اللہ عزوجل کی طرف دعوت دینے والے کا طرزعمل اس کے قول سے الگ نہیں ہوسکتا۔ پس اس کا رویہ يا تو ایسا ہوگا جو لوگوں کے ہاں اچھا اور مقبول ہوگا، یا اتنا برا ہوگا کہ لوگ اس سے نفرت کریں گے، خاص کر اس وجہ سے کہ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اصولوں سے براہ راست معاملہ کرنے والے ہوتے ہیں، جب کہ زیادہ تر لوگ ان اصولوں کے علمبرداروں اور ترجمانی کرنے والوں سے متاثر ہو تے ہیں۔ جب داعی بذات خود اسلام کے فرائض اور ذمہ داریوں کی تعمیلسے دور بھاگتا ہے تو وہ لوگوں کے لیے فتنہ بن جاتا ہے اور اپنے طرز عمل سے لوگوں کو اللہ کے دین سے بے زار کرتا ہے، اور ان کا راستہ روکتا ہے۔ اس کی مثال ایک رہزن جیسی ہوجاتی ہے بلکہ وہ اس سے بھی بدتر ہے۔ اس لیے داعی کو چاہیے کہ ہمیشہ اپنے رب سے یہ دعا کرے: (اے ہمارے رب ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا۔) [یونس: 85]
قرآن وسنت کی روشنی میں داعی کا طرزِعمل
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ دعوت الی اللہ کا پیغام بہت ہی عظیم ذمہ داری ہے اور اس شرف کبیر کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جن کو چاہتا ہے چن لیتا ہے، وہی اللہ کے بندے اس کٹھن مہم اور شرف کے حامل ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے قرآن كريم نے داعی إلى الله کے طرزِ عمل پر خاص توجہ دی ہے، تاکہ اس کے قول و فعل میں موافقت پیدا ہوجائے، جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور اس شخص سے بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف بلاتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں مسلم ہوں۔ [فصلت: 33] اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف دعوت دینے والے کےلئے عمل صالح کرنا ضروری ہے۔ وہ صرف اپنے قول سے نہیں، بلکہ عمل سے بھی دعوت دینے والا ہو، تاکہ اس کا قول وعمل ایک ہوجائے۔ بھلا ان لوگوں سے بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے جو اپنے اور آس پاس رہنے والوں کے لیے خیر و برکت کا باعث ہوں۔ جو اچھی باتوں، نیک اعمال اور اخلاق حسنہ سے اللہ کی طرف بلائیں اور برائی کا جواب بھلائی سے دیں اور ان چیزوں سے دوری اختیار کریں جو اس میں تضاد اور نقص پیدا کرنے والی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا ہے کہ وہ اللہ کی طرف کامل یقین کے ساتھ دعوت دے۔ اللہ جل شأنہ کا فرمان ہے: (کہہ دیں یہ میرا راستہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں کامل یقین کے ساتھ، میں اور جو میری پیروی کرتے ہیں) [يوسف:108] اور یہ حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں کے لیے بھی ہے۔ ان پر بھی واجب ہے کہ اللہ کی طرف کامل یقین کے ساتھ دعوت دیں۔
اللہ عزوجل نے اس بات پر بنی اسرائیل کو ملامت کی ہے کہ وہ اس نیکی پر عمل کرنا بھول گئے جس کی تلقین وہ دوسروں کو کرتے رہے۔ پس ان کو تنبیہ کی گئی: (کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔ اس حال میں کہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے) [البقرة: 44]۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس بات کو عقل کے نقص میں شمار کیا ہے کہ حق کا علم ہونے کے باوجود اس پر عمل نہ کیا جائے اسی لیے اس امت کو خبردار کیا ہے بلکہ اس کی سخت وعید سنائی ہے کہ قول و فعل میں تضاد پایا جائے۔ کہا گیا ہے: (اے ایمان والو ایسی باتیں کیوں کہتے ہو جن پر تم عمل نہیں کرتے ہو۔ یہ اللہ کے نزدیک سخت ناپسندیدہ عمل ہے کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں ہو) [الصف: 2، 3]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قول وعمل کے تضاد پر تنبیہ کی ہے اور اس بات کی تاکید کی ہے کہ روز قیامت جس شخص کو سب سے پہلے آگ میں جھونکا جائے گا وہ ایسا عالم ہوگا جو اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتا ہے۔ اسی بات کو صحیحین میں زیدؓ بن حارثہ کی روایت سے ثابت کیا گیا ہے اس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کو کہتے ہوئے سنا کہ ’’قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اور اس زور سے آگ میں پھینکا جائے گا کہ اس کی آنتیں باہر نکل آئیں گی، پھر وہ انہیں لے کر آگ میں پھرتا رہے گا جس طرح گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے۔ یہاں تک کہ اہل نار اس کے پاس جمع ہونگے۔ پھر اس سے پوچھیں گے، اے فلاں۔ تمہیں کیا ہوا؟ کیا تم ہمیں نیکی کا حکم نہیں دیا کرتے تھے اور برائی سے منع نہیں کرتے تھے؟ پس وہ جواب دے گا: ہاں، ہاں میں آپ لوگوں کو نیکی کا حکم کرتا تھا، لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتا تھا، میں تمہیں برائی سے منع کرتا تھا، لیکن خود برائی میں ملوث ہوتا تھا۔‘‘
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اگر اللہ تمہاری رہنمائی سے ایک شخص کو بھی ہدایت نصیب کرے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے‘‘ (البخاري) اور لوگوں کی ہدایت سوائے اخلاص کے کسی چیز سے نہیں ہوسکتی۔ اس کے علاوہ قول و فعل کی موافقت اور داعی الی اللہ کےاچھے کردار سے لوگ متاثر ہوتے ہیں.
اگرچہ نبي کریم صلى الله عليه وسلم معصوم عن الخطأ تھے اس کے باوصف وہ اس بات کے بہت حريص تھے کہ ان کے قول و عمل میں موافقت پیدا ہو۔ اس کے لیے وہ دعا بھی کرتے رہتے تھے جس کی روایت علیؓ کرتے ہیں: ’’کہ جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو یوں دعا مانگتے: میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، یکسوئی کے ساتھ اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں، بے شک میری نماز اور میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں، اے اللہ، تو بادشاہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں، میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، اور میں نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا۔ میرے تمام گناہوں کو بخش دے، کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا، اور میری بہترین اخلاق کی طرف رہنمائی فرما، تیرے سوا کوئی بہترین اخلاق کی طرف رہنمائی نہیں کر سکتا، اور میری برائیوں کو مجھ سے دور کر دے، تیرے سوا کوئی نہیں جو اس کی برائی کو مجھ سے دور کر دے، میں حاضر ہوں اور تیری خوشنودی چاہتا ہوں اور تمام بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے، اور شر تیری وجہ سے نہیں ہے، میں تجھ سے ہوں اور تیری طرف لوٹتا ہوں۔ تو بڑی برکت والا اور عظمت والا ہے میں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اور تیر ے لیے توبہ کرتا ہوں‘‘ (مسلم)۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے ’’اے میرے رب، میں برے اخلاق، برے اعمال، خواہشات اور بیماریوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں‘‘ (الترمذي) اور کہتے تھے ’’اے میرے رب میرے اخلاق کو اسی طرح بہتر بنا جس طرح میری صورت کو بہتر بنایا ہے‘‘ (رواه أحمد)
داعیانہ طرزِ عمل کا سچا نمونہ
حقیقت میں داعیانہ طرزِ عمل کا سچا نمونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے جھلکتا ہے۔ جب صلح حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کا معاہدہ کیا اور پھر اپنے ساتھیوں سے فرمایا: اٹھو اور (قربانی) ذبح کرو پھر اپنے سر منڈواؤ۔ راوی کہتا ہے: خدا کی قسم ان میں سے کوئی بھی کھڑا نہ ہوا، حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ کہا۔ جب ان میں سے کوئی نہ اٹھا تو وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور ان کو سارا معاملہ بتایا۔ اور ام سلمہ نے کہا: اے خدا کے نبیؐ، کیا آپ ایسا چاہتے ہیں؟ پھر آپ ایسا کریں، باہر نکلیں اور ان میں سے کسی سے بات نہ کریں۔ یہاں تک کہ آپ خود ذبح کریں اور حجام کو بلا کر (سر) منڈوائیں۔ چنانچہ وہ باہر آگئے اور کسی سے کوئی بات نہ کی، یہاں تک کہ ذبح کیا اور سر کے بال منڈوائے۔ یہ دیکھ کر وہ سب (صحابی) اٹھ کھڑے ہوئے اور ذبح کر ڈالے اور ایک دوسرے کے بال منڈوادیے۔ اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ اس ندامت سے ایک دوسرے کے سر نہ کاٹ ڈالتے۔ (البخاري)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام کو احرام باندھنے کا حکم دیا۔ صحابہ نے صرف اس امید پر تعمیل کرنے میں تاخیر کی کہ انہیں قتال کی اجازت مل جائے اور وہ رسول کی مدد کرسکیں اور اس کے ساتھ ان کا عمرہ بھی ہوجائے گا۔ ام سلمہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا کہ آپ صلعم ان کے پاس جائیں، سر کے بال منڈوائیں اور ذبح کریں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور وہ سب لپک کر اس حکم کی تعمیل کرنے لگے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمل کی تاثیر الفاظ سے زیادہ تیز ہوتی ہے۔
صحابہ کرام قول و فعل میں ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے رہے۔ جس کے نتیجے میں ان کے اندر سے دعوت اور اسلام کے حقیقی نمونے ابھرے۔
حسن البصریؒ ان کے صفات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ان کی شکل وصورت، قد وقامت، ہدایت اور دیانت میں نیکوکاری کی نشانیاں ظاہر ہوئیں، ان کے کھردرے لباس سے کفایت شعاری، ان کے چلنے میں شرافت، ان کے کلام سے عمل اور ان کے کھانے پینے میں رزق حلال کی پاکی ظاہر تھی۔ ان کی اطاعت میں رب کے لیے خشوع وخضوع تھا، وہ خوشی اور ناراضگی دونوں حالتوں میں حق پر قائم رہتے اور اپنی طرف سے حق دینے میں پہل کرتے۔ ان کی خواہشات پیاسی تھیں، ان کے جسم دبلے پتلے تھے، اور وہ مخلوق کی ناراضگی کو خالق کی رضا کے مقابلے میں ہلکا سمجھتے تھے، ان کی زبانیں اللہ کے ذکر میں مشغول رہتی تھیں۔ جب ان کو مدد کے لیے پکارا گیا تو انہوں نے اپنا خون پیش کیا، اور جب ان سے قرض مانگا گیا تو انہوں نے اپنا سارا مال قربان کردیا۔ ان کے اخلاق عظیم تھے پر ان کا ساز وسامان ہلکا تھا۔
اس دین نے صحابہ کرام کو وہ وقار بخشا کہ وہ آزمائشوں اور فتنوں کے مقابلے میں ثابت قدم رہے اور ایسی رعایتوں کو ترک کردیا جو غیر مؤمنین کے لیے فتنہ کا باعث بن سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے سامنے عبداللہؓ بن حذافہ الصہمی ہے جس کو رومیوں نے گرفتار کر لیا تھا اور اس کے بعد بادشاہ نے اس سے کہا: عیسائی بن جاؤ اور میں تمہیں اپنی سلطنت میں حصہ دار بناؤں گا، لیکن اس نے انکار کیا ۔تو اسے سولی پر چڑھانے کا حکم دیا گیا ۔ پھرحکم دیا گیا کہ اس پر تیروں کی بوچھاڑ کردی جائے،لیکن وہ تب بھی نہیں گھبرایا، اس لیے اسے اتارا گیا۔ اور حکم ہوا کہ ایک برتن میں پانی ڈالا جائے اور اس کے سامنے پانی ابالا گیا، پھر حکم دیا گیا کہ اس میں ایک قیدی ڈالا جائے جس کی ہڈیاں اس کے سامنے گھل رہی تھیں۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اگر وہ اب بھی نصرانی بننے سے انکار کر دے تو اسے اُبلتے ہوئے پانی میں پھینک دیا جائے۔ جب وہ اسے لے گئے تو اس نے رویا، بادشاہ نے کہا: اسے واپس لاؤ، پھر اس نے کہا: تم کیوں روئے؟ اس نے کہا: کاش میرے پاس سو جانیں ہوتیں، اور ساری کی ساری خدا کی راہ میں اسی طرح قربان ہوتیں۔ یہ سن کر رومی بادشاہ حیران رہ گیا۔
صحابہ کی نسل کو اعلیٰ ترین عملی نمونے نے متاثر کیا۔ ان کی نظر ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل پر ہوتی۔ وہ الفاظ سے مطابقت رکھنے والے اعمال کو دیکھتے،نہ کہ عملی اطلاق سے خالی افعال کو۔ اور ہمیشہ اس کی تقلید کرنے کے مواقع تلاش کرتے رہتے اور ان اعمال کی چھان بین کرنے کے سب سے زیادہ شوقین عبداللہ بن عمر بن الخطاب تھے جو تسلسل کے ساتھ ان کی تلاش میں رہتے۔
اسی لیے جب مفتوحہ ممالک کے لوگوں نے ان صحابہؓ کا اخلاص، ان کی ایمان پر ثابت قدمی اور اپنے دین کے طریقہ کار کی نمائندگی کو دیکھا، تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ابن قیم الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اسی وجہ سے جب عیسائیوں نے صحابہؓ اور ان کے دین کو دیکھا تو ان میں سے اکثر نے اپنی مرضی اور خوشی سے ایمان لایا، اور ان کے بارے میں کہا: جو مسیح کے ساتھی تھے وہ ان سے بہتر نہیں تھے؟
سلف میں ایک شخص کے بارے میں آتا ہے کہ جب ان سے حدیث بیان کرنے کے لیے کہا گیا تو وہ خاموش ہو گیا۔ دوبارہ یہی کہا گیا تو اس نے کہا، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں وہ بولوں جو میں نہیں کرتا ہوں، تاکہ میں اللہ کی ناراضگی مول لینے میں جلدی کروں۔
داعی یا توعوام الناس میں مقبول ومشہور ہوتا ہے یا گمنام ہوتا ہے۔ جب داعی دعوت کے میدان میں قدم رکھتا ہے اور اگر استقامت اور تقویٰ کی وجہ سے جانا جاتا ہے تواس کی باتیں دلوں کے محلوں تک پہنچتی ہیں اور اس کی استقامت اور تقویٰ قبولیت کی بنیاد اور اس کے لیے ترغیب بنتی ہے۔ اور اگر وہ اپنے سامعین کے لیے اجنبی ہوتو اس کی باتیں معلق رہتی ہیں، نہ قبول ہوتی ہیں اور نہ رد کی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ لوگ اس کے بارے میں معلوم نہ کر لیں۔ پھر اگر لوگوں کو اس کی استقامت کے بارے میں پتہ چلے تو اس کا معلق کلام لوگوں میں تاثیر اور قبولیت حاصل کرتا ہے وگرنہ اس کی باتیں لوگوں کے دل ودماغ سے اتر جاتی ہیں۔
اچھے اخلاق کے ثمرات
جب خدا کی طرف دعوت دینے والے کا طرز عمل اچھا ہوتا ہے تو اس سے اچھے پھل نکلتے ہیں جن میں سب سے اہم درج ذیل نکات ہیں۔
- گمراہی سے حفاظت، فتنوں سے نجات اور دنیا و آخرت میں رسوائی کے اسباب سے سلامتی۔
- جو شخص اپنے علم پر عمل کرے اور جس چیز کی دعوت دیتا ہے، وہ متقیوں کا امام بن جاتا ہے۔ جنہیں قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کے برابر اجر ملے گا۔
- قول و فعل میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حصول، جو کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر فرض ہے۔
- علم کی ایسی وضاحت جو الجھن کو دور کرے، سمجھ عطا کرے، اور عمل کو آسان بنائے۔
- ان شخصیات کی پیروی کرنا جو انبیاء میں سے اپنی حسنِ دعوت اور عملِ صالح کی وجہ سے اللہ کی تعریف کے مستحق ٹھہرے، ان سے محبت کی بنا پر، ان کے راستے پر ثابت قدم رہنے، ان کے ساتھ مل جانے اور ان کے ساتھ محشر میں جمع ہونے کے لیے۔ اور ان لوگوں کی تقلید سے دور رہنےکے لیے جن کو خدا نے بے عزت کیا اور ان پر غضب کیا، اور انہیں اپنی لعنت اور سخت عذاب کی وعید سنائی۔
- قول وعمل میں موافقت کے ذریعے منافقت سے چھٹکارا پانا۔
داعی کا طرز عمل لوگوں کے لیے اس کی باتوں سے الگ نہیں ہے۔ اس لیے اسے چاہیے کہ وہ اپنے اعمال اور حسن کلام سے لوگوں کے لیے بہترین نمونہ پیش کرے، اور اپنی زبان کو فحاشی اور لغو باتوں سے پاک رکھے، اپنی عبادت میں کمال اور حسن اخلاق پیدا کرے۔ اور جس فضل سے خدا نے نوازا ہے اس میں احسان سے کام لے۔ اپنے سلوک میں نرمی اور معاملات میں سخاوت پیدا کرے اور یہ کہ مسلمان اس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے محفوظ رہیں اور ان کے خون اور مال کی حفاظت کرے، تاکہ لوگ ان سے چھین نہ لیں۔ تاکہ لوگ اس کی دعوت قبول کریں اور اسے دوہرا اجر ملے۔ عمل کا اجر اور مثالی نمونہ بننے کا اجر۔
ذرائع اور حوالہ جات:
ہمام سعید: دعوت الی اللہ کے اصول، دار الفرقان، جنوری 2014، صفحہ 33-35۔
صالح بن حمید: قیادت کے اصول اور نمونے، صفحہ 7-8۔
ابو نعیم الاصبہانی: اولیاء کا زیور 2/150۔
ابن حجر عسقلانی: چوٹ 2/288۔
الماوردی: لٹریچر آف دی ورلڈ اینڈ ریلیجن، ص 85۔
القرطبی: تفسیر القرطبی 18/80۔
ابن حجر عسقلانی: فتح الباری، شرح صحیح البخاری 13/275۔