میرے اور میری بیوی کے درمیان صلح کرانے میں میری مدد کریں!
سوال!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ، میری عمر 62 سال ہے، میں آپ کی مدد چاہتا ہوں، ہم دونوں میاں بیوی کو الگ ہوئے ایک سال ہوگیا ہے، ان سے میری ایک بیس سالہ بیٹی ہے جو میرے پاس رہتی ہے۔ جب کہ میری بیوی اپنے چھوٹے بھائیوں کے پاس رہتی ہے۔ وہ لوگ اسے مجھ سے طلاق دلوانا چاہتے ہیں، اور بدقسمتی سے وہ اسے ایسا کرنے پر اکسارہے ہیں۔
میں ابھی بھی اپنی بیوی سے محبت کرتا ہوں، میں نے پہلے اسے پسند کیا، پھر اس سے شادی کی، میں چاہتا ہوں ک آپ اس سے بات کریں کہ وہ میری اور اپنی اکلوتی اولاد کی خاطر واپس گھر لوٹے۔ اس کی دوری نے مجھے سخت تکلیف میں مُبتلا کر دیا ہے، ہو سکے تو اس معاملے میں میری مدد کریں، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ میں زندگی کے آخری ایام گزار رہا ہوں۔
جواب
معزز سائل!
اللہ آپ کی عمر دراز کرے اور آپ دونوں میاں بیوی کے درمیان صلح کرائے۔ ہم آپ کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ تم میں سب سے بہترین شخص وہ ہے جو لمبی عمر پائے اور نیک اعمال کرے، کیونکہ انسان نہیں جانتا کہ اس کی قضا کا وقت کونسا ہے، لہذا خیر اور بھلے کی امید رکھو، میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ وہ آپ کے اور آپ کی اہلیہ کے درمیان معاملات درست کرے اور آپ کو ایک خوشگوار خاتمہ عطا فرمائے۔ آمین
جب معاملات پیچیدہ ہو جاتے ہیں اور فاصلہ طول پکڑتا ہے، تو قبل اس کے ہم دوستوں کو اپنے معاملات میں داخل کریں ہمیں خود سے بات کرنی چاہیے۔ اکثراوقات حل کی چابی آپ کے اپنے پاس ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے آپ کو اپنی بیوی کے غصے اور ایک سال تک اس کے گھر چھوڑنے کے اسباب معلوم ہوں۔ اگر اس کا یہ رویہ حق بجانب ہے تو اسے وہ کچھ دو جو وہ چاہتی ہے، اور اگر وجوہات کچھ اور ہیں جو آپ کے علم میں نہیں، تو اس کے پاس جاؤ اور غور سے اس کی بات سنو، آپس کے شکوک وشبہات دور کرو اور اپنے رہے سہے پیار و محبت کو شکوک و شبہات کی نذر نہ ہونے دو۔ کیونکہ سب سے خطرناک چیز جو ایک انسان کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے، یہ ہے کہ آپ کے تعلقات کی بنیاد شکوک وشبہات پر ہو۔
معاملات کو طول دینا مسائل کو بڑھاتا ہے، یہ بات یقینی ہے کہ ایک بیوی اپنے ہی گھر میں سکون محسوس کرتی ہے، خاص طور پر جیسا کہ آپ نے بتایا ہے کہ وہ اس وقت اپنے چھوٹے بھائیوں کے ساتھ رہتی ہے۔ عورت جب اپنے باپ کے گھر سے رخصت ہو کر اپنے شوہر کے گھر پہنچتی ہے تو یہ اس کا نیا گھر بن جاتا ہے۔ باوجود اس کے کہ یہ اس کا نیا گھر ہوتا ہے، اس کی چھوٹی سی مملکت بن جاتا ہے۔ جہاں وہ اپنے آپ کو پُرسکون محسوس کرتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ کبھی اپنے والد کے گھر لوٹتی ہے، جسے اس نے حال ہی میں چھوڑا تھا، تمام تر استقبال اور عزت و توقیر کے باوجود یہاں وہ اپنے آپ کو مہمان محسوس کرتی ہے، تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اپنے بھائیوں کے ساتھ رہتے ہوئے وہ کیا محسوس کرتی ہوگی!
بسا اوقات کچھ وقت کی دوری دوسرے فریق کی قدروقیمت کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے، اسی طرح یہ طریفین کیلئے اس طرح بھی مفید ہے کہ دونوں اپنی اپنی جگہ ایک دوسرے کی خوبیوں اور خامیوں پر غور و فکر کریں۔ اس کے ذریعے علیحدگی کا انتخاب کرنے والا فریق اپنی زندگی کی ذمہ داری خود اٹھانے کی صلاحیت کا امتحان لے گا۔ بسا اوقات دوری کے فوائد کے باوجود، اسے غیر ضروری طول دینا تعلقات اور رشتے کے مفاد میں نہیں ہوتا۔ لہذا فریقین میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔
اپنی بیٹی کو محرّک بنائیں اور اس کے ذریعے سے اپنی بیوی تک پہنچنے کی راہ ہموار کریں، یا اس کی بہنوں میں سے جو سمجھدارہیں، ان سے بات کریں، ان کے سامنے اپنا موقف رکھیں اور اپنا نقطہ نظر انہیں سمجھائیں۔ اگر اس کی بہن کو یہ بات سمجھانے میں آپ کامیاب ہوئے کہ اس رشتے میں پڑی دراڑ ٹھیک ہونے کے امکانات ہیں تو وہ یقیناً آپ کی مفاہمت کے لیے زمین ہموار کرے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنی بیوی اور اس کی بہنوں کے ساتھ اکٹھے ایک جگہ نہ بیٹھیں، کیونکہ لوگ چیزوں کے بارے میں اپنے تاثرات اور پھر ان پر رائے قائم کرنے کے معاملے میں مختلف ہوتے ہیں۔ نیز ہر کسی کے لیے مداخلت کرنا دانشمندی نہیں ہے، کیونکہ اس سے معاملہ سلجھنے کے بجائے مزید خراب ہو سکتا ہے۔
معزز سائل
میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواتین کے تئیں وصیت کی یاد دہانی کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو، اس لیے کہ عورتیں تمہاری ماتحت ہیں، لہٰذا تم ان سے اس (جماع) کے علاوہ کسی اور چیز کے مالک نہیں ہو، الا یہ کہ وہ کھلی بدکاری کریں، اگر وہ ایسا کریں تو ان کو خواب گاہ سے جدا کر دو، ان کو مارو لیکن سخت مار نہ مارو، اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو پھر ان پر زیادتی کے لیے کوئی بہانہ نہ ڈھونڈو، تمہارا عورتوں پر حق ہے، اور ان کا حق تم پر ہے، عورتوں پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارا بستر ایسے شخص کو روندنے نہ دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو اور وہ کسی ایسے شخص کو تمہارے گھروں میں آنے کی اجازت نہ دیں، جسے تم ناپسند کرتے ہو، سنو! اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم اچھی طرح ان کو کھانا اور کپڑا دو” ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا وصیت پر عمل کرتے ہوئے ایک محسن اور خیرخواہ بن کر نیک نیتی کے ساتھ اپنی بیوی کے پاس جاؤ، اللہ نے چاہا تو تم اسے منالو گے۔
ایک اور اہم پہلو کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کرنا چاہتا ہوں: جب بیوی سنِّ یاس (Menopause) میں ہو یا اس عمر کے قریب ہو تو ہارمونز میں ہونے والی تبدیلی کا عام مزاج پر بڑا اثر پڑتا ہے، اور جو کچھ وہ چھوٹی عمر میں برداشت کرتی تھی، اب اس عمر میں اس کے لئے ایسا ممکن نہیں ہے، اس کی قوت برداشت کم ہوئی ہوگی، لہذا اب آپ کو بھی اپنی قوت برداشت بڑھانا ہوگی۔ اس لیے ہم تجویز کرتے ہیں کہ آپ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جائیں اور اس سے مشورہ کریں، ہم کسی شخص کے بارے میں یہ گمان کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے ایک غیر معمولی مرحلے سے گزر رہا ہے، عین ممکن ہے کہ وہ ان حالات میں اپنے آپ کو نہ سمجھ پا رہا ہو، اور اسے ان حالات پر قابو پانے کے لیے کسی کی مدد کی ضرورت ہو، ڈاکٹر کچھ ٹیسٹ کروانے اور کچھ ویٹامنز لینے کا مشورہ دے سکتا ہے، اللہ نے چاہا تو امید ہے اس سے اس کے مزاج میں بہتری آئے۔
جیسا کہ ہم زندگی کے آغاز میں ہونے والی تلخیوں کے اثرات کو نہیں بھولتے۔ بہت ساری ایسی خواتین کا ماننا ہے کہ انہوں نے یہ سب تلخیاں بچوں کی خاطر برداشت کیں، اور اب جب کہ وہ بڑے ہوگئے تو بعض خواتین سمجھتی ہیں کہ اب برداشت کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی تو وہ گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہیں۔ جیسا کہ شادی کے ابتدائی چند سالوں میں طلاق کی شرح بہت زیادہ ہے، اسی طرح بڑھاپے کی عمر میں بھی طلاق کی شرح بہت زیادہ ہے۔ حالات اگر بہتر ہوں تو ایک ہی چھت کے نیچے بھی دوری واقع ہوجاتی ہے۔
لہٰذا، ہم ان مردوں کو یاد دلاتے ہیں جو اپنی شادی کے سالوں میں حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کیے بغیر اپنی بیویوں کی قوتِ برداشت پر انحصار کرتے ہیں۔ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے، اور یہ کہ بہت زیادہ دباؤ دھماکہ خیز صورتحال کا موجب بن سکتا ہے۔ رشتوں کا تسلسل ممکن بنانے کیلئے شروع شروع میں پیار و محبت ہی کافی نہیں ہے، اس میں بار بار تجدید اور نئے پن کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مسلسل تحفے تحائف دینا، چھوٹی موٹی غلطیوں سے صرفِ نظر کرتے رہنا، سخاوت، صبر، اور استقامت کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے رہنا۔
بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ مرد کا عورت پر ہاتھ نہ اٹھانا اور اسے لعنت ملامت نہ کرنا ہی رشتہ قائم رہںے کیلئے کافی ہے۔ ایک مرد محض اس وجہ سے اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو تکلیف نہیں دیتا، جب کہ یہی صفت بہت سارے مردوں کے اندر ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کے رشتے تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ لہذا اتنا ہی کافی نہیں ہے۔
ایک مرد بیٹھے بیٹھے شیخی بگھارتا ہے کہ اس پرصرف نان و نفقہ کی ذمے داری ہے، اور باقی ساری ذمے داریاں اپنی بیوی پر چھوڑ دیتا ہے، یہ سوچ کر کہ اس نے اپنے حصے کا کام کر لیا ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتا کہ وہ اپنے اس منفی رویے کی وجہ سے گھر اور پیار و محبت کی بنیادیں منہدم کر دیتا ہے۔
اللہ کے برگزیدہ پیغمبر جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاندان جیسے عظیم ادارے کے حوالے سے ہمارے کردار کو یاد دلاکر فرماتے ہیں کہ: (تم میں سے ہر ایک چرواہا (ذمے دار) ہے اور تم میں سے ہر ایک اپنے ریوڑ (کردار) کے بارے میں جوابدہ ہے)، میاں بیوی کا ایک مربوط اور مشترکہ رول ہے جس کی حد نہ محض مرد کا نان و نفقہ کا انتظام کرنا ہے اور نہ ہی محض عورت کا کھانا تیار کرنا، بلکہ اس کی حدیں اس سے کہیں زیادہ گہری اور جمی ہوئی ہیں۔ لہذا، عزیز سائل، آپ کی زندگی میں جو کچھ گزرا ہے اس کا مداوا کرنے کیلئے آپ سے اب تک جو کوتاہی ہوئی ہے اسے تلاش کریں، شاید اس میں حل کی کلید موجود ہو۔
ماضی کے اندر ہمارے پاس معافی مانگنے کا آپشن موجود تھا، بظاہر ہم نے وہ موقع گنوایا ہے۔ مجھے یقین ہے اگر خواتین کو اس میں شامل کیا جائے تو ان کا دل نرم ہوسکتا ہے۔ آپ جس قدر اپنی بیوی سے محبت کرتے ہیں، تب تک صبر کریں جب تک نہ اس کا دل نرم ہو جائے۔ ایک سال کے طویل عرصے میں جو خرابی پیدا ہوئی ہے اسے سدھارنے میں تھوڑا وقت لگے گا۔ اور مزید بر آں یہ کہ اس میں فریقین کیلئے ایک دوسرے کی ہمت بڑھانے کے اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔
تمام تر کوششوں کے باوجود سب سے بڑھ کر جس چیز سے مدد لی جا سکتی ہے وہ رات کے آخری پہر میں اللہ کے دربار میں حاضری دے کر دو رکعت صلاۃِ حاجت پڑھ کر صدقِ دل سے دعا کرنا کہ اللہ آپ دونوں کو بھلائی کے لیے اکٹھا کرے جیسا کہ اس نے آپ کو پہلے اکٹھا کیا تھا۔ اللہ آپ کو حکمت اور گفتار میں نرمی عطا کرے۔ آپ کی کوتاہیاں معاف کرے، آپ کے قدموں کو بہتری کی جانب گامزن کرے، اور جس چیز نے آپ کو پریشان کیا ہے وہ آپ سے دور کرے اور آپ کی بیوی کے دل کے دروازے آپ کیلئے کھول دے۔ اللہم آمین۔
مُترجِم: عاشق حسین پیر زادہ