یہ ایک امر واقع ہے کہ کسی بھی تعلیمی اسکیم کے لیے استاد (مربی) سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک صحیح و بہتر تعلیمی ماحول پیدا کرنے میں استاد کا بہت اہم کردار ہے۔ پھر اس تعلیمی نصاب پر اُس طریقے سےعملدرآمد کروانا جو سیکھنے والوں کے لیے ترقی کا راستہ ہموار کرے، یہ بھی استاد ہی کا مرہونِ منت ہے۔ اسی طرح ہمیشہ سے اس چیز کی ضرورت رہی ہے کہ ایک ایسا خوبصورت انسانی تعلق قائم ہو جائے جس کے ذریعے شاگردوں سے معاملہ کرنے میں سہولت پیدا ہو اور جس میں رہ کر شاگردوں کو خالص اخوت اور ارفع انسانی روح کا احساس ہو۔
چونکہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم معلمین کے لیے ایک خالص ماخذ اور قابل اعتماد حوالہ ہے، اس لیے میں نے سوچا کہ اس میں تحقیق کرکے رسول انسانیت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ انسانی طریقوں کی تلاش کروں۔ اس کے لیے میں نے ذیل میں چار عنوانات کو ترتیب دیا ہے:
- پہلا موضوع: مکمل اور گہری واقفیت
- دوسرا موضوع: موثر عملی تعلق
- تیسرا موضوع: دوسروں کے جذبات کا احساس
- چوتھا موضوع: نفسیاتی ضروریات کی تکمیل
تاکہ مربیّن (اساتذہ) کو اپنے بھائیوں کی شخصیتوں، صلاحیتوں، امکانات، احساسات اور جذبات کی مکمل اور گہری واقفیت حاصل کرنے میں مدد ملے۔ جو باہمی افہام وتفہیم اور تعاون میں مفید ثابت ہوگی۔
تاکہ انہیں اپنے بھائیوں کے ساتھ ان کی خوشیوں، غموں، اور زندگی کے دیگر تمام پہلوؤں میں اچھا اور موثر تعلق بنانے میں مدد ملے۔
تاکہ وہ اپنے پیارے بھائیوں کے جذبات کو محسوس کرسکیں، جن کے دل اپنے رب کی محبت میں متحد ہو چکے ہیں، اس کی فرمانبرداری پر اکٹھے ہوئے ہیں، اور اس کے قانون کی حمایت کرنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔
اپنے بھائیوں کی نفسیاتی ضروریات کو پورا کرنے میں اساتذہ کی مدد کرنا کہ وہ ایک دل، ایک جسم اور ایک جان ہیں۔
مربی کی طرف سے نفسیاتی ضروریات کی تکمیل
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی نفسیاتی حاجات کی تکمیل کے لیے جن طریقوں سے مدد لی ان سے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل مربیانہ خوبیوں کا پتہ چلتا ہے:
- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کام کرنے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں امن و اطمینان محسوس کرتے ہیں۔
- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کام کرنے والے خود کو اپنا کام انجام دیتے ہوئے پاتے ہیں۔
- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامیابی اور کارنامے کو اس کے حق دار کی طرف منسوب کرتے ہیں
- آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی نفسیاتی اور مادی ضرورتوں سے بخوبی آگاہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ انسان کو کھانے پینے، لباس، گھر، شادی، استحکام، اور دوسری ایسی چیزوں کی حاجت ہوتی ہے جو مذکورہ چیزوں سے کچھ کم اہم نہیں، جن سے انسان اپنے انسان ہونے کا احساس کرتا ہے، اپنی ذات کو منوانا ہےاور اپنی صلاحیتوں کو ثابت کرتا ہے۔
اور آپ دیکھتے ہو جب اللہ قریش کے لوگوں پر اپنا احسان گنواتا ہے اور ان پر اپنی نعمت کا اظہار کرتے ہوئے قرآن مجید میں فرماتا ہے :
ان لوگوں کو چاہیےکہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں بھوک میں کھلایا اور خوف میں امن عطا کیا (4)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسلام سیکھنے کے لیے جزیرہ عرب کے ہر طرف سے وفود آتے تھے اور پھر وہ لوگ مدینہ میں متعدد راتیں قیام کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی حاجتوں کا اندازہ لگا لیتے تھے، ان کے گھر جانے کی خواہش اور گھر والوں کی یاد کو جان لیتے تھے پھر انہیں جانے دیتے تھے۔
مالک بن حویرث سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ہم تقریباََ ہم عمر نوجوان تھے۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیس دن اور راتیں رکے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت نرم اور رحم کرنے والا پایا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لگا کہ ہمیں گھر والوں کی یاد آرہی ہے یا ہم تھک گئیںہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اہل و عیال کے بارے میں پوچھا اور ہم نے اپنا حال سنایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے اہل و عیال میں واپس جاؤ ان کے درمیان رہو، انہیں تعلیم دو اور اچھے کاموں کا حکم دو۔” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اور بھی فرمایا جو مجھے یاد ہے یا بھول گیا، نماز پڑھو، جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، جب نماز کا وقت ہوجائے، تو تم میں سے ایک اذان دے اور جو بڑا ہے وہ امامت کرے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابہ کی بنیادی ضرورتوں کا انتظام کرنا:
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بھوکے ساتھیوں کو کبھی نہیں بھولتے تھے اور خود سے پہلے انہی کو کھانا کھلاتے تھے۔ جب بھی کھانا آتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے اصحاب صفہ کو تلاش کرتے تھے، وہ غریب صحابی تھے ان کی فیملی نہیں تھی اور نہ ان کے پاس مال تھا۔ وہ مسجد میں راتیں گذارتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں معلوم کرتے تھے اور اپنے حاجتمند ساتھیوں کے متعلق پوچھتے تھے، جو علم حاصل کرنے پر وقف تھے جیسے کہ ابو ہریرہؓ۔ آگے آنے والی مثال سے یہ بات واضح ہوتی ہے:
احمد نے مجاہد سے سنا ہے: کہ ابو ہریرہؓ کہا کرتے تھے:
"میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں! میں بھوک کی وجہ سے اپنا پیٹ زمین پر ٹیک دیتا تھا اور میں بھوک سے نڈھال ہوکر اپنے پیٹ پر پتھر باندھتا تھا، اور ایک دن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں بیٹھ گیا جہاں سے وہ گذرتے تھے کہ وہاں سے ابوبکرؓ آیا، میں نے ان سے قرآن کی ایک آیت کے بارے میں پوچھا، حالانکہ میں نے صرف اس لیے سوال کیا تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر جائے، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا، پھر عمرؓ وہاں سے نکلے تو میں نے ان کو بھی کتاب اللہ کی ایک آیت کے بارے میں سوال کیا، صرف اس لیے کہ وہ مجھے ساتھ لے جائے۔ لیکن اس نے بھی ایسا نہیں کیا، پھر وہاں سے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم گذرا تو انہوں نے مجھے میرے چہرے سے بھانپ لیا اور میری اندرونی حالت کو سمجھ گئے، پھر بولے: ابا ہریرہؓ، میں نے کہا: لبیک یا رسول اللہ! پھر فرمایا : آؤ میرے ساتھ، اور میں ان کے ساتھ چلا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر پہنچ گئے اجازت طلب کی اور داخل ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اندر بلایا اور میں آگیا۔ میں نے ایک پیالے میں دودھ دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ بتایا گیا یہ فلاں شخص یا اس کے گھر والوں نے ہدیۃََ بھیجا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے ابا ہریرہ، میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا، جاؤ اصحاب صفہ کو یہاں بلاکر لاؤ، ابو ہریرہؓ نے کہا: اصحاب صفہ اسلام کے مہمان ہیں، نہ ان کے پاس مال ہے نہ اہل و عیال۔ جب رسول اللہ کے پاس کوئی چیز تحفۃََ آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں بھی اس میں شریک کرتے۔ اگر کوئی چیز صدقہ میں آتی تو سب کچھ انہی کو بھیج دیتے، اپنے پاس کچھ نہ رکھتے۔ لیکن اس بار مجھے مایوسی ہوئی میں انہیں آج کچھ نہیں دینا چاہتا تھا۔ میں پورا دودھ خود پینا چاہتا تھا تاکہ میں اس کو پی کر بچا ہوا دن اور رات گذار سکوں۔ اور میں نے سوچا، جب لوگ آئیں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دودھ پلانے کے لیے کہیں گے اور میرے لیے اس دودھ میں سے کچھ نہیں بچے گا ؟ لیکن اللہ اور رسول کی اطاعت کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے! میں گیا، انہیں بلایا اور وہ آگئے، انہوں نے اجازت مانگی، انہیں اجازت ملی اور وہ اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے ابا ہریرہ! لو، پلاؤ ان کو، میں نے دودھ کا پیالہ لیا اور انہیں دینا شروع کیا، ایک شخص نے پیالہ لیا اور اتنا پیا یہاں تک کہ سیر ہوگیا، پھر پیالہ واپس کر دیا۔ اسی طرح میں نے کرتے کرتے آخری شخص کو بھی دیا اور سب نے پیٹ بھر کر پیا۔ پھر میں پیالہ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں میں پیالہ لیا۔ پھر میری طرف دیکھا اور مسکرایا اور کہا، ابا ہریرہ! میں نے کہا لبیک رسول اللہ! فرمایا: اب میں اور تم رہ گئے”میں نے کہا: آپ نے سچ فرمایا، کہا بیٹھ جاؤ، پیو” ابو ہریرہؓ کہتا ہے میں بیٹھ گیا اور پیا، پھر کہا، پی لو! میں نے پیا، جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے گئے، پیو، میں پیتا رہا، یہاں تک کہ میں نے کہا: نہیں، مجھے قسم ہے اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا! اب میرے اندر اس کے لیے جگہ نہیں رہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے پیالہ دو! میں نے پیالہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچا ہوا دودھ پی لیا۔ 3
دوسری مثال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ربیعہ الاسلمی کی ہے جو دکھاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کتنا خیال رکھتے تھے۔ اس کی شادی، اس کے لیے صحیح نکاح کا انتخاب، مہر کا انتظام اور اس کے لیے ولیمہ کی ضروری چیزوں کا انتظام کرتے ہیں۔
اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے جذبات اور ضروریات کا کتنا خیال کرتے تھے۔
احمد نے ربیع ربیعہ الاسلمی سے روایت کی ہے۔ فرمایا: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا تھا، ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اے ربیعہ ! کیا تم نکاح نہیں کرو گے؟ میں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم، یا رسول اللہ میں شادی نہیں کرنا چاہتا، میرے پاس عورت کو پالنے کی سکت نہیں ہے، اور میں نہیں چاہتا کہ کوئی چیز مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور کردے، مجھے معاف کر دیں۔ پھر میں نے سوچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا اور آخرت میں میری بہبودی مجھ سے زیادہ جانتے ہیں، اللہ کی قسم! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کہا کہ تم شادی کرو گے؟ تو میں جواب دوں گا ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو حکم دیں گے یا رسول اللہ، پس انہوں نے کہا اے ربیعہ! کیا تم شادی نہیں کرو گے؟ میں نے کہا، ہاں، جو آپ کا حکم۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فلاں کے پاس جاؤ۔ انصار کی ایک بستی تھی جو اپنے کاروبار کی وجہ سے آپ کی مجلسوں میں نہیں آتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان سے کہہ دینا کہ مجھے رسول اللہ نے تم لوگوں کی طرف بھیجا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ میری فلاں عورت سے شادی کردو، میں ان کے پاس گیا، میں نے کہا: مجھے رسول اللہ نے آپ کے پاس بھیجا ہے، انہوں نے حکم بھیجا ہے کہ میری شادی کرادو، انہوں نے کہا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید اور رسول اللہ کا پیغام لانے والے کو خوش آمدید، خدا کی قسم ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لانے والا اپنی حاجت پوری کیے بغیر واپس نہیں لوٹے گا۔
انہوں نے میری شادی کرادی، مجھ پر مہربانی کی اور کوئی گواہ نہیں مانگا۔ میں رسول اللہ کے پاس غمگین لوٹ گیا اور کہا: یا رسول اللہ! میں بہت عزت والی قوم کے پاس گیا، انہوں نے میرے نکاح کا انتظام کیا، مجھ سے بہترین سلوک کیا اور مجھے سے کوئی گواہ نہیں مانگا، لیکن میرے پاس دلہن کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔
پس رسول اللہ نے فرمایا: اے بریدہ الاسلمی! اس کے لیے گٹھلی برابر سونا جمع کرو: پھر میرے لیےگٹھلی برابر سونا جمع کیا گیا۔ میں نے لیا جو انہوں نے جمع کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لو، اسے لے کر ان کے پاس جاؤ، ان سے کہو: یہ اس کا مہر ہے۔ میں ان کے پاس گیا، اور کہا، یہ مہر ہے، انہوں نے قبول کیا اور خوش ہوگئے، اور کہا یہ بہت زیادہ ہے اور بہت اچھا بھی ہے، میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اداس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اے ربیعہ، کیا ہوا تم ابھی تک اداس ہو، میں نے کہا: یا رسول اللہ میں نے ان سے بڑھ کر کوئی باعزت قوم نہیں دیکھی، انہوں نے مجھ پر احسان کیا، جو میں نے دیا انہوں نے قبول کیا خوش ہوئےاور کہا بہت ہے، اچھا ہے، لیکن میرے پاس ولیمہ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بریدہ! اس کے لیے ایک بکری کا انتظام کردو۔ تو میرے لیے ایک بہت فربہ بڑا دنبہ لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ کے پاس جاؤ اسے کہو: وہ برتن بھیج دیں جس میں کھانا رکھا تھا، تو میں ام عائشہ کے پاس گیا اور اسے کہہ دیا جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم کیا تھا، اس نے کہا: یہ لو اس میں گندم کے سات صاع ہیں، قسم اللہ کی، قسم اللہ کی، اگر ہمارے پاس اس کے سوا کوئی کھانے کی چیز ہے۔ میں نے اٹھا لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ بھی بتا دیا جوعائشہ نے بولا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ان کے پاس لے جاؤ اور ان سے کہو اس کی روٹی بناؤ اور یہ کھانا ہے۔ ان لوگوں نے کہا: جو روٹی ہے اسے ہم تیار کریں گے اور جو دنبہ ہے اسے آپ لوگ تیار کرو۔ تو میں نے اور بنو اسلم کے لوگوں نے دنبہ لیا، اسے ذبح کیا، کھال اتاری،اور اسے پکایا، اس طرح ہم نے روٹی اور گوشت تیار کیا تو میں نے ولیمہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت پر بلایا۔ 4
یہاں ہم ایک صحابی کی تیسری مثال پیش کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کا خیال رکھتے تھے اس کا نام "جلیبیب” تھا۔ اس صحابی کو دنیا کی مال و متاع میں سے کوئی خاص حصہ نہیں ملا تھا، اسی طرح اس کی جسمانی ساخت بھی عام لوگوں سے فروتر تھی۔ تو لوگ اس کے ساتھ اس طرح پیش آتے تھے کہ جیسے وہ نکاح کے قابل نہیں ہے یا گھر نہیں بسا سکتا ہے۔ انہیں وہ چھوٹا اور بدصورت لگتا تھا وہ اس کی طرف نہیں دیکھتے تھے اور نہ اس کی پرواہ کرتے تھے۔
امام احمد نے ابو برزہ الاسلمی سے روایت کی ہے: فرمایا، انصار کے پاس اگر کوئی لڑکی ہوتی تو وہ اس کی تب تک شادی نہیں کرتے تھے جب تک یہ نہ جان لیں کہ آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں کوئی حاجت ہے یا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری سے کہا: اپنی بیٹی کو میرے نکاح میں دو، اس نے کہا ہاں، یہ تو میرے لیے عزت کا باعث ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں آپ کی بیٹی کو اپنے لیے نہیں چاہتا، اس نے کہا، پھر کس کے لیے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: جلیبیب کے لیے، اس نے کہا: میں اس کی ماں سے مشورہ کروں گا، اس نے اپنی بیوی سے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری بیٹی کے لیے نکاح کا پیغام لائے ہیں، اس نے کہا ٹھیک ہے یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے، اس نے کہا: لیکن وہ اپنے لیے نہیں چاہتا، بلکہ جلیبیب کا پیغام لایا ہے، اس نے کہا، اس جلیبیب کے لیے، نہیں خدا کی قسم ! ہم اس کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی نہیں کریں گے۔
وہ رسول اللہ کو بیٹی کی ماں کا جواب سنانے کے لیے جانے ہی لگا تھا کہ بیٹی نے آکر کہا: مجھے کس نے نکاح کا پیغام بھیجا ہے؟ ماں نے بتا دیا۔ تو لڑکی نے کہا: کیا آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو رد کرو گے! مجھے اس کے حوالے کردو، وہ مجھے ضائع نہیں ہونے دے گا، پس اس کا باپ چلا گیا اور رسول اللہ کو خبر سنادی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے تو اس نے جلیبیب سے اس کا نکاح کرایا۔ وہ کہتا ہے: پھر رسول اللہ کسی غزوہ پر نکل گئے اور جب اللہ نے آپ پر رحم فرمایا، آپ نے فرمایا: کیا کوئی شخص غائب ہے ؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے تو جلیبیب کہیں نظر نہیں آیا؟! فرمایا، اسے ڈھونڈو! تو اسے سات لاشوں کے پہلو میں پایا گیا جنہیں اس نے قتل کیا تھا اور پھر انہوں نے اسے قتل کیا تھا، لوگوں نے کہا: وہ یہاں ہے یا رسول اللہ اس نے سات کافروں کو قتل کرکے خود بھی جام شہادت نوش کیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ اس کے پاس آئے اور فرمایا: "یہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں دو یا تین مرتبہ فرمایا۔”
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی بازوؤں میں اٹھایا اور اس کی قبر کھودی۔ اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بازوؤں کے علاوہ کوئی پلنگ نہ تھا پھر اسے قبر میں اتار دیا۔ اسے یاد نہیں اسے غسل دیا گیا تھا، اس کی زوجہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی: "اے اللہ اس پر خیر کی بارش کر، اس کی زندگی مشکل نہ بنا!” اس کے بعد انصار میں کوئی عورت اتنی قیمتی نہیں تھی۔ 5
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ایسی بات سناتے جس سے ان کی طبیعت خوش ہوتی۔ یہاں ہم بعض مثالیں پیش کرتے ہیں جو اس پر دلیل ہیں:
جب صہیب رومیؓ نے مشرکین کے پاس اپنی دولت چھوڑ دی، تاکہ مدینہ جاکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مل لے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا استقبال کیا اور فرمایا: "ابو یحییٰ کو تجارت نے فائدہ دیا، صہیب نے نفع کمایا، صہیب نے نفع کمایا” 6
یہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ، اسے اس کی کنیت سے پکارا، اس کے اندر خوشی کی لہر دوڑا دی، اور اسے اس کے عمل پر ثواب کی خوش خبری سنائی۔
انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے عورتوں اور بچوں کو شادی کی تقریب سے آتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور بولا: اللہ کی قسم ! تم سب مجھے سب سے زیادہ پسند ہو۔ 7
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ مدینہ کی کسی گلی سے گذر رہے تھے کہ پاس میں لڑکیاں دف بجا رہی تھیں وہ گا رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں: "ہم بنو نجار کی لڑکیاں ہیں محمد کتنے پیارے ہمسایہ ہیں” تو رسول اللہ نے فرمایا : اللہ جانتا ہے کہ میں تم سب سے بہت محبت کرتا ہوں 8
یہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو کھڑے ہوکر انصار کا استقبال کرتے ہیں، اور کہتے ہیں اللہ: تم لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو۔”
اور دوسرے موقعہ پر فرماتے ہیں: "میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں” یہ ہیں نبی کے جذبات اپنے صحابہ کے لیے۔
امام احمد نے قیس بن ابی غرزہ بجلی سے روایت کی ہے، وہ کہتا ہے: ہم مدینہ میں خرید و فروخت کرتے تھے اور ہم اپنے آپ کو دلال کہا کرتے تھے 9 ، پس رسول اللہ ہمارے پاس آیا اور ہمیں بہترین نام سے پکارا، ہم بقیع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے تاجرو! ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بہتریں نام دیا۔ ” تجارت میں قسمیں اور جھوٹ ہوتا ہے اسے صدقہ کے ذریعے پاک کرو۔ 10 دوسرے الفاظ میں یہ آیا ہے، شیطان اور گناہ بازاروں میں موجود ہوتے ہیں، جو اس میں جھوٹ، لغو اور قسموں کی ملاوٹ کرتے ہیں لہٰذا اسے صدقہ سے پاک کرو” 11
بس آپ نے دیکھا کہ ان دلالوں پر کیسا نفسیاتی اثر ہوا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تاجروں کا نام دیا۔
مآخذ و حوالہ جات:
[1] قريش: 3، 4۔[2] رواه البخاري؛ عن مالك بن الحويرث؛ كتاب: الأذان – باب: من قال: ليؤذن في السفر مؤذن واحد (رقم: 631)[3] رواه البخاري عن أبي هريرة كتاب: الرقاق – باب: كيف كان عيش النبي وأصحابه، وتخليهم عن الدنيا (رقم: 6452) والترمذي؛ كتاب: صفة القيامة والزهد والرقائق – باب: قصة أصحاب الصفة (رقم: 2477) وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح، وابن حبان؛ كتاب: التاريخ – باب: المعجزات (رقم: 6535) والحاكم؛ كتاب: الهجرة (3 / 21 – رقم: 4291) والبيهقي في السنن الكبرى كتاب الصلاة – باب: المسلم يبيت في المسجد (2 / 624 – رقم: 4339) وكتاب النكاح – باب: من تخلى لعبادة الله إذا لم تطق نفسه إلى النكاح (7 / 134 – رقم: 13484)۔[4] رواه أحمد؛ من حديث ربيعة بن كعب الأسلمي -رضي الله عنه- (5 / 569 – رقم: 16577) ورواه الحاكم في المستدرك؛ كتاب – باب: النكاح (2 / 215 – رقم: 2718) وقال: هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه؛ وقال الذهبي فيه راو لم يحتج به مسلم۔[5] رواه أحمد في مسنده؛ من حديث أبي برزة الأسلمي -رضي الله عنه- (7 / 148- رقم: 1980)[6] البداية والنهاية لابن كثير (7 / 340, 341)[7] رواه البخاري؛ عن أنس -رضي الله عنه- كتاب: مناقب الأنصار – باب: قول النبي ﷺ للأنصار: {أنتم أحب الناس إلي} (رقم: 3785) وكتاب النكاح – باب: ذهاب النساء والصبيان إلى العُرس (رقم: 5180) وابن حبان: كتاب: إخباره عن مناقب الصحابة: (رقم: 7270) قال أبو حاتم ابن حبان: معوَّل هذه الأخبار كلِّها؛على ” مِنْ ” فحذف ” مِنْ ” منها (ص: 1948) ولمسلم؛ أنه قال لامرأة جاءته من الأنصار: {والذي نفسي بيده! إنكم لأحب الناس إلي} ثلاث مرات كتاب: فضائل الصحابة – باب: من فضائل الأنصار -رضي الله عنهم- (رقم: 6418).[8] رواه ابن ماجه؛ عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- كتاب: النكاح – باب: الغناء والدف (رقم: 1899)۔ وقال البوصيري في الزوائد (2 / 89 – رقم: 1899): هذا إسناد صحيح؛ رجاله ثقات؛ وبعضه من الصحيحين من حديث عائشة -رضي الله عنها- وفي البخاري، وأصحاب السنن الأربعة من حديث الربيع بنت معوذ -رضي الله عنها۔[9] قال الإمام الخطابي في معنى السماسرة: هو اسم أعجمي؛ وكان كثير ممن يعالج البيع والشراء؛ فيهم العجم؛ فتلقوا هذا الاسم عنهم؛ فغيره النبي بالتجار؛ الذي هو من الأسماء العربية. انظر حاشية السندي على سنن النسائي (7 / 14) ط 3 للشيخ عبد الفتاح أبو غدة۔ [10] شوبوه: خالطوه۔[11] رواه النسائي؛ عن قيس بن أبي غَرَزَة؛ كتاب: الأيمان والنذور – باب: في اللغو والكذب (رقم: 3831) وفي طبعة الشيخ عبد الفتاح أبو غدة (رقم: 3800)مترجم: سجاد الحق