یوم عاشورا کو بچوں کی تربیت میں کیسے استعمال کریں؟
یومِ عاشورا کی فضیلت مسلمانوں کی مخصوص جماعت تک محدود نہیں ہے۔ رب کی عطا کردہ اس مبارک گھڑی کو بچوں کی پرورش کرنے، ان کے دلوں میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا بیج بونے اور اسے پروان چڑھانے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس دن انہیں روزہ رکھنے اور نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ انہیں بندگی کےصحیح تصورات سکھائے جاسکتے ہیں تاکہ ایک ایسی صحت مند متوازن نسل تیار کی جاسکے جو اپنا مستقبل خود سنوارے اور تمدن کی تعمیر وترقی میں اپنا رول ادا کرے۔
چاروں اماموں کا اس بات کے جواز پر اجماع ہے کہ بچے سے اس دن روزہ رکھوایا جاسکتا ہے، بشرطیکہ اسے روزہ رکھنے سے کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اور اس بات کا ثبوت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنھا کی روایت سے ملتا ہے، وہ کہتی ہے: "حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے دن انصار کے لوگوں کی طرف پیغام بھیجا کہ جس شخص نے صبح کھایا پیا، وہ دن کا باقی حصہ روزہ رکھے اور جو شخص صبح روزے کی حالت میں اٹھا، وہ اپنا روزہ مکمل کرے۔ وہ کہتی ہیں تب سے ہم یہ روزہ رکھتے ہیں اور بچوں کو بھی روزہ رکھواتے ہیں، اور ہم ان کے لیے رنگین اون سے کھلونے بناتے ہیں۔
دوسری جگہ یہ الفاظ آئے ہیں: ’’ہم ان کے لیے اون سے کھلونے بناتے تھے، پھر اپنے ساتھ لے جاتے، پس جب وہ کھانا مانگتے تھے ہم انہیں کھلونا دے دیتے، جو انہیں تب تک مشغول رکھتا جب تک ان کا روزہ مکمل ہوجاتا تھا۔‘‘ (بخاری ومسلم)
یومِ عاشورا کا قصہ:
یومِ عاشورا کو بچوں کی تربیت کے لیے استعمال کرنے کی ابتداء اس موقع کی مناسبت سے انہیں کہانی سناکر کی جائے، کہ کس طرح اللہ عزوجل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اس کی قوم کو فرعون سے بچایا جس پر موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھ کر اس کا شکر بجا لایا۔ پھر حضرت محمد صلی نے اس دن کا روزہ رکھا اور امت کو یہ روزہ رکھنے کی وصیت کی، کیونکہ اس میں بہت بڑی فضیلت ہے۔
اس کہانی کے واقعات محرم مہینے کی دسویں تاریخ کو پیش آتے ہیں۔ جب فرعون نے تکبر کیا اور رب سے انکار کیا اور بنی اسرائیل پر ظلم وستم ڈھایا۔ اس وقت سیدنا موسیٰؑ نے اپنی قوم کو جمع کیا اور وہاں سے نکلنے کا ارادہ کیا۔ فرعون اور اس کی فوج ان کے پیچھے لگ گئی، یہاں تک کہ بحرِ احمر پر بالکل ان کے سر پر کھڑے ہوگئے۔ (جب دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا تو موسیٰؑ کے ساتھیوں نے کہا بلا شبہ ہم پکڑے جائیں گے۔) [الشعراء -61]۔ ان کے سامنے سمندر تھا اور پیچھے دشمن! تب موسیٰؑ نے ایک پختہ مومن کی زبان سے جواب دیا کہ یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے اور وہ کبھی ہمیں ضائع نہیں کرے گا اور ان سے پورے عزم ویقین سے بولا: (ہرگز نہیں، بےشک میرا رب میرے ساتھ ہے وہ مجھے ضرور راستہ دکھائے گا۔) [شعراء – 62]
پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر وحی نازل کی کہ اپنا عصا سمندر پہ دے مارو۔ لہٰذا اس نے عصا مارا، معاََ سمندر کی لہریں آپس میں ٹکرانے لگی۔ تو سمندر میں اللہ کے حکم سے بارہ خشک راستے بن گئے۔ اس کے پانی میں سیلاب آگیا، اس کی تند لہریں بلند وبالا پہاڑ بن گئے، تو بنی اسرائیل خوش ہوکر تیزی سے اس کے درمیان سے گزرنے لگے اور ان کے پیچھے فرعون اور اس کےسپاہی ہانپتے ہوئے اس میں داخل ہوئے۔ جب موسیٰ اور اس کی قوم نے سمندر عبور کرلیا اور اس پار جمع ہوگئے، یہاں فرعون اور اس کی قوم بیچ سمندر اکٹھی ہوئی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان کے اوپر سمندر کو الٹ دیا اور سب کو غرق کردیا: (اور ہم نے موسیٰ کو وحی بھیجی کہ میرے بندوں کو لے کر رات کو نکل جاؤ۔ ان کے لیے سمندر میں ضرب لگاکر خشک راستہ نکالو۔ تمہیں اس بات سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ فرعون پکڑ لے گا یا سمندر میں ڈوب جائیں گے۔ پھر فرعون اپنے فوجوں کو لےکر ان کے پیچھے ہو لیا ۔وہاں سمندر ان کے اوپر پوری طرح چھا گیا اور انہیں نگل گیا۔ حقیقت میں فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا اور وہ ہدایت نہ پا سکا۔
بعد میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچا اس نے دیکھا کہ یہودی یومِ عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں، تو اس نے فرمایا یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواباً کہا، یہ بہت اچھا دن ہے۔ اس دن رب نے بنی اسرائیل کو دشمن سے نجات دلائی۔ تو موسیٰؑ نے یہ روزہ رکھا۔ اور امام مسلم نے اپنی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے "ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے یہ روزہ رکھتے ہیں ۔” اور امام بخاری نے ابو بشر کی روایت سے، "اور ہم اس کی تعظیم کے لیے روزہ رکھتے ہیں”۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: "میں تم لوگوں سے زیادہ موسیٰؑ پر حق رکھتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی حکم دیا ۔” اور مسلم کی ایک روایت میں آیا ہے: یہ ایک عظیم دن ہے اس میں رب نے موسیٰؑ اور اس کی قوم کو بچایا اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کردیا۔
مسلمان سمجھتے ہیں کہ اللہ کی عطا کردہ اس مبارک ساعت کے ذریعے اس کی سنت پوری ہوتی ہے اور اس کا یہ وعدہ بھی پورا ہوتا ہے کہ وہ سرکشوں کے مقابلے میں مومنین کی مدد کرے گا، اور وہ اپنے بندوں کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑے گا۔ نہ انہیں ظالموں کے لیے تر نوالہ بننے دے گا۔ اور ایک دن ضرور آئے گا اگرچہ کچھ لوگ وہ دن بہت دور سمجھتے ہیں، جب کہ وہ دن دور نہیں ہے، جس روز مومنین اللہ کی نصرت پر خوش ہوجائیں گے اور اپنی آنکھوں سے باطل کی شکست وریخت دیکھیں گے اور اس دن صرف نفع بخش چیز باقی رہنے والی ہے، کیونکہ جھاگ ہوا میں اڑ جائے گی۔ اور اللہ نے فرعون کو جس طرح ماضی میں ہلاک کیا اسی طرح وہ ہر فرعون کو مٹائے گا، چاہے کوئی بھی زمانہ ہو۔ جس طرح اس نے اپنے داعی موسیٰؑ اور ایمان والوں کو بچایا اسی طرح ہر مومن کو آگے بھی بچائے گا: (اور ہم اسی طرح مومنین کو بچاتے ہیں)۔ [انبیاء: 88]
یومِ عاشورا: بچوں کی تعلیمی افادیت کے پیش نظر
یومِ عاشورا میں بہت سے تعلیمی فائدے ہیں، جس میں صبر کی تعلیم، معاشرے کے حالات کو سمجھنا، ظالموں کا انجام اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی فرضیت کا فہم حاصل کرنا شامل ہے۔ اسی طرح حق وباطل کی کشمکش کی حقیقت جان لینا، اللہ پر یقین کرنا کہ وہ سرکشوں کے مقابلے میں مومنین کی مدد کرے گا اور بھی بہت سے فوائد ہیں جن میں یہ یہ شامل ہیں:
- روزہ: بچوں کو اس دن روزہ رکھنے کی ترغیب دینا انہیں کھلونے دینا اور اپنے ساتھ مسجد لے جانا، تاکہ وہ کھانے پینے سے دور رہیں اور صبر کے ساتھ روزہ مکمل کرلیں۔ جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے بچوں سے پیش آتے تھے۔
- حق اور اچھائی کو اپنانا وہ جہاں بھی ملے: اس بات کا سبق ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے جب وہ مدینہ آئے اور دیکھا کہ وہاں پہلے سے ایک عمل ہورہا ہے کہ یہودی یومِ عاشورا پر روزہ رکھتے ہیں تو انہوں نے اسے نظر انداز نہیں کیا۔ بلکہ اس کے بارے میں سوال کیا۔ جب انہیں لگا کہ یہ ہم مسلمانوں کے لیے مناسب ہے، انہوں نے اسے اپنا لیا اور اسلامی نظام میں ضم کیا۔ اور اسی لئے آپ صلعم فرمایا کرتے تھے ۔ "حکمت مومن کی گمشدہ متاع ہے” (ترمذی)
- یہودیوں کی دشمنی: ہم اپنے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں کہ یہودی اسلام کے دشمن ہیں اور انہیں کوئی حق نہیں ہے کہ ظلم کے خلاف یومِ فتح منائیں۔ بلکہ یہ صرف مسلمانوں کا حق ہے، کیونکہ یہودی ظلم، ناانصافی، اور سرکشوں کے کارواں میں شامل ہوگئے۔ یہاں تک کہ دنیا میں اس کے پیشوا بن گئے۔
- گھر جیسا ماحول میسر ہونا: یہ عمل سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا قصہ پڑھنے سے پورا ہوگا۔ کتنا اچھا ہوتا اگر یہ قصہ سکرین پر پیش کیا جاتا، جو بچوں کے لیے زیادہ پرکشش اور مزے دار ہوتا۔ پھر کہانی یا فلم دیکھنے کے بعد ہم اس قصے کے واقعات آج کے مسلمانوں کے حالات سے جوڑیں گے اور اس کے اندر سے وہ عملی ہدایات نکالیں گے جن پر ایک فیملی آج کے حالات کے مطابق عمل پیرا ہوگی۔ بچوں کو اس بات کی ترغیب دی جاسکتی ہے کہ وہ واقعات کو تصاویر کی شکل میں پیش کریں، تاکہ ایسے مناظر سامنے آئیں جن سے بچوں میں جذبات کی گہرائی پیدا ہو۔ ہر بچہ کہانی سے ایک ایک واقعہ سنائے، تاکہ ان میں بولنے کی جرأت اور خطابت کا ملکہ نشوونما پائے۔
- بچوں کو کشمکشِ حق وباطل کی حقیقت سمجھانا: اس کی عمدہ مثال ظالم فرعون ہے جو چھوٹے چھوٹے بچوں کو وقت ولادت ہی مار ڈالتا، کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ معصوم بچے بڑے ہوں اور صالحین بن کر اس کے جیسے ظالموں سے جنگ کریں۔
- اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اطمینان ویقین: یہ وہی بات ہے جس کی تأکید اللہ نے سیدنا موسیٰ علیہ کی ماں کو کی: "اور ہم نے موسیٰ کی ماں کو وحی کی کہ اسے دودھ پلا، پھر اگر تمہیں اس کے بارے میں کوئی ڈر ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور تم ڈرنا نہیں اور غم نہ کرنا، ہم اسے تیرے پاس واپس لائیں گے اور اسے اپنا پیغامبر بنائیں گے۔” [قصص: 7] جو ماں اپنے بچے کے لیے خوف زدہ ہوتی ہے وہ اسے گود میں اٹھا لیتی ہے۔ لیکن وہ ماں جس کے پاس خدا کی عنایت ہو اور وہ اللہ کی پکار پر لبیک کرے۔ اللہ اس کے بیٹے کی حفاظت کرتا ہے حالانکہ وہ اللہ کے حکم کی تعمیل میں اپنے بچے کو دریا میں ڈال دیتی ہے۔
- مثبت سوچ اور بے داری: یہ بات سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی بہن کے طرزِعمل سے بالکل صاف ہوتی ہے جب اسے ماں حکم دیتی ہے کہ تم نظر رکھو اپنے بھائی پر کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے، "اور اس نے اس کی بہن سے کہا، اس کے پیچھے جاؤ۔ وہ اسے ایک طرف سے دیکھ رہی تھی، لیکن ان کو پتہ نہیں چلا۔ اور ہم نے پہلے ہی اس پر رضاعت حرام کردی۔ پھر اس نے کہا، کیا میں تمہیں اس گھرانے کا پتہ بتا دوں جو تمہارے لیے اس کی کفالت کریں گے، اور وہ اس پر مہربان ہیں۔” [قصص: 11,12]۔ اس رویہ کی تعلیم دے کر ہم بچوں کو بیدار مغز بنا سکتے ہیں۔ انہیں عمل، حکمت اور حسن تدبیر میں ذہانت کا استعمال کرنا سکھا سکتے ہیں۔
- ہر وقت اللہ کی معیت کا شعور: خاص کر اس وقت جب خطرہ محسوس ہو۔ یہ بات کہ جس کے ساتھ اللہ ہو، اس کے ساتھ ہر چیز ہے، یہ بات تصادم کے آخری سین سے واضح ہوتی ہے۔ اور یہ کہ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنے ساتھیوں کے ساتھ اللہ کی اطاعت میں نکل کھڑا ہوا اور فرعون اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ان کے پیچھے نکل پڑا جس کے مقابلے میں کھڑا ہونے کی کسی کے پاس سکت نہیں تھی، پھر بھی موسیٰ علیہ السلام مایوس نہ ہوا۔ بلکہ اللہ سے مدد طلب کی ۔
- باطل آخر کار مغلوب ہوتا ہے: اگرچہ اللہ تعالیٰ اپنی نصرت عطا کرنے میں تاخیر بھی کرتا ہے۔ وہ اس لیے تاکہ مسلمان اسباب قوت حاصل کریں اور اللہ کی طرف لوٹ آئیں، "اگر تم لوگ اللہ کی مدد کرو گے وہ بھی تمہاری مدد کرے گا۔” [محمد: 7]
- اللہ تعالیٰ اپنے صالح بندوں کا خیال کرتا ہے: یہ بات سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے ہر مرحلے پر ثابت ہوتی ہے۔ پہلے اللہ نے انہیں قتل ہونے سے بچایا، جب فرعون ہر کسی بچے کو قتل کرتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے فرعون کو خدمت پر مامور کیا، تاکہ وہ اس کی پرورش کرے۔ اس کے بعد جب موسیٰ نے قوم فرعون میں سے ایک شخص کو قتل کیا، تو اللہ نے اس کے لیے ایک آدمی بھیجا، جس نے موسیٰ کو بھاگ جانے کی ترکیب سجھائی۔ اور جب موسیٰ وہاں سے نکل گیا، اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مدین میں انتظام کیا، جہاں وہ اللہ کے نبی شعیب سے ملا اور ان کی بیٹی سے نکاح کروایا۔ اسی طرح اللہ عزوجل اپنے نیکوکار بندوں کی ہر وقت خبر گیری کرتا ہے۔
- باطل کے حملوں کا سامنا کرنا: یہ بات ظلم روکنے، سرکشی کا مقابلہ کرنے اور باطل سے مصالحت نہ کرنے سے متحقق ہوسکتی ہے۔ جس طرح پیروانِ موسیٰ فرعون کے استبداد اور ضلالت کی حکمرانی پر راضی نہ ہوئے، بلکہ اپنے رسول کی اقتداء کرتے ہوئے اسلام کی سلطنت قائم کرنے کے لیے نکل پڑے، جس میں رہ کر وہ اللہ کی عبادت کرسکیں۔
- شرکت اور مشاورت: یہ فرعون ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہلاک کیا، کیونکہ وہ سرکش تھا۔ وہ کسی کو اپنی رائے کا اظہار نہیں کرنے دیتا تھا، اور وہ کہا کرتا تھا "میں تم لوگوں کو وہی دکھاتا ہوں جو مجھے دکھائی دیتا ہے۔” [غافر: 29] اس موقع پر ہمیں اپنے بچوں کو مشاورت سکھانی چاہیے۔ بلکہ ایک ساتھ مل کر عملاً اپنے گھروں میں مشاورت پر عملدرآمد کرنا چاہیے۔ اور زندگی کے تمام شعبہ جات میں اسے ترویج دینی چاہئے۔
ذرائع اور حوالہ جات:
- عاشورہ کی کہانیاں۔
- علی بن نائف الشحود: فتح و شکست کے تفصیلی عوامل، 1/918۔
- عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کی حکمت۔
- یومِ عاشورہ مجھے خدا پر یقین رکھنے اور اس پر توکل کرنے کا درس دیتا ہے۔
- الذہبی، لامحدود علتوں کا خلاصہ، ص-38