ہمارے زمانے میں سنگ دلی کا مرض چہار سو پھیل چکا ہے جس نے بیشتر لوگوں کے حال بدل دیے ہیں۔ یہی وہ بیماری ہے جو عبادات اور نیکی کے کاموں سے غفلت برتنے، دنیا سے امیدیں باندھنے اور آخرت کو بھول جانے کا سبب بنتی ہے۔ اس نے زندگی کو وحشت ناک، تاریک اور یکسانیت بھری (بےزاری) بنا دیا ہے، خواہ اس میں کتنی ہی تفریحات، لذتیں اور آسائشیں موجود ہوں۔
سنگدل دل (انسان) اللہ تعالیٰ سے اور اس کے دین، شریعت اور تعلیمات سے سب سے زیادہ دور ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس خطرناک بیماری کی مذمت کی ہے، جو پچھلی امتوں میں بھی ظاہر ہوئی، جیسے یہود اور دیگر اقوام، جن کے دل پتھر کی مانند بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہو گئے تھے۔
قرآن و سنت میں قساوت قلبی کا ذکر:
زبان میں، قسوت کا لفظ "قَسا القلبُ يقسو قَسوةً وقَساوةً وقَساءً” سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے دل کا سخت اور شدید ہونا۔ قساوت ہر چیز میں سختی کو کہتے ہیں، اور اس مادہ کا اصل معنی شدت اور سختی پر دلالت کرتا ہے۔
اصطلاح میں، ابن منظور نے کہا ہے: "یہ نرمی، رحمت اور خشوع کے ختم ہونے کو کہتے ہیں۔” جب کہ جاحظ کے مطابق: "دوسروں کی تکالیف کو ہلکا سمجھنا قساوت ہے”۔
قرآن کریم نے کئی آیات میں قساوتِ قلب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
اَلَمۡ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخۡشَعَ قُلُوۡبُہُمۡ لِذِکۡرِ اللّٰہِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الۡحَقِّ ۙ وَ لَا یَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلُ فَطَالَ عَلَیۡہِمُ الۡاَمَدُ فَقَسَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ۔ ترجمہ: "کیا ایمان لانے والوں کے لیئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ایک لمبی مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں ؟” [الحدید: 16]
ابن کثیر نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرما رہا ہے: کیا ایمان والوں کے لیے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے خشوع اختیار کریں، یعنی ذکر، نصیحت اور قرآن سننے کے وقت نرم ہوں، اسے سمجھیں، اس کے تابع ہوں، اس کی سماعت کریں اور اس کی اطاعت کریں؟” ابن عباسؓ نے فرمایا: "اللہ نے ایمان والوں کے دلوں کی سختی کو محسوس کیا، پس نزولِ قرآن کے تیرہ سال بعد ان کی اس آیت میں سرزنش فرمائی”۔
مسلم نے اپنی صحیح میں ابن مسعودؓ کی حدیث روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: "ہمارے اسلام لانے اور اللہ کے ہمیں اس آیت (أَلَمْ يَانِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ) کے ذریعے سرزنش کرنے کے درمیان صرف چار سال کا فاصلہ تھا”۔
اللہ نے سخت دل رکھنے والوں کو دردناک عذاب کی وعید سنائی اور بیان کیا کہ قساوتِ قلبی گمراہی اور دل کی بندش کا سبب بنتی ہے، جس کے نتیجے میں نہ وہ خشوع اختیار کرتا ہے، نہ سمجھتا ہے اور نہ ہی عبرت حاصل کرتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے:
اَفَمَنۡ شَرَحَ اللّٰہُ صَدۡرَہٗ لِلۡاِسۡلَامِ فَہُوَ عَلٰی نُوۡرٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ فَوَیۡلٌ لِّلۡقٰسِیَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ مِّنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ۔ ترجمہ: "اب کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے ( اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے ان باتوں سے کوئی سبق نہ لیا ؟ ) ۔ تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جن کے دل اللہ کی نصیحت سے اور زیادہ سخت ہو گئے ۔ وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں”۔ [الزمر: 22]
اللہ نے اپنی کتاب میں قساوتِ قلب کی مذمت فرمائی اور بتایا کہ یہ حق کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہے:
ثُمَّ قَسَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالۡحِجَارَۃِ اَوۡ اَشَدُّ قَسۡوَۃً ؕ وَ اِنَّ مِنَ الۡحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنۡہُ الۡاَنۡہٰرُ ؕ وَ اِنَّ مِنۡہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخۡرُجُ مِنۡہُ الۡمَآءُ ؕ وَ اِنَّ مِنۡہَا لَمَا یَہۡبِطُ مِنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕوَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ۔ ترجمہ: "مگر ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخر کار تمہارے دل سخت ہوگئے، پتھروں کی طرح سخت، بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے ، کیونکہ پتھروں میں سےتو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں ، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نِکل آتا ہے ، اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے ۔ اللہ تمھارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے” [البقرة: 74]۔
ابن عباسؓ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان (وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ) کے بارے میں فرمایا: "یعنی بعض پتھر تمہارے دلوں سے زیادہ نرم ہیں، کیونکہ وہ اس حق کے لیے جھک جاتے ہیں جس کی طرف تمہیں بلایا جاتا ہے، مگر تم اس کو قبول نہیں کرتے”۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ عطاء بن یسار نے ان سے درخواست کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تورات میں مذکور صفت کے بارے میں بتائیں۔ تو انہوں نے فرمایا: ہاں، اللہ کی قسم! بے شک وہ تورات میں ان کی بعض وہی صفات مذکور ہیں جو قرآن میں بھی بیان کی گئی ہیں: "اے نبی! بے شک ہم نے آپ کو گواہ، بشارت دینے والا، ڈرانے والا اور اَن پڑھوں کے لیے پناہ بنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ آپ میرے بندے اور میرے رسول ہیں، میں نے آپ کا نام ‘متوکل’ رکھا، آپ سخت مزاج نہیں، نہ سخت دل ہیں، نہ بازاروں میں آواز بلند کرنے والے (یعنی لوگوں پر چیخنے چلّانے والے) ہیں؛ نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں، بلکہ معاف کر دیتے ہیں اور درگزر فرماتے ہیں۔ اور اللہ آپ کو اس وقت تک وفات نہیں دے گا جب تک کہ آپ کے ذریعے ٹیڑھی ملت کو سیدھا نہ کر دے، یعنی لوگ ‘لا إله إلا الله’ کہیں، اور اللہ آپ کے ذریعے اندھی آنکھوں کو بینائی دے گا، بہرے کانوں کو سننے والا بنا دے گا اور پردے میں لپٹے ہوئے دلوں کو کھول دے گا۔” [البخاری]
صحیحین میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "مجھے قرآن سناؤ”۔ میں نے عرض کیا: "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپ کو قرآن سناؤں حالانکہ وہ تو آپ پر نازل ہوا ہے؟” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں۔ پھر میں نے سورۃ النساء پڑھی، یہاں تک کہ جب میں اس آیت پر پہنچا: فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا (ترجمہ: پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر امّت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمہیں ﴿یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو﴾ گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے) [النساء: 41]، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بس کرو”۔ میں نے جب آپ کی طرف دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
قساوت قلبی کے اسباب:
دل کی تنگی یا سخت دلی کے اسباب درج ذیل ہیں:
کثرت گناہ اور محرمات کا ارتکاب: گناہ، چاہے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، دوسرے گناہ کا راستہ ہموار کر دیتا ہے، یہاں تک کہ انسان مسلسل گناہوں میں ملوث ہو جاتا ہے اور خطرے کا احساس تک نہیں کرتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگا دیا جاتا ہے، اگر وہ توبہ اور استغفار کر لے تو اس کا دل صاف کر دیا جاتا ہے، لیکن اگر وہ دوبارہ گناہ کرے تو اس سیاہ داغ میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے، اور یہی وہ زنگ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ۔ ترجمہ: ہرگز نہیں بلکہ دراصل ان لوگوں کے دلوں پر ان کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔ [المطففین: 14]” [صحیح ترمذی]۔
غفلت: یہ ایک خطرناک بیماری ہے، جو جب دل پر قابض ہو جاتی ہے، اور نفس پر چھا جاتی ہے، تو ہر طرح کی ہدایت کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے غافل لوگوں کے بارے میں خبر دی ہے کہ ان کے دل سخت ہو چکے ہیں، نہ وہ نرم پڑتے ہیں اور نہ نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس دیکھنے والی آنکھیں ہوتی ہیں مگر وہ حقائق کو نہیں دیکھتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُوْلَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُوْلَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ۔ ترجمہ: "اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے انسان اور جن ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں”۔ [الأعراف: 179]
دنیا سے حد سے زیادہ لگاؤ اور اس کی لذتوں میں مشغولیت: حالانکہ یہ دنیا اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی، لیکن انسان اس کے ساتھ دل لگا لیتا ہے اور اس کی عیش و عشرت میں مگن ہو جاتا ہے۔
اللہ کے ذکر سے غفلت: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى۔ ترجمہ: "اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے” [طٰهٰ: 124]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس مومن کی مثال جو اپنے رب کا ذکر کرتا ہے اور اس کی جو ذکر نہیں کرتا، زندہ اور مردہ کی مانند ہے”۔ [بخاری]
فرائض میں کوتاہی اور اللہ کے عہد کو توڑنا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً۔ ترجمہ: "پھر یہ ان کا اپنے عہد کو توڑ ڈالنا تھا جس کی وجہ سے ہم نے ان کو اپنی رحمت سے دور پھینک دیا اور ان کے دل سخت کردیے” [المائدة: 13]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے تمام لوگ معاف کیے جائیں گے، سوائے ان کے جو گناہوں کو علانیہ کرتے ہیں۔ [متفق علیہ]
دین سے جہالت اور اس میں تفقہ کو ترک کرنا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ۔ ترجمہ: "حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں” [فاطر: 28]۔
جو اللہ کو زیادہ جانتا ہے، وہ اس سے زیادہ ڈرتا ہے، اس لیے جہالت دل کی سختی اور اللہ کے خوف میں کمی کا ایک بڑا سبب ہے۔
خواہشات کی پیروی اور حق کو قبول نہ کرنا:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ۔ ترجمہ: "پھر جب انھوں نے ٹیڑھ اختیار کی اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دیے”۔ [الصف: 5]۔ یعنی جب انہوں نے جان بوجھ کر حق کو چھوڑ دیا اور اس سے منہ موڑ لیا، تو اللہ نے بھی ان کے دلوں کو ہدایت سے پھیر دیا۔
رحم دلی اور احسان جیسی عمدہ صفات کا نہ ہونا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: "آپ لوگ بچوں کو پیار کرتے ہیں؟ ہم تو انہیں نہیں چومتے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اللہ نے تمہارے دل سے رحمت نکال دی ہے تو میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں”؟ [بخاری و مسلم]۔
اپنی رائے پر سختی سے قائم رہنا اور زیادہ بحث مباحثہ کرنا: امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: علم میں بے جا بحث دل کو سخت کر دیتی ہے اور دشمنی کو جنم دیتی ہے۔
اہل بدعت کی کتابیں پڑھنا اور ان کے نظریات سے متاثر ہونا: ان کتابوں میں مشغول ہونے سے مسلمان نافع کتب سے محروم ہو جاتا ہے اور ان سے فائدہ اٹھانے سے رہ جاتا ہے۔
مباحات میں حد سے زیادہ وسعت اختیار کرنا: دنیا کی لذتوں میں زیادہ مشغول ہونا اور ان پر بھروسہ کرنا دل کو سخت کر دیتا ہے اور آخرت کو بھلا دیتا ہے۔
زیادہ ہنسنا اور کھیل کود میں مشغول رہنا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زیادہ مت ہنسو، کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے [صحیح ابن ماجہ]۔
حرام کھانا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی لمبا سفر کرتا ہے، غبار آلود اور پراگندہ حال ہوتا ہے، اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر کہتا ہے: اے رب! اے رب! لیکن اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام، اور اس کی پرورش حرام پر ہوئی، تو اس کی دعا کیسے قبول کی جائے گی؟ [مسلم]۔
تربیتی و ایمانی علاج:
دل کی سختی اور بے حسی کے بعض اسباب جاننے کے بعد، اس مہلک بیماری کے تربیتی اور ایمانی علاج کا درج ذیل نکات میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے:
علوم شرعیہ یعنی قرآن و سنت کا سیکھنا اللہ کی معرفت اور توحید پر پختگی دیتا ہے: جو اپنے رب کو حقیقی طور پر پہچانتا ہے، اس کا دل نرم ہو جاتا ہے، اور جو اپنے رب کے حق سے جاہل ہوتا ہے، اس کا دل سخت ہو جاتا ہے۔ دل کی سختی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کا حامل شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے حقوق سے سب سے زیادہ جاہل ہو۔ جتنا زیادہ انسان اللہ کے بارے میں جاہل ہوگا، اتنا ہی وہ اس کی حدود و محارم کو پامال کرنے میں جری ہوگا۔ اور جب انسان کائنات میں اللہ کی تخلیق پر غور کرتا ہے اور اللہ کی بے شمار نعمتوں کو یاد کرتا ہے، تو اس کے دل میں نرمی پیدا ہو جاتی ہے۔
موت اور اس کے بعد کے حالات کو یاد کرنا: جیسے قبر کے سوال و جواب، اس کی تاریکی، وحشت، تنگی، موت کی سختیاں اور جانکنی کے لمحات، نزع کے وقت لوگوں کے حالات کا مشاہدہ اور جنازوں میں شرکت کرنا، یہ سب نفس کو نیند سے جگاتے ہیں، غفلت سے بیدار کرتے ہیں، اور اسے اپنے رب کی طرف متوجہ کرتے ہیں، جس سے دل نرم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو موت کو یاد رکھنے کی نصیحت فرماتے تھے اور فرماتے: "لذات کو ختم کرنے والی چیز (یعنی موت) کو کثرت سے یاد کرو” [بخاری]۔
زیارۃ القبور اور مردوں کے انجام پر غور و فکر کرنا: کہ وہ کیسے مٹی کے نیچے جا چکے ہیں، جو کبھی کھاتے، پیتے، عیش کرتے اور عمدہ لباس پہنتے تھے، وہ سب کچھ چھوڑ کر زیر زمین جا بسے۔ انہوں نے اپنی دولت اور اولاد کو پیچھے چھوڑ دیا، اور انسان کو سوچنا چاہیے کہ جلد ہی وہ بھی ان میں شامل ہو جائے گا، اس کا انجام بھی وہی ہوگا جو ان کا ہوا۔ قبروں کی زیارت نصیحت اور عبرت کا باعث ہے، غافل لوگوں کے لیے بیداری اور تنبیہ کا ذریعہ ہے، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، مگر اب ان کی زیارت کرو، اس لیے کہ وہ دل کو نرم کرتی ہے، آنکھوں کو اشکبار کرتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے، اور (وہاں) بے ہودہ بات مت کہو” [احمد، الحاکم، اور اسے البانی نے صحیح قرار دیا]۔
قرآن کریم کی آیات پر غور و فکر کرنا: اس کے وعدوں اور وعیدوں، احکام اور ممانعتوں پر تدبر کرنا، کیونکہ جب کوئی بندہ قرآن کی تلاوت کرتا ہے اور اس وقت اس کا دل حاضر، متفکر اور متدبر ہوتا ہے، تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں، اس کا دل نرم ہو جاتا ہے، اور اس کا ایمان دل کی گہرائیوں سے جاگ اٹھتا ہے۔ اور جب کوئی بندہ قرآن کو حق تلاوت کے ساتھ پڑھتا یا اس کی آیات کو سنتا ہے، تو اس کے دل میں رقت پیدا ہو جاتی ہے، اس کا دل دھڑکنے لگتا ہے، اور اللہ کے خوف سے اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاء وَمَن يُضْلِلْ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ” ترجمہ: اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے ، ایک ایسی کتاب جس کے تمام اجزاء ہم رنگ ہیں اور جس میں بار بار مضامین دہرائے گئے ہیں ۔ اسے سن کر ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں ، اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں ۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے جس سے وہ راہ راست پر لے آتا ہے جسے چاہتا ہے ۔ اور جسے اللہ ہی ہدایت نہ دے اس کے لیے پھر کوئی ہادی نہیں ہے۔ [الزمر: 23]۔
آخرت کو یاد کرنا اور قیامت کے ہولناک مناظر پر غور و فکر کرنا: جنت اور اس میں اللہ نے فرمانبرداروں کے لیے تیار کیے گئے دائمی نعمتوں کے بارے میں سوچنا، اور جہنم اور اس میں نافرمانوں کے لیے تیار کیے گئے دائمی عذاب پر غور کرنا، یہ سب چیزیں دلوں سے غفلت کو دور کرتی ہیں، سست ہمتوں کو بیدار کرتی ہیں، اور کمزور عزائم کو متحرک کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں بندہ اپنے رب کی طرف سچی توبہ کے ساتھ رجوع کرتا ہے، اور تب اس کا دل نرم ہو جاتا ہے۔
کثرت سے دعا کرنا اور اللہ کی طرف رجوع کرنا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ۔ ترجمہ: تمہارا رب کہتا ہے مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا [غافر: 60]۔
فرائض کی پابندی کرنا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ” ترجمہ: بے شک نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ [العنكبوت: 45]۔
حلال روزی کا اہتمام کرنا اور امانت داری کو ادا کرنا۔
نوافل اور عبادات میں کثرت کرنا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وما يَزالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إلَيَّ بالنَّوافِلِ حتَّى أُحِبَّهُ ۔ ترجمہ: اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے محبوب بنا لیتا ہوں۔ [بخاری]۔
علماء کی سیرت کا مطالعہ کرنا اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنا: جعفر بن سلیمان کہتے ہیں: جب بھی میں اپنے دل میں سختی محسوس کرتا تو میں محمد بن واسع کے چہرے کو دیکھنے چلا جاتا۔
دنیا سے بےرغبتی اختیار کرنا، اس کی ناپائیداری اور حالات کے بدلنے پر غور و فکر کرنا، اور اللہ کے ہاں ملنے والی نعمتوں کی طلب رکھنا۔
بیماروں اور آزمائش میں مبتلا لوگوں کی عیادت کرنا، موت کے قریب لوگوں کو دیکھنا، اور ان کے حال سے نصیحت حاصل کرنا۔
کثرت سے اللہ کا ذکر اور استغفار کرنا: دل میں سختی آتی ہے جسے اللہ کے ذکر کے سوا کچھ نہیں مٹا سکتا، اس لیے بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے دل کی سختی کو اللہ کے ذکر سے دور کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ” ترجمہ: ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنہوں نے (اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو) مان لیا ہے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے [الرعد: 28]۔
ربانی اور نیک علماء کی صحبت اختیار کرنا اور ان کے قریب رہنا: وہ کمزوری میں تمہارا ہاتھ پکڑتے ہیں، غفلت میں یاد دلاتے ہیں، جہالت میں راہنمائی کرتے ہیں، اور تنگدستی میں غنی بنا دیتے ہیں۔ اگر اللہ سے دعا کریں تو تمہیں نہیں بھولتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا” ترجمہ: اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں ، اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو ۔ کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے ۔ [الکہف: 28]۔
نفس کا محاسبہ کرنا: اگر انسان اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے، اس کو ملامت نہ کرے، اس کی کمزوریوں پر نظر نہ رکھے اور اس کی کوتاہیوں پر نظر ڈال کر اسے قصوروار نہ سمجھے تو وہ اپنی بیماری کی حقیقت نہیں سمجھ سکتا، اور جب بیماری کی حقیقت معلوم نہ ہو تو علاج کیسے ممکن ہوگا؟ اس لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے نفس کو اس کی کمزوری اور اللہ کی طرف اس کی محتاجی کا احساس دلائے، اسے غفلت سے بیدار کرے، اللہ کی نعمتوں کی یاد دہانی کرائے، اور ہر چھوٹی بڑی چیز کا محاسبہ کرے تاکہ وہ اسے قابو میں رکھ سکے۔
بے شک، بندے کے لیے سب سے بڑی سزاؤں میں سے ایک دل کی سختی اور اس کا پتھر بن جانا ہے، کیونکہ یہ نرمی، رحمت اور خشوع کو ختم کر دیتی ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ ہر اس چیز سے بچے جو اس بیماری کا سبب بن سکتی ہے اور اللہ سے اس سے نجات کی دعا کرے۔
مصادر ومراجع
ابن فارس: مقاييس اللغة 1/753.
الفيومي: المصباح المنير 2/503.
ابن منظور: لسان العرب 13/255.
الخادمي: بريقة محمودية 4/97.
أبو حامد الغزالي: إحياء علوم الدين 3/86.
البيهقي: الاعتقاد ص 239.
محمد محمود النجدي: قسوة القلوب.
خالد سعود البليهد: علاج قسوة القلب.
مترجم: زعیم الرحمان