بالواسطہ اسلوبِ تعلیم: بچوں کی تربیت کرنے کا طریقہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سارے اسالیب تعلیم میں سے بالواسطہ اسلوبِ تعلیم کو ترجیح دی ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلطی کرنے والوں کے حوالے سے آزمایا ہے، اور جس سے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں۔ اس لیے بہت سارے ماہرین تعلیم نے طالب علموں کے طرزِ عمل کو ٹھیک کرنے کے لیے اسی اسلوبِ تعلیم کا سہارا لیا ہے۔ بعض والدین نے بھی بچوں کی تربیت کو صحیح رخ دینے اور مختلف حالات میں ان کی رہنمائی کرنے کے لیے اس اسلوبِ تعلیم کا استعمال کیا ہے۔
دور جدید میں ماہرین تعلیم نے خاص طور پر اس طریقہ کو اپنایا ہے، جس میں بچوں کے سامنے افکار، اخلاق، اور مختلف عملی نمونوں کو بالواسطہ طریقے سے پیش کیا جاتا ہے۔ اس کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ ان میں سوچنے سمجھنے، تجزیہ کرنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو، تاکہ وہ اپنے ذہن سے چیزوں کو پرکھیں اور نتیجتاً اپنے لیے بہتر آپشن کا انتخاب کرسکیں۔ یہ طریقہ بچوں کی شخصیت بنانے، انہیں ذمہ دار فرد بننے میں مدد کرتا ہے اور انہیں آزادانہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے نوازتا ہے۔
بالواسطہ اسلوبِ تعلیم کا مفہوم
ہم بالواسطہ اسلوبِ تعلیم کا مفہوم لفظ ‘ التعریض’ کے لغوی معنی سے معلوم کرسکتے ہیں، یعنی وہ بات جو واضح اور متعین نہ ہو۔ کہا جاتا ہے "عرضت بفلان او لفلان”: یعنی جب تم کوئی ایسی بات کرو جو عام ہو یا دوسرے کو سمجھ نہ آئے یا جو واضح نہ ہو لیکن تمہیں اس کا مطلب معلوم ہو، ایسی بات جس کے دو پہلو ہوں سچ اور جھوٹ یا ظاہر اور باطن۔ یا کہا جاتا ہے: تم ایک چیز کی بات کرو لیکن مطلب کوئی اور چیز ہو جس کا ذکر تم نے نہیں کیا ہو۔ مثال کے طور پر اگر تم یہ کہو: بخل کتنی بری چیز ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے اسے بخیل کہا۔ تعریض کہاوت اور محاورے کی شکل میں بھی آسکتا ہے۔
تعریض کی اصطلاحی تعریف: بات کرنے کا وہ طریقہ جس میں کنایہ سے بھی زیادہ پوشیدہ معنی ہوتا ہے۔ تعریض میں کلام اور اس کے مدلول کے بیچ میں کوئی ذہنی حوالہ، تعلق اور مشابہت ضروری نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے حال کا قرینہ ہی کافی ہے اور جو کچھ ذہن میں بات کا مطلب سمجھ آئے، اور اسی سے کنایہ اور تعریض میں فرق واضح ہوتا ہے، کہ تعریض سے کلام کا اصلی معنی مراد لیا جاتا ہے۔
اس طرزِ تربیت کے اصول میں یہ بات ضروری ہے کہ غلطی کرنے والا تعریض کلام کے وقت وہاں حاضر ہو لیکن اسے اس کے نام سے نہ پکارا جائے، اور نہ اس کی طرف اشارہ کیا جائے، کہ اسے پتہ چل جائے۔ یہ وہ اسلوبِ تعلیم ہے جسے مربیین، داعیان دین اور مؤدبین اس جگہ استعمال کرتے ہیں جہاں وضاحت سے بات کرنا ادب واحترام، وقار اور مروت سے گرجانے کے مترادف ہو یا جہاں دو ٹوک نصیحت کرنے سے ہیبت وحیا کی قبا چاک ہونے کا اندیشہ ہو۔ بے باکی وبد تمیزی جنم لیتی ہو یا تصریح کی وجہ سے عناد اور ضد بھڑک اٹھے۔ پس تعریض خوش نصیب روحوں، عقل مند ذہنوں اور بصیرت رکھنے والے افراد کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔
قرآن وسنت میں بالواسطہ اسلوبِ تعلیم
جب ہم قرآن کریم کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں تو ہمیں ایسی آیات ملتی ہیں جو بالواسطہ تعلیم اور تجویز کا طریقہ اختیار کرتی نظر آتی ہیں۔ جیسے بیوہ کو عدت کے دوران پیغامِ نکاح بھیجنے سے منع کرنے کے بعد اللہ تعالٰی فرماتا ہے: ” اور اس میں تمہارا کوئی گناہ نہیں ہے اگر تم ان عورتوں کو اشارةََ پیام نکاح دو یا دل میں چھپا کے رکھو” (بقرة: 235)۔ سعدی کہتا ہے: "تعریض” جس میں نکاح کی طرف اشارہ ہو وہ بائنہ عورت کے لیے جائز ہے، جیسے وہ اسے کہے: میں نکاح کرنا چاہتا ہوں، اور میں پسند کروں گا اگر تم عدت مکمل ہونے پر مجھ سے مشورہ کرو اور اس طرح کی بات جائز ہے، کیونکہ یہ بات مکمل واضح نہیں ہے۔ جب کہ انسانوں میں اس طرف (نکاح) قوی رغبت ہوتی ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کی اس آیت میں بھی تعریض پائی جاتی ہے، "جن لوگوں کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دی گئی تھی وہ اللہ کے رسول کا ساتھ نہ دینے اور گھر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور اُنہیں یہ گوارا نہ ہوا کہ اللہ اور رسول کی راہ میں جان ومال سے جہاد کریں انہوں نے لوگوں سے کہا کہ "اس سخت گرمی میں نہ نکلو” ان سے کہو کہ جہنم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے کاش انہیں اس کا شعور ہوتا” ( توبہ: 81)۔ تو اللہ تعالیٰ کی بات "ان سے کہو نارِ جہنم اس سے زیادہ گرم ہے” اس کا مقصد پیچھے رہ جانے والے منافقین کو یہ بتانا نہیں تھا کہ جہنم کی آگ موسم گرما سے زیادہ گرم ہے، جس میں رسول اللہ اور باقی ایمان والے جنگ تبوک کے لیے نکل گئے، بلکہ اس کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا تھا کہ یہ منافقین اہلِ دوزخ ہیں جو انہیں روز جزا کے دن اپنی گرمی سے جھلسا دے گا۔
اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے، "بلاشبہ ہم نے آپ سے اور آپ سے پہلے آنے والے لوگوں کو وحی کی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو آپ کے سارے اعمال اکارت جائیں گے اور آپ خسارہ زدہ لوگوں میں شامل ہوں گے ( زمر: 39)۔ حالانکہ یہ سیدھی بات ہے کہ جس رسول کو اللہ تعالیٰ لوگوں تک پیغام پہنچانے کے لیے منتخب کریں گے وہ اس بات سے مبرّا ہے کہ کسی چیز میں اللہ کا شریک ٹھہرائے۔ لیکن اللہ کا رسول اور آپ سے پہلے آنے والے رسولوں کو یہ بات کہنا، رسول اللہ کے لیے واضح الفاظ میں خطاب ہے، پر یہ ہر مومن اور اس کے پیروکار کے لیے ایک بالواسطہ نصیحت ہے کہ شرک سے اجتناب کریں، ایسا نہ ہو اس کے اعمال برباد ہو جائیں اور وہ گھاٹے میں رہ جائے۔
اللہ تعالیٰ کہتے ہیں: "ان رسولوں کو ہم نے ایک دوسرے پر فضیلت عطا کی ہے کوئی ان میں سے اللہ سے کلام کرتا ہے اور بعض کو بلند درجات عطا کیے ہیں اور عیسیٰ بن مریم کو واضح نشانیاں عطا کیں اور روح القدس کے ذریعے اس کی مدد کی (بقرہ: 253)، اور اللہ کی یہ بات "اور ان میں سے بعض کے درجات بلند کیے” اس میں اشارہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء کو تمام رسولوں پر فضیلت دی ہے، لیکن یہ بات واضح الفاظ میں نہیں بتائی گئی۔ اس میں دلیل دی گئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ تمام رسولوں اور انبیاء پر بڑھایا گیا ہے۔ مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی کہ تمام انبیاء کا ادب واحترام کیا جائے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت کو باقی امتوں پر فخر کرنے یا دھونس جمانے کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ ایسا کرنے سے پھوٹ پڑتی ہے اور یہ چیز دوسرے رسولوں کے پیروکاروں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے سے روکتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالواسطہ طریقے سے نصیحت کرنے کے لیے لفظی اسالیب کا سہارا لیتے تھے، جس میں تعریض بھی آتی ہے۔ ان میں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قول یوں ہے: "لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ ایسی شرائط مقرر کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں ہیں ہی نہیں ” ( مسلم) اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے بارے میں یہ بات معلوم ہوئی کہ وہ مسلسل روزے رکھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ مسلسل روزے رکھتے ہیں ؟ تم لوگ میری طرح نہیں ہو” ( مسلم )۔
مسلم نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ کچھ صحابہ نے امہات المومنین سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پوشیدہ اعمال کے متعلق دریافت کیا ؟ تو ان میں سے بعض نے کہا: ” ہم عورتوں سے شادی نہیں کریں گے، اوروں نے کہا: ہم کبھی گوشت نہیں کھائیں گے اور بعض نے کہا ہم کبھی بستر پر نہیں سوئیں گے، صرف اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کریں گے”۔ جب حضور صلعم کو یہ بات معلوم ہوئی آپ صلعم نے فرمایا: "لوگوں کو کیا ہوا ہے جو ایسا ایسا کہہ رہے ہیں؟ حالانکہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ہوں اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں اب جو ہماری سنت سے منہ موڑے گا وہ ہم میں سے نہیں ہے”۔
ابن عباس سے مروی ہے میں نے عائشہ بریرہ کو آزاد کرنے کے لیے خریدا۔ اس پر ان لوگوں نے اس کی سرپرستی کی شرط رکھی کہ وہ اپنے پاس رکھیں گے تو میں نے شرط مان لی۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے میں نے ان سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سرپرستی تو آزاد کرنے والے کا حق ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھ گئے اور فرمایا: "لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ ایسی شرائط مقرر کرتے ہیں جن کی کتاب اللہ میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ یہ روایت صحیح ابن حبان میں ہے اور بخاری کی روایت میں یہ ہے "جس نے ایسی شرط رکھ لی جس کی بنیاد کتاب اللہ میں نہیں ہے وہ شرط تسلیم نہیں کی جائے گی چاہے سو دفعہ شرط رکھی گئی ہو”۔
بخاری کی روایت ہے، انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ نماز میں اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں پھر اس پر زور دے کر فرمایا” لوگ اس سے باز آجائیں ورنہ ان کی آنکھیں نکالی جائیں گی”۔
ام المومنین عائشہ فرماتی ہیں: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی عمل کیا اور اس میں رخصت دی، تو لوگوں نے اسے ترک کیا جب یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب کیا، اللہ کی حمد وثناء کی پھر فرمایا: لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو انہوں نے اس کام کو ترک کر دیا جسے میں نے کیا ہے؟ پس مجھے اللہ کی قسم ہے میں ان سے زیادہ اللہ کو جانتا ہوں اور ان سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں” ( بخاری)
امام بغوی کی شرح سنت میں آیا ہے کہ سیدہ عائشہؓ نے فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی شخص کی کوئی بات پہنچتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہیں کہتے تھے کہ فلاں شخص کو کیا ہوا ہے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے”لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسی باتیں کررہے ہیں” اور بیہقی رحمہ شعب الایمان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہتے جس سے کسی شخص کو دکھ پہنچے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ "لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو ایسی باتیں کررہے ہیں”۔
غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے ابو حمید ساعدی رضہ کہتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے قبیلہ ازد کے ابن اللتبیہ نامی شخص کو عامل بنایا، پھر جب وہ واپس آیا تو کہنے لگا” یہ آپ کا اور یہ میرا ہے، یہ مجھے ہدیہ ملا ہے، اس نے کہا "آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کی اور فرمایا اس عامل کو کیا مسئلہ ہے جسے میں نے زکوٰۃ وصول کرنے بھیجا ہے؟ کہ وہ کہتا ہے یہ آپ کا ہے اور یہ مجھے ہدیہ کے طور پر عطا ہوا ہے۔ کیوں نہ وہ اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھ رہتا پھر دیکھتا اسے کون ہدیے بھیج دیتا ؟ قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے تم میں سے جو بھی شخص اس میں سے کوئی چیز ناجائز طریقے سے لے گا وہ قیامت کے دن اس کی گردن پر بوجھ ہوگا، اونٹ ہوا تو غرائے گا یا گائے رانبھے گی یا بھیڑ بکری ممیانے لگے گی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغلوں کی سفیدی دکھائی دی پھر فرمایا اے اللہ کیا میں نے پہنچا دیا ؟ دو بار دہرایا ” ( مسلم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام اور تابعین نے تربیت اور بات سمجھانے کے لیے بالواسطہ اسلوب سے استفادہ کیا، جس میں "لوگوں کو کیا ہوا ہے” جیسی گفتگو استعمال ہوتی ہے، اس کی مثال بیہقی نے شعب الایمان میں عبد الرحمن بن مطرف سے دی ہے کہتے ہیں: "جب حسن بن حی اپنے کسی بھائی کو نصیحت کرنا چاہتے تھے تو وہ کاغذ کی پرچیوں پر لکھ کر اسے بھیج دیتے”۔
ابراھیم بن ادہم سے پوچھا گیا: ایک شخص اگر دوسرے شخص کی کوئی غلطی دیکھے یا اسے معلوم ہو جائے ۔۔۔۔ کیا اسے اس کو بولنا چاہیے؟ اس نے جواب دیا "یہ تو الزام ہے، بلکہ اسے بالواسطہ طریقے سے کہنا چاہیے، ایسا اس لیے تاکہ انسانی نفس سے رکاوٹ دور ہو اور اس کے اندر خیر کے جذبات پیدا ہوں۔ خاص اس لیے کیونکہ "تعریض ” حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محفوظ سنت ہے جیسے بخاری نے ادب المفرد میں اور بیہقی نے صحیح سند سے روایت کی ہے: ” یقیناً تعریض کرنے سے جھوٹ سے بچا جا سکتا ہے”۔
تعلیمی فائدے
بالواسطہ اسلوبِ تعلیم کے ذریعے بچوں کے کردار کو بہتر بنانے میں بہت سے فائدے ہیں، ان میں درج ذیل شامل ہیں:
- بچوں کی نظر میں باپ کا مقام اونچا ہو جاتا ہے کیونکہ باپ صراحتاً بھی بتا سکتا ہے۔
- غلطی کرنے والے کے ساتھ معاملہ کرنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
- بچہ اپنے والدین اور استاد کی حیثیت پہچان لیتا ہے، چونکہ وہ بچے کی کمزوری سے واقف ہوتا ہے اور اسے بیان کرنے میں ہوشیار رہتا ہے، جو چیز بچے کے ذہن میں اس کی قیمت بڑھاتی ہے وہ اس کی تربیت کی صلاحیت ہے۔
- بچے کا اپنے والد اور استاد کی طرف احترام وقدر کی نظر سے دیکھنا، کیونکہ انہوں نے اسے پردہ پوشی کی ہے۔
- ذکاوت وذہانت بڑھتی ہے اور عقل تیز ہوتی ہے، کیونکہ اس طریقہ سے غلطی کرنے والا متنبہ ہوتا ہے اور غلطیوں کی تصحیح پر آمادہ ہوتا ہے۔
- بچے کو مطلوبہ طرزِ عمل سیکھنے میں مدد کرتا ہے جہاں بچے کو مختلف تجربات اور مسائل سے گذار کر اسے فیصلہ کرنے اور مشکلات کا حل تلاش کرنے پر ابھارا جاتا ہے۔
- یہ بچے کو زیادہ ذمہ دار اور با اختیار بنانے میں مدد کرتا ہے تاکہ وہ اپنے فیصلے خود کرسکے اس طرح کہ اسے اپنے کاموں کے نتائج کی ذمہ داری قبول کروایا جاتا ہے۔
- یہ بچے کو اپنے خوف اور رکاوٹوں پر قابو پانے کے لیے نئے اور مختلف حالات سے گذارتا ہے تاکہ وہ ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوسکے۔
بے شک بالواسطہ اسلوبِ تعلیم سے سیکھنے والوں پر کافی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس طریقہ تعلیم کو علماء نے مؤثر اسلوبِ تعلیم کا نام دیا ہے جو طلباء مرکز ہوتا ہے۔ یہ تعلیم ایسے مؤثر عناصر سے دی جاتی ہے جنہیں مطلوبہ شخص اپنے ذاتی نقطہِ نظر سے جذب کرتا ہے، پھر جاکر اس میں تبدیلی آتی ہے۔ اس سارے عمل میں سیکھنے والے کی عمر، چھوٹا ہے کہ بڑا، اس کی زندگی کے مختلف مراحل جن سے گذر کر وہ آیا ہے اور ان حالات واقعات کی رعایت جن کی وجہ سے وہ موجودہ حالت کو پہنچا ہے، سب چیزوں کو سمجھنا از حد ضروری ہے۔
مآخذ وحوالہ جات:
- ابنِ منظور: عربوں کی زبان 7/165
- راغب اصفہانی: قرآن مجید کے منفرد الفاظ
- ولید شرقاوی: تعلیمی تأدیب، ص94
- عبد الرحمن المیدانی: عربی زبان کی بلاغت ،2/155-156
- اسلام ویب: قرآن کریم میں بالواسطہ اسلوب