جس طرح جسم کی صحت اور حفاظت کی جاتی ہے، اس کا خیال رکھا جاتا ہے، توجہ دی جاتی ہے، اسی طرح شریعت دل کی سلامتی، استقامت اور پاکیزگی کا بھی اہتمام کرتی ہے بلکہ دل کے معاملات کو زیادہ فوقیت حاصل ہے کیوںکہ دل رہنمائی، ہدایت اور توجہ کا مرکز ہے اور بقیہ اعضاء و جوارح اس کے تابع ہیں اور اس کی پکار پہ لبیک کہتے ہیں۔ اعمال صالحہ میں جتنی بدنی عبادات ہیں، ان کا مقصود درحقیقت احوالِ قلب کی درستی ہی ہے۔ مثلاََ صبر، اخلاص، توکل، خشیت، تقویٰ، تفکر وغیرہ کو ہم اعمال القلب یا دل کی عبادت بھی کہہ سکتے ہیں۔ (غور کیجئے تو نماز، روزہ، حج، جہاد، دعوت سے انہی اعمال القلب کی نشو و نما مقصود ہے۔ مترجم) یہی اعمال القلب ہیں جو بندے کے دین کو محفوظ رکھتے ہیں، اسے شیطانوں کے مقابلے میں مضبوط بناتے ہیں، اور انہی عالی صفات کے ذریعے دل پاکیزہ اور منور ہوتا ہے، جو بندے کو اپنے رب کے قریب کرتی ہیں اور اس کے اعضاء کو عبادت و اطاعت کے لیے مطیع بناتی ہیں۔
دل کی دنیا میں سکون، پاکیزگی اور زندگی کی رمق پروان چڑھنے، اور ترقی پانے کے اسباب میں سب سے بڑا سبب بغیر کسی شبہ کے، اللہ پر غیر متزلزل یقین کا ہونا ہے۔ یقین باللہ دل سے شک، تردد، ریب اور نا راحتی کو مٹا دیتا ہےاور سینے میں نور، روشنی اور رب سے امید اور اسی کا خوف اور اسی سے محبت پیدا کر دیتا ہے۔ اسی یقین سے تقدیر پہ راضی رہنے کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ یقین ہی ہے جو اعمال القلب کا بنیادی محرک ہے۔ البتہ اس کی پیدائش و افزائش کے لیے درست علم کا ہونا ضروری ہے تاکہ یہ امید اور خوف دونوں کے ساتھ اللہ کی طرف لے جائے کیوں کہ یہی دونوں چیزیں اعمال میں اخلاص اور اطاعت لاتی ہیں۔
یقین باللہ: مفہوم اور بنیادِ شرعی
علماء نے اللہ پر یقین کی لغوی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: “یہ علم ہے جو شک کو دور کر تا ہے اور حقیقت کا ثبوت ہے”، یہ شک کی ضد ہے، جیسے علم جہالت کی ضد ہے۔ کہا جاتا ہے: “میں نے اسے یقینی طور پر جانا۔” قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: وَإِنَّهُ لَحَقُّ اليَقِينِ، یہاں “حق” کو “یقین” کی طرف مضاف کیا گیا ہے، حالانکہ دونوں ایک نہیں، بلکہ “حق” یقین کی خالص ترین اور درست ترین صورت ہے، گویا یہ اضافت جزء کو کل کی طرف ہے۔
امام ابن قیم الجوزیہؒ نے یقین کی کچھ اصطلاحی تعریفات نقل کی ہیں، جن میں سے ایک جنیدؒ کا قول ہے کہ یقین وہ علم ہے جو دل میں اس طرح جم جائے کہ نہ بدل سکے، نہ منتقل ہو، نہ متغیر ہو۔ ذوالنونؒ نے کہا: یقین یہ ہے کہ بندہ ہر چیز میں اللہ کی طرف نظر کرے، ہر معاملے میں اسی کی طرف رجوع کرے، اور ہر حال میں اسی سے مدد طلب کرے۔ جرجانیؒ نے فرمایا: یقین دل کا کسی حقیقت پر مطمئن ہونا، غیب پر کامل تصدیق کرنا اور ہر طرح کے شک و تردد کو دور کر دینا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اہلِ یقین کو ہی اپنی نشانیوں اور دلائل سے فائدہ اٹھانے والے قرار دیا ہے، چنانچہ فرمایا:
وَفِي الأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِينَ، ترجمہ: ” زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لیے”۔ [الذاريات: 20]
اسی طرح اس نے انہیں تمام جہانوں میں ہدایت اور فلاح کے ساتھ خاص فرمایا:
وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ. أُولَئِكَ عَلَى هُدىً مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ، ترجمہ: ” جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے ﴿یعنی قرآن﴾ اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں، ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں” [البقرة: 4-5]
اور اللہ تعالیٰ نے اہلِ دوزخ کے بارے میں بتایا کہ وہ یقین رکھنے والوں میں سے نہ تھے، فرمایا:
وَإِذَا قِيلَ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ لا رَيْبَ فِيهَا قُلْتُمْ مَا نَدْرِي مَا السَّاعَةُ إِنْ نَظُنُّ إِلا ظَنَّاً وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ، ترجمہ: “اور جب کہا جاتا تھا کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں، تو تم کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا ہوتی ہے، ہم تو بس ایک گمان سا رکھتے ہیں، یقین ہم کو نہیں ہے” [الجاثية: 32]
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ، ترجمہ: “حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاۓ پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں”۔ [الحجرات: 15]
لم یرتابوا
یعنی انہوں نے شک نہیں کیا، پس وہ اپنے ایمان میں سچے ہیں۔
اور جو شک میں پڑے رہتے ہیں، وہ منافقین میں سے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ)، ترجمہ: “ایسی درخواستیں (جہاد سے رخصت کی) تو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں رکھتے، جن کے دلوں میں شک ہے اور وہ اپنے شک ہی میں متردّد ہو رہے ہیں” [التوبة: 45]
اللہ کے نبیوں اور رسولوں نے یقین اور اللہ پر اعلیٰ درجہ کے بھروسے کی بہترین مثالیں پیش کیں۔
چنانچہ خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی قوم سے مناظرہ کیا تو پورے یقین اور ثابت قدمی سے فرمایا:
وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ ۔وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ، ترجمہ: “اس کی قوم اس سے جھگڑنے لگی تو اس نے قوم سے کہا ”کیا تم لوگ اللہ کے معاملے میں مجھ سے جھگڑتے ہو؟ حالانکہ اس نے مجھے راہِ راست دکھادی ہے۔ اور میں تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں سے نہیں ڈرتا، ہاں اگر میرا رب کچھ چاہے تو وہ ضرور ہوسکتا ہے۔ میرے رب کا عِلم ہر چیز پر چھایا ہوٴا ہے، پھر کیا تم ہوش میں نہ آوٴ گے؟اور آخر میں تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں سے کیسے ڈروں جبکہ تم اللہ کے ساتھ ان چیزوں کو خدائی میں شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے جن کے لیے اس نے تم پر کوئی سند نازل نہیں کی ہے؟ ہم دونوں فریقوں میں سے کون زیادہ بے خوفی و اطمینان کا مستحق ہے؟ بتاوٴ اگر تم کچھ علم رکھتے ہو۔” [الأنعام: 80-81]
اسی طرح یقینِ کامل کا مظاہرہ کلیم اللہ موسیٰ علیہ السلام نے بھی کیا، جب فرعون اپنے لشکر سمیت ان کے قریب پہنچ گیا، اس وقت ان کے آگے سمندر تھا اور پیچھے دشمن۔
فَلَمَّا تَرَاءَى الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَى إِنَّا لَمُدْرَكُونَ * قَالَ كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ * فَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنِ اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ * وَأَزْلَفْنَا ثَمَّ الْآخَرِينَ *وَأَنْجَيْنَا مُوسَى وَمَنْ مَعَهُ أَجْمَعِينَ * ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْآخَرِينَ * إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ * وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ، ترجمہ: “جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو موسیٰؑ کے ساتھی چیخ اُٹھے کہ” ہم تو پکڑے گئے۔ “موسیٰؑ نے کہا” ہر گز نہیں۔ میرے ساتھ میرا ربّ ہے۔ وہ ضرور میرے رہنمائی فرمائے گا “۔ ہم نے موسیٰؑ کو وحی کے ذریعہ سے حکم دیا کہ” ماراپنا عصا سمندر پر۔“ یکایک سمندر پھٹ گیا اور اس کا ہر ٹکڑا ایک عظیم الشان پہاڑ کی طرح ہو گیا۔ اُسی جگہ ہم دُوسرے گروہ کو بھی قریب لے آئے۔ موسیٰؑ اور اُن سب لوگوں کو جو اس کے ساتھ تھے، ہم نے بچا لیا ، اور دُوسروں کو غرق کر دیا۔ اس واقعہ میں ایک نشانی ہے ، ر اِن لوگوں میں سے اکثر ماننے والے نہیں ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا ربّ زبر دست بھی ہے اور رحیم بھی۔” [الشعراء: 60-68]
محبوبِ خدا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفیق حضرت ابوبکر صدیقؓ سے، جب وہ دونوں غار میں تھے اور خطرات نے ہر طرف سے گھیر لیا تھا، فرمایا:
“اے ابوبکر! دو اشخاص کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے جن کا تیسرا (ساتھی )ا للہ ہے؟ غم نہ کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے”۔
مؤذنِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت بلالؓ نے اذان دی۔ اذان مکمل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“جس نے اس (اذان) کو یقینِ کامل کے ساتھ کہا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔” [احمد و نسائی]
اس سے معلوم ہوا کہ یقین جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
“اس امت کے ابتدائی لوگوں کی اصلاح زہد اور یقین سے ہوئی، اور اس کے آخر میں آنے والے بخل اور طویل آرزوؤں کے باعث ہلاک ہوں گے۔” [روایت: احمد فی الزہد، صحیح الجامع الصغیر میں البانی نے اسے حسن کہا ہے]
اور فرمایا:
“اللہ سے یقین اور عافیت مانگو، کیونکہ یقین کے بعد کسی کو عافیت سے بڑھ کر کوئی خیر نہیں دی گئی۔” [روایت: بخاری فی الأدب المفرد، وصححه الألباني فی الأدب المفرد]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں:
“اے اللہ! ہمیں اپنے خوف میں سے اتنا حصہ عطا فرما جو ہمیں تیری نافرمانیوں سے روک دے، اور اپنی اطاعت میں سے اتنا جو ہمیں تیری جنت تک پہنچا دے، اور اپنے یقین میں سے اتنا جو ہماری دنیا کی مصیبتوں کو آسان کر دے۔ اے اللہ! جب تک تو ہمیں زندہ رکھے، ہمیں ہمارے کانوں، آنکھوں اور قوت سے فائدہ پہنچا، اور اسے ہمارا وارث بنا، اور ہمارا انتقام ان سے لے جو ہم پر ظلم کریں، اور ہماری مدد فرما ان کے خلاف جو ہم سے دشمنی رکھیں۔ اور ہماری مصیبت ہمارے دین میں نہ بنا، اور دنیا کو ہمارا سب سے بڑا غم اور علم کا منتہٰی نہ بنا، اور ہم پر ایسے لوگوں کو مسلط نہ کر جو ہم پر رحم نہ کریں” [ ترمذی و نسائی]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اس یقین کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے سیکھا اور اپنے دلوں میں رچا بسایا۔
حضرت حسنؒ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! دنیا میں لوگوں کو یقین اور عافیت سے بہتر کوئی چیز نہیں دی گئی، پس اللہ عزوجل سے ان دونوں کا سوال کرو۔” [روایت: احمد]
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ بدر کی طرف روانہ ہوئے اور مشرکین سے پہلے وہاں پہنچ گئے، پھر مشرکین بھی آ گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک کسی چیز کی طرف آگے نہ بڑھے جب تک میں آگے نہ بڑھوں۔”
جب مشرکین قریب آ گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“اٹھو! اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔”
تو عمیر بن حمام انصاریؓ بولے:
“اے رسول اللہ! وہ جنت جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے؟”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ہاں۔”
انہوں نے کہا: بخٍ بخٍ (غالباََ واہ واہ کے لیے )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تمہیں بخٍ بخٍ کہنے پر کس چیز نے آمادہ کیا؟”
انہوں نے عرض کیا: اللہ کی قسم! اے رسول اللہ، صرف یہ امید کہ میں (جنت) والوں میں سے ہو جاؤں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً تُو انہی میں سے ہے
پھر عمیرؓ نے اپنے ترکش سے چند کھجوریں نکالیں اور انہیں کھانے لگے، پھر کہنے لگے
“اگر میں ان کھجوروں کو کھا لینے تک زندہ رہا، تو یہ تو بہت طویل زندگی ہوگی”
یہ کہہ کر انہوں نے کھجوریں پھینک دیں، پھر دشمنوں سے لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔
اللہ ان پر رحم فرمائے۔ [روایت مسلم]
اور تجربہ یقینِ کامل سے بالکل مختلف چیز ہے۔
روایت ہے کہ حیوۃ بن شریح تجیبی، فقیہ، محدث اور زاہد، اپنا سالانہ وظیفہ ساٹھ دینار لیتے تھے۔ وہ اس جگہ سے ہلتے نہیں تھے جہاں سے وظیفہ لیتے، یہاں تک کہ پورے کے پورے ساٹھ دینار صدقہ کر دیتے۔ پھر جب گھر واپس آتے تو اپنے بستر کے نیچے وہی ساٹھ دینار پاتے۔
یہ بات ان کے ایک چچا زاد کو معلوم ہوئی، تو اس نے بھی حیوہ کی طرح کرنے کا ارادہ کیا۔ اس نے اپنا پورا وظیفہ صدقہ کر دیا، مگر جب اپنے بستر کے نیچے دیکھا تو کچھ نہ پایا۔ وہ حیوہ کے پاس گیا اور کہا: میں نے بھی اپنا سارا وظیفہ صدقہ کر دیا، مگر مجھے بستر کے نیچے کچھ نہیں ملا۔
تو حیوہ نے کہا: میں نے اپنے رب کو یقین کے ساتھ دیا، اور تم نے تجربے کے طور پر دیا۔
یعنی: تم صدقہ کر کے اپنے رب کو آزمانا چاہتے تھے کہ نتیجہ کیا نکلتا ہے، جبکہ میں صدقہ یقینِ کامل کے ساتھ کرتا ہوں، اس پر ایمان رکھتے ہوئے کہ اللہ عزوجل کے ہاں جزا اور بدلہ ضرور ہے۔
ابن القیمؒ نے فرمایا:
بندے کی دونوں جہانوں میں اصلاح یقین اور عافیت کے بغیر ممکن نہیں۔ یقین آخرت کی سزاؤں سے بچاتا ہے، اور عافیت دنیا کے امراضِ دل و بدن سے حفاظت کرتی ہے۔
اور صاحبِ ظلال نے فرمایا
“جس کے دل میں یقین کی راحت ہوتی ہے، وہ آیات میں اپنے یقین کی تصدیق پاتا ہے اور اپنے ضمیر کو سکون حاصل ہوتا ہے۔ آیات یقین پیدا نہیں کرتیں، بلکہ یقین ہی ان کے مفہوم کو سمجھتا ہے، ان کی حقیقت پر مطمئن ہوتا ہے اور دلوں کو صحیح طور پر قبول کرنے کے لیے تیار کرتا ہے۔”
ھم یہ یقین کیسے بڑھائیں؟
ایک مسلمان پہ لازم ہے کہ وہ ان اسباب کو اختیار کرے جو یقین پیدا کرنے اور بڑھانے میں معاون ہوں تاکہ وہ شک اور تردد کی وادیوں میں بھٹکنے سے بچ سکے۔ ان اسباب میں سے چند یہ ہیں:
تدبرِ قرآن: قرآن اللہ پاک کا اپنے بندوں سے کلام ہے! یہ بندوں پہ خدائی حجت ہے ۔۔۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ قرآن کو غور سے پڑھیں اور تدبر کریں۔
سیرتِ نبویﷺ کا مطالعہ: جو شخص رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اخلاصِ دل اور عدل و امانت کے ساتھ غور سے دیکھےگا، وہ یقین کرنے پہ مجبور ہو جائے گا کہ وہ واقعی اللہ کے رسول ہیں، وحی کے امانت دار ہیں۔ سیرت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے استحکام کے لیے جدوجہد، دین کے پرچم کو بلند کرنے کے لیے جہاد، اخلاقِ حسنہ کی وہ تصویر جس نے دلوں کو مسخر کرلیا، عبادت و ریاضت، معجزات، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشکل حالات میں نصرت و تائید کے مظاہر ۔۔۔ سب کچھ ملتا ہے۔ ان سب سے سیرت کا قاری یقین میں اضافہ پاتا ہے ۔
اللہ کی مخلوقات پہ غور: کائنات پہ اور سورج ، چاند، سمندروں اور دریاؤں، نباتات اور درختوں، مختلف انواع و اقسام کی مخلوقات پہ غور کر کے لازماََ یہ نتیجہ نکلتا ہےکہ ان سب کے پیچھے ایک خالق، مدبر اور حکیم ذات ہے، جس نے اس کائنات کو اپنے علم و قدرت سے پیدا کیا، اور اپنی حکمت و مشیت سے اسے منظم کیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ، ترجمہ: “جو لوگ عقل سے کا م لیتے ہیں ان کے لیے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں ، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں، ان کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے زمین کو زندگی بخشتا ہے اور اپنے اسی انتظام کی بدولت زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق کو پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں، اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں”۔ [البقرہ]
قصص الانبیاء کا مطالعہ: دلوں میں ثبات، نفوس میں رسوخ اور ارواح میں اطمینان پیدا کرنا ہو تو انبیاء کے سچّے قصوں میں بڑے پیغامات ہیں۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
وَكُلًّا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ وَجَاءَكَ فِي هَذِهِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ وَذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ، ترجمہ: “اور اے محمد ؐ ، یہ پیغمبروں کے قصے جو ہم تمہیں سُناتے ہیں، یہ وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعہ سے ہم تمہارے دل کو مضبُوط کرتے ہیں۔ ان کے اندر تم کو حقیقت کا علم مِلا اور ایمان لانے والوں کو نصیحت اور بیداری نصیب ہوئی”۔ [ھود]
صالحین کی زندگیوں کا مطالعہ: نیک لوگوں کے حالات اور واقعات کا پڑھنا، ان پر غور و فکر کرنا، دلوں میں یقین پیدا کرنے کا بڑا سبب ہے۔ یہ ان راستوں میں سے ایک ہے جو نفوس میں یقین بڑھاتا ہے۔ ان کی سیرتوں اور حالات کو جاننا صرف کتابوں تک محدود نہیں، بلکہ آج بھی بہت سے صالح علما ہمارے درمیان موجود ہیں۔ جن کے حالات کا علم ہونا چاہیے۔
صحبتِ صالح: بے شک صالحین کی مجلس اور ان سے میل جول اللہ پہ یقین بڑھانے کا مؤجب ہوتا ہے۔ ان سے ملاقاتوں اور باتوں میں اثر ہوتا ہے جو دل کو موہ لیتے ہیں۔ انسان فطرتاََ اپنے ماحول سے متاثر ہوتا ہے لہٰذا چاہیے کہ اپنے ماحول اور صحبت کو نیک لوگوں کے لیے خاص کیا جائے۔ اس سے یہ فائدہ بھی ہے کہ ہمارے سامنے زندہ مثالیں اور عملی نمونے موجود ہوتے ہیں جو ہمارے ہی وقت اور حالات میں بہترین اسوہ پر عامل ہوتے ہیں لہٰذا نیکی اور یقین کی ترغیب بڑھتی جاتی ہے۔
کائنات اور فطرت کا آسان مطالعہ: ایسی کتابیں پڑھنا جو عام قارئین کے لیے سادہ انداز میں لکھی گئی ہوں، اور جن میں کائنات اور قدرتی مظاہر کے بارے میں بات کی گئی ہو۔ یہ کتابیں سائنسی انداز میں بتاتی ہیں کہ کائنات کے قوانین کتنے درست اور منظم ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ذرّات سے لے کر بڑی بڑی کہکشاؤں تک۔ اسی طرح بعض کتابیں جانداروں کے رازوں پر روشنی ڈالتی ہیں، خاص طور پر انسان پر، اس کے خلیوں کی کارکردگی اور اعضا کے نظام کو بیان کرتی ہیں، ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام اعضا میں کس قدر حیرت انگیز ہم آہنگی اور غیر معمولی باریک بینی پائی جاتی ہے۔
شکوک و شبہات کا شکار لوگوں سے فاصلہ: خصوصاً ہمارے اس دور میں، جب الحاد اور اللہ کے وجود پر شک پھیلانا عام ہوچکا ہے۔ اس غلط نظریہ کے داعی پیدا ہوگئے ہیں، انٹرنیٹ پر ان کے لیے مخصوص ویب سائٹس موجود ہیں، اور فورمز قائم کیے گئے ہیں جہاں ملحدین اکٹھے ہو کر اپنے باطل نظریات کو پھیلاتے ہیں۔ اس صورت میں ہر ایمان والے شخص پر لازم ہے کہ اگر وہ اپنے دل کی سلامتی اور نفس کے اطمینان کو برقرار رکھنا چاہتا ہے، تو ایسے لوگوں کی یاوہ گوئی سے فاصلہ رکھے، ان کی مجلسوں میں نہ بیٹھے، اور ان کی ویب سائٹس میں داخل نہ ہو۔
دعا: یہ مؤمن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے جس سے وہ یقین کو پاتا ہے۔ دعا سے ہی وہ ایمان بڑھاتا ہے۔ جب بندہ عاجزی اور خشوع کے ساتھ، سچے دل سے اللہ عزوجل کے حضور گڑگڑاتا ہے، اور التجا کرتا ہے کہ وہ اسے پہاڑوں کی مانند راسخ یقین عطا فرمائے، تو اللہ عزوجل اس کی امید پوری کرتا ہے اور اس کی دعا قبول فرماتا ہے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسی بات کا حکم دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“اللہ سے معافی، عافیت اور دنیا و آخرت میں یقین مانگو۔”
بے شک اللہ پر یقین ہر مؤمن کی آرزو اور ہر مسلمان کی تمنا ہے، کیونکہ وہ اس کے سایۂ ایمان میں اپنے نفس کے لیے سکون، اپنے دل کے لیے اطمینان اور اپنی روح کے لیے خوشی پاتا ہے۔ اور اس سکون و خوشی کا سرچشمہ یہ ہے کہ انسان اس یقین کے زیرِ سایہ اپنے خالق کو پہچان لے، یہ جان لے کہ اس نے اسے کیوں پیدا کیا، اور مرنے کے بعد اس کا انجام کیا ہوگا۔ اس طرح اس کی عقل فکروں سے مطمئن ہو جاتی ہے، دل شک سے پاک ہو جاتا ہے، اور وہ اپنے رب کی عبادت کی طرف متوجہ ہو کر اسی کی اطاعت میں لگ جاتا ہے۔
مترجم: زعیم الرحمان