میں ایک جوان لڑکی ہوں، میری عمر 22 سال ہے، میں افسردگی میں مبتلا ہوں، اور اس سے بھی بدتر یہ کہ اِس (افسردگی) نے میرے رب سے میرے تعلق کو متاثر کر دیا ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس نے میرے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی ہو۔ اگرچہ میں نماز، قرآن کی تلاوت اور اذکار کی پابندی کرتی ہوں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں یہ سب بغیر روح اور خشوع کے کرتی ہوں۔ اسی طرح میرے ذہن میں سوالات اٹھتے ہیں: کیا اللہ مجھ سے محبت کرتا ہے؟ اور اگر وہ مجھ سے محبت کرتا ہے تو مجھے اس دردِ عظیم کے حوالے کیوں کر دیتا ہے؟ حالانکہ میں اسے پکارتی ہوں اور گڑگڑا کر دعا کرتی ہوں کہ وہ مجھے اس حالت سے نکال دے۔
میں سوچتی ہوں: کیا میرے آنسو سچے نہیں ہے، کیا اسی لیے اللہ میری دعا قبول نہیں کرتا؟ حالانکہ یہ کثرتِ درد کی وجہ سے بہتے ہیں۔ اسی طرح وسوسے آتے ہیں جو کہتے ہیں کہ میں اسی عذاب میں رہوں گی، کیونکہ یہ میرے لیے بہت طویل ہو گیا ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرے لیے سارے دروازے بند ہو گئے ہیں۔ اگر اللہ کا دروازہ بھی مجھ پر بند ہوگیا تو یہی میری آخری تباہی ہوگی۔ میرے لیے اس کے سوا کوئی نہیں۔ مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ میری جوانی آنکھوں کے سامنے ضائع ہو رہی ہے اور میں کچھ نہیں کر پا رہی۔ میں تبدیلی چاہتی ہوں، کامیابی اور توفیق چاہتی ہوں، لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں ہر طرف سے جکڑی ہوئی ہوں۔ میری رہنمائی فرمائیں، کہ میں کیا کروں؟
جواب:
اولاََ، تم نے اپنے خط کی ابتدا جس بات سے کی ہے یعنی یہ کہنا کہ تم “افسردگی میں مبتلا” ہو— تو جیسا کہ معلوم ہے— یہ طبی تشخیص کے بعد ہی کہنا چاہیے جو کسی ماہرِ نفسیات کے پاس جا کر متعین کی جاتی ہے، محض اس بنا پر نہیں کہ کچھ خلا، بے دِلی یا رنج کے آثار ہیں۔ اکثر لوگ ایسے اوقات سے گزرتے ہیں اور خود کو مجازی طور پر “ڈپریشن” کا شکار کہہ دیتے ہیں، مگر عموماً یہ کیفیت جلد گزر جاتی ہے اور انسان پھر سنبھل جاتا ہے۔
لہٰذا خود پر “افسردگی کی مریضہ” کا حکم لگانے سے پہلے باریک بینی سے کام لو اور ماہرین کی تشخیص پر اعتماد کرو۔ بہرکیف، ہر انسان ایسے مرحلے سے کم یا زیادہ گزر سکتا ہے، مگر یہ ایسی چیز ہے جس پر قابو پایا جا سکتا ہے اور بہت سے اسباب و وسائل سے اسے عبور کیا جا سکتا ہے، اور اللہ کے فضل سے آپ بھی اس سے نکل آئیں گی۔
ان اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ اس مدت میں اس بات کو یقینی بناؤ کہ کوئی ایسا شخص ہو جس کے ساتھ تم اپنے دل کی بات بانٹ سکو۔ ہمارے اندر جو کچھ چل رہا ہوتا ہے، اس کا بوجھ محض شیئر کرنے اور اظہار کرنے سے ہلکا ہو جاتا ہے۔ ایسا فرد ہو جو اچھی طرح سن سکے اور جب بھی چاہو سننے کے لیے آمادہ ہو۔ جن سے محبت ہو ان سے یہ کہنے میں جھجھک محسوس نہ کرو کہ وہ تمہارے قریب رہیں اور اس مرحلے سے گزرنے تک تمہارا ساتھ دیں۔
یہ بھی جان لو کہ تمہارے اندر اللہ کے بارے میں جو بہت سے خیالات اٹھتے ہیں وہ دراصل کسی بڑے درد کی علامت ہیں یا اس احساس کا نتیجہ ہیں کہ تم خیریت سے نہیں ہو۔ اکثر جب ہم دکھ میں ہوتے ہیں تو ہمیں اپنی تکالیف، ناکامی اور بے بسی کے لیے کوئی واضح سبب نہیں ملتا، تو ہم اسے اللہ کی مشیّت اور اس کے فیصلے سے جوڑ دیتے ہیں، پھر ہم یہ بھولنے لگتے ہیں کہ ہم بندے ہیں۔ تب سوالوں کا سیلاب آتا ہے: کیوں میں؟ یہ کب ختم ہوگا؟ میری دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پہلے اپنے ارادے اور اپنی کوشش کے بارے میں سوال کرنا چاہیے— کہ ہم نے اپنی مدد کے لیے کیا کیا — اس کے بعد اللہ کی مدد اور نجات کی امید باندھنی چاہیے۔
اگر ہم میں سے کوئی بے بسی اور کمزوری محسوس کرے تو اس میں مضائقہ نہیں، مگر اس کے بعد اللہ پر اعتراض، اس کے فیصلے پر ناراضی، یا اس کی نصرت میں تاخیر کے بارے میں شکوہ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ کامل رضا اور تسلیم ہونا چاہیے۔ اکثر اسی حال میں مدد آتی ہے اور غم جاتا رہتا ہے۔
اس میں بھی حرج نہیں کہ کسی مرحلے پر بعض عبادات روح اور خشوع کے بغیر ہی ادا کی جا رہی ہوں، خود پر پابندی قابلِ ستائش ہے اور تمہاری باطنی قوت کی دلیل ہے، کہ شدید درد کے باوجود تمہارے دین کی بنیادیں قائم ہیں۔ لیکن دل کی غیرحاضری کو چھوڑ دینے کا سبب نہ بناؤ، کیونکہ طاعات عموماً مجاہدہ مانگتی ہیں۔ ہمیشہ خشوع نصیب رہنا ممکن نہیں۔ جو بھی اس میں کمی کا سبب ہو، مؤمن کے لیے چھوڑنا درست نہیں، کیونکہ پابندی خود رفتہ رفتہ حضورِ قلب کا سبب بنتی ہے۔
اذکار میں خصوصاً صبح و شام کے اذکار کی کثرت کرو، ان میں ایسی دعائیں ہیں جو غم دور کرتی ہیں۔ جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری شخص کو وقتِ نماز کے علاوہ مسجد میں دیکھا تو پوچھا، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول، غموں نے گھیر لیا ہے اور قرضے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وہ دعا سکھائی جو غم کو دور اور قرض کو ادا کراتی ہے: “اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الهَمِّ وَالحَزَنِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ العَجْزِ وَالكَسَلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الجُبْنِ وَالبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ غَلَبَةِ الدَّيْنِ وَقَهْرِ الرِّجَالِ”۔ وہ کہتے ہیں: میں نے یہ پڑھا تو اللہ نے میرا غم دور کیا اور میرا قرض ادا کرا دیا۔ اسی طرح وہ ذکر بھی جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہؓ کو صبح و شام کے وقت سکھایا: “یاحیُّ یا قیومُ، برحمتِک أستغیث، أصلِح لی شأنی کلَّه، ولا تَکِلنی إلی نفسی طرفةَ عینٍ”۔
تم اچھی طرح جانتی ہو کہ اللہ سے تعلق کی ضرورت ہے اور اسی کی طرف پناہ ہے، اور یہ اقرار بھی کہ سب کچھ فنا ہو جاتا ہے اور وہ باقی ہے۔ یہ خوشخبری ہے: ان احساسات کے ساتھ جب تم اللہ کی طرف آ رہی ہو، اپنی محتاجی کا اعتراف کر رہی ہو اور اس سے تعلق کے کھونے کے خوف کا اظہار کر رہی ہو، تو وہ تمہیں نہیں چھوڑے گا۔ حدیث قدسی میں ہے: “جو میرے پاس چل کر آتا ہے، میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں”۔ تم سجدہ طویل کرسکتی ہو، اپنے رب سے بلاواسطہ گفتگو کرو، اپنے غم بیان کرو، اپنے خوف ظاہر کرو۔ وہ دلوں کے راز جانتا ہے، چاہے انسان انہیں خوب بیان نہ کرسکے۔ وہ نفس اور اس کے اسرار کا مالک ہے۔ اللہ سے مانگنے میں اصرار کرو، اپنی محتاجی بیان کرو، اس کی معیت کے احساس کی تمنا رکھو؛ وہ اپنے فضل و قوت سے تمہیں محروم نہیں لوٹائے گا۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق کہ اللہ تم سے محبت کرتا ہے یا نہیں: اللہ کی محبت کی دلیل کبھی ابتلاء اور کلفت سے سلامتی کی نہیں رہی۔ بلکہ برعکس یہ کہ محبوبِ الٰہی سیدالخلق صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت دیکھو— وہ ہر اس آزمائش سے گزرے جس سے ایک انسان گزر سکتا ہے: یتیمی، ماں کا غم، بیٹے بیٹی کا وصال، زوجہ کی جدائی، بیماری، وطن سے ہجرت اور بہت کچھ۔ بلکہ فرمایا گیا: “جب اللہ کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزماتا ہے”۔ آزمائشیں ہمارے راستے سیدھے کرتی ہیں، اللہ کی طرف رجوع سکھاتی ہیں، اس کی حکمت کی محتاج بناتی ہیں، اس کی مدد کے منتظر رہنا اور حسنِ مناجات سکھاتی ہیں۔ پس جو تم پر گزر رہی ہے اسے اپنے رب سے تعلق کی بہتری اور معرفتِ الٰہی کے ذریعے، مجالسِ علم میں حاضری اور اسماء و صفاتِ الٰہی کے ذکر کی وجہ جان کر غنیمت سمجھو۔
رہی تمہاری تبدیلی اور کامیابی کی خواہش: کسی مستند مرشد یا مشیر سے رجوع کرو جو اہداف کی تنظیم، رکاوٹوں کی تعیین، مطلوبہ مہارتوں کی پہچان، اور وقت کے نظم میں مدد دے۔ زندگی کے سارے پہلوؤں کا خیال رکھو؛ کسی ایک پہلو کی خاطر دوسرے کو نظرانداز نہ کرو۔ ہر شعبے میں ایک بنیادی ہدف لے کر چلو، ابتدا اس پہلو سے کرو جس میں کوتاہی تمہارے لیے بڑی مشکل یا دل شکستگی کا سبب بنتی ہے، یا اس سے جس سے دل کو رغبت ہو اور ہمت ملے۔ اہداف بہت زیادہ نہ رکھو، کئی محاذوں پر بلند تمنائیں اکثر دل شکستگی لاتی ہیں۔ ہر چھوٹی کامیابی پر بھی اپنے لیے محرّکات کی فہرست بناؤ اور خود کو حوصلہ دو۔
اور اے محترم بہن، کسی بھی خیراتی یا رضاکارانہ کام میں شامل ہونے کا اہتمام کرو۔ دینے سے نفس کی حالت بہتر ہوتی ہے، انسان نفس کی مشغولیت سے نکل کر خیر میں مصروف ہوتا ہے، دوسروں کے دکھ سوچتا ہے اور یہ گمان نہیں رہتا کہ دنیا کے سارے غم صرف اسی کے حصے میں آئے ہیں۔
مترجم: سجاد الحق