ڈپریشن کو ایک نفسیاتی حالت سمجھا جاتا ہے جو کسی فرد کو متاثر کرتی ہے اور اس كى اندرونی اداسی کا باعث بنتی ہے، جس سے وه خود كو بے کارمحسوس كرتا ہے، اور یہ کہ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے وہ سب بے سود ہے۔ اگر اس كو نظر انداز کیا جائے اور علاج نہ کیا جائے تو یہ بدتر ہو سکتا ہے جس كا نتيجه معذوری، دوسروں پر انحصار، یہاں تک کہ خودکشی كى صورت ميں بھی نكل سكتا ہے۔
اس نفسیاتی بیماری کا علاج اسلامی دواخانہ میں دستیاب ہے، جو قرآن پاک اور سنت نبویؐ اور اس الٰہی نقطہ نظر پر مبنی تربيتي طریقوں پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ معاملہ اس حد تک بھی بڑھ سکتا ہے جہاں طبی مداخلت ضروری ہو۔ اس وقت پھر انسان صرف ایمانی یا روحانی علاج پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ علاج کے تمام طریقے اختیار کرتا ہے۔
ڈپریشن کا مفہوم اور اس کی علامات:
ڈپریشن کا عربی لفظ الاكتئاب لغت میں "کأب” اور "كآبة” سے اخذ کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کا نفس بدل گيا اور فکر و اداسی کی شدت سے ٹوٹ گيا، اس لیے وہ "كئيب” يا "كئب” يعنی اداس ہو گیا۔ اور أَكْأَبَ فلانًا يعنى اس نے فلاں کو افسرده کر دیا، اكْتَأَبَ وَجْهُ الأرضِ:
يعني زمین اوپر سے بدل گئی اور تاریک ہو گئی، اور كآبة کا مطلب شدید غم ہے، جب کہ اكتئاب انقباض كا مترادف ہے جس کے معنی جمع ہونے اور کئی گنا بڑھ جانے کے ہیں۔ اور انقبض الرجل على نفسه يعنى زندگی سے تنگ ہو کے علاحدہ ہو گیا، اور انقبض عن القوم یعنی ان کو چھوڑ دیا۔
انسائیکلوپیڈیا آف سائیکولوجی میں، اس کی تعریف ایک جذباتی مؤقف یا جذباتى رجحان کے طور پر کی گئی ہے جو بعض اوقات واضح طور پر نفسیاتی بيمارى کی شکل اختیار کر لیتا ہے، جس میں ناقص ہونے، ادھورے پن اور مایوسی کے احساسات شامل ہوتے ہیں، جو بعض اوقات فرد پر غالب آ سکتے ہیں، جس کے ساتھ نفسیاتی اور جسمانی سرگرمی میں عمومی کمی بھی ہوتی ہے۔
اس بیماری کی علامات، جسے اکثر "عصری بیماری” کہا جاتا ہے، ایک شخص سے دوسرے شخص میں مختلف ہوتی ہیں، اور اس کی شکلیں اور اثرات ہر مریض کے لیے مختلف ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ نمایاں علامات میں سے مندرجہ ذیل ہیں:
بغیر کسی وجہ کے حد سے زیادہ گھبراہٹ۔
روزمرہ یا سماجی سرگرمیوں میں مشغول ہونے میں بے رغبتی۔
توجہ مرکوز کرنے میں دشواری۔
تھکاوٹ، اطمینان اور کمزوری کا احساس۔
نامعلوم وجوہات کی بنا پر پیدا ہونے والے جسمانی مسائل، جیسے سر درد اور کمر کا درد۔
زندگی میں امید کی کمی یا زندہ رہنے کی خواہش میں کمی۔
نیند میں خلل۔
دوسروں کے ساتھ گھلنے ملنے سے زیادہ تنہائی کو ترجیح دینا۔
فیصلے کرنے میں دشواری۔
احساس کمتری کا شکار ہونا۔
بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر حد سے زیادہ ردعمل ظاہر کرنا۔
ڈپریشن کی وجوہات:
ڈپریشن کی وجوہات بے شمار ہیں، جن میں دائمی جسمانی بیماریاں، غربت، بے روزگاری، زندگی کے حادثات کا سامنا، پیاروں کا کھونا، اور زندگی سے متعلق دیگر معاملات شامل ہیں۔ تاہم، سب سے اہم وجہ اسلام کی تعلیمات سے دوری ہے، جن میں متنوع قرآنی آیات اوراحادیث ہیں جو مسلمانوں کو صبر کرنے اور تمام معاملات میں اللہ سے مدد طلب کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ ڈپریشن اور غم کی سب سے نمایاں وجوہات میں سے کچھ یہ ہیں:
- اللہ کے دین اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو نظر انداز کرنا۔
- زنا، چوری، ممنوعہ غذا کا استعمال، دھوکہ دہی اور دیگر گناہوں کا ارتکاب کرنا۔
- کسی شخص کا اچھائی کو پانے میں اس حال میں ناکام ہونا کہ وہ اس کو حاصل کرسکتا تھا اور اس کا علاج اس یقین میں مضمر ہے کہ جو چیز آپ سے چھوٹ گئی ہے وہ آپ کوکسی بھی حال میں نہیں مل سکتی۔
- زندگی کے مسائل کی نمائش اور ان کو حل کرنے میں ناکامی ایک شخص کو اداسی کی طرف لے جاتی ہے۔
- قرضوں کی کثرت، کیوں کہ وہ رات کو پریشانی اور دن میں ذلت کا باعث بنتی ہیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی ۔ حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازوں میں یہ دعا کرتے تھے: "اے اللہ میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور مسیح دجال کی آزمائش سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور زندگی اور موت کی آزمائش سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ اے اللہ میں تجھ سے گناہ اور قرض سے پناہ مانگتا ہوں۔” انہوں نے کہا: پھر کسی نے آپ صلى الله عليه وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول، آپ کتنی بار قرضے سے پناہ مانگتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی شخص قرض میں ہوتا ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے اور وعدے کرتا ہے لیکن توڑ ڈالتا ہے۔ [متفق عليه]
- زندگی کے دباؤ، جواداسی، غم اور ڈپریشن کا سبب بننے والے سب سے اہم عوامل میں سے ہیں، جن میں خاندانی مسائل، مالی مسائل اور کام سے متعلق مسائل شامل ہیں۔
- موروثیت، کیونکہ ایسے جینیاتی عوامل ہیں جو اس بیماری کا سبب بنتے ہیں اور جذبات اور سوچنے کے طریقوں کو متاثر کرتے ہیں۔
- غلط تربیت، جو بڑھاپے میں اضطراب، پریشانی اور ڈپریشن کا باعث بنتی ہے۔ کچھ والدین کے اعمال اپنے بچوں میں غیر محسوس طریقے سے بے چینی اور شک پیدا کرتے ہیں۔
- وہ شدید غم جو اپنے عزیزوں کو کھونے کی وجہ سےپہنچتا ہے۔
- صدمے یا حادثات، غربت یا بے روزگاری میں زندگی گزارنا، یا نشہ آور اشیاء یا شراب کا استعمال۔
- مختلف امراض کا شکار ہونا جیسے ذیابیطس، دل کی بیماریوں، ڈپریشن کی خاندانی تاریخ، یا جینیاتی تبدیلیاں جو دماغ میں نیورو ٹرانسمیٹر کی پیداوار یا استعمال کو متاثر کرتی ہیں، یا کینسر جیسی موذی بیماریوں سے متاثر۔
علاج کے تربيتى طریقے:
ایسی صورت میں جب ڈپریشن کی بیماری اس سطح تک نہ پہنچی ہو کہ جس کے لیے ماہرین نفسیات کے پاس جانے کی ضرورت ہو، تو اس کے لیے اسلامی شفا خانہ سے تربیتی اور ایمانی علاج جو قرآن کی تعلیمات اور سنت نبویﷺ پر مشتمل ہے، کافی ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ تربيتى ذرائع جو کہ بیماری کا علاج کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں اور اسے روکنے میں مدد کرتے ہیں، درج ذیل ہیں:
- نیک اعمال: اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق: "جو بھی نیک کام کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اور وہ مومن ہے، ہم انہیں ضرور اچھی زندگی دیں گے اور انہیں ان کے اعمال کے مطابق بہترین اجر دیں گے” [النحل: 97]۔
- دنیا کی حقیقت کو جاننا: یہ دنیا عارضی ہے، اس کا سامان بہت کم ہے، اور اس میں جو لذت ہے وہ گدلی ہے اور کسی کے لیے بھی صاف و شفاف نہیں ہے، اگر یہ آپ کو تھوڑا سا ہنسائے، تو یہ آپ کو بہت دیر تک رلائے گی۔ آپ کو تھوڑا دے گی، تو بہت سی چیزیں روکے گی، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے” [مسلم]۔
- رسولوں اور صالحین کی تقلید: یہ دنیا میں سب سے زیادہ آزمائے جانے والے لوگ ہیں، اور انسان کو اس کے دین کے درجے کے مطابق آزمایا جاتا ہے، اور خدا جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اس کا امتحان لیتا ہے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون سے لوگ زیادہ آزمائے گئے ہیں؟ فرمایا: انبیاء، پھر جو ان کے زیادہ قریب ہیں۔ پھر وہ جو ان سے زیادہ قریب ہیں۔ )یعنی درجہ بدرجہ( پس انسان کو اس کے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے، اگر اس کا دین ٹھوس ہے تو اس کی آزمائش اتنی ہی سخت ہوگی۔ اس کا دین اگر زیادہ مضبوط نہیں تو اسی کے اعتبار سے اسے آزمایا جائے گا، بندے پر مصیبتیں مسلسل آتیں ہیں جب تک کہ وہ اس زمین پر چلنا نہ چھوڑ دے (یعنی اسے موت آجاتی ہے) اور اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔” [الترمذی]۔
- آخرت کو اپنی فکر کا محور بنانا: تاکہ اللہ اس کے لیے اس کے معاملات جمع کرے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے آخرت کو اپنی فکرکا محور بنایا اللہ اس کے دل کے اندر بے نیازی کی صفت ڈال دے گا اوراس کے لیے اس کے معاملات جمع کرے گا اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہوکرآئے گی۔ اور جو شخص دنیا کو اپنی فکرکا محور بنائے گا اللہ اس کی غربت اس کی آنکھوں کے سامنے رکھے گا اور اس کے معاملات منتشر کردے گا اور اسے دنیا سے وہی ملے گا جو اس کے لئے مقدر ہوگا۔ [الترمذی]
- موت کو یاد کرنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لذتوں کو توڑنے والی یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو، اگر کوئی اسے تنگی کے وقت یاد کرے تو اللہ اسے وسعت دے گا، اوراگر کسی نے اسے فراخی کے وقت یاد کیا تو اس کے لیے تنگی پیدا کی جائے گی۔” [رواہ البزار، اور البانی نے اس کی حدیث کو حسن کہا]
- الله سے دعا کرنا: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم تھا اور جب جب وہ نیچے اترتے تو اکثر آپ کو یہ کہتے سنا کرتا: اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں فکر، غم، عجز، سستی، بخل، بزدلی، قرض کے بوجھ اور انسانوں کے مجھ پر غالب آنے سے۔
- رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا۔ یہ ان کامیاب اعمال میں سے ہے جس سے اللہ تعالیٰ ہم اور غم سے نجات دیتا ہے۔
- اللہ عز وجل پر توکل کرنا: کیونکہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اور وہ اختیار اور تدبیر میں منفرد ہے۔ اپنے بندے کے لیے اس کی تدبیر بندے کی تدبیر سے بہتر ہے، اور وہ بندے کے مفادات کو اس سے بہتر جانتا ہے جتنا بندہ جانتا ہے اور انہیں حاصل کرنے میں زیادہ قادر ہے۔ وہ بندے کے لیے اس سے زیادہ مخلص ہوتا ہے جتنا بندہ اپنے لیے ہوتا ہے، اس کے لیے ناصح اور زیادہ رحم دل ہوتا ہے۔
- للہ کو زیادہ سے زیادہ یاد کرنا: کیونکہ اس کا شرح صدر اور سکون، اور پریشانی اور غم کے خاتمے پر قابل ذکر اثر پڑتا ہے۔ اللہ نے فرمایا: اللہ کی یاد سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔ [الرعد: 28]
- نماز کا سہارا لینا: اللہ نے فرمایا: "اور صبر اور نماز کے ذریعے مدد طلب کرو” [البقرۃ: 45]، اور حذيفة رضي الله عنه نے فرمايا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی چیز سے پریشان ہوتے تو نماز پڑھتے تھے [ابو داؤد]۔
- خدا کی نعمتوں کا ذکر کرنا: ایک بندہ جتنا زیادہ خدا کی ظاہری اور پوشیدہ، دینی اور دنیاوی نعمتوں پر غور کرتا ہے، اتنا ہی وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے رب نے انہیں بہت خير عطا کیا ہے اور بہت سے شرور سے محفوظ رکھا۔ حضرت ابوہریرہ علیہ السلام نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان لوگوں کو دیکھو جو تم سے نیچے ہیں، اور ان لوگوں کو مت دیکھو جو تم سے اوپر ہیں، یہ زیادہ مناسب ہے کہ تم اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں پر ناشکری نہ کرو۔
- خدا کے بارے میں حسن ظن: کیونکہ خدا راستہ اور مخرج اپنے ہاتھوں میں رکھتا ہے، اور پریشانی جتنی سخت اور زیادہ مشکل ہوتی ہے، راحت اور راستہ اتنا ہی قریب ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے سورت انشراح میں فرمایا: "بے شک مصیبت کے ساتھ آسانی بھی آتی ہے۔ بے شک، مشکلات کے ساتھ آسانی آتی ہے۔ "
- اہل علم اور دین کو جاننے والے لوگوں سے مشورہ کرنا: ان کے مشورے اور رائے مصيبتوں کے وقت مدد کے سب سے بڑے ذرائع میں سے ہیں۔
- کاموں اور فرائض کے جمع ہونے کو روکنا: تاکہ کوئی شخص مایوس نہ ہو، جو مایوسی ڈپریشن، پریشانی اور افسوس کا باعث بن سکتی ہے۔
- آگاہی: ثقافتی سطح پر مہارت حاصل کرنا کسی شخص کو ان مسائل میں پھنسنے سے بچاتا ہے جو بالآخر پریشانی اور افسردگی کا باعث بن سکتے ہیں۔
- زندگی کو منظم کرنا: جلدی اٹھنا، اگلے دن تک ملتوی کیے بغیر فوری طور پر فرائض انجام دینا، اور مسلسل مشغول رہنا، جو فرد کو ایکٹیو بناتا ہے اور اسے اپنے مقاصد کے حصول میں مدد کرتا ہے۔
- لوگوں کے سامنے مسکرانا: اس سے لوگوں کو مثبت توانائی کا احساس ہوتا ہے اور ان کی توجہ مسکراتے ہوئے شخص کی طرف مبذول ہوتی ہے، یہ سب چیزیں دل میں خوشی اور مسرت پیدا کرتی ہیں اور پریشانیوں کو دور کرتی ہیں۔
- منفی سوچ سے دور رہنا: کیونکہ یہ کسی شخص کو بے چین اور مسلسل غیر مطمئن محسوس کراتی ہے، جو تناؤ، سستی اور ڈپریشن کی صورت میں جسم پر ظاہر ہوتی ہے۔
- اپنا وقت پڑھنے اور کام میں صرف کریں: کام اور پڑھنے میں مصروف رہنے سے کسی شخص کو فائدہ ہوتا ہے، جس سے وہ اداسی، اضطراب، تناؤ اور مایوسی اور افسردگی کے احساسات سے دور رہتا ہے۔
ڈپریشن ایک انتہائی پیچیدہ طبی حالت ہے، جس کی خصوصیت مایوسی اور ناکامی کے احساسات ہیں۔ اگر یہ کسی شخص کی روح میں جکڑ جاتا ہے، تو یہ انہیں کام سے روک سکتا ہے، انہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر سکتا ہے، اور ممکنہ طور پر خودکشی تک لے جا سکتا ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ کے راستے کو اختیار کرکے اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر نبی اکرم صلی اللہ کی مکمل اقتدا کرکے ایک مومن اس حالت سے چھٹکارا پاکر اس پر قابو پاسکتا ہے۔ اور جب کوئی پریشانی لاحق ہو جائے تو اس علاج کیا جاتا ہے اس لیے کہ ہر بیماری کا علاج موجود ہے۔
المصادر والمراجع:
1۔ لويس معلوف: المنجد في اللغة والإعلام، ص 668۔
2۔ أسماء أبو بكر: علاج الاكتئاب بالقرآن.. دليلك للتغلب على الاكتئاب والقلق من القرآن والسنة۔
3۔ الدكتور أسعد رزوق: موسوعة علم النفس، ص 44۔
4۔ ليلى جبريل: طريقة علاج الاكتئاب بالقرآن۔
5۔ إسلام أون لاين: علاج الاكتئاب۔
6۔ عبد الرحمن السعدي: الوسائل المفيدة للحياة السعيدة، ص 18۔
مترجم: ڈاکٹر بہاء الدین