میری شادی کے دس سال بعد ہمارے ارد گرد کے بدلتے حالات و واقعات اور ذمہ داریوں میں اضافے کی وجہ سے ہماری شادی شدہ زندگی میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں، اور رومانٹک ڈنر یا سرپرائز یا محبت و ہمدردی کے بجائے، میرے شوہر کو بچوں کے مطالبات اور گھر کی ضروریات زیادہ مشغول رکھتی ہیں۔
ہمارے تعلقات بچے پیدا کرنے کے بعد سرد پڑ گئے ہیں، اور اب شادی کے کئی سالوں بعد، میں اپنے شوہر کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں فکرمند اور خوف محسوس کرنے لگی ہوں۔
سوال: وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے میرے شوہر کے ساتھ میرا رشتہ اس نتیجے پر پہنچا؟ بہت دیر ہونے سے پہلے میں اپنی شادی شدہ زندگی کو کیسے بچا سکتی ہوں؟
جواب:
مجھے آپ کے خط کے ایک جملے نے سوچ وبچار کرنے پر مجبور کیا، میں اسی جملہ سے اپنی بات کا آغاز کرتا ہوں: "رومانٹک ڈنر یا سرپرائز کے بجائے، میرے شوہر کو بچوں کے مطالبات اور گھر کی ضروریات زیادہ مشغول رکھتی ہیں وغیرہ ..!)
سوال پوچھنے والی محترمہ، مجھے لگتا ہے جیسے (رومانوی عشائیہ/ رومینٹک ڈنر) اور اس طرح کی چیزیں، ایک ایسا خواب تھیں، جو آپ کے تخیلات و تصورات میں موجزن ہیں، اور تعلقات کی تجدید، آپ کے لیے اور آپ کی روح کی ضرورت ہے۔ لیکن میرا آپ سے یہ چھوٹا سا سوال ہے کہ ان چیزوں کا ہم دوسروں سے ہی کیوں انتظار کرتے ہیں؟!
دوسرے کو تعلقات کو بہتر اور ان کو پروان چڑھانا چاہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو ایسے اچھے ماحول کی منصوبہ بندی بھی کرنی ہوگی جو تعلقات کو آگے بڑھائے اور روح کو تازہ کرے، اور ذمہ داریوں کی مشکلات اور ان کے نتائج کو آسان کرے۔ اگر آپ کو اپنے شوہر سے یہ ماحول میسر نہیں ہے اور کھو چکا ہے، تو اسے تیار کریں اور اسے سرپرائز دیں، اور وہ وقت کے ساتھ سیکھ جائے گا کہ یہ ایک ضرورت ہے، اور اس کے ثمرات حاصل کرے گا، لہٰذا وہ آنے والے وقتوں میں اس کی تلاش کرے گا۔
جب اللہ تعالیٰ نے اس رشتے کو بیان کیا تو اسے اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا اور اسے شفقت، رحمت اور سکون قرار دیا: ( اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔ یقیناََ اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور وفکر کرتے ہیں)۔
ان بنیادوں پر خدا کی طرف سے قائم کردہ رشتہ، ہمیں اسے اسی طرح برقرار رکھنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے، کیونکہ یہ خدا کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔
(پیار، رحمت، شفقت اور سکون)، جیسے پودا جسے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے، اور پانی کو نظر انداز کرنے سے وہ مرجھا جاتا ہے اور اس کے پتے گر جاتے ہیں۔
جی ہاں، زندگی کے معمولات، بہت سی مصروفیات، ضرورتوں کو پورا کرنا اور ذمہ داریوں کو انجام دینا روح کو تھکا دیتا ہے، اگر ہم ذمہ داریوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے وقفے اور ٹائم نہ نکالیں۔
لہٰذا تعطیلات، چھٹیاں، عیدین اور کئی ایسے مواقع تھے کہ اگر ہم ان سے فائدہ اٹھائیں تو ان کے بعد حالات بہتر ہوجاتے ہیں، رشتوں میں اعلیٰ معیار اور زیادہ خوبصورتی پیدا ہو جاتی ہے۔
لیکن تعطیلات اور عیدیں روح کی تجدید کے لئے اپنے طور پر کام نہیں کرتی ہیں، پس خوشی متعارف کروا کر ارادوں کی منصوبہ بندی اور تجدید کرنا ضروری ہے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” جو شخص اپنے مسلمان بھائی سے اس چیز سے ملاقات کرے گا جس سے اللہ راضی ہو جائے گا تو قیامت کے دن اللہ اسے راضی ہو جائے گا۔ اسے طبرانی نے اپنی کتاب الصغیر میں حسن کی سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
سب سے زیادہ ہماری خوشی کے حقدار ہمارے گھر والے، والدین، رشتہ دار ہماری بیویاں، ہمارے شوہر، ہمارے بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔ ان اوقات کے لئے ناقص منصوبہ بندی اُنہیں خوشی اور تبدیلی کے وقت کے بجائے لڑائی جھگڑے کے اوقات میں تبدیل کر سکتی ہے۔
تو پتہ چلا کہ اس رشتے کی بنیاد محبت اور ہمدردی پر مبنی ہے، اور وقتاََ فوقتاََ ان معانی کی تجدید کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا مسلم گھر کے لئے ایک آئین یا کچھ قواعد کا وجود، میاں بیوی کے درمیان زندگی کو استقامت دینے اور اختلافات کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے، جس کے سب سے اہم ستون یہ ہیں:
زندگی مشارکت پر مبنی ہے اور ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک اچھی مثال ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل و عیال کی خدمت کرتے تھے۔
باہمی احترام تعلقات کا ایک بنیادی ستون ہے، تاکہ کوئی دوسرے کی رائے کو نظر انداز نہ کرے۔ یا اس کی ضروریات سے اھمال برتے۔
اپنے مؤقف کی تشریح میں حسن ظن مقدم رکھیں، خاص طور پر اگر ساتھی کوئی ایسی چیز ظاہر نہ کرے جس سے حسن ظن خراب ہو۔
ازدواجی رشتہ تکامل پر مبنی ہوتا ہے، مرد اپنی طاقت سے عورت کی کمزوری کو پورا کرتا ہے اور عورت اپنی محبت سے مرد کے دل کو نرم کر دیتی ہے، لہٰذا شوہر کو اپنی طاقت نقصان نہیں پہنچاتی، اور بیوی کو اس کے دل کی نرمی اور دیگر اوقات میں اس کی شفقت کی بالادستی نقصان نہیں پہنچاتی، زندگی کو دونوں کی ضرورت ہے۔
انسان پر جو فرض ہے اسے انجام دے اور خدا سے دعا کرے کہ اس کا جو حق ہے، اسے ملے۔ ایک افادیت پسند اصول کے تحت کہا جاتا ہے، "جو تم چاہتے ہو دے دو، تمہیں وہ مل جائے گا جو تم چاہتے ہو”، لہٰذا اپنے آس پاس کے لوگوں سے محبت کرو، آپ کو محبت حاصل ہو گی، انہیں خوشی عطا کریں، آپ کو بھی خوشی حاصل ہو گی، دینے اور لینے کا اصول تعلقات کے انتظامی اصولوں میں سے ایک ہے، لہٰذا کسی ایسے شخص کے ساتھ رشتہ باقی نہیں رہتا جو سارا وقت لیتا ہے اور نہ ہی کسی ایسے شخص کے ساتھ جو سارا وقت دیتا ہے۔
نظر انداز کرنا اب بھی معزز لوگوں کی خصلتوں میں سے ایک ہے، بعض اوقات آنکھیں بند کرنا ہی اس کا حل ہے، اور چھوٹی اور بڑی غلطیوں پر ڈٹے رہنے سے دوستی خراب ہوتی ہے اور دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں: "معزز لوگوں کی لغزشوں کو معاف کرو”، پس ہم ہر غلطی پر رک کر جانچ پڑتال اور جائزہ نہ لیں۔ جیسا کہ کہاوت ہے: "کسی کی غلطیوں کو شمار کرنا اس کی شرافت کی دلیل ہے”، ہمیں ان چیزوں کی ضرورت خاص طور پر اختلاف کے وقت پڑتی ہے۔
صبر ہر رشتے کا تاج ہے، تو ایک جوڑا، جب بوڑھا ہوتا ہے تو صبر ان کا دین بن چکا ہوتا ہے، ایک دوسرے کے لیے صبر، زندگی کی پریشانیوں پر صبر، بچوں کی پرورش کی مشکلات میں ان کا صبر اور زندگی کی دیگر مشکلات و چیلنجز۔
خود کی نشوونما ضروری ہے، لہذا ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو اپنے سٹنڈرڈ پر اعتماد کرتے ہیں، نفس، غیرت اور ازدواجی زندگی کے مختلف مراحل کی نوعیت کا سمجھنا سفر کو آسان بناتا ہے، اور اگر وقت کا تقاضا ہو تو خاندان یا اپنے جانے پہچانے والوں میں سے کسی سمجھدار کو حکم بنائیں اور شریعت کی رو سے فیصلہ کرے، صلح کرائے، فساد نہ پھیلائے۔
بچے اللہ کی ایک نعمت ہیں، ان کو رشتے کے برے وقت میں گھسیٹنا عقلمندی نہیں ہے، اس کے برعکس، وہ آپ کے درمیان دوست، عقلمند اور چراغوں کے طور پر پروان چڑھتے ہیں، اللہ ان پر رحم کرے۔
لیکن جو چیز مسائل پیدا کرتی ہے اور خلا پیدا کرتی ہے، وہ ہے زندگی کے مشن کو سمجھنے کی کمی، اور ہماری صلاحیتوں کی محدودیت: ” اور ہر آدمی اپنے گھر والوں پر حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر حاکم ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مسؤلیات و ذمہ داریوں کی تقسیم سکھائی ہے۔
آخر ی بات: (ہدیہ دو، محبت پھیلاؤ)، تحفہ اور انسان پر اس کے اثرات، جب بھی موقع ملے اور ہم نے تحفہ دیا، چاہے تحفہ چھوٹا ہو یا بڑا، پیسہ ہو، وقت ہو، دعا ہو (ہاں ہم غیر موجودگی میں دعا ہدیہ کرتے ہیں)، تحفہ قیمتی ہو، سستا ہو، کچھ بھی ہو اس کا سب سے اچھا اثر ہوتا ہے، اور دوسرے کی ضروریات کو پورا کرنے والا ہو تو سب سے خوبصورت ہے، اور اس کے لئے ایک نیک نیت کی ضرورت ہوتی ہے کہ جسے خدا اپنے بندوں پہ یہ راز منکشف کر دیتے ہیں کہ ان کے پسندیدہ لوگوں کے اعمال سے ان کی زندگی خوش ہوتی ہے۔
ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے اور مسلمانوں کے گھروں کو سکون، رحمت اور شفقت سے بھر دے۔ آمین
مترجم: ڈاکٹر بہاءالدین