حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اسلامی شخصیت کی تشکیل اور اس کی ہمہ جہت تربیت پر خاص توجہ دی، تاکہ وہ اسلامی منہج پر تیار ہوکر اس رسالت کے بوجھ کو اٹھانے کے قابل بنے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت بڑے سخت چیلنجز میں گھری ہوئی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ جانتے تھے کہ تہذیبی کردار کی (تشکیل کی) ذمہ داری وہ تنہا نہیں اٹھا سکتے، اس لیے لازمی تھا کہ امت کو تربیتی طور پر تیار کیا جائے تاکہ وہ اجتہاد، عمل اور زندگی کے مسائل کا مقابلہ کرنے کی ذمہ داریاں سنبھال سکے۔
ابوبکرؓ کے پاس اپنی رعیت اور امت کو تیار کرنے کے کچھ خاص تربیتی وسائل اور پہلو تھے، کیونکہ یہ وہ امت تھی جو انسانیت کی قیادت سنبھالنے اور اللہ کے حکم سے لوگوں کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکالنے کی تیاری کر رہی تھی۔
ابو بکر صدیقؓ کی امت سازی کے طریقے:
ابو بکر صدیقؓ نے کچھ وہ تربیتی اسالیب اختیار کیے جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کیے تھے، تاکہ امت کی تربیت، حاصل شدہ نعمتوں کا تحفظ اور آنے والی نسلوں کی نگہداشت ہو سکے، مثلاً:
تربیۃ بالقدوہ یعنی نمونے کے ذریعے تربیت: یہ اسلامی تربیت کے سب سے زیادہ مؤثر طریقوں میں سے ہے، اور اس کی تاثیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سے اخذ ہوتی ہے جسے اللہ نے ہر دور اور ہر نسل کے لیے دائمی اور عملی مثال بنایا: “بلاشبہ تمہارے لیے رسول اللہ میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہے” [الاحزاب: 21]۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ کی زندگی میں تربیتی اسلوب بطور مربی تین پہلوؤں سے ظاہر ہوا: اول، اپنے مربی اور معلم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا؛ دوم، یہ شعور کہ رعایا ان کی پیروی کرے گی؛ سوم، ان کی اقتدا کا اثر امتِ مسلمہ کی زندگی میں ظاہر ہونا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ نے واقعات اور عملی مثال کے ذریعے تربیت کا طریقہ بھی اپنایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیش آنے والے بعض واقعات سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو اسلامی اصولوں، تعلیمات اور سنتوں پر تربیت دی جائے، کیونکہ واقعات نفس میں آمادگی پیدا کرتے ہیں اور اس سے تربیتی پیغام دل میں داخل ہو کر قبولیت پاتا ہے۔ اسی ضمن میں روایت ہے کہ ابو بکرؓ نے یمامہ کی فتح پر سجدہ شکر ادا کیا، تاکہ مسلمانوں کو یہ سکھائیں کہ کسی آفت کے دفع ہونے یا نعمت کے حاصل ہونے پر شکر بجا لانا چاہیے۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے قرآنِ کریم کی آیات سے ترغیب و ترہیب کے اسلوب کو بطور تربیتی طریقہ اخذ کیا اور مربیوں کو اس کے استعمال کی ترغیب دی۔ فرمایا: “کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کشادگی کی آیت کو تنگی کی آیت کے ساتھ، اور تنگی کی آیت کو کشادگی کی آیت کے ساتھ جوڑ ذکر کیا، تاکہ مؤمن رغبت بھی رکھے اور ڈرے بھی، وہ اللہ سے حق کے سوا کچھ نہ مانگے اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالے۔”
انہوں نے خطبہ دیا: “اما بعد! میں تمہیں تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں اور یہ کہ اللہ کی اس طرح تعریف کرو جس کا وہ اہل ہے، اور رغبت کو ترہیب کے ساتھ ملاؤ، اور سوال میں اصرار کو جمع کرو۔ بے شک اللہ نے زکریا اور ان کے گھر والوں کی تعریف کی اور فرمایا: “پس ہم نے اس کی دعا قبول کی، اور اسے یحییٰ عطا کیا، اور اس کی بیوی کو اس کے لیے درست کر دیا، بے شک وہ بھلائیوں میں جلدی کرتے تھے، اور ہمیں رغبت و خوف کے ساتھ پکارتے تھے، اور ہمارے لیے عاجزی کرنے والے تھے” [الانبیاء: 90]۔
ابو بکر صدیقؓ کی زندگی کے تربیتی پہلو:
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے اصل سرچشمۂ قوت یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے مستفاد تربیتی پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی، مثلاً:
جسمانی تربیت: انہوں نے اسے مسلمان شخصیت کی تربیت کے بنیادی پہلوؤں میں شمار کیا، کیونکہ مضبوط جسم وہ سرمایہ ہے جو مسلمان کو فرائض اور شرعی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مدد دیتا ہے، جیسے عبادات، جہاد فی سبیل اللہ، اور حلال روزی کمانا۔
ان کے عہد میں بالخصوص مجاہدین کی جسمانی تربیت کی اہمیت اس بات سے بھی واضح ہوتی ہے کہ مادی قوت مہیا تھی جس نے اسلام کو اقصاے آفاق تک پہنچایا اور اسلامی تاریخ کی عظیم ترین فتوحات ممکن ہوئیں۔
جسمانی تربیت کی نگہداشت کے مظاہر میں بدنی صحت کے اصولوں پر عمل اور کھانے پینے میں درست عادات شامل تھیں: ہاتھوں کی صفائی، کھانے کے برتنوں کی نظافت، غذا کی حفاظت کا طریقہ، صحت مند لباس کا انتخاب۔ اس کی مثال ہجرت کے واقعے میں ملتی ہے۔ بخاری میں ابو بکر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ مکہ سے مدینہ کے سفر میں جب انہوں نے ایک چرواہے کو دیکھا تو اس سے دودھ چاہا۔ کہتے ہیں: “میں نے چرواہے سے کہا تو اس نے ایک بکری کو پکڑا، پھر میں نے اسے کہا کہ اس کے تھنوں سے گرد جھاڑ دے، اور اسے کہا کہ اپنے ہاتھ بھی جھاڑ لے۔ اس نے یوں کیا کہ ایک ہاتھ کو دوسرے پر مارا۔ پھر اس نے دودھ نکالا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک مشکیزہ رکھا جس کے منہ پر کپڑا تھا، تو میں نے دودھ پر ڈالا یہاں تک کہ اس کا نچلا حصہ ٹھنڈا ہو گیا۔”
جسمانی تربیت پر توجہ کے دوسرے مظاہر میں بدنی ورزش کی ترغیب بھی شامل تھی، کیونکہ اس کا اثر جسم کی قوت اور عبادتی، جہادی اور معاشی ذمہ داریوں کی انجام دہی پر پڑتا ہے۔ ان ورزشوں میں پائیدل دوڑ، گھڑ دوڑ، تیراکی، کشتی اور تیر اندازی شامل تھیں۔ روایت ہے کہ وہ خود پائیدل اور گھڑ دوڑ میں مشق کرتے تھے، اور شجاعت و ثباتِ قلب میں یگانہ تھے، یہاں تک کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت کا سب سے بہادر کہا گیا۔
عقلی تربیت: ابو بکرؓ نے عقل کی تربیت کو بھی اہمیت دی۔ آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ عقل انسان کا اصل، اس کی رہنمائی، اس کا سب سے قیمتی سرمایہ اور بہترین ساتھی ہے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں: “میرے والد (ابو بکرؓ) اور عثمانؓ نے جاہلیت میں بھی شراب چھوڑ دی تھی۔” صدیقؓ سے جب پوچھا گیا کہ کیا تم نے جاہلیت میں شراب پی تھی؟ فرمایا: “میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔” پوچھا گیا: کیوں؟ فرمایا: “میں اپنی عزت کی حفاظت اور مروّت کی پاسداری کرتا تھا۔” انہوں نے کہا: “ابو بکر نے نہ جاہلیت میں شراب پی نہ اسلام میں۔”
عقل کی تربیت کے لیے ابوبکرؓ نے متعدد وسائل اختیار کیے، مثلاً طلبِ علم۔ انہوں نے قرآن اور سنتِ رسول کے منہج پر علم کی دعوت اور اس کے طلب پر حوصلہ افزائی جاری رکھی۔ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: “میں نے چاہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتا کہ جو چیزیں شیطان ہمارے دلوں میں ڈالتا ہے، ان سے کیا چیز نجات دے گی؟” ابو بکرؓ نے کہا: “میں نے اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں اس سے نجات یہ دے گی کہ تم وہ کہو جس کے کہنے کا میں نے اپنے چچا کو موت کے وقت حکم دیا تھا مگر انہوں نے نہ کہا، اور وہ ہے: گواہی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔”
عقل کی تربیت کے وسائل میں اجتہاد کی مشق بھی شامل تھی۔ اجتہاد قرآن و سنت کے نصوص، اسلام کی روح اور اس کے مقاصد سے تفصیلی احکام مستنبط کرنے کے لیے ذہنی محنت ہے، تاکہ زندگی کے نئے پیدا ہونے والے واقعات اور مسائل کا سامنا کیا جا سکے۔
اخلاقی تربیت: یہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ترجیحات میں شامل رہی۔ انہوں نے قرآن و سنت میں وارد اسلامی فضائل کی دعوت دی، جیسے سچائی، حیا، درگزر، صبر، غصہ پی جانا، اور اس کے بالمقابل رذائل سے بچنے کی تلقین کی، جیسے جھوٹ، فجور، انتقام اور بزدلی۔ وہ جھوٹ سے ڈراتے اور سچ کی ترغیب دیتے ہوئے کہتے: “جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ ایمان سے دوری ہے۔” اور حیا کی دعوت دیتے ہوئے فرماتے: “اللہ سے حیا کرو؛ میں جب خلوت میں جاتا ہوں تو اللہ کے سامنے حیا سے اپنا سر جھکا لیتا ہوں۔”
خلیفۂ رسول اللہ کے ہاں سیاسی تربیت:
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیاسی تربیت کو بھی نظرانداز نہیں کیا، جس کی بنیاد قرآن کی آیات اور احادیثِ رسول نے رکھی۔ انہوں نے خلافت کے زمانے میں اس کے نمونے کو مزید مضبوط کیا۔ اس کی بنیادیں مساوات، عدل، شوریٰ، مسلمان کا حاکم پر حق اور حاکم کی ذمہ داریاں ہیں۔
یہ بنیادیں ان کے اُس خطبے میں واضح ہو کر سامنے آئیں جو خلافت سنبھالنے کے بعد انہوں نے دیا۔ یہ پہلا خطبہ ہے جو اسلامی طرزِ حکومت کا منہج بیان کرتا ہے۔ ابن ہشام کی روایت کے مطابق انہوں نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: “اما بعد، اے لوگو! مجھے تم پر حاکم بنایا گیا ہے حالانکہ میں تم میں سب سے بہتر نہیں۔ اگر میں اچھا کروں تو میری مدد کرو، اور اگر میں خطا کروں تو مجھے سیدھا کرو۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔ تم میں کمزور میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ میں اس کا حق اسے دلا دوں ان شاء اللہ، اور تم میں طاقتور میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ میں اس سے حق لے لوں ان شاء اللہ۔ کوئی قوم جہاد کو نہیں چھوڑتی مگر اللہ اسے ذلت میں مبتلا کر دیتا ہے، اور کوئی قوم فحاشی پھیلاتی ہے مگر اللہ اسے عام بلا میں گرفتار کرتا ہے۔ میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کروں؛ جب میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو تم پر میری کوئی اطاعت نہیں۔”
ابو بکرؓ کی خلافت کے اہم اصولوں میں سے ایک شوریٰ کا اصول تھا۔ یہ اسلام میں حکم اور دنیا کی سیاست کے اہم ترین اصولوں میں سے ہے۔ ابو بکرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عملی مشق کے ذریعے سیکھا کہ معاملہ ولی الامر اور رعایا کے درمیان شوریٰ سے ہوتا ہے۔
ان بنیادی سیاسی تربیتی ستونوں کے علاوہ صدیقؓ کی خلافت کے اجتہادات اور عملی اقدامات نے سیاسی آزادی کے میدان میں تربیت و تعلیم کے لیے فکری آزادی کا عمدہ ماحول فراہم کیا، اور علم و فقہ کے میدان میں مزید سرگرمی اور اجتہاد کو فروغ دیا۔
سیاسی تربیت کے فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ مسلمان شخصیت کو اس کے حقوق و فرائض کی سمجھ دی جائے، اور وہ اپنی سیاسی عمل داری میں ان کی پابند ہو۔ امت کو اس کے حق سے آگاہ کیا جائے کہ جب حاکم اچھا کرے تو اس کی مدد کرے اور جب وہ خطا کرے تو اس کی اصلاح اور محاسبہ کرے۔ امت کے سیاسی شرکت کے حق اور اظہارِ رائے کی آزادی کو شورائی نظام حکمرانی کے ذریعے مؤثر بنایا جائے، اور یہ شرکت اسی وقت بامعنی اور باشعور ہوگی جب رعایا کو تربیت و تعلیم کا حق دیا جائے۔
مترجم: سجاد الحق