کام کو بحسن و خوبی انجام دینا مسلمانوں کے اخلاق میں سے ہے۔
اسلام کام کو بحسن و خوبی انجام دینے پر زور دیتا ہے کہ یہ اسے حلال رزق کمانے کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ سمجھتا ہے۔ یہ ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کی نگرانی محسوس کرنے اور کام کو مکمل اور بہترین طریقے سے انجام دینے کی ترغیب دیتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے با خبر کیا ہے کہ کام ایک عبادت ہے جس پر مسلمانوں کو اجر ملتا ہے۔ اگر وہ اسے بحسن و خوبی انجام دیں اور اپنی پوری طاقت، جو اللہ نے انہیں دی ہے، کے ساتھ خلوص نیت سے کام کریں۔ بلکہ ایک مسلمان کا اپنے کام کو بحسن و خوبی انجام دینا فرض ہے، چاہے وہ کام چھوٹا ہو یا بڑا، بہ شرطیہ کہ وہ صحیح کام ہو اور نیت اللہ تعالیٰ وحدہ کے لئے خالص ہو۔
مہارت کا مفہوم اور شریعت میں اس کا حکم:
مہارت کی تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ کام کو بغیر کسی نقص کے اس طرح انجام دینا کہ اس کے تمام تقاضے پورے ہوں اور اصولوں کی پابندی ہو اور بغیر کسی تاخیر کے اپنے مقررہ وقت پر پورا ہو۔ اسی چیز کو اسلام میں احسان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ اتقان فعل اتقن، یتقن کا مصدر ہے، جس کا مطلب کام کو صحیح طریقے سے اور اصولوں کے ساتھ انجام دینا ہے۔
اتقان کا مطلب یہ بھی ہے کہ کام کو بغیر کسی کمی کوتاہی کے انجام دینا۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی پابندی پر دین اسلام نے بہت زور دیا ہے۔ اور اس سے مراد مطلوبہ کام کو انجام دینا اور اسے بہترین اور مکمل طریقے سے انجام دینا ہے۔ یہ محنت سے ہوتا ہے جس میں انسان کو سستی سے دور رہنا چاہئے۔
کام کو بہتر طریقے سے کرنے کا شرعی حکم یہ ہے کہ یہ واجب ہے۔ لہذا کسی مسلمان کے لئے یہ جائز اور مناسب نہیں کہ وہ اپنے کام میں کوتاہی یا تاخیر کرے اور اسے مناسب طریقے سے انجام نہ دے۔ اس کی بہت ساری دلیلیں موجود ہیں، جس میں سے اللہ کا یہ فرمان ہے کہ "احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔” [البقرہ: 195]
قرآن و سنت کی روشنی میں مہارت:
قرآن و سنت میں بہت سی ایسی دلیلیں ہیں جن میں کام میں مہارت حاصل کرنے اور اسے بہتر طریقے سے انجام دینے کی ضرورت و اہمیت بیان ہوئی ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو مہارت سے بنایا اور تمام مخلوقات کو بہترین طریقے سے تخلیق کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ "جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی۔” [السجدہ: 7]۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہوگا جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا۔‘‘ [النمل: 88]
اللہ سبحانہ و تعالیٰ انسان سے چاہتا ہے کہ وہ اپنا کام بہتر طریقے سے کرے۔ اللہ فرماتا ہے کہ "اور اے نبیؐ! ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم عمل کرو، اللہ اور اس کا رسولؐ اور مومنین سب دیکھیں گے کہ تمہارا طرزعمل اب کیا رہتا ہے، پھر تم اس کی طرف پلٹائے جاؤ گے جو کھلے اور چھپے سب کو جانتا ہے اور وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔” [التوبہ: 105]
اس آیت میں کام میں مہارت حاصل کرنے پر ابھارنے کی دلیل ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہر انسان کو اس کے کاموں کے بارے میں بتائے گا جو اس نے کیے ہوں گے اور اس پر اسے کتنا اجر اور ثواب ملے گا۔
اللہ تعالیٰ نے کام میں مہارت حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ "احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔” [البقرہ: 195] اس احسان کا مطلب مہارت اور پختگی ہے۔ کسی کام کو اچھے طریقے سے کرنا، بہتر طریقے سے کرنا اور پختگی کے ساتھ کرنا، یہ بات ہمارے دین اسلام کی شریعت کے عظیم مقاصد میں سے ایک ہے۔ جو شخص بھی ذمہ داریوں، فرائض اور واجبات پر غور کرے گا، وہ ان تمام چیزوں کو ایک مضبوط بنیاد پر قائم پائے گا اور وہ بنیاد ہے وہی مہارت جو اہل ایمان کی خصوصیت ہے۔
متعدد احادیث میں مسلمانوں کو اپنے کام میں مہارت حاصل کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ "اگر کوئی بندہ اپنے مالک کے لئے مخلص ہو اور اچھی طرح اللہ کی عبادت کرے، تو اسے اس کا اجر دوگنا ملے گا” (صحیح ابو داؤد )۔ گویا مسلمان کا کسی کام کو صحیح طریقے سے انجام دینا ایک ایسی عبادت ہے جس سے اس کا ثواب دوگنا بڑھ جاتا ہے۔ یہ حدیث صرف عام لوگوں کے لئے نہیں ہے، بلکہ یہ تمام کاموں پر منطبق ہوتی ہے۔
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو، اور جب تم ذبح کرو تو اچھے سے ذبح کرو، ذبح کرنے سے پہلے چھری کو تیز کرو اور ذبیحہ کو آرام پہنچاؤ” (صحیح الترمذی)۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کام کو بحسن و خوبی انجام دینا ایک مطلوبہ عمل ہے، اگرچہ وہ جانوروں کے ذبح کرنے کا ہی عمل کیوں نہ ہو۔ تو گویا دوسرے کاموں میں مہارت حاصل کرنا اس سے زیادہ ضروری اور اہم ہے۔
عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تم سب ذمہ دار ہو اور تم میں سے ہر شخص سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا (مسلم)۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کام میں مہارت حاصل کرنا شرعی طور پر واجب ہے، چاہے کوئی بھی کام ہو۔ چنانچہ حکمراں اور بادشاہ پر واجب ہے کہ وہ اپنے کام میں ماہر ہو، باپ اپنے گھر میں اپنے خاندان کے سب لوگوں کی بہتر تربیت کا ذمہ دار ہے، اسی طرح بیوی اپنے شوہر کے مال و متاع کی ذمہ دار ہے اور اس پر اس امانت کی حفاظت کرنا واجب ہے جس کی ذمہ داری اسے دی گئی ہے۔ اسی طرح اپنے بچوں کی بہترین تربیت میں اسے مہارت حاصل ہونی چاہئے۔
عاصم بن کلیب اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ "میں اپنے والد کے ساتھ ایک جنازے میں تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے۔ میں ایک سوچ سمجھ والا لڑکا تھا۔ جب میت کو قبر میں لایا گیا تو وہ اس کے لئے مناسب نہیں تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے "اس کی قبر کو برابر کرو، یہاں تک کہ لوگ یہ سمجھنے لگے کہ یہ سنت ہے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اس قبر کو برابر کرنا، اس میت کو نہ تو کوئی فائدہ پہنچائے گی اور نہ ہی کوئی نقصان،
لیکن اللہ تعالی کو کام کرنے والے کی طرف سے یہ پسند ہے کہ وہ جب کوئی کام کرے تو اسے اچھے طریقے سے کرے۔ ایک حدیث میں یہ لفظ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ جب تم میں سے کوئی کچھ کام کرے تو اسے بہترین طریقے سے کرے۔ (البیھقی فی شعب الایمان)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کو اچھے طریقے سے کرنے کی تاکید کی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمرو سے روایت ہے کہ ایک سفر کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے، بعد میں جب وہ ہم سے آ ملے تو عصر کی نماز کا وقت آ پہنچا تھا، ہم وضو کرنے لگے اور اپنے پیروں پر مسح کرنے لگے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین بار بلند آواز میں کہا کہ "ایڑیوں کے لئے آگ کی ہلاکت ہے” (البخاری)۔
جو شخص نماز اچھے سے نہ پڑھے اور اس کے تمام ارکان پورے نہ کرے، تو یہ منافق کی نماز ہے، جو اس کے منہ پر مار دی جائے گی۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مسجد میں داخل ہوئے اور ان کے ساتھ ایک اور آدمی داخل ہوا اور نماز پڑھی اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اور کہا کہ واپس جاؤ اور نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ گیا اور ایسے ہی نماز پڑھی جیسے پہلے پڑھی تھی، پھر آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا، جاؤ اور نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہی کہا تو اس آدمی نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا، آپ مجھے سکھائیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو تکبیر کہو، اس کے بعد قرآن میں سے جو یاد ہو وہ پڑھو، پھر رکوع کرو یہاں تک کہ رکوع کی حالت میں تمہیں اطمینان ہو جائے، پھر کھڑے ہو جاؤ یہاں تک کہ تم بالکل سیدھا کھڑے ہو جاؤ، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدے کی حالت میں تمہیں اطمینان ہو جائے، پھر اٹھو یہاں تک کہ تمہیں بیٹھے ہوئے اطمینان ہو جائے، اور ایسا ہی اپنی پوری نماز میں کرو (البخاری)۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عظیم صحابی عمروؓ ابن العاص کوسریہ ذات سلاسل میں ایک دستے کی کمان سونپی اور بڑے بڑے صحابہ کرام کو ان کی کمان میں رکھا جو ان سے پہلے دائرہ اسلام میں آئے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام اس لئے نہیں کیا کہ آپ یہ دیکھ رہے تھے کہ عمروؓ ابن العاص ان میں دین اور شریعت کے علوم میں بڑے ہیں۔ بلکہ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے جنگی معاملات، قتل و قتال اور لڑائی کے فن میں ماہر سمجھتے تھے۔ یہ وہی صحابی ہیں جن کو اسلام قبول کئے ہوئے ابھی پانچ مہینے سے زیادہ کا عرصہ نہیں ہوا تھا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت کے ساتھ کہا کہ "میں نے اسے اس لئے امارت سونپی کیونکہ وہ جنگی معاملات میں ان سب سے ماہر تھا”۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہارت اور عسکری منصوبہ بندی کی انتہا اس وقت عیاں ہوئی، جب آپؐ نے اپنے معزز صحابہ کے ساتھ ایک خندق کھودی کہ وہ عرب قبائل پر مشتمل بڑی فوج جن کے پاس بڑے بڑے لیڈر، بہادر گھڑ سوارتھے، اس خندق میں کوئی نقص یا کمی نہیں تلاش کر سکے۔
کام کو بہتر کرنے کے طریقے:
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی تخلیق کی مہارت، بہتری اور پختگی کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا ہے اور کافروں کی گمراہی اور اختلافات پر ماتم کیا۔ جب شریعت نے مومنوں کو کام میں مہارت پیدا کرنے اور اسے بحسن و خوبی انجام دینے کی تاکید کی، تو واجبات کی ادائگی اور ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے پورا کرنے کے کچھ ضروری تقاضے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
کام میں مہارت کی اہمیت کو سمجھنا: جو شخص علم کی اہمیت کو نہیں سمجھتا اور جہالت کو دور نہیں کرتا، وہ پورے طریقے سے کسی کام کو نہیں سیکھتا ہے۔ اور جو شخص اپنی صحت کی حفاظت کی اہمیت نہیں سمجھتا، وہ اس پہلو کی طرف مناسب توجہ نہیں دے گا۔ اسی طرح جو شخص کام میں مہارت اور بہتری کی اہمیت نہیں جانتا، تو اس میں مناسب محنت اور وقت نہیں لگائے گا۔ اس کے کام بے ترتیب، بے کار ہوں گے اور مطلوبہ نتائج نہیں لا سکتے۔
ترتیب، تنظیم اور نظم و ضبط: یہ بہت اہم کام ہیں ،خاص طور پر اس وقت جب کسی کام کے دائرہ کار میں فرد کے بجائے ایک گروہ یا معاشرہ یا قوم یا ملک شامل ہو۔ اس کی شرعی دلیل اسراء اور معراج کے واقعے میں ہے۔ اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "جبرئیل علیہ السلام مجھے لے کر گئے یہاں تک کہ قریب کا آسمان آ گیا، تو انہوں نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا، تو پوچھا گیا کون؟ کہا جبرئیل، پھر پوچھا گیا، ساتھ میں کون ہے؟ تو کہا محمد، پھر پوچھا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ تو کہا، ہاں، پھر کہا آپ کا استقبال ہے، کیا ہی بہترین آمد ہے۔
رول اور خصوصیتیں تقسیم کرنا: ہر شخص وہی کام کرتا ہے جو اسے دیا گیا ہے۔ اس لئے مناسب آدمی کو مناسب جگہ رکھنا چاہئے اور اس سے معاملات بے ڈھنگ نہیں ہوتے، بلکہ ضروری ہے کہ سب کے کام متعین کئے جائیں اور ذمہ داریاں تقسیم کی جائیں، تاکہ کوششیں ضائع نہ ہوں اور کام بڑھتے نہ جائیں، جس پر اللہ تعالی کا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ "اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے”۔ [النحل: 43]۔ ہر شخص کے لئے وہی کام ہو جسے وہ اچھے سے کرے، چاہے وہ دینی معاملات سے متعلق ہو یا دنیاوی۔ اسی طریقے سے ابتدائی دور کے مسلمان مختلف میدانوں میں آگے نکلے تھے۔
دور اندیشی اور باخبری، کہ معاملات کا انجام کیا ہوگا: اس مسئلے کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی احادیث میں توجہ دلائی ہے۔ جیسے کہ اس دن جب حضرت خباب رضی اللہ عنہ ان کے سامنے مسلمانوں کی شکایت لے کر آئے تھے کہ کفار قریش کے ہاتھوں مسلمان کتنی سختیاں اور پریشانیاں جھیلتے ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صرف صبر کی تلقین کرنے پر اکتفا نہیں کیا جیسا کہ اس سے پہلے مومنین کیا کرتے تھے، بلکہ ایک دور کی چیز کی طرف توجہ مبذول کرائی اور کہا "خدا کی قسم وہ اس معاملے کو ختم کرے گا یہاں تک کہ سوار صنعاء سے حضرموت تک کا سفر کرے گا، سوائے خدا کے اور کسی سے نہیں ڈرے گا اور بھیڑیا اس کی بکریوں کی رکھوالی کرے گا، لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو” (البخاری)۔
طاقت اور کمزوری کے پہلوؤں کی شناخت: انسان کے پاس چاہے کتنی ہی مہارت اور صلاحیت کیوں نہ ہو، کام کو ہمیشہ گزشتہ کے مقابلے میں آج بہتر کرنے کا امکان موجود رہتا ہے، اپنے آپ کی اور اپنی صلاحیتوں کی نگرانی کر کے، طاقتوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کر کے، کام کو انجام دینے کے دوسرے طریقے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کا بہترین ورژن بنتا ہے۔ یہ چیز کام کو بہتر طریقے سے انجام دینے میں مدد کرتی ہےاور پروفیشنل ترقی کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔
مقاصد کا تعین: واضح مقاصد کی عدم موجودگی میں لوگوں پر جلدی بازی سوار ہو جاتی ہے۔ اسی لئے کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے مقاصد کے بارے میں اچھے سے حقیت پسندانہ طریقے سے سوچنا اور غور و فکر کرنا چاہئے۔
متحرک روابط: یہ کام کے نتائج کو بہتر بنانے کے مقصد سے نئے طریقوں کو سیکھنے میں مدد کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
خلل اندازی سے دور رہنا: کام کی جگہ خلل پیدا کرنے والی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں۔ مقابلہ کرنے اور مہارت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان چیزوں کی نشاندہی کی جائے جو کام میں رکاوٹ اور عدم توجہی کا سبب بنتی ہیں، نیز ان سے دور رہنے کے لئے بہت زیادہ وقت ضائع کرتی ہیں۔
حدیں متعین کرنا: کام کو بہتر طریقے سے انجام دینے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کو اپنے کام کی حدیں معلوم ہوں۔ اس سے وہ کبھی بری عادتوں کا شکار نہیں ہوتا ہے۔ جیسے ملٹی ٹاسکنگ یا تاخیر یا ایسی عادات جو اکثر کچھ لوگوں کے لئے دوستوں کے ثانوی کام انجام دینے کی کوشش کے نتیجے میں ہوتی ہیں۔
تیاری اور منصوبہ بندی: کوئی بھی ایسا کام جس سے مستقبل قریب یا بعید میں کسی موجود حقیقی چیز کو بدلنا ہو، چاہے یہ تبدیلی مقدار میں ہو یا معیار میں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ موجود صلاحیتوں اور مواقع کا مطالعہ کیا جائے، منصوبے تیار کئے جائیں اور ان ذرائع کا تعین کیا جائے جن سے مطلوبہ چیز کو حاصل کرنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ جہاں تک کام کو جلدی ختم کرنے یا کسی شخص کے لئے بغیر سوچے سمجھے منصوبے کے دن بہ دن کام کرنا۔ اگر یہ چیز اس کے اور جو وہ سوچتا ہے اس کے بیچ نہ آئے تو اکثر راستہ طویل ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے "اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لئے مہیا رکھو”۔ [الانفال: 60]
بلند ہمتی اور بے بسی کی عدم موجودگی: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مخالف ہونے سے پناہ مانگتے تھے اور فرماتے تھے کہ "اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں فکر وغم سے، بے بسی اور کاہلی سے (البخاری)۔ قران کریم نے ہمارے لئے بیان کیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے حوصلے کے روشنی نہ ہونے کی وجہ کیا تھی اور یہ بات اس آیت کریمہ میں ہے "ہم نے اس سے پہلے آدم کو ایک حکم دیا تھا، مگر وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں عزم نہ پایا ” [طہٰ: 115]۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جنت سے نکالے گئے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ "یہاں تو تمہیں یہ آسائشیں حاصل ہیں کہ نہ بھوکے ننگے رہتے ہو۔ نہ پیاس اور دھوپ تمہیں ستاتی ہے” [طہٰ: 118-119]۔
صبرکرنا اور جلد بازی سے پرہیزکرنا: اللہ تعالیٰ نے اس بات کی طرف اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی فرمائی ہے، اس آیت میں "دیکھو قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک کہ تمہاری طرف اس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے” [طہٰ: 114]۔ ابن کثیر رحمتہ علیہ کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرئیل وحی لے کر آتے تھے، تو جب بھی جبرئیل کوئی آیت پڑھتے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ ہی پڑھتے تھے، تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جلدی سے یاد ہو جائے۔ تو اللہ تعالی نے سہولت اور آسانی کی طرف رہنمائی فرمائی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی مشقت نہ ہو۔ بلکہ یہ کہا خاموش رہو، جب فرشتہ پڑھ لے اس کے بعد تم پڑھو۔
بے شک مسلمان کا اپنے کام میں مہارت حاصل کرنا شرعی اور اخلاقی طور پر واجب ہے۔ اس کے بہت سے اثرات ہیں جن میں سے سب سے نمایاں وہ اجر اور ثواب ہے جو اللہ تعالیٰ نے آخرت میں تیار کر رکھا ہے، اس شخص کے لئے جس نے دنیا میں اپنے کام کو بحسن و خوبی انجام دیا۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کو دنیا توفیق اور کامیابی سے نوازتا ہے اور معاشرے میں کامیابی کو فروغ ملتا ہے، پیداوار کی شرح اور معیار کو بڑھاتا ہے اور نیکی و بھلائی کو پھیلاتا ہے۔
حوالہ جات:
1۔ عبد الحق ہمیش : اتقان العمل فی السلام
2۔ محمد شودب: اتقان العمل فی ضوء القرآن و السنہ
3۔ ابراہیم عبد المعطی: اتقان العمل ۔۔صفۃ یحبھا اللہ
4۔ عبد اللہ البصری : اتقان العمل
5۔ ناصر العمر :عوامل اتقان العمل
6۔ فاطمہ باخشوین :طرق مساعدہ فی اتقان العمل