نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے مشن کا آغاز نبوت کے تیرہویں سال صفر کے مہینے کی ستائیسویں تاریخ کو ہوا، یعنی بمطابق 622ء کے نویں مہینے (ستمبر) کی تیرہویں تاریخ کو۔ یہ ایک نہایت تاریک دور اور ایک ہولناک منظر تھا، جو اس انوکھے واقعے سے پہلے پیش آیا جس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا اور جس کی وساطت سے خدائے بزرگ و برتر نے اپنے نبی اور ان کے ساتھیوں کو انعام و اکرام سے نوازا جو 13 سال سے زائد عرصے سے باطل کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہے۔
بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد جب مکہ میں مسلمانوں کے لیے مصیبتیں شدید ہوئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی اور انہیں اپنے انصاری بھائیوں میں شامل ہونے کا حکم دیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن مکہ میں رہتے ہوئے فرمایا: مجھے تمہاری ہجرت کی جگہ دکھائی گئی ہے، میں نے دو درختوں کے درمیان کھجور کے درختوں کے ساتھ ایک دلدل دیکھی ہے۔ ہجرت مسلمانوں پر لگاتار واجب رہی اور اس سلسلے میں بہت سی آیات نازل ہوئیں، یہاں تک کہ سنہ 8 ہجری میں فتح مکہ ہوا۔
ہجرت نبوی کی عظمت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت ایک عظیم تاریخی واقعہ تھا اور یہ دعوت اسلامی کے دو اہم مراحل یعنی مرحلۂ مکہ اور مرحلۂ مدینہ کے درمیان ایک فاصل ہے۔ درحقیقت اس سفر میں ہونے والے واقعات کی عظمت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ جو کچھ اس میں پیش آیا، اور وہ جگہ جہاں یہ واقعات پیش آئے اس کی عظمت بھی ظاہر ہے۔ پھر وہ عظیم ہستی کہ جس ذات کے ساتھ یہ ساری چیزیں وابستہ ہیں وہ اللہ کے رسول ہیں جو خدا کی مخلوق میں سب سے زیادہ معزز اور عظیم ہیں۔
چنانچہ اس سفر نے تاریخ کا دھارا بدل دیا جو کہ اپنے اندر ایثار و رفاقت، صبر و فتح، توکل اور بھائی چارے کے معانی لیے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے فتح و جلال کا راستہ بنایا، اسلام کا جھنڈا اس کی برکت سے بلند کیا اور اپنی ریاست قائم کی۔ اس مبارک سفر کی عظمت یہ تھی کہ اس نے مسلمانوں پر عظیم اثرات چھوڑے، نہ صرف عہد نبوی میں، بلکہ ہر آنے والے دور پر اس کے نمایاں آثار پڑے۔ اس کے اثرات میں عام انسانیت بھی شامل ہے، کیونکہ اس کے بعد جو اسلامی تہذیب وجود میں آئی ہے اس نے دنیائے انسانیت کو اعلیٰ ترین اخلاقی اور قانونی ضابطے فراہم کئے، جو کہ فرد، خاندان اور معاشرے کی اجتماعی زندگی کو منظم کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کے آثار کو زمان و مکان کے ساتھ قید نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ ان کی زندگی ایک بہترین نمونہ اور ایک رول ماڈل ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔ ” در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے ‘‘ (الاحزاب: 21)۔
ہجرت نبوی کا سفرنامہ
قریش یہ نہیں جانتے تھے کہ خدائے بزرگ و برتر نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دے دی تھی کہ آپ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت شروع کر دیں۔ یہ لوگ تدبیریں کر رہے تھے اور اپنی چالیں چل ہی رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے چودھویں سال صفر کے مہینے کی ستائیسویں رات کو ہی بھیس بدل کر اپنے گھر سے نکلے اور دوپہر کے وقت معمول سے ہٹ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے۔ انہیں مکہ چھوڑنے اور اللہ کی طرف سے ہجرت کا حکم ملنے سے آگاہ کیا۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خدشہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف ختم ہو جائے گا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے کی اجازت چاہی تو آپ نے اجازت دے دی، آپ رضی اللہ عنہ نے ہجرت کے سفر کی خاطر دو اونٹ تیار کر رکھے تھے۔ انہوں نے بنو الدیل کے ایک مشرک شخص عبداللہ بن أریقط کو کام پر رکھا تھا جو کہ راستوں کا ماہر تھا اور اسے دو اونٹ ان کی دیکھ بھال کے لیے دیے اور وہ تین دن کے بعد غار ثور میں ملاقات پر راضی ہوگئے۔
اسی دوران عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا اور ان کی بہن اسماء رضی اللہ عنھما نے ساز وسامان تیار کیا، اور اسماء نے اس میں کھانا ڈالنے کے لئے اپنے حصے کو آدھا کاٹ دیا، اور اس دن سے اسے "ذات النطاقین” کا نام دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ سفر نہ کریں، تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگوں کی جو امانتیں ہیں وہ انہیں لوٹائی جائیں اور انہیں حکم دیا کہ وہ ان کی چادر اوڑھ کر رات بھر ان کے بستر پر سو جائیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پچھلے دروازے سے نکلے، تاکہ وہ فجر سے پہلے مکہ سے روانہ ہوسکیں۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ جس راستے کی طرف وہ متوجہ ہیں وہ مدینہ کا مرکزی راستہ ہے جو کہ شمال کی طرف جاتا ہے، تو آپ نے مخالف راستے کو اختیار کیا جو مکہ کے جنوب میں واقع تھا اور یمن کی جانب جا رہا تھا، یہاں تک کہ آپ ایک پہاڑ پر پہنچے جسے "ثور” کہا جاتا ہے۔
مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی کے قدموں کے نشانات کا پیچھا کرنے نکلے، وہ مسلسل راستوں کی نگرانی کرتے رہے اور مکہ کی پہاڑیوں میں انہیں تلاشتے رہے، یہاں تک کہ وہ غار ثور تک پہنچے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی نے مشرکین کے قدموں کے نشانات دیکھے اور ان کی باتیں تک سنیں۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جب کہ ہم غار میں تھے: اگر ان میں سے کوئی اپنے پیروں کے نیچے جھانکے گا تو ہم انہیں نظر آجائیں گے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! ان دو لوگوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہو؟ (بخاری)
اس دوران عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے زبردست ذہانت کا مظاہرہ کرکے اہم کردار ادا کیا- وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس روزانہ چلے جاتے اور انہیں مکہ کے حالات اور قریش کی سرگرمیوں سے آگاہ کرتے۔ وہ رات کے شروع میں ان کے پاس تشریف لے جاتے، ساری رات ان کے پاس قیام کرکے طلوع فجر سے پہلے پہلے مکہ واپس پہنچ جاتے۔ پھر دن کے اوقات میں لوگوں کے سامنے آجاتے تاکہ کوئی ان کی غیر موجودگی کی وجہ سے شک میں مبتلا نہ ہو جائے کہ وہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی کے پاس گئے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طے شدہ منصوبے کے تحت غار ثور میں تین دن قیام فرمایا، اور عبداللہ بن ابی بکر، عامر بن فہیرہ اور اسماء بنت ابی بکر باری باری روانہ ہوئے، یہاں تک کہ مدینہ کی طرف روانہ ہونے کا وقت آیا تو عبداللہ بن أریقط دو اونٹنیوں کے ساتھ تشریف لے آئے اور تیسری اونٹنی پر وہ خود سوار تھے۔ عامر بن فہیرہ بھی ان کے ہمراہ تھے تاکہ وہ مدینہ تک ان کے ساتھ سفر کریں۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے 14ویں سال کی پہلی ربیع الاول کی رات غار ثور سے نکل کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے، جہاں یہ سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔
امام حسن البناء شہید کے ہاں ہجرت کا مفہوم
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا دن مسلمان ہر سال مناتے ہیں اس کی یاد تازہ کرتے ہیں اور اس کی راتوں کو بیدار رہتے ہیں۔ امام حسن البنا اسی کے متمنی تھے جنہوں نے اپنے آپ کو وعظ و تبلیغ، اخبارات میں مضامین یا مساجد میں لیکچرز کے ذریعے لوگوں کو نصیحت کرنے تک محدود نہیں رکھا، بلکہ عملی تقریبات کا انعقاد کیا اور روزے اور ذکر کے ذریعے اسلام کی اصل روح سے لوگوں کو آگاہ کیا، اور ان مراسم اور تقریبات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ان کی اہمیت کو اجاگر کیا، جن کے بارے میں بعض صوفیہ کا خیال ہے کہ اس روح کو ناچ گانے سے ہی زندہ کیا جاسکتا ہے۔
امام البنا فرماتے ہیں: اخوان المسلمین کا مقصد عالم اسلام کو زندہ کرنا اور اس کی نشاۃ ثانیہ کو صحیح اسلامی اصولوں پر استوار کرنا ہے تاکہ ملت اسلامیہ کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام پہلو اسلام کے صحیح اصولوں کے مطابق حل ہو جائیں۔
اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اخوان المسلمین تعلیم و تربیت اور ثقافت پر انحصار کرتی ہے۔ تعلیم و تربیت سے مراد اپنے ارکان کو اسلام کی تعلیمات اور امر و نواہی پر عمل کرنے کا پابند بنانا ہے، اور ثقافت سے مراد درس گاہوں، اسکولوں کا پھیلاؤ ہے: یعنی صباحی و مسائی کلاسز، دروس، لیکچرز اور قرآن مقدس کو حفظ کرنے کی کلاسز وغیرہ۔
امام البنا کو رسولؐ اور صحابہؓ کی ہجرت کے اسباق نے کافی حد تک متاثر کیا تھا کہ کس طرح نوجوانوں اور نسلوں کو اپنے آپ کو جوابدہ بنانے کے لیے تیار کیا جائے۔ وہ وقت ضائع نہ کرتے، نئے سال پر، وہ اپنے آپ کو جوابدہ بناتے۔ جو گزر چکا اس کے لیے استغفار کرتے اور جو کچھ باقی ہے اس کے لیے اپنے عزم کی تجدید کرتے اور مستقبل کے بارے میں پُرامید رہتے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: آج مسلمان ایک ایسے سال کو الوداع کہتے ہیں جو یہ جانے بغیر کہ خدا اس کا کیا فیصلہ کرے گا، اور وہ ایک نئے سال کا استقبال کرتے ہیں جس میں وہ نہیں جانتے کہ خدا کیا کرے گا، ماضی کے درد اور مستقبل کی امیدوں کے درمیان۔ وہ عبرت اور ذکر کیلئے ایک لمحے کیلئے رک گئے۔
ہجرت نے امام البنا کی سوچ کو مکمل طور پر متاثر کیا تھا، اس لیے انھوں نے اسے روح کی زندگی اور نصب العین کی پاکیزگی کے لیے ضروری قرار دیا، وہ فرماتے ہیں: میں نے نئے سال کے آغاز پر کھڑے ایک بندے سے پوچھا: مجھے اس نامعلوم ظلمت کو روشن کرنے کے لیے روشنی دو، کیونکہ میں الجھن میں ہوں۔ اس نے مجھ سے کہا: اپنا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں دو، وہ تمہیں سیدھی راہ دکھائے گا۔
اے پریشان اور تھکے ہوئے لوگو! جن کی منزل غیر یقینی ہے، کہ جنہوں نے صراط مستقیم کو چھوڑ کر گمراہی اختیار کی ہے، علیم و خبیر رب کے اعلان کا جواب دو!: { اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ } [الزمر: 53]، اور اس کے بعد روح کے کراہنے، نیکی اور اجر عظیم اور ضمیر کے سکون کا انتظار کرو۔
ہجرت اور قوانین خداوندی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت بہت سے قوانین خداوندی سے عبارت تھی، ارشادِ خداوندی ہے: (پس ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے، انہیں اب کچھ نہیں سوجھتا) [یٰسین: 9]، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کے چنگل سے نکل گئے اور ایک شخص جو ان مشرکین میں سے نہ تھا ان کے پاس آگیا اور بولا: "تم یہاں کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟” انہوں نے کہا: محمد، اس نے کہا: خدا تمہیں مایوس کرے، خدا کی قسم محمد تمہارے درمیان سے نکل گیا ہے۔ اس طرح کہ اس نے تمہارے درمیان ایک آدمی بھی نہ چھوڑا إلا یہ اس نے اپنے سر پر مٹی ڈال دی اور پھر اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے چلا گیا۔
اور جو لوگ بھٹکا دیے گئے تھے ان کی امید مایوسی میں بدل گئی اور اس موقع پر ان کے درمیان ایک بھی ایسا ناصح نہ تھا جو انہیں سمجھاتا کہ اللہ کے رسول کو پکڑ لینا ان کے اختیار کے باہر ہے۔ ان کے تمام منصوبوں کے برعکس اللہ اپنے رسول کا پشتیبان تھا، لیکن (دراصل اِن لوگوں کے دلوں پر اِن کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے) [المطفین: 14]۔ ایک اور جگہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں: (وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب کہ منکرینِ حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کر دیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کر دیں وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے) [الأنفال: 30]۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (یا وہ کہتے ہیں کہ یہ شخص شاعر ہے جس کے حق میں گردشِ ایام انتظار کر رہے ہیں؟) [الطور: 30]، اور یہ بھی فرمایا: (تم نے اگر نبیؐ کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں، اللہ اُس کی مدد اس وقت کر چکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنی ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ "غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے” اُس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکون قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کر دیا اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے، اللہ زبردست اور دانا و بینا ہے ) [التوبۃ: 40]۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: میں غار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، جب میں نے اپنا سر اٹھایا اور دیکھا کہ میں غار میں دشمن کے پاؤں کے بالکل سیدھ میں کھڑا ہوں۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کوئی اگر اپنے پاؤں کی طرف دیکھ لے تو ہم اسے نظر آجائیں گے، تو فرمایا: اے ابوبکر خاموش رہو، ہم دو کے ساتھ تیسرا اللہ ہے۔ (رواہ البخاری)
اس کے علاوہ، سراقہ کی کہانی میں، جب کہ ہر بار اس کا گھوڑا زمین میں دھنسا جارہا ہے جب وہ رسول اللہ کو گرفتار کرنے کیلئے آگے بڑھ رہا تھا، جو کہ اللہ کے وعدے کی تکمیل کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ لوگوں کے درمیان ایک نبی کی عصمت کا وعدہ۔
مدینہ کی طرف ہجرت کے حوالے سے خدا کی سنتوں میں سے ایک سنت یہ تھی کہ صحابہ کو جس ابتلاء و آزمائش سے مکہ میں مشرکین کے ہاتھوں گزرنا پڑا ان سے انہیں نجات ملتی۔ لیکن اب ہجرت بھی بذاتِ خود ایک بہت بڑی آزمائش تھی کہ اپنے وطن اور رشتے داروں سے دوری کا غم تھا۔ لیکن انہیں اس بات کا اطمینان ضرور تھا کہ انہوں نے اپنا وطن اللہ کے دین کے احکامات کو مدینہ کے اندر نافذ کرنا ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے دلوں سے مکہ چھوڑنے کے غم کا بوجھ ہلکا کر دیا اور فرمایا: اے اللہ! ہمارے دل میں مدینہ کی ایسی ہی محبت پیدا کر دے جیسی تو نے مکہ کی محبت ہمارے دل میں پیدا کی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور اس کے بخار کو جحفہ میں منتقل کر دے، اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مد اور صاع میں برکت عطا فرما۔” (رواہ البخاری)۔
فتح و نصرت مشکلات و مصائب کو برداشت کرکے نصیب ہوتی ہے اور روشنی ظلمت کی کوکھ سے پھوٹتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مسلمانوں کی مدد کی، اور چھ آدمیوں کے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دی، جن کا قوم میں کوئی وزن نہیں تھا، چنانچہ انہوں نے اس پیغام کو خوب پھیلایا انہوں نے مومنین کے دلوں میں امید کی کرن پیدا کی۔
ہجرت کے اس عظیم واقعہ سے سماج کی انفرادی اور اجتماعی اصلاح کے حوالے سے سنت اللہ کی اسکیم ظاہر و باہر ہوگئی، اس کی برکت سے ایک انسانی اسلامی فلاحی ریاست کی بنیاد پڑ گئی، جہاں لوگ بھائی چارے، آپسی تعاون اور محبت کے ساتھ رہتے تھے۔ یہ دعوت ایسے رجالِ عظیم پیدا کرنے میں کامیاب ہوئی جن کی پرورش نبوی مدرسے میں ہوئی اور جو عالم انسانیت کے لئے مشعلِ راہ بن گئے۔
یروشلم امنٹی انٹرنیشنل فورم کے صدر عامر وہاب کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے مدینہ بُراق کے ذریعے پہنچا سکتا تھا، تاکہ وہ سفر میں تھک نہ جائیں۔ لیکن اس نے اپنے نبی کو زمینی حقائق کا سامنا کرنے اور پھر ان حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے بھیجا تاکہ وہ عالم انسانیت بالخصوص مسلمانوں کے لئے ایک رول ماڈل بنیں۔
حوالہ جات:
ابن عبد البر: الدرر في اختصار المغازي والسير، 1/18.
البغوي: شرح السنة، حديث 13503.
ابن هشام: سيرة ابن هشام، 2/354.
ابن كثير: البداية والنهاية، 2 / 184و185.
الطبري: تاريخ الطبري، 1/586.
ابن أبي شيبة: المصنف، 7/346.
صحيح البخاري، كتاب المناقب، حديث 3906.
من معين الهجرة النبوية.
هجرة الرسول ووضع الخطة