مسلمان کی زندگی میں ماہ صیام کی فضیلت واہمیت
ماہ رمضان المبارک مسلمانوں کے لیے بڑی فضیلت وعظمت کا حامل ہے۔ یہ مبارک مہینہ روزہ، قیام اللیل اور تلاوت قرآن کے لیے خاص ہے۔ اس میں انسان کے لیے دوزخ سے نجات حاصل کرنے اور گناہوں کی مغفرت طلب کرنے کا موقعہ ہے۔ یہ صدقات وخیرات اور حسنِ عمل کا موسم بہار ہوتا ہے۔ اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، نیکی کے درجات کئی گنا بڑھائے جاتے ہیں، خطاؤں کو گھٹایا جاتا ہے، دعائیں قبول کی جاتی ہیں، درجات بلند کیے جاتے ہیں، گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر فضل وکرم کی بارش کرتا ہے، اور اپنے خاص بندوں کو انعام واکرام سے نوازتا ہے
یہ ایسا مبارک مہینہ ہے جس کے روزوں کو اللہ عزوجل نے اسلام کا ایک رکن قرار دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے روزے خود رکھے ہیں اور لوگوں کو اس کا حکم دیا ہے اور بشارت دی ہے کہ جو شخص بھی اس ماہ مبارک کے روزے ایمان پر اور اپنا احتساب کرنے کی نیت سے رکھے اللہ تعالیٰ اس کے سارے پچھلے گناہ معاف فرما دے گا، اور جو شخص ایمان اور احتساب کی نیت سے اس مہینے میں قیام اللیل کرے گا اس کے پچھلے گناہ بھی معاف ہوں گے۔ اس مہینے میں وہ رات ہے جو ہزار راتوں سے افضل ہے، جو شخص اس رات کے خیر سے محروم رہا، پھر وہ محروم ہی رہا۔
ماہ رمضان کی فضیلت:
ماہ رمضان المبارک کی فضیلت میں دنیا و آخرت کی بھلائی کی بہت سی چیزیں شامل ہیں، اور وہ یہ ہیں:
پہلی: روزہ داروں کے لیے جنت کا ایک خاص دروازہ مقرر کیا گیا ہے جس کا نام “ریان” ہے۔ روزہ دار کو چاہیے کہ یہ انعام حاصل کرنے کے لیے برائیاں ترک کرے، اور ٹھیک اس بات کا مصداق بن جائے جس کی روایت ابو ہریرہؓ نے کی ہے کہ اللہ کے رسول صلعم نے فرمایا: ” روزہ ڈھال ہے، کوئی روزہ دار گالم گلوچ نہ کرے اور نہ جھگڑا کرے۔ البتہ اگر کوئی شخص روزہ دار سے لڑائی کرتا ہے یا اسے طعنہ دیتا ہے۔ وہ اسے جواباً صرف اتنا کہہ دے: میں روزہ دار ہوں، میں روزہ دار ہوں “(بخاری)۔
دوسری: اس مبارک مہینہ میں شبِ قدر آتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان المبارک کو اس عظیم رات سے فضیلت بخشی ہے، اس رات میں بڑے اور چھوٹے گناہ معاف ہوتے ہیں اور اجر کو کئی گنا بڑھایا جاتا ہے، جو اللہ کے اس قول کی تصدیق کرتا ہے: “ہم نے اس قرآن کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے اور تمہیں نہیں معلوم کہ وہ شب قدر کیا چیز ہے شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے” (القدر:1-3) اور آپ صلعم نے فرمایا: “جس شخص نے شب قدر کی رات میں ایمان واحتساب سے قیام اللیل کیا اس کے سارے پچھلے گناہ معاف ہوگئے” (بخاری)۔
تیسری: دوزخ سے نجات بخشنے والا مہینہ۔ دوزخ سے نجات حاصل کرنا ایک مسلمان کی سب سے بڑی آرزو ہے، خاص کر لفظ عتق کے معنی دوزخ کے عذاب سے بچنے اور جنت میں داخل ہونے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر فضل وکرم ہے کہ وہ اس مہینے کی ہر رات کو لوگوں میں سے آگ سے نجات پانے والوں کو چنتا رہتا ہے اس روایت کے مصداق جو ابو امامہ باہلی سے مروی ہے کہ نبی کریم صلعم نے فرمایا: ” اللہ تعالیٰ ہر افطاری کے وقت بہت سوں کو آگ سے نجات دلاتا ہے اور اسی طرح ہر رات کچھ لوگ دوزخ سے بچا لیے جاتے ہیں” (ابنِ ماجہ)
چوتھی: یہ نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔ ماہِ رمضان المبارک کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے باقی عام مہینوں میں سے چن کر قرآن کریم کے نزول کے لیے خاص کیا ہے، جس کی تصدیق اللہ تعالیٰ کے اس قول سے ہوتی ہے۔ “رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا ہے جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے جس میں ہدایت کی اور حق وباطل میں تمیز کرنے والی روشن دلائل ہیں” (البقرہ: 185)۔
پانچویں: اس میں نمازِ تراویح ہے، خاص کر اس مہینے کی راتوں میں قیام اللیل کی سنت پر اجماع ہے اور امام نووی رحمہ اللہ نے اس بات کی تاکید کی ہے کہ نماز تراویح سے قیام اللیل کا اصل مقصد حاصل ہوتا ہے اور نبی کریم صلعم نے کہا ہے: “جو شخص ماہ رمضان المبارک میں ایمان اور احتساب کے ساتھ قیام اللیل میں کھڑا ہوا اس کے سارے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں” (بخاری)۔
چھٹی: اس میں جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور آگ کے دروازے بند کیے جاتے ہیں اور شیاطین کو اس ماہ میں جکڑ لیا جاتا ہے۔ حضور صلعم نے فرمایا: “جب ماہ رمضان المبارک آتا ہے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں دوزخ کے دروازے بند کیے جاتے ہیں اور شیاطین کو جکڑ لیا جاتا ہے”(بخاری)۔
ساتویں: ہر چیز میں سخاوت کا مہینہ، جیسا کہ نبی صلعم کی ایک صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت محمد صلعم اس مہینے میں سب سے زیادہ فیاض ہوتے تھے۔
آٹھویں: ماہ رمضان المبارک میں ایسے لمحات ہیں جن میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بہت سے اکرامات سے نوازتا ہے اور ان پر اپنے فضل وعطا سے نعمتوں کی بارش کرتا ہے۔
نویں: ماہ رمضان المبارک میں عمرہ کا ثواب کئی گنا بڑھایا جاتا ہے اور نبی اکرم صلعم نے بتایا ہے کہ ماہِ رمضان میں عمرہ کا اجر وثواب حج کے برابر ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا: “رمضان المبارک میں عمرہ، حج کے برابر ہے”( ابنِ ماجہ)۔
دسویں: رمضان المبارک میں صدقہ کرنے کا اجر عظیم ہے، پس حضور صلعم رمضان المبارک میں لوگوں سے زیادہ سخی بن جاتے تھے۔
گیارھویں: اس مہینے کی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی طرف کی ہے چونکہ بندوں کے سارے اعمال اپنے لیے ہوتے ہیں ما سوائے روزے کے، پس وہ اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے اور وہی اس کا بدلہ دے گا۔
بارھویں: روزہ دار اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں صبر کا اجر حاصل کرتا ہے۔ معصیت سے دور رہنے میں صبر، درد والم، بھوک، پیاس، سستی اور نفس کی کمزوری پر صبر۔
ماہ رمضان المبارک کی فضیلت: ایک ربانی درسگاہ
ماہ رمضان المبارک کی فضیلت صرف دنیا وآخرت میں رب کی عطا کردہ مذکورہ انعاموں تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ قرآن کا مہینہ، ایمانی تربیت کے لیے ربانی درسگاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ تعلیم جو ایک مسلمان اس مبارک مہینے میں حاصل کرسکتا ہے، یوں ہے:
نفس امارہ کی تہذیب وطہارت: یہ چیز اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے، اس کی نگرانی کا شعور ہونے، اس پر ایمان رکھنے اور خلوص نیت سے حاصل ہوتی ہے۔ روزہ دار کو یہ ساری باتیں دل کی اصلاح اور اعضاء و جوارح سے اس کی پیروی کرنے میں ملتی ہیں۔ پس ایمان، مومن کے لیے زندگی کی علامت ہے اس کے سوا اس کے اندر کوئی زندگی نہیں ہے اور قرآن کریم اس کے نفس اور دل کے لیے شفا ہے یہ وہ نور ہے جس سے اس کا راستہ روشن ہوتا ہے اسے پتہ چلتا ہے کہ کیسے اور کیوں کر سفر طے کرنا ہے۔
ہم بس یہی تصور کرسکتے ہیں کہ پورا مہینہ جن لوگوں کی تربیت رحمٰن کے دسترخوان سے ہو، وہ ان مطمئن نفوس کی طرح ہوجائیں گے کہ جو اپنے رب سے راضی ہیں اور رب ان سے راضی ہے۔ پس ایمان کے بعد پھر قرآن ہی وہ قابل اعتماد تربیتی منہج ہے کہ جس نے ہم سے پہلے ایمان لانے والے نفوس کو پگھلایا ہے، تب جاکر انہوں نے جد وجہد کی، قربانیاں دیں اور غالب آگئے اور دونوں جہاں کی کامیابی وکامرانی حاصل کی۔
انسانی طرز عمل کی اصلاح: سب سے بڑی چیز جو ہم روزے کی درسگاہ سے سیکھ سکتے ہیں وہ وقت کی قدر اور اس کی تنظیم ہے۔ ہم نماز کی پابندی کرسکتے ہیں اور نفس کو اس چیز سے باز رکھ سکتے ہیں جس کی اسے عادت ہوگئی ہو تاکہ یہ ماہ رمضان میں اس ڈگر پر چل سکے جسے اللہ کی شریعت نے مقرر کیا ہو اور جس کا تقاضا رسول اللہ صلعم کی محبت کرتی ہو اور اس لیے بھی تاکہ مومن اس پر اس وقت تک کاربند رہے جب تک وہ اللہ سے اپنا وعدہ پورا کرکے اس سے ملاقات نہ کرلے۔
ضمیر کی بیداری اور اس کی نشوونما: ایک زندہ دل شخص ماہ رمضان المبارک میں آتے جاتے، صبح وشام اپنے ذہن میں صرف خالق کل عزوجل کا تصور لیے پھرتا ہے اور اس کے شعور کی عمیق گہرائیوں میں ایک زندہ ضمیر اور احساس جوابدہی ہوتا ہے جو اس کے دل کی دھڑکن، قیل وقال، ہوش وگوش، ہاتھوں اور قدموں کی آہٹ پر نگرانی کرتا ہے۔ یہ شعور اس کے اندر صرف اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ وہ روزے کی حقیقت سے آگاہ ہونے کے بعد دولت، دھوکہ دہی اور خواہشات کے چنگل سے نکل جاتا ہے اور اسے یقین ہو جاتا ہے کہ اللہ کا تقویٰ حاصل کرنے کے لیے روزہ سب سے بڑی ترغیب، سب سے بہتر وسیلہ اور اس تک پہنچنے کا بہترین طریقہ کار ہے۔ اب اس کے بعد کس چیز کی ضرورت رہتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کو اتنی رفعت عطا کی ہے اور اسے رمضان کے روزے، قیام اللیل اور دعا کا مقصد قرار دیا ہے۔
ہدایت یافتہ خاندان کی تشکیل: اگر ہم ربیعہ بنت معوذ کی حدیث پر غور کریں گے تو ہم یہ بات جان لیں گے کہ کس طرح روزہ نہ صرف فرد کی تربیت میں رول ادا کرسکتا ہے بلکہ یہ پورے خاندان کی تربیت میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، جو ایک ایمان دار معاشرے کی پہلی اینٹ تصور کی جاتی ہے۔ یہ ایک جلیل القدر صحابیہ ہے جس کا نام ربیعہ بنت معوذ ہے وہ اس وقت کے مسلمانوں کا حال سناتی ہے جب یومِ عاشورہ کا روزہ ان پر فرض ہوچکا تھا۔ کہتی ہیں “ہم لوگ اپنے بہت چھوٹے چھوٹے بچوں کا روزہ رکھواتے تھے اور جب ہم مسجد کو جاتے تھے ان کے لیے اون کے بنے ہوئے کھلونے بناتے تھے پھر اگر ان میں سے کوئی کھانے کے لیے روتا تھا ہم اسے یہی کھلونا پکڑا دیتے یہاں تک کہ افطار کا وقت ہو جاتا تھا” (بخاری)۔
امت میں اخلاق کو اجاگر کرنا: حسنِ خلق کی وجہ سے ایک مومن کا درجہ اس شخص کے برابر ہو جاتا ہے جو دن میں روزہ دار ہو اور رات میں قیام اللیل کرتا ہو۔ ایک حدیث میں آیا ہے ” یقیناً ایک شخص اپنے حسنِ خلق کی وجہ سے اس شخص کے برابر ہوتا ہے جو قائم اللیل اور صائم النہار ہو (قیام اللیل کرنے والا، دن بھر روزہ رکھنے والا)”۔ اب ذرا غور کریں اس شخص کے حال پر جس کے حسنِ خلق کے ساتھ رمضان میں اس کا روزہ اور قیام اللیل بھی جمع ہو جائے۔ یہی صفت حضرت محمد صلعم کو اپنے رب اور مولا کی طرف سے تعریف کے طور پر عطا ہوئی ہے: “بلاشبہ آپ صلعم حسنِ خلق کے عظیم درجے پر فائز ہیں” (القلم)۔
ایک مکمل ایمانی معاشرے کی تشکیل: حکیم شارع علیہ السلام نے امت کے ہر فرد کو اپنے مال میں سے جس چیز کے نکالنے کا حکم دیا ہے وہ صدقۂ فطر کہلاتا ہے۔ یہ صدقہ روزہ دار کو پاک کرنے اور مسکین کو کھانا کھلانے کے لیے ہے۔ اس کی ادائیگی اس شخص پر بھی واجب ہے جس کے پاس صرف ایک دن کی روٹی موجود ہو۔ پس ایک غریب آدمی اپنے جیسے دوسرے غریب آدمی کو کھانا کھلاتا ہے اور اسے اس حال میں ملتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے زکوٰۃ اٹھائے پھرتے ہیں۔ یہ صدقہ پورے معاشرے کو بخل کی اس تنگی سے بچانے کے لیے کافی ہے جس نے ہم سے پہلے لوگوں کو تباہ کیا ہے۔
ماہ رمضان اختلافات مٹانے کا نادر موقع ہے: مسلمانوں پر ماہ رمضان کی ایک اور فضیلت یہ ہے کہ اس میں اختلافات ختم کرنے کا بڑا موقعہ ہے۔ چنانچہ مومنوں کے دل ہمہ وقت اپنے رحمٰن وپاک رب کی اطاعت میں لگے ہوتے ہیں، عمل کی طرف مائل رہتے ہیں اور پاک وصاف، پرہیز گار اور رب سے مربوط دلوں سے مل کر روح پرور فضا میں جھومتے ہیں۔ جب یہ لوگ عمل واطاعت میں منہمک ہوکر اللہ کے لیے خالص ہوجاتے ہیں تو رب کی رفعتوں کی اور پرواز کرتے ہیں۔ پس اطاعت صرف اس شخص پر آسان ہوجاتی ہے جس کے لیے اللہ آسانی فرماتا ہے: ” پھر ان کے جسم وجان نرم ہوکر اللہ تعالیٰ کی ذکر کی طرف مائل ہوتے ہیں” (الزمر: 23)۔
ماہ رمضان میں انسانی روحوں اور نفوس میں رفعت پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ انہیں نیک خصلتوں سے نوازتا ہے۔ وہ اطاعت وفرمانبرداری کی وجہ سے ایک دوسرے سے قریب ہوجاتے ہیں، لیکن اچھے اخلاق سے دوری اور پستی میں گرنے کی وجہ سے ان کے درمیان نفرت واختلافات بڑھ جاتے ہیں۔
ماہ رمضان میں ہر ایک مسلمان کے لیے برکتیں اور خوبیاں رکھی گئی ہیں، اس کا دل رب کی رضا سے لبریز ہو جاتا ہے، پھر اس رضا کی وجہ سے وہ تسبیح پڑھنے والے ملائکہ کی طرف پرواز کرتا ہے اور وہ ہر لمحہ رکوع وسجود ، آہ وفغاں اور خشیت الٰہی میں اللہ رب العالمین کے سامنے جھکا ہوا رہتا ہے۔
مگر یہ امت اپنے رب کی نہج سے ہٹ کر آزمائش میں گر پڑی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے دل روزے کی اصل روح سے کوسوں دور ہیں اور انہیں خالی نام کے سوا کچھ بھی نہیں حاصل ہے محض اس زعم (میں روزہ دار ہوں) کی بنا پر دوسرے لوگوں سے اختلافات اور لڑائی جھگڑے جیسے منکرات کا ارتکاب کیا جاتا ہے اور رسول اللہ کے اس قول کو نظر انداز کیا جاتا ہے “کتنے ہی روزہ دار ہیں جنہیں بھوک کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا” (ابو ہریرہ، صحیح الجامع)۔
لوگوں کے مزاج مختلف ہوا کرتے ہیں، کچھ لوگ نرم، شریف اور ملنسار ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ بہت سخت ترش رو ہوتے ہیں، بعض لوگ اس سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح بعض پاکباز مومن ہیں اور بعض خبیث کافر ہیں۔
بلاشبہ مثبت اختلاف، مثبت تعمیر کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص دوسرے مسالک پر دھاوا بولے بغیر اپنے مسلک ومشرب کی ترویج اور اپنے نقطۂ نظر کی صحت وراستی ثابت کرنے پر گامزن رہے۔ جہاں تک منفی اختلاف کا تعلق ہے اس میں ہر پارٹی دوسری پارٹی کو تباہ کرنے اور مٹانے پر تلی ہوئی ہوتی ہے اور اس وجہ سے نفرت، بغض وعداوت اور تعصب پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ماہ رمضان انہی منفی اثرات کا علاج کرنے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ” اور ان لوگوں کی طرح نہ بنو جنہوں نے واضح تعلیمات آنے کے بعد آپس میں تفرقہ بازی کی اور اختلافات کیے( آل عمران: 105)۔
تو آئیے اور ماہ رمضان کو محبت اور اخوت کا مہینہ بنائیں اور ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں جو ہمارے درمیان مشترکہ ہیں اور اختلافی امور میں ایک دوسرے کی معذرت قبول کریں تاکہ ہم اس مبارک مہینہ سےایسی صاف وشفاف روح لے کر نکلیں جو پوری امت میں جاری وساری ہوجائے، اس طرح کہ ہمارا مقصد ایک ہوجائے اور ہمارے قلوب ایک اعلیٰ درجے کی اخلاقی بلندی پر اکھٹے ہوں۔
ماہ رمضان المبارک میں مسلمانوں کی فتوحات
ماہ رمضان المبارک کی فضیلت میں مسلمانوں کی وہ سب فتوحات بھی شامل ہیں جو انہوں نے اس مہینے میں دشمنوں سے معرکہ آرائیاں کرکے حاصل کی ہیں، جن کے اندر مسلمانوں کی کمزوری قوت میں اور ذلت عزت میں بدل گئی۔ پس درحقیقت یہ بڑی کامیابیوں کا مہینہ ہے جس نے تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دیا ہے اور نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ شروعات بدر کی جنگ عظیم اور فتح مکہ سے کی، کرتے کرتے فتح اندلس، معرکہ بلاط الشہداء، فتح عموریہ، حطین، عین جالوت اور بھی بہت سی فتوحات اور کامیابیاں حاصل کیں۔
غزوہ بدر جو مؤرخہ 17 رمضان دوسری ہجری میں واقع ہوا ہے، نے مسلمانوں کی حالت کو مکمل طور بدل کر رکھ دیا ہے، جس میں مسلمانوں کو اپنے دشمنوں پر فتح حاصل ہوئی اور اس فتح کو امت کی سیاسی وضع کا رخ متعین کرنے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے میں سنگ میل کی حیثیت دی جاتی ہے۔ ہمارے رب سبحانہ فرماتے ہیں: ” اور بالتحقیق اللہ تعالیٰ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب کہ تم لوگ بہت کمزور تھے” (آل عمران: 123)۔
پھر اس کے بعد فتح مکہ ہوا جس کے لیے مسلمان برسوں سے بے چین تھے اور اس انتظار میں تھے کہ کب وہ گھڑی آئے گی۔ مسلمان مکہ کے کافروں سے آخری بار بھڑنے کے لیے بے تابی سے تیاریاں کررہے تھے اور پھر رسول اللہ صلعم اور مومنین کی فوج مدینہ منورہ سے مکہ کی طرف مؤرخہ 10 رمضان سن 8 ہجری میں روانہ ہوئی اور مؤرخہ 21 رمضان کو مکہ فتح ہوا۔
بلاشبہ فتح مکہ ایک فتح مبین تھی اس کے ذریعے اللہ نے اسلامی فوج کو عزت و وقار بخشا، انہیں قدر ومنزلت سے نوازا، ان کی عظمت وشان شوکت کو رفعت عطا کی۔ یہ وہ عظیم فتح ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے دولتِ کفر کی جڑ کاٹ دی۔ شرک اور طاغوت کی علامتیں مٹا دیں اور کرۂ ارض کو پھر ایک بار اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حمد وثنا سے آباد کیا۔
رسول اللہ صلعم کی وفات کے بعد بھی مسلمانوں نے ماہ رمضان المبارک میں بڑے بڑے معرکے لڑے ہیں، جیسے جنگ قادسیہ ہے جو نہر فرات کے مغربی ساحل پر ماہ شعبان میں شروع ہوئی اور ماہ رمضان المبارک کی 16 ہجری (637ع) تک مسلمانوں اور پارسیوں کے درمیان چلتی رہی۔ اس جنگ میں حضرت سعد بن ابی وقاص صحابی رسول مسلمانوں کے لیڈر تھے۔ یہ مسلمانوں اور پارسیوں کے درمیان لڑی جانے والی سب سے اہم جنگ تھی، چنانچہ اس میں رستم اور اس کی فوج کے ہزاروں سپاہی ساسانی دارالحکومت مدائن کی طرف بھاگ گئے اور مسلمانوں کو اس جنگ سے کثیر مقدار میں مال غنیمت حاصل ہوا اور مشرقی ایشیا میں فتوحات کا سلسلہ شروع کرنے کے لیے دروازہ کھل گیا۔
ماہ رمضان المبارک میں سب سے بڑی اسلامی فتوحات میں وہ فتح بھی شامل ہے جس کی وجہ ایک عورت کی چیخیں بنیں: جب اس عورت نے چلایا:” اے معتصم تم کہاں ہو! “اس سے معتصم باللہ کی رگ حمیت پھڑک اٹھی اور اس نے قصر خلافت عراق سے مسلح فوج مدینہ عموریہ کی طرف بھیج دی جو بازنطینی سلطنت کا ایک شہر ہے۔ اس نے ایک مسلمان عورت کی آواز پر جس نے مدد کی دہائی دی، لبیک کہہ کر اس شہر کا محاصرہ کرلیا اور یہی وہ معرکہ ہے جس میں عموریہ فتح ہوا۔
ماہ رمضان المبارک مؤرخہ 223 ہجری میں عباسی خلیفہ المعتصم نے عموریہ کو فتح کرنے کے لیے ایک بہت بڑی فوج کی قیادت کی اور حملہ سے پہلے ایک نفسیاتی حربے کے طور پر ایسا ایک پیغام بھیجا جس نے رومیوں کے سپہ سالار کے وجود کو ہلا کر رکھ دیا۔ جہاں معتصم باللہ ڈیڑھ لاکھ سپاہی لے کر عموریہ کے قلعہ پر حملہ آور ہوا تاکہ ساری دنیا اس کے حملہ سے مبہوت ہو کر رہ جائے۔
پھر اس کے بعد وہ معرکہ آتا ہے جس نے اسلام اور مسلمانوں کو تباہی سے بچایا۔ یہ وہ معرکہ ہے جس کے بعد امتِ مسلمہ تفرقہ بازی اور خواب غفلت سے بیدار ہوئی اور ایک جھنڈے تلے جمع ہوگئی۔ یہ عین جالوت کا معرکہ ہے جو مؤرخہ 25 رمضان 658 ہجری میں پیش آیا۔ یہ اسلامی تاریخ میں سب سے فیصلہ کن جنگ تھی جس نے عالم اسلام کو ایک یقینی خطرے سے بچایا جس کی کوئی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی ہے، اور اس کی تہذیب کو گرنے اور ختم ہونے سے محفوظ رکھا۔ اور عالم یورپ بھی اس شر سے محفوظ رہا جس سے مقابلہ کرنے کی طاقت اس وقت کے یورپی حکمرانوں میں سے کسی کے پاس نہیں تھی۔
آخری بات
بے شک ماہ رمضان المبارک کی بڑی فضیلت ہے اور یہ بات کافی ہے کہ محمد صلعم کی امت کو یہ فضیلت بخشی گئی ہے اور اس میں اعمال کا درجہ کئی گنا بڑھایا جاتا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی فضیلت کو سمجھا جائے تاکہ ماہ رمضان المبارک کو وہ قدر ومنزلت مل سکے جس کا یہ مستحق ہے، یہاں تک کہ مسلمان اس موقعہ کو غنیمت جان کر اس کے ربانی خیر وبرکت سے مستفید ہوں اور اس میں زندگی کی کتاب کا نیا صفحہ کھول سکیں، جو بہت تابناک ہو، جس میں نیکی اور اطاعت درج ہو اور خطاؤں اور لغزشوں کو مٹا دیا گیا ہو۔