صحیح جنسی تعلیم والدین کو مزید شرمندگی اور الجھن سے بچانے اور بچوں کے سامنے آنے والے مسائل سے بچنے میں مدد دیتی ہے، جو اس اہم پہلو کی نظراندازی کی وجہ سے پیدا ہوسکتے ہیں۔
شاید باپ اپنے بچے کے اس سوال پر حیران ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے قول (وَلَا يَزْنُونَ : اور وہ زنا نہیں کرتے) کا کیا مطلب ہے؟ وہ سوچتا ہے کہ کیا میں بچے کو اس سوال پر ڈانٹوں یا اس کو نظرانداز کر کے موضوع بدل دوں اور اس کی توجہ کسی اور چیز پر مبذول کر دوں؟ اور اگر میں اس کی وضاحت کرتا ہوں تو چھوٹا بچہ اس پیچیدہ معاملے کو کیسے سمجھے گا؟ کیا اس کا یہ علم اسے نقصان پہنچائے گا، کیونکہ اس نے ایسی چیزیں جان لیں جو اس کے لیے مناسب نہیں ہیں، یا اس کا علم اسے فائدہ دے گا کیونکہ اس نے زندگی کے راز کو جان لیا ہے؟
جنسی تعليم کی تعریف اور اس کی اہمیت:
جنسی تعليم سے مراد وہ معلومات ہیں جو جنس کے متعلق ہوتی ہیں، جو فطرت سے جڑی ہوئی ہیں اور شادی سے منسلک ہیں۔ انہیں بچے کے ساتھ ایک اخلاقی، دینی اور عمر کے لحاظ سے مناسب طریقے سے شیئر کرنا ضروری ہے، تاکہ صحیح اصول بنائے جاسکیں جو بچے کے جنسی معاملات سے صحیح طریقے سے نمٹنے کو یقینی بنائیں۔
انسان کو سائنسی معلومات، صحیح تجربات، اور مناسب رویوں اور جنسی مسائل کے حوالے سے آگاہ کرنا ضروری ہے، جتنا کہ جسمانی، ذہنی، نفسیاتی، اور سماجی نشوونما اس کی اجازت دیتا ہے۔ یہ سب مذہبی تعلیمات، سماجی معیارات اور معاشرتی و اخلاقی اقدار کے دائرے میں ہونا چاہیے، جو اس کی جنسی صورتحال میں بہتر موافقت، اور جنسی مسائل کا حقیقت پسندانہ سامنا کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے، اور جو نفسیاتی صحت کا باعث بنتا ہے۔
اس تربیت کے مقاصد اور اہمیت کو درج ذیل نکات میں بیان کیا گیا ہے:
- صحیح اصولوں اور تصورات کی بنیاد رکھنا جو بچے کو انحرافات یا نقصان یا زیادتی سے بچا سکے۔
- بچے کو غلط معلومات کا شکار ہونے سے بچانا، جو وہ غیر ذمہ دار ذرائع سے حاصل کر سکتا ہے۔
- آج کے دور میں ہمارے بچوں کو صحیح جنسی تصورات کی منتقلی کے بارے میں تحفظات کے لیے اب ہمارے دور میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
- تیز رفتار ٹیکنالوجی ہمیں ایک مشکل چیلنج کا سامنا کروا رہی ہے، جہاں ایک بٹن کی دبانے سے بچہ ہر سہولت وآسانی سے دنیا کے بیچوں بیچ جا سکتا ہے اور فساد کی لہریں اسے بہا لے جائیں گی، اگر وہ اس کے خلاف محفوظ نہ ہوا تو وہ ڈوب جائے گا۔
- عفت کی حفاظت اور بیماریوں سے بچاؤ۔
- معاشرے کی سلامتی اور ترقی کا تسلسل۔
اسلام میں جنسی تربیت کے ضوابط:
قرآن کریم نے عمومی طور پر زندگی کے تمام پہلوؤں کو شامل کیا ہے اور کسی بھی چیز کو نظرانداز نہیں کیا، اور ان میں سے ایک پہلو جنسی تعلیم اور اس کے احکام بھی ہیں۔
ڈاکٹر عبداللہ ناصح علوان اپنی کتاب "تربیت الأولاد في الإسلام” میں کہتے ہیں کہ مربی کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کو ان مسائل کے بارے میں آگاہ کرے جو جنس سے متعلق ہوں اور فطرت سے جڑے ہوں، بلکہ بعض اوقات یہ ضروری بھی ہو جاتا ہے اگر اس کا تعلق شرعی حکم سے ہو۔
جنسی تعلیم کو منظم کرنے والے اسلامی ضوابط میں سے ایک اعتدال کا طریقہ اپنانا شامل ہے۔ نہ تو فحاشی کی اجازت دینا اور نہ ہی سختی کے ساتھ دبانا۔ خاص طور پر یہ کہ جنس مسلمان کی زندگی میں ایک فطری اور ضروری چیز ہے جو زندگی کے تسلسل کے لیے اہم ہے، اور اسے شرعی اور اخلاقی دائرے میں رکھا گیا ہے۔ یہ کوئی بُری یا ناپاک چیز نہیں ہے۔
لہٰذا، اسلام نے ان دو پہلوؤں (جنسی مسائل کے بارے میں بیداری پیدا کرنا بمقابلہ اچھی شائستگی کو برقرار رکھنا) کو ایک ایسے امتزاج میں جمع کرنے کی کوشش کی ہے جو متضاد نہیں، تاکہ ایک طرف سے مسلمانوں کو جنسی مسئلے کے تربیتی پہلو کی اہمیت سے آگاہ کیا جا سکے، اور ساتھ ہی مسلمانوں میں فحاشی اور بے حیائی پھیلانے کے راستے سے دور رہا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اہم جنسی موضوعات کا ذکر کیا ہے، جیسے حیض، اور اس کی مدت کے دوران جنسی تعلقات کی ممانعت کے احکام، اور اس شرعی حکم کی علت کو بیان کرتے ہوئے اس کے نقصانات کو واضح کیا ہے۔ یہ حکم علت کے ساتھ وابستہ ہے، یعنی علت کے ہونے یا نہ ہونے کے ساتھ حکم بھی نافذ یا ختم ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ازدواجی تعلقات کی خصوصیت کو بھی بیان کیا ہے، جس میں مشروع جماع کی صورتوں کی وضاحت کی گئی ہے، اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یہ اعمال شرعی قُربات اور طاعات کا حصہ ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "اور وہ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دیجیے: یہ ایک تکلیف دہ حالت ہے، اس لیے حیض کے دوران عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ، جب تک کہ وہ پاک نہ ہو جائیں۔ پس جب وہ پاک ہو جائیں تو ان کے پاس جاؤ جس طرح اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے، یقیناً اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ تمہاری بیویاں تمہارے لیے کھیتیاں ہیں، پس اپنی کھیتیوں کے پاس جاؤ جب چاہو اور اپنے لیے نیکی آگے بھیجو اور اللہ سے ڈرو۔” [البقرة: 222-223]
شرم و حیا بھی جنسی تعلیم کے ضوابط کا حصہ ہے، کیونکہ اسلام نے جنسی مسائل پر انتہائی سنجيدگی اور حساسیت کے ساتھ توجہ دی ہے، لیکن ایک ایسے طریقے سے جو بے شرمی اور فحاشی کی تردید کرتا ہے، اور اس سے مکروہ راز کے مظاہر کو بھی دور کرتا ہے۔
لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ قرآن کریم میں ایسے انتہائی حساس جنسی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے، جیسے حیض اور اس دوران جماع کی ممانعت اور اس کے بعد اس کی اجازت، اور زلیخا کی حضرت یوسف عليه السلام کو فحاشی کی دعوت دینے کا ذکر کرنا ۔ تاہم، اس شرم و حیا کی بنیاد یہ ہے کہ جنسی مسائل پر گفتگو اور مطالعہ جائز ہے، لیکن ایسے طریقے سے جو بے پردگی کا باعث نہ بنے، جذبات کو بھڑکانے والا نہ ہو، اور خواہشات کو ہوا نہ دے۔ جیسے کہ پچھلی مثالوں میں کنایہ کے ذریعے بات کی گئی ہے، اور قرآن و سنت میں اس کی مزید کئی مثالیں موجود ہیں۔
تعلیمی ہدایات:
جو شخص بچوں کی جنسی تربیت کے عمل کو انجام دیتا ہے، وہ اسلام کی تعلیمات سے کئی ہدایات حاصل کر سکتا ہے، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
- بچے کو گھر والوں سے اجازت طلب کرنے کی عادت ڈالنا: جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ” اے ایمان والو! تمہارے غلام اور وہ بچے جو ابھی بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچے، تم سے تین وقتوں میں اجازت طلب کریں: فجر کی نماز سے پہلے، دوپہر کے وقت جب تم اپنے کپڑے اتار دیتے ہو، اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں۔ ان وقتوں کے علاوہ تم پر اور ان پر کوئی حرج نہیں، تم ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے ہو۔ اللہ اسی طرح تمہارے لیے آیات کو واضح کرتا ہے، اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ ” [النور: 58]
- بچوں کو بلوغت سے پہلے ان کی فطری میلانات سے متعلق شرعی احکام سکھانا: تاکہ وہ جنسی بلوغت تک پہنچنے سے پہلے ہی ان چیزوں کو سمجھ سکیں۔ جيسے احتلام کے احکام، جنابت سے پاک ہونے کے طریقے، منی، مذی اور ودی کے درمیان فرق، اور اس کے ساتھ اس سے متعلق فطرت کے احکام سکھانا، جیسے کہ استحداد (زیر ناف بالوں کو صاف کرنا اور بغل کے بالوں کو صاف کرنا)۔ اسی طرح ماں کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کو احتلام اور حیض کے مسائل اور ان کے فقہی احکام سے آگاہ کرے۔
ان معلومات کا پہلے سے واضح ہونا ضروری ہے تاکہ بچہ یا بچی ان تبدیلیوں کو دیکھ کر صدمے میں نہ آئیں اور غلط اندازہ نہ لگائیں۔ کتنے ہی بیٹے یہ سوچتے ہیں کہ ان کا احتلام کوئی بیماری ہے! اور کتنی ہی بیٹیاں یہ سمجھتی ہیں کہ ان کا حیض خون بہنے کی وجہ سے ہے! اس لیے بچوں کی جنسی تربیت کو محض اتفاق پر نہیں چھوڑا جاسکتا ہے، بلکہ اس کی شروعات گھر سے ہونی چاہیے۔
- جنسی انحرافات، ان کے نقصانات اور ان کے احکام کے خلاف بیداری پیدا کی جانی چاہیے: یہ ان انحرافات سے دور رہنے کا ایک بڑا مثبت ذریعہ ہے، کیونکہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔
- بچے کے لیے سوالات کرنے کا راستہ کھولنا: بچے کے لیے سوالات کرنے کا راستہ کھولنا اور اسے یہ احساس نہ دلانا کہ ان معاملات میں سوال کرنا کوئی عیب یا حرام ہے۔
- معلومات کو عمر اور فہم کے مطابق فراہم کرنا: معلومات کو عمر اور فہم کے مطابق صاف اور سادہ انداز میں پیش کرنا، مثلاََ جب بچہ یہ پوچھے کہ ہم اس دنیا میں کیسے آئے، تو آپ اسے پودوں میں پولی نیشن (تلقیح) کا طریقہ بتا سکتے ہیں، اور یہ کہ جس طرح پولی نیشن کے بغیر پھل نہیں ہوتا، اسی طرح اس جنسی عمل کے بغیر حمل ممکن نہیں ہوتا، اور باپ بیج ڈالتا ہے جس سے بچہ ماں کے پیٹ میں بڑھتا ہے۔ اس طرح آپ کی وضاحت سے بچے کی سوچ مکمل ہو جائے گی۔ کوشش کریں کہ آپ کے جوابات سادہ، براہِ راست اور صحیح ہوں، پیچیدہ نہ ہوں۔
شرمناک سوالات کے جوابات:
والدین اور مربی حضرات کو جنسی تربیت کے دوران مختلف سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہیں۔ ان سوالات کے جوابات دینے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اس کے لیے کئی شرائط ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے، جو کہ درج ذیل ہیں:
- جواب بچے کی عمر اور ضرورت کے مطابق ہونا چاہیے: بچے کے سوالات کا بروقت جواب دینا چاہیے اور انہیں مؤخر نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اس سے بچے کی اعتماد میں کمی ہوسکتی ہے اور موضوع پر بات کرنے کا ایک سنہری موقع ضائع ہوسکتا ہے۔ جب بچہ پرجوش اور سمجھنے کے لیے تیار ہوتا ہے، تو اسی وقت اسے معلومات فراہم کرنا زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔
- جواب مکمل ہونا چاہیے: جنسی تربیت میں صرف جسمانی اور تشریحی معلومات فراہم کرنے پر اکتفا نہ کریں، کیونکہ بچے کا تجسس اس سے آگے بڑھتا ہے۔ اس میں دیگر پہلوؤں، جیسے دینی پہلو کو بھی شامل کرنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں موجود احادیث کو بیان کرنا، مثال کے طور پر معزز صحابہ کا سوال: "یا رسول اللہ! کیا اگر ہم اپنی خواہش کو حلال طریقے سے پورا کریں تو اس میں بھی ہمیں اجر ملے گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر کوئی اسے حرام طریقے سے پورا کرتا تو اس پر گناہ ہوتا، اسی طرح اگر وہ اسے حلال طریقے سے پورا کرتا ہے تو اسے اجر ملتا ہے۔” اس حدیث میں لذت کے پہلو کو نظرانداز نہ کریں، لیکن اسے شادی کے دائرے میں رکھنے کی ضرورت پر زور دیں تاکہ اللہ کی طرف سے اجر حاصل ہو سکے۔
- جواب مسلسل ہونا چاہیے: ایک غلطی یہ ہے کہ جنسی تربیت کو ایک بار یا ایک ہی دفعہ کی معلومات فراہم کرنے پر ختم سمجھا جاتا ہے۔ یہ والدین یا مربی کی اس "پریشان کن” فرض سے جلدی جان چھڑانے کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ لیکن معلومات کو وقتاً فوقتاً مختلف طریقوں سے، جیسے کتاب، ویڈیو، یا مسجد کے درس کے ذریعے فراہم کرنا چاہیے، تاکہ یہ آہستہ آہستہ بچے کے ذہن میں پیوست ہوجائیں اور اس کی سمجھ اور ادراک کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکیں۔
- جواب ایک پرامن اور محبتی ماحول میں ہونا چاہیے: جنسی تربیت کے لیے ایک پرامن اور محبت بھرا مکالمہ ضروری ہے۔ اس طرح کے مکالمے کے ذریعے جنسی موضوعات پر بات کرنا بچوں کو "جنس” کے صحیح مفہوم تک پہنچنے میں مدد دیتا ہے اور وہ اسلامی شریعت اور دینِ حنیف کے احکام کے مطابق جنسی بلوغت حاصل کرتے ہیں۔
بچوں کی جنسی تربیت کب شروع ہوتی ہے؟
بعض لوگوں نے جنسی تربیت کے معاملے میں بہت دور جا کر یہ مانا کہ یہ پیدائش سے ہی شروع ہو جاتی ہے، ان کا خیال ہے کہ اس طرح وہ سبقت حاصل کر رہے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے اس میں سبقت حاصل کی ہے، کیونکہ اسلام نے پیدائش کے فوراً بعد بچے کی تربیت پر توجہ دی ہے اور ختنہ کو فطرت کی خصوصیات میں شامل کیا، جو نبی اکرم ﷺ کی سنتوں میں بھی ہے۔ جس کے بعد وہ ان بیماریوں اور انفیکشن کے خلاف مزاحمت میں ختنہ کی اہمیت کو پہنچ گیا جو مرد اور عورت دونوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "فطرت کی پانچ چیزیں ہیں (يا پانچ چیزیں انسانی فطرت کا حصہ ہیں) ختنہ کرنا، زير ناف بال مونڈنا، ناخن تراشنا، بغل کے بال کاٹنا، مونچھيں چھوٹی کرنا۔”
یہاں جنسی تربیت کے مراحل کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
- پہلا مرحلہ 7 سے 10 سال کی عمر کے درمیان: یہ ابتدائی مرحلہ ہے جہاں بچوں کو جنسی تربیت کے بنیادی اصول سکھائے جاتے ہیں، خاص طور پر عملی احکام جیسے نماز، وضو، وضو کے نواقض اور طہارت کے قوانین، اور روزہ وغیرہ۔ اس دوران طہارت اور وضو کے نواقض کی وضاحت کی جاتی ہے۔
- دوسرا مرحلہ 10 سے 18 سال کی عمر کے درمیان: پچھلے تعارفات کو مسلسل یاد دلایا جاتا ہے اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں آنے والی جسمانی تبدیلیوں کی وضاحت کی جاتی ہے۔ اس مرحلے میں والدین اور اساتذہ کو نوجوان بیٹے کو صحیح معلومات پہنچانے کے لیے مل کر کوششیں کرنی ہوتی ہیں۔
- تیسرا مرحلہ18 سال اور اس سے اوپر کی عمر: یہاں والدین، علماء، اور واعظین کا کردار شادی اور جنسی تعلقات کی جامع وضاحت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: "اے اللہ کے رسول، میں ہلاک ہو گیا۔ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہیں کس چیز نے ہلاک کیا؟” انہوں نے کہا: "میں نے آج رات اپنی بیوی کے ساتھ غیر معمولی طریقے سے مباشرت کی ہے۔” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات پر کوئی جواب نہیں دیا، پھر اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل فرمائی: "تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں، پس تم اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو آؤ۔” [البقرة: 223] "آگے سے اور پیچھے سے آؤ، مگر پچھلے راستے اور حیض سے بچو۔” یہ سب جملے ادب اور وقار کے پردے میں لپٹے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا: ”میں ہلاک ہو گیا” یعنی انہوں نے اپنی بیوی سے پیچھے سے اس کے اگلے حصے میں مباشرت کی۔
جنسی تربیت بچوں کو چھوٹے ہونے کے ساتھ ساتھ جوانی میں بھی سکھانا بہت ضروری ہے۔ تاہم، یہ تربیت مخصوص شرائط، آداب، ضوابط، اور طریقہ کار پر عمل کرنے کا متقاضی ہے، جن کے لیے والدین کو بڑی حکمت، صبر، اور احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ جنس ایک ایسا موضوع ہے جس کی کئی شاخیں اور پہلو ہیں، اور اگر والدین اس کی بنیاد اور آداب کو درست طریقے سے اپنے بچوں کو نہیں پہنچاتے، تو اس کے نتائج مطلوبہ نہیں ہو سکتے۔
اكثر والدین مختلف وجوہات کی بنا پر اپنے بچوں کی جنسی تربیت نہیں کرتے، یا تو وہ اس بارے میں معلومات نہ ہونے کی وجہ سے تربیت نہیں دیتے، یا ان کی شرم و حیا انہیں اپنے بچوں کے سامنے ایسے موضوعات کھولنے سے روکتی ہے، یا ان کے پاس صحیح معلومات نہیں ہوتی کہ کیسے پہنچائیں، اور وہ بچوں کو بیرونی ذرائع یا اسمارٹ ڈیوائسز سے معلومات حاصل کرنے دیتے ہیں، اور ان تک معلومات غلط طریقے سے پہنچ سکتی ہیں یا ممکن ہے کہ خود معلومات ہی غلط ہوں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس موضوع پر اسلامی شریعت کے ضوابط کے مطابق مطالعہ کیا جائے۔
المصادر والمراجع:
التربية الجنسية للأبناء.. التوجيه والضمان۔
التربية الجنسية للأولادَ
47 خطوة عملية للتربية الجنسيةَ
التربية الجنسية في الإسلام: مقاصد وضوابط
ورطة تربوية: عبد الرحمن ضاحيَ
مترجم: ڈاکٹر بہاؤ الدین
1 comment
mashallha good