نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ نعرہ “کہو لا الٰہ الا اللہ، تم کامیاب ہو جاؤ گے” توحید کی بنیادوں کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ پیغام اسلام میں اخلاص کے تصور کو بھی اجاگر کرتا ہے، اگرچہ اس میں گہرے معانی اور مقاصد پوشیدہ ہیں۔ ماہر ڈاکٹر امان قحیف کے مطابق، اسلام چاہتا ہے کہ مسلمان اپنے خاندان میں سچائی اور دیانتداری اختیار کریں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ گھر سے باہر سچائی کا (واضح) برتاؤ نہ کیا جائے، بلکہ مسلمان ہر وقت اور ہر موقع پر صاف گوئی کے پابند ہیں، کیونکہ اسلام فطرت، وضاحت اور قول و عمل میں سچائی کا دین ہے۔
اسلام میں سچائی کا مطلب صاف گوئی، دیانت اور کھلے پن سے ہے۔ یہ صرف ایک پریکٹیکل عمل ہی نہیں بلکہ ایک سوچ اور طریقۂ زندگی بھی ہے جو امتِ مسلمہ کے مفاد سے متصادم ہوئے بغیر واضح طرزِ عمل اختیار کرنے پر زور دیتا ہے۔ اسلام نے سچائی اور امانت کے ذریعے اسے ایک بلند قدر قرار دیا۔ سچائی ایک اخلاقی و روحانی قدر ہے، جیسے دیانت، عدل اور مساوات ہیں۔ یہ انسان کو دوسروں کے فریب، جھوٹ اور دھوکے سے بلند کرتی ہے۔ اسلام نے اسے اخلاقی بنیاد پر قائم کیا، نہ کہ حکمران و رعایا کے تعلق پر۔
اس لیے اسلام میں کوئی بھی عام ملازم یا کوئی سربراہ یہ یقین رکھے کہ سچائی ایک روحانی قدر ہے جو صدق، عدل، امانت اور اخلاص سے پیدا ہوتی ہے۔
قرآن و سنت میں شفافیت (سچائی) کی مثالیں:
آج جب ہم اپنے معاشروں میں، خاص طور پر عرب خاندانوں کے اندر، سچائی (شفافیت) کی کمی دیکھتے ہیں، تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ میاں بیوی کے درمیان خاموشی اور گفتگو کی کمی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اسے “ازدواجی خرس” کہا جانے لگا ہے۔ یہ حالت خاندانی رشتوں کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے اور ماہرین کو اس کے حل پر غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ طلاق کی شرح میں مزید اضافہ نہ ہو۔
یہ حیرت کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے اس حال کو پہنچ گئے ہیں، حالانکہ ہمارا دینی ورثہ ابہام اور پراسراریت کی مخالفت کرتا ہے۔ قرآن کی گہری تفسیر سے واضح ہے کہ یہ رویہ اسلامی نہیں بلکہ اسلام اسے رد کرتا ہے۔
قرآن مجید حضرت ابراہیم علیہ السلام کی صاف گوئی کو بیان کرتا ہے جب انہوں نے کہا: “اے رب، مجھے دکھا کہ تو مُردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے”۔ ان کا سوال شک کی بنیاد پر نہیں بلکہ تسکینِ قلب کے لیے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ملامت نہیں کی بلکہ ان کی خواہش پوری کی۔ یہ سچائی کی اعلیٰ مثال ہے۔
اسی طرح قرآن نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بعض مقامات پر متنبہ فرمایا، جیسے سورۂ عبس میں۔ یہ قرآن کی صاف ہدایت کا مظہر ہے کہ ایک نبی کے ساتھ بھی اصلاح کے مقصد سے کھلی بات کی گئی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے کئی واقعات ملتے ہیں۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے باغ میں گئے اور اونٹ کو روتے دیکھا۔ وہ اونٹ بھوکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک کو بلا کر فرمایا: “کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے اس جانور کے بارے میں جسے اللہ نے تمہارے قبضے میں دیا ہے؟ اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو۔”
صحابہ کرامؓ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرزِ شفافیت کو اپنایا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا: “میں تم پر حاکم بنایا گیا ہوں مگر میں تم میں سب سے بہتر نہیں۔ اگر میں اچھا کروں تو مدد کرو، اگر غلطی کروں تو درست کر دو۔” یہ شفاف قیادت کی روشن مثال ہے۔
کیوں ہمارے اسلامی معاشروں میں سچائی (شفافیت) کم ہوئی؟
تاریخ و سماجیات کی کتب میں بے شمار مثالیں ہیں کہ پہلے عرب خاندانوں میں صاف گوئی عام تھی، مگر آج یہ جذبہ کم ہو گیا ہے۔ اس زوال کی کئی وجوہات ہیں:
اول: دنیا بھر میں انفرادیت کا غلبہ۔
دوم: دلچسپیوں اور مشاغل کی کثرت۔
سوم: خاندان سے باہر وابستگیوں میں اضافہ۔
چہارم: زندگی کی رفتار میں بے پناہ تیزی۔
پنجم: سخت تربیتی انداز جو بچوں میں خوف اور جھجک پیدا کرتا ہے، نتیجتاً وہ حساس موضوعات پر گفتگو سے کتراتے ہیں۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ نرمی اور تدریجی تربیت اپنائیں جیسا کہ اسلام نے سکھایا ہے۔
اسی ضمن میں عرب دنیا میں رائج سخت باپ کی حکمرانی پر مبنی تربیت کا انداز شفاف گفتگو کے زوال کی ایک بڑی وجہ ہے، جس سے والدین اور بچوں کے درمیان واضح اور پُرخلوص بات چیت ناپید ہو گئی ہے۔
مترجم: سجاد الحق