شیخ محمد متولی الشعراوی کی زندگی کم عمری ہی سے قرآنِ کریم اور عربی زبان سے جڑی ہوئی تھی۔ یہ دونوں اُن کی دلچسپیوں کا مرکز بنے رہے اور انہوں نے انہی میں زیادہ تر وقت لگایا۔ انہی دونوں کے ذریعے وہ چھوٹے بڑے، پڑھے لکھے اور اَن پڑھ ہر طبقے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کے ایمانی افکار نے نسلوں کی تربیت کی، وہ بھی ایسی زبان میں جو بالکل عام فہم تھی۔ ان کی گفتگو ایسی ہوتی کہ سننے والا محو ہو جاتا، اور بات کا اختتام اکثر ایک مسکراہٹ یا “اللہ” کے ذکر پر ہوتا، گویا کسی مشکل بات کی گرہ کھل گئی ہو۔
امام الدعاۃ نے اپنی انہی صلاحیتوں کو تربیتی اصولوں کے فروغ میں استعمال کیا، جس کی بدولت وہ بہترین مربیوں کی صفِ اوّل میں شمار ہوئے۔ وہ ہمیشہ اولاد کی تربیت، معلم کے ادب اور نصیحتوں سے متعلق تربیتی پیغامات دیتے رہتے تھے، اور اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ معاشرے کی ترقی انہی اصلاح پسند نابغہ لوگوں کے ذریعے ہوتی ہے جو پہلے خود متاثر ہوتے ہیں، پھر دوسروں پر اثر ڈالتے ہیں۔
شیخ الشعراوی کی پیدائش اور تعلیم
محمد متولی الشعراوی 15 اپریل 1911ء کو دقادوس، ضلع الدقہلیہ میں پیدا ہوئے۔ گیارہ سال کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا۔ پھر زقازیق کے ازہری ابتدائی اسکول میں داخل ہوئے، جہاں شعر اور حکمت یاد کرنے میں غیر معمولی ذہانت دکھائی۔ 1923ء میں ازہر سے ابتدائی سند حاصل کی، پھر ازہر کے ثانوی ادارے میں داخل ہوئے۔ یہاں بھی ان کا شوقِ ادب بڑھتا گیا، اور ساتھیوں میں خصوصی مقام ملا۔ انہیں طلبہ یونین اور ادباء کی انجمن کا صدر منتخب کیا گیا۔
شیخ الشعراوی کی زندگی کا اہم موڑ اس وقت آیا جب ان کے والد انہیں قاہرہ کے جامعہ ازہر بھیجنا چاہتے تھے، جب کہ الشعراوی خود اپنے بھائیوں کے ساتھ کھیتی باڑی کرنا چاہتے تھے۔ مگر والد کے اصرار نے انہیں قاہرہ پہنچا دیا، جہاں والد نے اخراجات اور رہائش کا انتظام بھی کیا۔
جس ماحول میں الشعراوی کی نشوونما ہوئی، وہ دینی اور ازہری ماحول تھا جس نے ان کی تربیت میں بڑا کردار ادا کیا، اور یہی ان کی دعوت اور عربی زبان میں مہارت کی بنیاد بنا۔
1937ء میں وہ عربی زبان کی فیکلٹی میں داخل ہوئے۔ دورانِ تعلیم وہ انگریز استعمار کے خلاف قومی تحریک میں شامل رہے، جس کی وجہ سے کئی بار گرفتار بھی ہوئے۔ اُس وقت وہ طلبہ یونین کے صدر تھے۔ اس کے بعد عالمیت کی ڈگری حاصل کی، 1943ء میں تدریس کا اجازت نامہ ملا۔ پھر طنطا کے دینی ادارے میں تقرری ہوئی، پھر زقازیق اور اسکندریہ منتقل ہوئے۔
1950ء میں وہ سعودی عرب گئے جہاں ام القریٰ یونیورسٹی میں شریعت کے استاد رہے۔
1963ء میں جب صدر جمال عبدالناصر اور شاہ سعود میں اختلاف پیدا ہوا تو الشعراوی کی سعودی واپسی روک دی گئی۔ مصر واپس آئے تو انہیں شیخ الازہر کے دفتر کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ پھر الجزائر میں ازہری وفد کے سربراہ کے طور پر بھیجے گئے اور سات برس وہاں تدریس میں گزارے۔ انہی ایام میں 1967ء کی جنگ ہوئی تو انہوں نے کہا:
“الحمدللہ کہ مصر اُس وقت فتح یاب نہیں ہوا جب وہ الحاد کے اثر میں تھا، اور لوگ اپنے دین میں آزمایا نہیں گئے”۔
مصر واپسی کے بعد انہیں مختلف عہدے دیے گئے۔ 1976ء میں وزیرِ اوقاف مقرر ہوئے اور 1978ء تک تعینات رہے۔ 1980ء میں مجلسِ شوریٰ کے رکن بنے اور اسی سال مجمع البحوث الاسلامیہ کے رکن بھی مقرر ہوئے۔
شیخ الشعراوی کی اولاد کی تربیت سے متعلق رائے
شیخ الشعراوی ہمیشہ والدین کو نصیحت کرتے تھے کہ بچوں کی تربیت ایمان اور اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر کریں، تاکہ ان کا تعلق اسلام سے عقیدہ، عبادت اور عملی نظام تینوں سطحوں پر مضبوط ہو جائے۔ وہ کہتے تھے کہ دین وہ رشتہ ہے جو انسان کو اس کے رب سے جوڑتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچے کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ سے جڑا ہو۔
وہ فرماتے ہیں:
“اسلام تم سے چاہتا ہے کہ اپنے بچے کو سات سال تک تربیت دو، پھر سات سال تک ادب سکھاؤ، پھر سات سال اُس کے دوست بن کر گزارو”…
- پہلے سات سال: جسمانی اور ذہنی تربیت، غلطی ہو تو پیار اور نرمی سے درستگی
- اگلے سات سال: سختی سے نہیں، لیکن ادب اور نظم و ضبط کی تربیت
- پھر چودہ سال کے بعد: بچے کو اپنا ساتھی بنانا، اسے قریب رکھنا مگر نگرانی میں
- اکیس سال کے بعد: والدین مطمئن ہو سکتے ہیں
انہوں نے آیت ( وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا) سے “عام تربیتی اصول” نکالا کہ والدین بچے کی زندگی میں وجود کا ذریعہ بھی ہیں اور تربیت کا بھی۔ اور تربیت کا وقت بچپن ہی ہے، کیونکہ چھوٹا بچہ فوری مانتا ہے، جب کہ نوجوان ضد بھی کرتا ہے اور سستی بھی۔
اسلام کی تربیت، ان کے نزدیک انسان کی مکمل شخصیت کی تربیت ہے: اس میں جسم، عقل، روح، اخلاق، دنیاوی زندگی، سب شامل ہیں۔ انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا، اسے زمین پر اختیارات دیے، اور ایسی صلاحیتیں عطا کیں کہ وہ اللہ کی مخلوقات میں تصرف کر سکتا ہے، مگر اللہ جیسی تخلیق نہیں کر سکتا — کیونکہ اللہ کا “کن” بے حد قوت رکھتا ہے۔
پھر انہوں نے سورہ مومنون کی آیات (12–14) بیان کیں کہ انسان کی تخلیق کتنے دقیق مراتب سے گزرتی ہے، اور اللہ بہترین خالق ہے۔
معلم اور متعلم کے لیے تربیتی نصیحتیں
شیخ الشعراوی کے نزدیک:
- مربی کو چاہیے کہ جیسا اس نے دوسرے لوگوں سے علم اور فائدہ لیا، ویسے ہی اپنے بعد آنے والوں کے لیے کچھ چھوڑ کر جائے۔
- اگر انسان صرف لیتا رہے اور دوسروں کو دیتا نہ ہو تو معاشرہ رک جاتا ہے۔
- زندگی کی ترقی انہی لوگوں سے ہوتی ہے جو پہلے نیکی اور علم سے متاثر ہوتے ہیں، پھر اثر انداز ہوتے ہیں۔
اچھا معلم کون ہے؟
وہ جس کی بات پر تمام شاگردوں کی توجہ جمع ہو جائے۔ جب ذہن متوجہ ہو تو کوئی بات ضائع نہیں ہوتی۔ اور ناکام استاد وہ ہے جو معمولی انداز میں پڑھاتا ہے، جس سے شاگردوں کی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔
اصل تربیت کیا ہے؟
اصل تربیت یہ نہیں ہے کہ صرف ہونہار طلباء کا ہاتھ پکڑا جائے، بلکہ کمزور طلبہ کو بھی اوپر اٹھایا جائے — یہی اصل فن ہے۔
معلم کو چاہیے کہ:
- تیز طلبہ سے محبت کرے
- مگر کمزور طلبہ کو بھی احساس نہ ہونے دے کہ استاد انہیں کم تر سمجھتا ہے
- ورنہ وہ استاد کی ہدایت قبول نہیں کریں گے
تشدد کی ممانعت:
شعراوی سختی کے قائل نہ تھے۔ وہ بچے کی عزت، وقار اور حوصلہ برقرار رکھتے ہوئے اصلاح کرنے کو بہترین طریقہ سمجھتے تھے۔
تین طرح کے شاگرد:
- وہ جو سبق کے وقت ذہنی طور پر کہیں اور ہوں، یہ ناکام شاگرد ہیں
- وہ جو معلومات لیتے ہیں مگر جلد بھول جاتے ہیں، کیونکہ ربط نہیں ہوتا
- وہ جو معلومات کو ذاتی تجربات سے جوڑتے ہیں، بار بار دہراتے ہیں، یہ سمجھدار شاگرد ہوتے ہیں
شیخ کہتے تھے کہ گناہ، غفلت، اور بے ترتیبی بھی حافظے میں کمزوری اور بھول کا سبب بنتے ہیں۔
یاداشت نہ بھولنے کے طریقے:
- ذہنی اور نفسی تیاری
- پھر سبق کو ذہن میں فعال حالت میں پڑھنا
- خود سے اور دوسروں سے اس پر بات کرنا
- آخر میں: علم پر عمل — تاکہ وہ عادت بن جائے
شیخ الشعراوی کا انتقال
17 جون 1998ء بروز بدھ، شیخ الشعراوی 87 سال کی عمر میں قاہرہ کے الہرَم علاقے میں اپنے گھر میں وفات پا گئے۔ وہ کئی بیماریوں کا سامنا کر رہے تھے۔ ان کی وفات پر عرب دنیا کے علما، مفکرین، ادباء اور سیاستدانوں نے گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ ان کا جنازہ ان کے آبائی گاؤں دقادوس میں ادا کیا گیا اور وہیں وصیت کے مطابق دفن ہوئے۔
مترجم: سجاد الحق