رجب کا مہینہ حرمت کے مہینوں میں سے ہے جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے: "حقیقت یہ ہے کہ جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے، اللہ کی کتاب میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے جن میں سے چار حرمت والے ہیں۔” [التوبۃ:34]
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
"اے لوگو جو ایمانلائے ہو! خدا پرستی کی نشانیوں کو بے حرمت نہ کرو اور نہ ہی حرام مہینوں میں سے کسی کو حلال کرلو” [المآئدۃ: 2]
یعنی اللہ تعالیٰ کے محرمات کو حلال نہ کرو جن کی پاسداری کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے اور ان کے ارتکاب سے منع کیا ہے۔ یہ ممانعت برے اعمال اور غلط عقائد ہر دو کو شامل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے مبارک قول کے ذریعے بھی ان مہینوں کی عظمت میں یہ کہہ کراضافہ فرمایا:
"اے نبیؐ! لوگ پوچھتے ہیں ماہِ حرام میں لڑنا کیسا ہے؟ آپ کہہ دیجیے کہ اس میں لڑنا بہت برا ہے۔” [البقرۃ: 217] یعنی یہ مہینے اتنے قابلِ تعظیم ہیں کہ ان میں بعض عام انسانی سرگرمیوں کو بھی ایسے حرام کہا گیا جیسے کہ وہ ظلم، زیادتی اور اللہ کی نافرمانی کے کام ہوں۔
حرمت کے مہینوں کے حوالے سے قرآن کی آیت کہ "اللہ کی کتاب میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے” کافی مبہم ہے کہ اس میں ان مہینوں کے نام نہیں بیان ہوئے ہیں، البتہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کا ذکر موجود ہے۔ حضرت ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبے میں فرمایا کہ لوگو! دیکھو زمانہ پھر اپنی پہلی اسی ہیئت پر آ گیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین تو لگاتار یعنی ذی قعدہ، ذی الحجۃ اور محرم اور چوتھا رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں پڑتا ہے۔ [اسے بخاری نے روایت کیا ہے]
رجب کو اس لیے حدیث میں "مضر” کہا گیا کہ مضر قبیلہ اسے اپنی جگہ برقرار رکھتا تھا، جب کہ باقی عرب قبائل جنگ و جدل کے زمانے میں مہینوں کے نام اور تعداد میں رد و بدل کردیا کرتے تھے۔ اسی تبدیلی کو قرآن میں ”النسیئ“ کہا گیا ہے جس کے بارے میں ارشاد ہواکہ ”نَسیء تو کفر میں ایک مزید کافرانہ حرکت ہے” [التوبۃ: 37]۔ تو بعضوں کی آراء ہے کہ رجب کی مضر سے نسبت اسی وجہ سے ہے کہ وہ اس کا احترام اور تعظیم کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت جیسے بعض جگہوں کو بعض جگہوں پر اور بعض دنوں اور راتوں کو بعض دنوں اور راتوں پر فضیلت دی، اسی طرح اللہ نے بعض مہینوں کو بھی افضل ٹھہرایا ہے کہ اس کے بندے ان میں نیکی کی طرف بڑھیں اور کثرت سے نیک اعمال کریں۔ لیکن انسانوں اور جنوں میں موجود شیطانوں نے لوگوں کو راہِ راست سے روکا اور ان میں سے بعض کو یہ باور کروایا کہ رحمت و فضیلت کے یہ موسم تو تفریح اور آرام کے مواقع ہیں، اور انہوں نے نا صرف یہ کہ ان کاموں کی شروعات کی جن کی دلیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ملا کرتی، بلکہ دانستہ طور پر فضل و رحمت کے ان موسموں سے متعلقہ اسلامی واقعات اور فتوحات کو ملتِ اسلامیہ کے بیٹوں کے قلوب و اذہان سے محو کرنے کی کوشش کی۔ حالاں کہ یہ وہ واقعات تھے جو انہیں ان کے شاندار ماضی کی یاد دلاتے تھے اور یہ سکھاتے تھے کہ کس طرح عصرِ حاضر سے نمٹا جائے اور کیسے مستقبل کو سنوارنے کی کوشش کی جائے۔
امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ماہِ رجب:
مسلمان بچوں کو ہجری تاریخ کے اہتمام اور ہجری مہینوں میں پیش آنے والے واقعات سے آگاہ کرنا اور اس سب کے ذریعے سے ان کے دلوں میں جہاد اور غلبہ کی اہمیت بٹھانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ حضرت زین العابدین علی بن حسین فرماتے تھے کہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کی تاریخ اس طرح بتائی جاتی تھی جیسے کہہمیں قرآن کیکوئی سورت سکھائی جاتی تھی۔ اسی طرح حضرت محمد بن سعد بن ابی وقاص کا قول ہے: میرے والد ہمیںنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات و سرایا کے بارے میں بتاتے تھے اور کہتے تھے کہ اے میرے بیٹو! یہ تمہارے آباء کے یادگار کارنامے ہیں، انہیں ضائع مت کرنا۔ اسی لیے تمام والدین، مربیین اور معلمین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو اس ماہ رجب میں ہونے والے اہم اسلامی واقعات کے بارے میں بتائیں اور ان کی حکمتوں اور اسباق سے آگاہ کریں تاکہ ہم اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو غلبہ، عزت اور خود مختاری کے حقیقی مفہوم سے آگاہ کرسکیں۔
رجب کا مہینہ بہت سے اسلامی واقعات کا شاہد ہے۔ ہجرتِ حبشہ اسی مہینے میں ہوئی کہ جب مسلمانوں نے مشرکین کے ظلم و ستم سے نجات کے لیے حبشہ کی جانب ہجرت کی کہ جہاں ایسا بادشاہ تھا جس کی رعیت میں ظلم نہ ہوتا تھا۔ اسی طرح اسراء و معراج بھی اسی مہینے میں ہوا جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے نماز کی صورت میں روحانی سکون اور اطمینان کاربانی انعام دیا گیا۔ وہی نماز جس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلالؓ کو فرماتے تھے کہ اے بلال! نماز کی اقامت کہو، ہمیں اس سے راحت پہنچاؤ [ابو داؤد]۔ اس کے علاوہ غزوۂ تبوک اور فتحِ دمشق جیسے غزوات اور جنگیں بھی اسی ماہ میں ہوئیں جنہوں نے تاریخِ اسلامی کے اوراق پر گہرے نقوش ثبت کیے۔
ہجرتِ حبشہ:
مکہ میں اسلام کی دعوت خفیہ طور پر دی جاتی رہی یہاں تک کہ اسلام کو حضرت عمرؓ بن خطاب اور حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب کے ذریعے سے تقویت ملی اور مسلمان پہلی ( دفعہ) دو قطاروں میں کعبۃ اللہ میں حاضر ہوئے، لیکن اس کے باوجود مشرکین کی جانب سے ایذا رسانی اور ظلم وستم میں کمی نہیں آئی۔ جب کہ مسلمان اپنے دین اور اپنے نبی کی خاطر صبر کرتے رہے اور اللہ کی رضا کے حصول کے لیے قربانیاں دیتے رہے۔ ایمان والوں کو یوں دیکھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی غمگین ہوئے اور آلِ یاسر کے پاس سے گزرتے ہوئے فرمایا: )اے آلِ یاسر! صبر کرو! تمہارا ٹھکانہ جنت ہے(۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ نے حبشہ کے حاکم کی بابت معلومات حاصل کرلیں اور معلوم ہوگیا کہ اس کے ہاں تو عدل کا دور دورہ ہےتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو حکم دیا کہ حبشہ ہجرت کر جائیں۔ اس حکم کی تعمیل میں نبوت کے پانچویں سال رجب ہی کے مہینے میں صحابہ ساحل پر پہنچے اور حبشہ کے لیے روانہ ہوگئے اور ہجرت کے نوویں سال رجب کا ہی مہینہ تھا کہ جب مسلمانوں کی ڈھال، نجاشی کا انتقال ہوا۔
اس سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ایک رہنما کو کس قدر دور اندیش اوراپنے ارد گرد کے ماحول کے بارے میں کتنا باخبر اور کثیر الاظلاع ہونا چاہیے اور صورتحال سے نمٹنے کے لیے درست وقت اور صحیح طریقہ کار کا انتخاب کتنا اہم ہے اور یہی وہ اہم اسباق و دروس ہیں جن کو ہمیں اپنے اور اپنی نئی نسلوں کے اندر پیوستہ کرناچاہیے۔

اسراء و معراج:
اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بہت تحفوں میں سے ایک تحفہ اسراء و معراج کا سفر تھا اور یہ مبارک سفر نبی اکرم صلی اللہ علیہ اورآپ کے بعد آپ کی امت کے لیے ایک روحانی انعام تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ کو کفارِ مکہ کی جانب سے ایذا رسانی اور تکلیف کے رویے کا سامنا تھا۔ جب ام المومنین حضرت خدیجہؓ جیسی مضبوط ڈھارس اور حوصلہ بخشنے والی بیوی کا بھی انتقال ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا بھی انتقال کرگئے، جو قریش کے تمام مظالم کے سامنے ایک مضبوط دیوارکی مانند کھڑے تھے۔ ان حادثات سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذہنی کیفیت الگ ہی صورتحال اختیار کرگئی۔ اللہ کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ بلند کرکے رب کو پکارا کہ ” میرے پروردگار! میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ تو ارحم الراحمین ہے۔ تو مجھے کس کے حوالے کررہا ہے؟ کیا کسی بیگانے کے جومیرے ساتھ تندی سے پیش آئے؟ یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملے کا مالک بنا دیا ہے؟ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں۔” (اسے طبرانی نےضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے)۔ پھر اس کے فوراََ بعد اسراء کا سفر پیش آیا اوراللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں کا معراج کروایا اور یہ ایسا سفر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نہ کسی بشر نے کیا اور نہ آئندہ ہی کوئی کرے گا۔
اسی سفر میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر نماز فرض کی تاکہ یہ نماز ایمان، قلوب و ارواح کی پاکیزگی اور سکون کا باعث بنے۔ اسی کا ادراک ہمیں ہونا چاہیے اور ہمیں اپنے بچوں کو بھی بتانا چاہیے کہ بلاشبہ نماز روشنی ہے، پاکیزگی ہے اور اللہ اور اس کے بندے کے درمیان رابطے کا ایک مثالی ذریعہ ہے۔
غزوۂ تبوک
غزوۂ تبوک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری غزوہ تھا، جو انتہائی مشکل اور صبر آزما غزوہ تصور کیا جاتا ہے اور اس کے لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم 9 ہجری کے ماہِ رجب میں ہی روانہ ہوئے تھے۔
یہ وہ غزوہ اپنے وقت، حالات اور مشکلات کے سبب مسلمانوں کی تربیت کا باعث بنا۔ جب یہ اطلاع ملی کہ اہلِ شام نے مدینہ پر حملہ کا ارادہ کرلیا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ دشمن کے یہاں آنے سے قبل اس کو روکنے کے لیے ضروری تیاری کریں اور جلد از جلد روانگی شروع ہو۔ صحابہؓ نے اس حکم پر لبیک کہا چنانچہ مدینہ میں منافقین اور شرعی عذر کے حامل افراد کے علاوہ کوئی باقی نہ رہا۔ اس غزوہ نے مومنین کے ایمان کو واضح کیا اور منافقین کے نفاق کا پردہ چاک کیا۔ ایک طرف شدید گرمی کا موسم تھا، فصلیں پک چکی تھیں اور ہر شخص ان کو کاٹنے کے لیے لمحے گن رہا تھا تو دوسری طرف مسلمانوں کے پاس جنگ کا ضروری مال و اسباب بھی نہیں تھا۔ لیکن تقویٰ کے حامل قلوب نے اپنے مال کو نچھاور کیا اور کمزوروں کے دل اپنے دین کے دفاع کے لیے تڑپ اٹھے۔ مدینے سے لمبی دوری کے باوجود غزوہ تبوک لے لیے مسلمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکل پڑے اورراستے میں سامان کی قلت اور طویل مسافت کے سبب شدید بھوک کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن مسلمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ثابت قدم رہے۔
یہی ہم پر فرض ہے کہ ہم خود کو اور اپنی اولاد کو یہ سبق دیں کہ ہمیں ہر قسم کے حالات میں دین کا دفاع کرنا ہے اور اس کی حفاظت کے لیے اپنی جان اور مال کی قربانی دینی ہے اور ہم کبھی بھی اپنے آرام کو دین پر ترجیح نہیں دیں گے اور مشکلات سے گھبرا کر دفاعِ دین کے راستے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
فتحِ دمشق:
شہر دمشق تاریخ انسانی کا قدیم شہر ہے جو عموماً حکومتوں کا مرکز رہا ہے۔ اس وقت یہ بازنطینی عملداری میں تھا۔ اس شہر کی اہمیت کی وجہ سے اکثر حکومتیں اس پر چڑھائی کرتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ اسلامی حکومت نے بھی اس کو فتح کرنا اولین ترجیحات میں شامل رکھا تاکہ شام کی فتح کا آغاز ہو اور دوسرے مقامات کے لیے بھی یہ نقطہ آغاز ہو۔
اردن میں یرموک کے عظیم معرکے میں فتحیاب ہونے کے بعد شہردمشق بھی مسلمانوں کی نظروں کا محور ہوگیا۔ اس امت کے امین، حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ نے اس کی طرف لشکر کو روانہ کیا۔ سن 13 ہجری کے 17 جمادی الثانی سے 20 رجب تک اس کا محاصرہ جاری رہا۔ بالآخر مسلمان فتحیاب ہوئے اور یوں دمشق بازنظینی ریاست کا پہلا شہر تھا جو شام میں اسلام کے زیرِ نگین آیا۔
معرکۂ یرموک:
جنگِ اجنادین کے بعد اسلامی لشکر نے اپنی کامیاب مہمات جاری رکھیں اور ایک فتح سے دوسری فتح کی طرف گامزن رہا۔ نتیجتاََ بصرہ، بعلبک، حمص، دمشق، بلقاء، اردن اور فلسطین کے کچھ حصوں پر مشتمل شام کا بڑا رقبہ مسلمانوں کے ہاتھ آگیا۔ اس کے لیے رومی لشکر سے ایک بڑا مقابلہ ناگزیر تھا، اسی سبب 5 رجب 15 ہجری کو معرکۂ یرموک پیش آیا جس میں مسلمان کم تعداد کے باوجود ثابت قدم رہے اور رومی لشکر کو خاک چٹوا دی۔
قدس کی آزادی:
القدس بنیادی طور پر اپنے مذہبی تشخص کی وجہ سے دینِ سماویہ کے پیروکاروں، خاص کر مسلمانوں اور عیسائیوں میں اہمیت اور مرتبہ کا حامل ہے۔ اسی وجہ سے عیسائیوں نے اس پر قبضہ کرنے کے لیے اور اسے مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھیننے کے لیے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا اور صلیبی جنگوں کے دوران انہیں اس شہر پر فتح حاصل ہوگئی۔ عیسائی اس شہر پر سو سال تک قابض رہے۔ اور اس دوران انہوں نے مسلمانوں کا بہت قتل عام کیا، شہر کی گلیوں میں بے تحاشا خون بہاتے رہے یہاں تک کہ امت صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں متحد ہوئی، جس نے صلیبیوں کو منہ توڑ جواب دیا اور ہفتے کے دن 25 ربیع الثانی 583 ہجری بمطابق 4 جولائی 1187عیسوی کو معرکۂ حطین میں انہیں ہزیمت سے دوچار کیا۔ اس کے بعد اسلامی لشکر القدس کی جانب متوجہ ہوا اور لشکر میں علماء و صالحین کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ 5 رجب کو القدس کا محاصرے کا آغاز ہوا اور اسلامی لشکر کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ صلاح الدین نے مسجد اقصیٰ کی صفائی اور پاکی کا اہتمام کیا اور 27 رجب کو فتح کے بعد کی پہلی نمازِ جمعہ مسجد اقصیٰ کے صحن میں ادا کی گئی۔
اس سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے علاقوں کے تحفظ کے لیے کوشاں رہنا چاہیے اور القدس کے ساتھ ساتھ کوئی بھی خطہ جو کفار کے قبضے میں چلا گیا ہو، اس کو واپس لینے کے لیے جہاد سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے۔
ماہِ رجب میں صرف یہی واقعات نہیں ہیں بلکہ زبیر بن عوامؓ کی وفات بھی 34 ھجری کے ماہِ رجب میں ہوئی اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا بھی 101 ھجری کے اسی مہینے میں ہی انتقال ہوا۔ اس کے علاوہ حضرت خالدؓ بن ولید کی قیادت میں مسلمانوں نے۴ رجب ۱۴ ہجری کو انبار کا علاقہ فتح کیا۔
رجب اور تزکیۂ نفس:
صحابہ کرامؓ رمضان سے قبل اللہ سے دعا کرتے کہ انہیں رمضان مل جائے اور رمضان کے بعد وہ دعا کرتے کہ رمضان کے اعمال قبول ہوجائیں۔ معلي بن الفضل کا قول ہے کہ "وہ (صحابہؓ) سال کے چھ ماہ یہ دعا کرتے کہ اللہ! ہمیں رمضان تک پہنچا دے اور بقیہ چھ ماہ یہ دعا کرتے کہ رمضان کی نیکیاں قبول ہوجائیں۔”
اس لیے ہمیں چاہیے کہ ماہِ رجب کو اسی کے لیے خاص کریں جس کے لیے اللہ نے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص کیا ہے کہ یہ حرمت کا مہینہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے حرمت کے مہینوں کی بابت فرمایا ہے کہ: "ان میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو” [ التوبۃ :34] اس لیے اس میں گناہوں سے بالخصوص بچنا چاہیے۔
اسی طرح ہمیں یہ بھی چاہیے کہ ہم اس مہینے میں اللہ کے دین کو پھیلانے میں انتہائی دل چسپی لیں اور سنت کی پیروی کرتے رہیں، نیک اعمال میں مشغول رہیں اور اپنے دلوں کی پاکیزگی پر توجہ دیں تاکہ جب ہم رمضان کو پہنچیں تو تو قلب و روح کی پاکیزگی کا اکثر اہتمام ہوچکا ہو۔ اسی لیے امام سفیان ثوریؒ کا قول ہے: "فرماتے ہیں کہ فقہاء کہا کرتے تھے کہ انسان کی بات تب تک درست نہیں جب تک عمل اس کے ساتھ نہ ہو اور قول و عمل کی درستگی اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک نیت میں اخلاص نہ ہو اور ان تمام کی درستگی کے لیے ضروری ہے کہ انسان سنت کی موافقت اختیار کرے۔”
تو منہجِ نبوی تو یہ ہے کہ رجب تزکیۂ نفس کا مہینہ ہےجس میں انسان کو چاہیے کہ تقویٰ اور ایمان میں اضافے کی کوششیں کرے اور اپنے آپ کو تمام گناہوں، برائیوں اور اللہ کی تعالیٰ کی جانب سے حرام کردہ تمام امور سے بچاتا رہے۔
مترجم: زعیم الرحمان