدایت اور رہنمائی مانگی انہیں عطا کی۔
- نتائج صرف اسی کے ہاتھ میں ہیں: اس کہانی میں ایک تعلیمی سبق یہ ہے کہ جب ان لڑکوں نے کہا، جیسا کہ ہمارے رب تعالیٰ نے ذکر کیا ہے: (اگر وہ تم پر غالب آگئے تو وہ تمہیں سنگسار کر دیں گے یا تمہیں واپس اپنے دین میں داخل کریں گے اور پھر تم کبھی کامیاب نہیں ہوں گے) وہ سمجھتے تھے کہ اگر ان کی قوم کو پتہ چل گیا یا انہیں پکڑ لیا تو یہ ان کے لیے ٹھیک نہیں رہے گا۔ لیکن قوم کو ان کے بارے میں پتہ چل گیا اور انہیں پکڑ بھی لیا گیا، کیونکہ خدا کچھ ایسا چاہتا تھا جس میں لوگوں کےلیے خیر تھا، اور ان کے لئے زیادہ اجر تھا، یعنی لوگوں نے ان کے ذریعے خدا کی ایک نشانی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا، کہ خدا کا وعدہ حق ہے اور اس کے بعد اس پر کوئی شک نہیں ہے، حالانکہ پہلے وہ اس میں ایک دوسرے سے اختلاف کر رہے تھے۔
- نیک لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کی فضیلت: اچھی صحبت وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کے بعد انسان کو خدا کی اطاعت کرنے، اس کے قریب ہونے اور اس کی یاد میں اضافہ کرنے میں مدد دیتی ہے، اور اس صحبت کا انتخاب رب العالمین کی طرف سے مقرر کردہ اور طے شدہ اساس اور وضاحتوں کے مطابق کیا جانا چاہیے۔ یہ لڑکے اکٹھے ہوئے اور ایک دوسرے سے تعاون کرتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کو حق کی تلقین اور اس پرجمے رہنے کی وصیت کرتے تھے
- حلال کھانے کی طلب مومنوں کی خصوصیات میں سے ایک ہے: حلال کی طلب اور خواہش، زہد و ورع کے منافی نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (دیکھو کونسا اچھا کھانا ملتا ہے تاکہ وہ تمہارے لیے لے آئے ) (الکہف:19)، تو اس میں پاک اور لذیذ چیزیں کھانا جائز ہے ہاں حرام کی حدود سے تجاوز نہ کرجائیں، اور اس میں یہ ہے کہ حلال مانگنا مومنوں کی صفات میں سے ایک صفت ہے جو ہمیشہ ان کی طرف سے تحقیق، دلچسپی اور توجہ کا موضوع ہونا چاہئے، اور انسان کو چاہیے کہ اپنے لیے پاک رزق کا اہتمام کرے۔
- تقلید کی رکاوٹ کو توڑنا: لڑکے کرپٹ معاشرے کے رنگ سے دور چلے گئے، اور اپنے ارد گرد کی گمراہ اکثریت سے اپنی فکری آزادی کو برقرار رکھا، اور یہی ان کی بقا اور آزادی کا سبب بن گیا۔
- احتیاط: لڑکے اس بات کے خواہاں تھے کہ شہر کے لوگوں کو ان کی حالت اور خبر کا پتہ نہ چلے، اور اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ ان کا معاملہ اور ان کی حالت پوشیدہ رہے، تاکہ بلاوجہ اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچائیں، اور اس گمراہ کن ماحول میں واپس جانے پر مجبور ہونے سے بچ جائیں جس سے انہیں چھٹکارا ملا تھا، اور "تقیہ” خود کو اور اپنی قوت کو دشمن سے بھڑنے کے وقت تک بچائے رکھنے کا نام ہے۔
- کھانے کی پاکیزگی: اصحاب کہف نے ہمیں انتہائی مشکل اور نازک حالات میں بھی کھانے پر توجہ دینا سکھایا کیونکہ انسان کی غذا کا اس کی روح، دماغ اور دل پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور جب کھانا حرام اور نجاست کے ساتھ مل جاتا ہے تو انسان اللہ کی راہ سے دور چلا جاتا ہے، تقوی کے طریقے سے دور ہوتا ہے۔
اصحاب کہف کی کہانی نے تعلیمی اصولوں کی بنیادیں فراہم کی ہیں، جنہیں مومنین نسل در نسل منتقل کرتے رہتے ہیں۔ اس سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ عقیدۂ توحید مومنوں کے دلوں میں کیسا اثر ڈالتا ہے جس میں خواہشات پر غلبہ پانا، زمین و آسمان کے رب کی خالص بندگی کرنا، عنفوان شباب اور عین غلبۂ شہوت کی عمر میں نوجوان گروہ کی ایسی کہانی، جو اس کے باوجود عارضی دنیا کے دھوکے سے منہ موڑ لیتے ہیں، جب کہ وہاں گناہوں کی بھرمار ہو جاتی ہے، اور شرک کا غلبہ ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ ان کی قوم لوگوں کو ایسا کرنے پر مجبور کرکے اس کی پشت پناہی کرتے ہیں، یہ ایک عظیم کہانی ہے، جس میں فرد اور معاشرے کی بھلائی کے لئے بہت سے فوائد اور اہم نصیحتیں موجود ہیں.
مآخذ و حوالہ جات:
- ڈاکٹر عثمان قدری میکانزی: أصحاب کہف -کے قصے کے تربیتی افکار
- ابو عبداللہ المقدشی : اصحاب کہف کے قصہ کے فوائد، دروس اور نصیحت
- ادریس احمد : قصہ اصحاب کہف کے بعض فایدے
- ابن کثیر: قرآن عظیم کی تفسیر 5/138
- طاہر بن عاشور: آزادی اور روشن خیالی 15/259
- الرازی: غیب کی کنجیاں 21/442
- احمد محمد شرقاوی : سورہ کہف کی موضوعی تفسیر، ص 44
- السعدی : تیسیر الرحمن ، ص 473
مترجم: سجاد الحق