حق بات کہنےکی جرأت ان قابل تعریف خوبیوں اور اخلاقیات میں سے ایک ہے، جن کا مصدر سچائی سے محبت اور اس کی حمایت میں جانبازی سے کام لینا ہے اس لئے کہ وہ حق ہے اور باطل سے نفرت ہوتی ہے اس لئے کہ وہ جھوٹ ہے۔ یہ ایک ایسا لفظ ہے جسے سنتے ہی روح کے اندر ایک ایسی توانائی داخل ہوتی ہے جو انسان کو مثبت اور نتیجہ خیز اقدام کرنے پر ابھارتی ہے، خاص طور پر آج کے وقت میں جب اصول اور تصورات مختلف معنی لیے ہوئے ہیں، لیکن کلمہ حق پھر بھی عزیز تر اور انمول ہے، صرف بزدل اس سے ڈرتے ہیں۔
کلمہ حق اپنے کہنے والوں کو ایک مشکل انجام کی طرف دھکیل سکتا ہے، لیکن اسے بروقت نہ کہنا انسان کو اپنے آپ سے، اپنی اخلاقی وابستگی اور اپنی عزت نفس کے ساتھ ٹکراؤ میں ڈال دیتا ہے۔ بلاشبہ جب اللہ پر ایمان کامل ہو، تو انسان مشکلات کو برداشت کرنے کی ہمت کرتا ہے اور اس دین کی حمایت کے لیے خطرہ مول لیتا ہے جس پر وہ ایمان رکھتا ہے، وہ نتائج سے قطع نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے معزز صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔
سچ بولنے میں دلیری کا تصور:
دلیری کی تعریف لغت میں سچ بولنے کے طور پر کی جاتی ہے، اور یہ ہمت کرنے کے فعل کا ماخذ ہے، جس کا مطلب کسی خوف یا ہچکچاہٹ کے بغیر کچھ کرنا ہے۔ شجاعت جرأۃ سے مشتق ہے، اور بہادر کا مطلب دلیر ہے۔ لسان العرب میں: “انسان نے ہمت کی” کا مطلب ہے “اس نے کچھ کرنے کی ٹھان لی” یعنی اس نے تہیہ کر لیا۔ اور المعجم الوسیط لغت میں اس کا مطلب ہے “بغیر کسی خوف کے اقدام کرنا” اور القاموس المحیط میں یہ “برے کاموں کو روکنے کیلئے دل کی طاقت ہے۔”
اصطلاحی طور پر، دلیری ایک ایسی خصوصیت ہے جو انسان کو وہ کام کرنے پر آمادہ کرتی ہے جس کے کرنے سے دوسرے لوگ ڈرتے ہیں، خواہ وہ خطرات یا چیلنجز کا سامنا ہو، یا حق و انصاف کے دفاع میں کھڑا ہونا ہو۔ جرجانی صاحب اس کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں کہ “خوف کے مقابلہ میں دل کی ثابت قدمی، اور موت کو خاطر خواہ میں نہ لانا”، امام الغزالی نے کتاب “اخلاقیات” میں کہا ہے کہ “بہادری مکارہ پر ثابت قدمی اور پریشان نہ ہونے کے ساتھ اقدام کرنے کی صلاحیت ہے” اور الفارابی کے مطابق، یہ “وہ قوت ہے جو انسان کو کسی ایسے کام کے کرنے پر مجبور کرتی ہے، جو وہ کرنے سے ڈرتا ہے۔”
شیخ سلمان العودہ نے کہا: یہ خوبی قابل تعریف خصوصیات میں سے ہے، اور یہ روح کے اندر ایک توانائی ہے جو انسان کو مثبت، نتیجہ خیز عمل کی طرف راغب کرتی ہے، اس طرح ہم اس سے اس کے منفی معنی یا اس کے برے معنی کو الگ کر سکتے ہیں، اور ایک جرأت مند شخص اپنے آپ میں ایک آزاد، فیاض، ہمت اور حوصلہ مند شخص ہوتا ہے اور اس وجہ سے جرأت دلیری کے معنی میں سے ایک ہو سکتا ہے۔
العودہ کا خیال ہے کہ جرأت کو جسمانی اعمال سے ظاہر کیا جا سکتا ہے، جیسے: جنگ اور لڑائیوں میں دلیری، یا اسے معنوی اعمال سے ظاہر کیا جا سکتا ہے، جسے ادبی جرأت کا نام دیا جاتا ہے، جیسے کہ کسی شخص کی اپنی رائے کا اظہار کرنے کی جرأت، مشکل حالات کا سامنا کرنے کے لیے ایک شخص کی ہمت، اور کسی شخص کی وہ کچھ کہنے کی ہمت، جسے وہ صحیح سمجھتا ہے… وغیرہ۔ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، کیونکہ شجاعت روح کے اندر ایک رنگ ہے، اور اگر ایک شخص ادبی جرأت رکھتا ہے، تو ضروری ہے کہ وہ حسی شجاعت کا مالک بھی ہو۔
جہاں تک جرأت کے نفسیاتی تصور کا تعلق ہے، یہ پہل کے جذبے میں واضح ہے، جہاں ایک انسان اپنے آپ کو یا دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر مقصد حاصل کرنے کے لیے ہمت کا اظہار کرتا ہے، یہ جرأت کے حقیقی معنی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ جرأت کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کے حقوق پر حملہ کیا جائے یا جو آپ کا حق نہیں ہے، اسے بھی اپنے لئے رکھ لیا جائے۔
قرآن و سنت میں سچ بولنے کی جرات مندانہ مثالیں:
اسلام اپنے مانے والوں کو سچ بولنے، مظلوموں کی حمایت اور ظلم کے خلاف گواہی دینے کے لیے تربیت کرتا ہے تاکہ ناانصافی کو دور کیا جا سکے، وہ ایسے افراد چاہتا ہے جو کلمہ حق کو موت پر ترجیح دیں۔ کلمہ حق کہنا ان ہزارہا زندگیوں سے بہتر ہے جہاں کوئی بھی شخص باطل کو دندناتا پھرتے دیکھ کر گزر جائے۔
کلمہ حق باطل کے مقابلہ میں ایک خدائی میزائل ہے، جو اس کے وجود کو ہلا کر رکھ دیتا ہے، اس کے ستونوں کو تباہ کر دیتا ہے، اسے مغلوب کر دیتا ہے، یہاں تک کہ تباہی اس کے دماغ تک پہنچ جاتی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ: “مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مٹ جاتا ہے اور تمہارے لیے تباہی ہے ان باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو” [الانبیاء: 18]۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “کہو حق آگیا اور اب باطل کے کیے کچھ نہیں ہوسکتا” [سبا: 49]ْ۔
حق بلند وبالا ہے، اور باطل ریت کی دیوارہے،حقبولتاہے،کچلتا ہے اور مٹا دیتا ہے، اور باطل ناکام، گھل ملجانےوالااور مٹ جانے والا ہے، ارشاد باری تعالی ہے کہ: “اور اعلان کردو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے” [الاسراء: 81[
خداۓ بزرگ وبرتر نے ان لوگوں کی تعریف کی جو اس کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اس کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “(یہ اللہ کی سنت ہے ان لوگوں کے لیے) جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے، اور محاسبہ کے لیے بس اللہ ہیکافی ہے” [الاحزاب: 39]۔
اسی بہترین خصوصیت کے ساتھ ابراہیم علیہ السلام اپنے مخالف لوگوں کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ جن میں ان کے والد اور ان کے رشتہ دار بھی شامل تھے۔ ان کے عقیدے کا انتہائی تمسخر اڑانے کے بعد انہوں نے ان سے کہا: “یاد کرو وہ موقع جب کہ اس نے باپ اور اپنی قوم سے کہاتھا کہ یہ مورتیں کیسی ہیں جن کے تم لوگ گرویدہ ہورہے ہو؟” [الانبیاء: 52] جب انہوں نے اس کے صحیح ہونے کی دلیل کے طور پر کوئی چیز نہ پائی، سواۓ چلی آ رہی تقلید کے، تو پھر آپ نے ان سے کہا: “اس نے کہا، تم بھی گمراہ ہو اور تمہارے باپ دادا بھی صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے” [الانبیاء: 54]، چنانچہ انہوں نے حق کا اعلان کیا جس میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا ڈر نہیں تھا، چنانچہ اس نے ایک طاقتور طاقت کے بل بوتے پر باطل کے خلاف تنہا جنگ کا اعلان کیا۔
سچ بولنے سے وادیاں بہتی ہیں، چشمے چھلکتے ہیں اور زمین اس کے مرنے کے بعد اس سے سیراب ہو جاتی ہے اور مخلوق اس سے طرح طرح کے فائدے حاصل کرتی ہے، اور جہاں تک باطل کی کثرت اور کثافت کا تعلق ہے، تو اس کا معدوم ہونا اور تباہ و برباد ہو جانا طے ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ: “اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے۔ اور ایسے ہی جھاگ ان دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنہیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے بات سمجھاتا ہے۔” [الرعد: 17]۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سچ بولنے کی ترغیب دی، اور یہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیحین میں ثابت ہے، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول نے فرمایا: “میرے بعد ایسے آثار اور معاملات ہوں گے جن کا تم انکار کرو گے۔” انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ، ہم میں سے جو اس بات کو سمجھتے ہیں ان کو آپ کیسے حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو حق تم پر ہے اسے تم پورا ادا کرو اور اللہ سے اس کی جزا طلب کرو۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: “اس کا مطلب ہے: ہم ہر وقت اور جگہ، بڑوں اور بچوں، کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں، اور ہم اس کام میں کسی کی چاپلوسی یا خوف نہیں کرتے۔”
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “سنو تم میں سے کسی کو لوگوں کا خوف ہرگز سچ بولنے سے نہ روکے، جب وہ اسے دیکھے” [مسند احمد]۔ اور اسی طرح علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “عنقریب ایسے لوگ نکلیں گے جو سچ بولیں گے لیکن بات ان کے حلق سے باہر نہیں جائے گی۔ وہ حق سے اس طرح ہٹ جائیں گے جس طرح تیر اپنے نشانے سے ہٹ جاتا ہے۔” [ مسند احمد]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اے اللہ، اپنے غیب کے علم اور تخلیق کی صلاحیت کے ساتھ، مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک کہ تو جانتا ہے کہ زندگی میرے لیے بہتر ہے۔ اور مجھے موت دے اگر موت میرے لیے اچھی ہو، میں تجھ سے غیب اور حاضر میں تیری خشیت، اور غصے اور رضا کی حالت میں کلمہ حق کا طلبگار ہوں۔ [ مسند احمد]
ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے دوست یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سات چیزوں کی نصیحت کی اور ان میں سے یہ ذکر کیا: کلمہ حق کو بیان کرنا، اور خدا کے معاملے میں کسی کی پرواہ نہ کرنا۔” [الألبانی في صحیح الترغیب و الترهیب]
صحيح مسلم نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سمع و اطاعت پر بیعت کی، سختی اور آسانی میں، پسندیدہ افعال اور مکارہ میں، اور یہ کہ ہم اس کے لوگوں کے ساتھ تنازعہ نہ کریں، اور ہم سچ بولیں جہاں بھی ہوں، ہم خدا کے معاملے میں کسی کی پرواہ نہ کریں”۔
سچ بولنے کی دلیرانہ مثالیں:
اسلامی تاریخ سچ بولنے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نتائج سے خوفزدہ نہ ہونے کی باوقار مثالوں سے بھری پڑی ہے، جس کا آغاز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتا ہے، جہاں ابن ہشام نے اپنی “سیرت” میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ کہتی تھیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسراء والی رات تھی، وہ میرے گھر میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس رات سو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھی، پھر آپ سو گئے اور ہم بھی سو گئے، جب طلوع فجر ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جگایا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھی۔ اور ہم نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اے ام ہانی، میں نے آپ کے ساتھ شام کی نماز پڑھی جیسا کہ آپ نے اس وادی میں دیکھا، پھر میں بیت المقدس گیا اور وہاں نماز ادا کی، پھر میں نے آپ کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی جیسا کہ آپ دیکھ رہی ہیں۔” پھر آپ جانے کے لیے اٹھے۔
ام ہانی کہتی ہیں کہ میں نے ان کی چادر کا کنارہ پکڑا اور کہا: اے اللہ کے نبی، یہ بات لوگوں کو نہ بتانا، ورنہ وہ آپ کا انکار کریں گے اور آپ کو تکلیف پہنچائیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “خدا کی قسم میں ان کو بتاؤں گا۔” پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکل کر لوگوں کے پاس گئے اور انہیں بتایا تو وہ حیران رہ گئے۔
یہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مکہ میں سب سے پہلے بلند آواز سے قرآن پاک کی تلاوت کرنے والے۔ اور اس وقت کسی کو قرآن پڑھنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کے ساتھیوں نے آپ کو تنبیہ کی کہ اس سے پہلے کہ آپ قرآن بآواز بلند پڑھیں، انہوں نے عبداللہ بن مسعود سے کہا: آپ کسی قبیلے کے بیٹے نہیں ہیں کہ مشرکین آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے اس قبیلہ کا لحاظ رکھ کے۔ لیکن انہوں نے یہ کہہ کر اس پر اصرار کیا کہ: اللہ تعالیٰ میری حفاظت کریں گے۔
چنانچہ وہ مقام ابراہیم علیہ السلام پر گئے اور سورۃ الرحمٰن کی تلاوت کرنے لگے، یہاں تک کہ قریش نے آپ کو سنا اور وہ اس وقت اپنی محفلوں میں تھے، چنانچہ وہ آپ کے پاس آئے اور آپ کے منہ پر مارنے لگے اور آپ تلاوت کرتے رہے، جو کچھ وہ ان کے ساتھ کر رہے تھے اس سے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا، پھر جب وہ اپنے ساتھیوں کے پاس آئے، ان کے باوقار چہرے پر مار کے نشانات تھے، تو انہوں نے ان سے کہا: ہمیں اسی بات کا ڈر تھا۔ انہوں نے ان سے کہا: “خدا کے دشمن میرے لیے اب زیادہ آسان ہیں، اور اگر آپ چاہیں تو میں کل ان پر دوبارہ ایسا ہی کروں۔” انہوں نے کہا: “نہیں، آپ کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ نے انہیں وہ سنایا جس سے وہ نفرت کرتے ہیں۔”
حمزہ بن عبدالمطلب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے، وہ بہادر، باہمت اور سچ بولنے میں جرأت مند تھے اور خدا کے معاملہ میں کسی کی نہیں سنتے تھے۔ ان کی دلیری کے ثابت شدہ واقعات میں سے ان کا قبول اسلام ہے، جہاں عبداللہ بن جدعان کی لونڈی نے انہیں بتایا کہ ابوجہل نے تمہارے بھتیجے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت تکلیف پہنچائی ہے، اس نے گالم گلوچ کی،اس نے اس کی بڑی توہین کی ہے، حمزہ غصہ سے آگ بگولہ ہوئے- چنانچہ وہ ابو جہل کے پاس گیا اور اپنی کمان سے اسے دھکیلا اور اسے مارا۔ اور اس نے اس سے کہا: کیا تم محمد کی توہین کرتے ہو جب کہ میں ان کے دین کی پیروی کرتا ہوں اور وہی کہتا ہوں جو وہ کہتے ہیں، انہوں نے اس سے کہا: اگر ہو سکے تو مجھ سے بدلہ لو جو میں نے تمہارے ساتھ کیا۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی والدہ مشرک تھیں، چنانچہ جب سعد رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا اور ان کی والدہ کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے قسم کھائی کہ وہ نہ کھائیں گے، نہ پئیں گے اور نہ ہی باہر آئیں گی سوائے اس صورت کے کہ اس کا بیٹا سعد اسلام سے پھر جائے اور یہ اس پر دباؤ ڈالنے کے مترادف تھا، یہاں تک کہ وہ اس کی طرف متوجہ ہو اور اسلام سے رجوع کر لے۔ وہ اس سے کہتی تھیں: کیا تمہارے دین نے تمہیں حکم نہیں دیا کہ اپنے والدین کی اطاعت کرو؟ اور دیکھو یہاں میں تمہیں اس کام کا حکم دے رہی ہوں اور تم میری بات نہیں مانتے۔
اس کی ماں اسی حالت میں رہی یہاں تک کہ وہ بغیر کھائے پیۓ بے ہوش ہوگئی، یہاں تک کہ اس کے بیٹے عمارہ نے اسے کچھ پینے کے لیے دیا، چنانچہ اس نے سعد کے لیے بددعا کرنا شروع کی، تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا: “اور اگر وہ تم سے میرے ساتھ شرک کرنے کی کوشش کریں۔ جس کا تجھے کچھ علم نہ ہو تو ان کی اور ان کے ساتھی کی بات نہ مانو، اس دنیا میں تو مہربان ہو” پھر سعد رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اے ماں، تم جانتی ہو، خدا کی قسم، اگر آپ کے پاس سو جانیں ہوں اور وہ ایک ایک کر کے نکل آئیں۔ میں نے اس دین کو نہیں چھوڑنا۔ چاہو تو کھاؤ، اور چاہو تو نہ کھاؤ، چنانچہ اس نے کھا لیا۔”
اس کردار نے نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو چھوڑا اور نہ ہی ان کے بعد آنے والوں تابعین کو، یہاں عمر بن عبدالعزیز کا ذکر مناسب ہو گا، جب ان کے پاس ایک وفد آیا اور اس میں ایک بارہ سال کا بچہ بھی تھا۔ وہ بولنے کے لیے کھڑے ہوئے تو عمر بن عبدالعزیز نے کہا: رکو، پہلے تم سے بڑا کوئی بولے۔ فرمایا: اے امیر المومنین! اگر مسئلہ عمر کا ہوتا تو ملت کا امام کوئی ایسا شخص ہوتا جو آپ سے بڑا ہوتا، تو آپ نے فرمایا: بولو، تو اس بچے نے کہا: ہم خوف کی وجہ سے نہیں آئے، آپ کے عدل نے ہمیں خوف سے محفوظ کر دیا ہے۔ ہم اُمید لے کے کر نہیں آئے کیونکہ تیری بھلائی ہم تک بغیر مانگے پہنچی ہے، بلکہ شکر اور تعریف کے لیے آئے ہیں۔ عمر بن عبدالعزیز اس سے بہت متاثر ہوئے۔
السبکی نے “طبقات الشافعیہ” میں علماء کے سلطان العز بن السلام کے قول کلمہ حق میں ایک بہادرانہ مؤقف کا ذکر کیا ہے، جہاں انہوں نے کہا: “العز ایک بار قلعہ میں سلطان کے وہاں عید والے دن نمودار ہوئے، اس نے اپنے اور اہل دربار کے سامنے سپاہیوں کو قطار میں کھڑے دیکھا، سلطان کی کیا شان و شوکت تھی۔ ملک مصر کے سلاطین کے دستور کے مطابق اس کی زینت و آرائش تھی اور شہزادے سلطان کے سامنے گردنیں جھکائے کھڑے تھے، شیخ نے سلطان کی طرف متوجہ ہو کر اسے پکارا کہ اے ایوب تیرے پاس کیا دلیل ہے؟ اگر خدا تم سے کہے کہ کیا میں نے تمہیں مصر کی بادشاہت نہیں عطا کی، تو تم نے شراب کی اجازت دی ہے، بادشاہ نے کہا، کیا ایسا ہو رہا ہے؟ العز نے کہا، ہاں، فلاں فلاں شراب خانہ، جہاں شراب وغیرہ منکرات چیزیں بکتی ہیں۔” اور تم اس بادشاہی میں آگے بڑھ رہے ہو، غوطہ زن ہو، اسی طرح العز بآواز بلند اس کو پکارتا رہا جب کہ سپاہی کھڑے تھے، بادشاہ نے کہا، ”اے میرے آقا! مجھے نہیں پتہ، یہ میرے والد کے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔” العز نے کہا، “تم ان لوگوں میں سے ہو جو کہتے ہیں کہ: “نہیں، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہمم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں” [الزخرف: 22]، چنانچہ سلطان نے ان دکانوں کو بند کرنے کا فیصلہ صادر کیا۔
سلمہ بن دینار، جو ابو حازم کے نام سے مشہور تھے، حضرت معاویہ کے پاس آتے اور کہتے: “السلام علیکم، اے ملازم۔” تو لوگ ابو حازم سے یہ کہلوانے کی کوشش کرتے: “السلام علیکم اے امیر المومنین۔” اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا، پھر معاویہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا: “تم اس قوم کے ملازم ہو، اور تمہارے رب نے تمہیں اس کی دیکھ بھال کے لیے ملازم رکھا ہے۔”
عبدالرحمٰن الناصر نے جب اندلس میں مدینۃ الزہرہ کی تعمیر کی تو وہ اس کی تعمیر میں انتہائی تخلیقی تھا اور اس پر بے شمار رقم خرچ کی۔ اس کے گنبد کے لیے سونے اور چاندی کی ٹائلیں بنوائیں، جیسے ہی فقیہہ منذر بن سعید نے یہ سنا، وہ اس کام سے گھبرا گئے، اور غصہ میں آئے کہ اس نے لوگوں کا مال اڑا دیا، وہ مسجد میں کھڑے ہوکر لوگوں سے خطاب کرنے لگے۔ الناصر کی موجودگی میں اسے ملامت کے ساتھ مخاطب کرتے ہوئے کہا: “میں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ شیطان، خدا کی طرف سے ذلیل ہو کر تمہیں اتنی رقم خرچ کرنے تک پہنچائے گا، اور نہ ہی آپ اسے اس قابل بنائیں گے کہ وہ آپ کی اس قدر رہنمائی کر سکے، باوجود اس کے کہ خدا نے تمہیں جو کچھ عطا کیا اور تمہیں تمام جہانوں پر فوقیت دی یہاں تک تم کفار کے درجہ پر چلے جاؤ۔
ملت بشمول حکمران اور تمام طبقات کے لوگوں کو اس دلیری کی کتنی ضرورت ہے کہ بندہ سچ بولے، اور یہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے چاہتے ہیں کہ ہم سچ بولیں۔ قول کلمہ حق انصاف، معاشرے کی بنیاد اور معاشرے کا رکن ہے، اور اسی کے ذریعے مجرموں کو سزائیں دی جاتی ہیں، اور اس کے ذریعے جھوٹے کے خلاف فیصلے کیے جاتے ہیں، اور گواہوں کی بنیاد پر گواہی دی جاتی ہے۔ اگر آپ ہمارے درمیان انتشار پھیلتے ہوئے دیکھیں تو یہ حق کے ترک کرنے سے ہے اور باطل کی مدد ہماری اندر دلیری کی کمزوری کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے، حالانکہ ایمان کا تقاضا ہے کہ دلیری پیدا ہو۔
ذرائع اور حوالہ جات:
المعجم الوسیط: جرات کا معنی 4/267۔
ابن منظور: لسان العرب 12/30۔
الغزالی: الأخلاق 2/158۔
الفارابی: فلسفہ اخلاق 2/102۔
الجرجانی: تعریفات، ص 11۔
القاموس المحیط: جرات کا معنی 1/529۔
سلمان العودہ: دلیری کا تصور۔
یسری عبدالغنی: حق بات کہنے میں جرات اور معاشرے کی پاکیزگی کا حصول۔
ڈاکٹر عبدالعزیز الحمیدی: سچ کہنے کی ہمت اور مصیبت کے وقت ثابت قدم رہنا۔
ابن ہشام: سیرت النبی 2/43۔
السبکی:طبقات الشافعیہ 8/211۔
مترجم: بہاء الدین