سوال:
حالیہ برسوں میں ہمارے عرب ممالک میں جو بڑے واقعات رونما ہوئے، اُن کے بعد میں شدید اضطراب سے دوچار ہوا، کیونکہ میں کچھ ایسے افراد کو جانتا ہوں جو خیر کے محب ہیں، قرآن حفظ کیے ہوئے ہیں، مگر اس کے باوجود وہ ظالم حکمران کی حمایت کرتے ہیں۔ اب میرا ان کے ساتھ میل جول اچھا نہیں رہا۔ سوال یہ ہے: کیا خیر کے اعمال اور ظالم کی پشت پناہی ایک ہی دل میں جمع ہوسکتے ہیں؟
جواب:
محترم سائل …
یہ اضطراب بالکل فطری ہے، خصوصاً جب پہلی بار ہماری دنیا ایسے حالات کی زد میں آئی تو ابتدا میں صفوں کی حد بندی سب سے زیادہ واضح ہوتی ہے، اور حالات کی شدت کے مطابق لوگوں کے مؤقف بھی دو ٹوک ظاہر ہوتے ہیں — یعنی یا تو ساتھ ہیں یا مخالفت میں، درمیانی راستے باقی نہیں رہتے۔
چنانچہ اس دور میں اُن بہت سے لوگوں کے نقاب اتر گئے جنہیں پہلے خیر پر گمان کیا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ بعض والدین اپنی اولاد سے الگ ہوگئے کیونکہ وہ مخالف صف میں کھڑے ہوئے۔ یوں گھروں میں شدید زلزلہ برپا ہوا۔
وقت کے ساتھ حقائق کھلنے لگے، نگاہیں صاف ہونے لگیں، جذبات کی تندی کچھ کم ہوئی اور عقل کی آواز واپس آئی۔ لوگ سمجھنے لگے کہ دنیا کی فطرت میں کبھی خیر و شر کا اختلاط بھی ہوتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض لوگ، جن کے بارے میں گمانِ خیر تھا، وہ ظالمین کے سائے میں جینے لگتے ہیں۔ یوں لوگ اختلافات کے ساتھ بھی جینا سیکھ لیتے ہیں، مگر احتیاط بھی رکھتے ہیں۔
ہاں، ہم نے دیکھا کہ اربابِ مساجد، خطباء اور خیر کے محب افراد — ہمارے بعض اقرباء تک بھی —ظالمین کے حامی اور مؤید بن گئے۔ ان کے قلوب میں یہ ضدین جمع ہو گئیں۔ یہ فعل ان کے درست ہونے کی دلیل نہیں، بلکہ حقیقتاً بعض ایسے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی۔ خصوصاً علماء میں سے وہ لوگ جو جانتے تھے کہ وہ خطا پر ہیں، مگر پھر بھی حکام کے ترجمان بنے۔ ان کے متعلق سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، جیسے وہ حدیث جس میں کہا گیا ہے کہ قیامت کے دن جن لوگوں سے جہنم بھڑکائی جائے گی ان میں عالم بھی ہوگا — وہ عالم جو نصوص کو حُکّام کے مطابق موڑ دے تاکہ اپنی معیشت اور آزادی بچائے۔ بئس المعیشۃ وبئست الحریۃ!
کچھ نے خاموشی اپنائی۔ ہوسکتا ہے یہ اُن سے بہتر ہوں جنہوں نے قرآن کی آیات کو حُکّام کی آراء کے مطابق تاویل کر ڈالی۔ بعض ان کے لیے عذر لاتے ہیں کہ وہ خوف کی وجہ سے رخصت اختیار کر رہے ہیں۔ ہم کہتے ہیں: علماء کا رخصت اختیار کرنا روا نہیں۔ آیت:( إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ ) عامۃ الناس کے حق میں درست ہے، مگر علماء کا کلام اثرانگیز ہوتا ہے اور ان کے متبعین ہوتے ہیں، یوں وہ ان کی گمراہی کا سبب بن جاتے ہیں۔
دل پر مہر لگنے والی تین اقسام:
تاکہ ہم اس دھوکے میں نہ آئیں، ہمیں سمجھنا ہوگا کہ وہ اسباب کیا ہیں جن کے باعث اللہ تعالیٰ دلوں پر مہر کردیتا ہے اور انہیں حق و باطل کے درمیان تمیز سے محروم کر دیتا ہے۔ یہ لوگ تین طبقات میں تقسیم ہوتے ہیں:
- نفسِ معتدیہ
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: كَذَٰلِكَ نَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْمُعْتَدِينَ [یونس:74]۔ جو شخص خواہشِ نفس کا پیرو، معاند اور حق کا مذاق اُڑانے والا ہو، اللہ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ یہ اُس کے اس اصرار کی جزا ہے کہ وہ راہِ حق کو جانتے ہوئے بھی باطل سے چمٹے رہتا ہے۔
- اہلِ جہل
وہ لوگ جو قصداً علمِ حق حاصل ہی نہیں کرنا چاہتے تاکہ اس کی ذمہ داریوں سے بچ سکیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ [الروم:59]۔ ہم نے اپنے گھروں اور محلے کے لوگوں میں اس نمونہ کو دیکھا، جب بات سمجھانے کی کوشش کی جائے تو وہ موضوع بدل دیتے ہیں، کیونکہ انہوں نے دانستہ جہل کا راستہ چنا ہے، گمان کرتے ہیں کہ یہ انہیں بری الذمہ کر دے گا۔
- مستکبرین
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [غافر:35]۔ مستکبرین کی جزا یہ ہے کہ ان کے دلوں پر مکمل مہر لگ جاتی ہے، نہ کہ کچھ حصے پر۔ یہی سبب ہے کہ باوجود حق ظاہر ہونے کے وہ ظالمین کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، گویا سماعت و بصارت سے محروم کر دئیے گئے ہوں۔ اصل میں یہ تکبر ہے جو انہیں حق سے روکتا ہے۔
عملی ہدایات:
اس طرح خیر اور ظالمین کی محبت کا اجتماع ایک بڑا تضاد ہے، مگر اس کا سامنا کیسے کیا جائے؟
اپنے نفس میں مشغول ہونا:
نفس کی ایک بڑی دھوکہ دہی یہ ہے کہ دوسروں کی عیب جوئی میں انسان الجھ جائے، اور اپنے نفس کی اصلاح بھول جائے۔ شاعر نے کہا:
متى تلتمس للناس عيبًا تجد لهم عيوبًا ولكن الذي فيك أكثر
فسالمهم بالكف عنهم فإنهم بعيبك من عينيك أهدى وأبصر
یعنی اگر تم دوسروں میں عیب تلاش کرو گے تو عیوب بہت پاؤ گے، مگر جو تیرے اندر ہے وہ اس سے بڑھ کر ہے۔ پس ان سے درگزر کرو، وہ تمہارے عیبوں کو تم سے زیادہ جانتے ہیں۔
دوسروں کی عیب جوئی غیبت و نمیمہ کا راستہ ہے، جب کہ اسلام نے اسے صریحاً روکا ہے: وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا [الحجرات:12]۔ اور حدیث: “من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه”، یعنی کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ غیر متعلق چیزوں کو چھوڑ دے۔
جی ہاں، جب مقبول شخصیات کی حقیقت کھلتی ہے تو مایوسی اور اضطراب ہوتا ہے، مگر اس میں خیر کا پہلو بھی ہے: تاکہ ہم ان کے جھوٹے اتباع سے بچ جائیں۔
نفس کا مستقل تزکیہ:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا (7) فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا (8) قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا (9) وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا (10) [الشمس]۔ پس دل کا پاک کرنا اور اسے آفات سے بچانا ہی حق پر ثابت قدمی کا ذریعہ ہے۔ جو نفس کو حق میں مشغول نہ رکھے وہ باطل میں اُلجھ جاتا ہے۔
دعوت و نصیحت کا فریضہ:
ہم پر واجب ہے کہ ایسے لوگوں کو نصیحت کریں، خصوصاً اگر وہ ہمارے قریبی رشتہ دار ہوں۔ انہیں یاد دلائیں کہ: “المرء مع من أحب”۔ جو دنیاوی منصب کی خاطر ظالم کا طرفدار بنتا ہے، آخرت میں اس کا انجام خسارہ ہے۔
اسی باب میں امام احمد بن حنبلؒ اور ان کے سجّان کا واقعہ مشہور ہے، جس میں امامؒ نے واضح کیا کہ ظالم کی حقیقی اعانت وہی کرتا ہے جو اس کا نظام قائم رکھتا ہے۔ اسی طرح ابن تیمیہؒ نے اپنے جلاد سے کہا: “والله لولاك ما ظلموا”، یعنی اللہ کی قسم! اگر تم نہ ہوتے تو وہ ظلم نہ کرسکتے۔
نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینا:
ہماری نصیحت کے بعد اگر وہ اپنی روش پر قائم رہیں تو ہمیں غمگین نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا [الاسراء:15]۔
اس کے بعد ہمیں یہ بھی لازم ہے کہ ان کے لیے دعا کریں — شاید اللہ تعالیٰ انہیں حق کی طرف لوٹا دے۔ حدیث میں ہے: “لأن يهدي الله بك رجلاً واحداً، خير لك من حمر النعم”۔ اگر اللہ تیری وجہ سے کسی کو ہدایت دے، وہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
اسی کے ساتھ ہمیں اپنے لیے بھی دعا کرنی چاہیے کہ ہم حق پر ثابت قدم رہیں، خواہشِ نفس کے پیچھے نہ چلیں، بلکہ ہماری خواہشات (میلان) وہی ہو جو سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے۔
صحبت صالحین:
ہمیشہ اہلِ خیر اور تزکیۂ نفس میں مشغول لوگوں کی رفاقت اختیار کریں، کیونکہ صحبت اثر انداز ہوتی ہے۔ کہا گیا ہے: الصاحب ساحب۔ انسان فطری طور پر معاشرتی ہے، لہٰذا وہ اپنے ماحول سے متاثر بھی ہوتا ہے اور اثر انداز بھی ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں، آپ کو اور ان سب کو وہ کرنے کی توفیق دے جو اسے پسند ہے اور جس پر وہ راضی ہے۔
مترجم: سجاد الحق