سوال:
کیا خدا ہماری براہ راست سنتا ہے؟ یا فرشتے ہمارے اوقوال و افعال کو اس تک پہنچاتے ہیں؟
جواب:
معلوم ہوتا ہے کہ اس سوال کو لیکر سائل کے ذہن میں الجھن ہے کہ آیا خدا ہماری پکار براہ راست، بغیر کسی وسیلے کے سنتا ہے، یا اس کے لئے اس نے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں، جو ہماری فریاد کو اس تک پہنچاتے ہیں اور اسے ہمارے اعمال کی خبر دیتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو} ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: {اور بے شک تم پر نگران مقرر ہیں (10) ایسے معزز کاتب (11) وہ تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں۔}(12)} (الانفتار)۔
جی ہاں، فرشتے ہمارے ہر قول و فعل کو قلمبند کرتے ہیں، ایک فرشتہ ہمارے دائیں طرف ہوتا ہے اور دوسرا فرشتہ بائیں طرف۔ ایک فرشتے کو اچھے اعمال لکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور ایک کو برے اعمال لکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ یہ فرشتوں کی خصوصیات میں سے ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اللہ براہِ راست ہماری سنتے ہیں تو اس کا جواب ہے بالکل، اللہ تعالیٰ بغیر کسی واسطے کے ہماری سن لیتے ہیں۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے: "جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر چڑھائی کی۔ وہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو لوگوں نے اونچی آواز میں تکبیر بلند کی: اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ نے انہیں فرمایا: "اپنے حال پر رحم کرو۔” تم لوگ کسی بہرے یا غیر حاضر ذات کو نہیں سنا رہے۔ تم ایک سننے والے کو پکارتے ہو جو کہ بہت قریب ہے اور تمہارے بالکل ساتھ ہے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے پیچھے کھڑا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ کہتے سنا: لا حَوْلَ ولَا قُوَّةَ إلَّا باللَّه، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کہا: اے عبداللہ بن قیس! میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ میں حاضر ہوں، آپ نے فرمایا: کیا میں آپ کو ایک کلمہ نہ سکھاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، یا رسول اللہ، میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا حَوْلَ ولَا قُوَّةَ إلَّا باللَّهِ
اللہ تعالیٰ مصیبت زدہ لوگوں، اور حاجت مندوں کی پکار سنتا ہے، خواہ ان کی آواز بلند ہو یا پست، اور یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ جب ہم اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں تو آواز کو پست کرنا واجب ہے، جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ ہم ایک ایسے سننے والے رب کو پکارتے ہیں جو ہمارے بہت قریب ہے۔ کیونکہ وہ نہ صرف ہماری آواز سنتا ہے، بلکہ دلوں کے اندر پوشیدہ آرزؤں اور تمناؤں کے علاوہ، ضمیر کے مکالمے کی بھی خبر رکھتا ہے۔
محترم و مکرم سائل:
اگر آپ سننے والے رب کو تلاش کریں گے اور پکاریں گے تو وہ بور نہیں ہوگا بلکہ وہ آپ کے دل میں ایمان اور تازہ کرے گا، اور آپ کو یہ دیکھ کر شرم محسوس ہوگی کہ اللہ ہر رات نچلے آسمان پر اتر کر پکارتے ہیں: "کیا کوئی ہے جو اپنے رب سے معافی کا طلبگار ہے؟” ہے کوئی توبہ کرنے والا؟ ہے کوئی سوال کرنے والا؟ ہے کوئی پکارنے والا؟ اللہ تعالیٰ اسی طرح طلوعِ فجر تک پکارتے رہتے ہیں” اور ہم ہیں کہ اس سے التجاء کرنے اور سوال کرنے کیلئے جاگتے نہیں!
قرآن مجید میں اللہ کیلئے السمیع (سننے والے) کا نام چالیس مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ سماعت کے حوالے سے متنوع معانی اپنے اندر رکھتا ہے جس میں سماعت سے آگاہی، اس کا فہم و ادراک اور اس کی قبولیت سب کچھ شامل ہے۔ پس اس کے مجموعی معانی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری سنتا ہے اور تماری چھوٹی چھوٹی حاجات کا ادراک رکھتا ہے۔ اس حقیقت کے علاوہ کہ وہ آپ کی دعا کو ایک پکار کے طور پر سنتا ہے، وہ آپ کے حالات کی حقیقت کو جانتا ہے۔ رہی بات لوگوں کی جو کہتے ہیں کہ وہ آپ کو سنتے ہیں، لیکن وہ آپ کی آواز کو بس ایک پکار کے طور پر سنتے ہیں، اور اس کی تفصیلات کا ادراک نہیں رکھتے جو کہ آپ کے لئے اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔
بہت سے لوگ تنبیہات اور تحذیرات کو سنتے ہیں لیکن انہیں سمجھتے نہیں، آپ ان کو تنبیہ کے باوجود اپنی روش پر برقرار پاؤ گے گویا ان کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔ کان جیسے آلے کی درستگی اور اس کی ساخت پر سائنسدانوں کی تحقیق کے باوجود انسان کی قوتِ سماعت محدود ہے!
جہاں تک خدائے بزرگ و برتر کا تعلق ہے تو وہ اس چیز سے پاک ہے کہ آپ اس کو پکاریں اور وہ آپ کی نہ سنے! یا آپ اسے کسی وسیلے کے ذریعے پکاریں یا آپ یہ سمجھیں کہ خدائے تعالیٰ اس چیز کا محتاج ہے کہ آپ کی دعا کسی اور کی وساطت سے اس تک پہنچتی ہے۔
وہ نہ صرف آپ کی سنتا ہے، بلکہ آپ کی ضرورت کو اس طریقے سے پورا کرتا ہے جو آپ کے لیے بہتر ہو، وہ اس دنیا میں آپ کے لیے کچھ چیزوں میں جلدی کرتا ہے، اور ان میں سے کچھ میں تاخیر کرتا ہے، کیونکہ اس کے علم کے مطابق تاخیر میں ہی بھلائی ہوتی ہے۔ یہ اس لئے کہ وہی ہمارے حال اور مستقبل دونوں سے واقف ہے۔ وہ جانتا ہے ہماری بھلائی کس چیز میں ہے اور کونسی چیز ہمارے لئے مُضر ہے۔ اس کے علاوہ وہ اس دنیا میں ہمارے لئے کچھ چیزیں مؤخر کرتا ہے تاکہ آخرت میں ہمیں اس کا بدلہ ملے۔ اگر ہمیں پتہ چلے کہ اس تاخیر میں ہماری لئے کس قدر بھلائی ہے تو ہم دعا کی اجابت کیلئے قطعاً جلد بازی نہیں کریں گے۔ چنانچہ ارشادِ باری ہے: مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا،” اس یقین کے ساتھ کہ وہ سننے والا اور جواب دینے (قبول کرنے) والا ہے۔
کیا سورۃ المجادلہ ابتداء میں ہی یہ کہہ کر اجابتِ دعا کی تصدیق نہیں کرتا کہ: "اللہ نے سن لی اُس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملہ میں تم سے تکرار کر رہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔”
ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے شوہر کی شکایت کرتی ہے، اللہ تعالیٰ اس کی بات سنتا ہے اور اس کی شکایت پر آیت نازل کرتا ہے، جب کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس کے قریب تھیں اور ان کی باتیں سن رہی تھیں، ان کے نزدیک ہونے کے باوجود وہ کچھ باتیں نہ سن سکیں لیکن اللہ تعالیٰ نے سن لیں۔ اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے کہا: "با برکت ہے وہ ذات جس کی سماعت ہر چیز پر محیط ہے، بے شک میں نے خولہ بنت ثعلبہ کی بات سن لی۔ اور کچھ چیزیں میں سن نہ سکی۔ اس نے اپنے شوہر کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے شوہر نے میری جوانی کو کھا لیا اور میں نے اپنا بطن اس پر نچھاور کیا۔ یہاں تک کہ میری عمر ڈھل گئی، مجھ سے میرا بچہ چھین لیا، اے اللہ، میں تجھ سے شکایت کر رہی ہوں، اور وہ مکرر کہتی رہی…یہاں تک کہ جبرائیل علیہ السلام یہ آیت کے کر نازل ہوئے: "اللہ نے سن لی اُس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملہ میں تم سے تکرار کر رہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے”۔
بعض لوگ سوچتے ہیں کہ خدا تمام لوگوں کی پکار ایک ہی وقت میں کیسے سن سکتا ہے۔ اس سوال میں وہ خالق کی صلاحیت کو مخلوق کی صلاحیت پر قیاس کرتے ہیں! وہ پاک ہے، اس کی قدرت لامحدود ہے، اور امام رازی علیہ الرحمہ اللہ کی صفتِ سمیع کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی پکار سنتا ہے اور ان کی دعائیں قبول کرتا ہے، اسے کسی ایک کی پکار دوسرے کی دعا سن لینے سے مشغول نہیں کرتی، اور نہ ہی اسے ایک کی دعا دوسرے کی دعا کو قبول کرنے سے روکتی ہے!
ایک شخص آنِ واحد میں کئی چیزیں دیکھ سکتا ہے، جب کہ ایک ہی وقت میں متعدد آوازوں پر توجہ مرکوز کرنا اس کیلئے بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ بیک وقت دو لوگوں کی باتیں سن کر ان کا جواب دے، لیکن اللہ تعالی کی ذات اور قدرت اعلیٰ ہے جسے ہم نے عقلی اور نقلی دونوں ذرائع سے ہے، اور ہم نے اس کا ظہور بار بار دیکھا ہے۔ بارہا اس نے ہماری دعائیں سنیں اور انہیں قبول کیا، ہمارے جذبات و احساسات کو سنا اور ہماری دعائیں مانگنے سے پہلے قبول کیں۔ آپ دل ہی دل میں کسی چیز کی خواہش کرتے ہیں اور کوئی آپ کے پاس مہمان بن کر آپ کے لیے وہ چیز لے کر آتا ہے جس کی آپ کو خواہش ہوتی ہے!
اسے کس نے اطلاع دی!!
کس نے اس تک بات پہنچائی؟!!
کس نے آپ کی فریاد سنی، اور پھر قبول بھی کیا!!
معزز سائل، جب ہم یہ جان لیں گے کہ اللہ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے تو ہماری حالت کیسی ہوگی؟!
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے: ” میرا بندہ نفلی عبادات کرتے ہوئے مجھ سے قریب تر ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کی سماعت بنتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے…” ہم اللہ کا تقرب حاصل کرتے ہیں اور اس سے محبت کرنے لگتے ہیں یہاں تک کہ ہم اس کی رضامندی اور خوشنودی حاصل کرتے ہیں۔ رب کریم اپنے بندے پر اپنی مہربانیاں نازل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اسے بصیرت عطا کرتا ہے، تو اس سے بڑھ کر اور کیا مرتبہ ہوسکتا ہے، اس درجے میں اللہ کی صحبت سے بہتر قربت اور کیا ہو سکتی ہے۔ جو کہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا، ہر چیز کا احاطہ کرنے والا ہے؟
اے معبود ہمیں ایسے آداب سکھا جو تیری سماعت کے لیے ہمارے لیے موزوں ہوں، اے معبود جب تک تو ہمیں زندہ رکھے ہمارے کان، ہماری بصارت اور ہماری قوت سے ہمیں لذت عطا فرما اور اسے ہمارا وارث بنا۔