اسلامی تربیت ایسے اسالیب سے مزیّن ہے جو انسانی نفس کی مختلف طبیعتوں اور خصوصیات کے ساتھ ہم آہنگ ہیں؛ ان ہی اسالیب میں سے سب سے اہم اسلوب “واقعات اور مختلف حالات کے ذریعے تربیت” ہے، جن سے انسان براہِ راست متاثر ہوتا ہے۔ ہر واقعے میں ایک سبق اور نصیحت پوشیدہ ہوتی ہے، بعض واقعات انسان کے دل پر گہرا اثر ڈال جاتے ہیں، جب کہ کئی واقعات یوں ہی گزر جاتے ہیں اور ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔
بیشک اس دین کا انسانوں کی تربیت کا طریقہ نہایت عظیم و بلند ہے، ہمیشہ باقی رہنے والا ہے، اور نہ کسی زمانے کا پابند ہے اور نہ ہی کسی مقام کا۔ اسی موضوع کے ذریعے ہم یہ جانیں گے کہ موجودہ تربیتی سیاق میں اس اسلوب کو کس طرح اسلامی فکر کی بنیاد پر نافذ اور لاگو کیا جا سکتا ہے۔
واقعات کے ذریعے تربیت کی خصوصیات:
دل پر ایسے لمحات بھی گزرتے ہیں جن میں وہ نصیحت کو دوسرے اوقات کے مقابلے میں زیادہ قبول کرتا ہے؛ چنانچہ بعض واقعات کے موقع پر رہنمائی کرنا موزوں ہوتا ہے، تو نصیحت اور ہدایت قریب ترین راستے سے دل تک پہنچ جاتی ہے۔ اسلوبِ تربیت بذریعہ واقعات کی خصوصیات میں سے چند یہ ہیں:
اس کا اثر قوی اور نفس و فکر پر اس کی گرفت شدید ہوتی ہے۔
یہ طریقہ لوگوں کی زندگی میں محسوس ہونے والا اور عملی پہلوؤں پر مشتمل ہوتا ہے، محض تقریریں (لیکچرز) یا نظری دروس نہیں۔
یہ اسلوب مربی اور متربی کے درمیان مکالمہ کھولتا ہے جس سے خیالات میں نشوونما ہوتی ہے۔
سوالات اٹھانے اور ان کے جوابات دینے کا موقع فراہم کرتا ہے، جو کہ مسائل کے حل کے سائنسی طریقہ ہے۔
یہ تعلیم کے تین مقاصد کو پورا کرتا ہے: (معرفت – وجدان – نفس)۔
اس سے انفرادی احساس اور پھر عملی حرکت پیدا ہوتی ہے۔
اس میں عقیدہ و تربیت کے دروس بھی ہیں اور سابقہ و موجودہ تجربات سے فائدہ اٹھانے کے مواقع بھی۔
یہ شخصیت کے وہ پہلو ظاہر کرنے میں مدد دیتا ہے جو عام حالات میں آشکار نہیں ہوتے۔
اس طریقے کے ذریعے متعدد مسائل سے نمٹنے کا راستہ سیکھا جا سکتا ہے، بشرطیکہ واقعات کو درست انداز میں استعمال کیا جائے۔
یہ انسان کو نتیجے کے بجائے عمل سے جوڑتا ہے، اور اخلاص اور نیت کی درستی پیدا ہوتی ہے۔ اس کا عملی زندگی میں عظیم اثر بھی ہے، جب کہ نتیجہ کا معاملہ علم الغیب کے سپرد ہے جو اپنی حکمت کے مطابق پھل توڑنے کے لیے مناسب وقت جانتا ہے۔
تربیت بذریعہ واقعات کی عملی تطبیق:
تربیت بذریعہ واقعات کا اسلوب کامیاب اور مؤثر ہو، اور اپنے پھل دے سکے،اس کے لیے ضروری ہے کہ اس میں کچھ خصوصیات پائی جائیں اور ان کے مطابق عملی اطلاقات ہوں؛ جن میں سے اہم یہ ہیں:
متربی کے ساتھ تعلق: مربی کو چاہیے کہ وہ خود کو حرکت کا عادی بنائے؛ لوگوں کے ساتھ میل جول رکھے، ان کی زیارت کرے اور ان کی مجالس و اجتماعات میں جائے۔
معاشرتی مسائل سے آگاہی اور واقعات کا مشاہدہ: کامیاب مربی کو چاہیے کہ اپنے معاشرے کے مسائل اور اس میں پیش آنے والے حالات و نئی تبدیلیوں کا علم رکھے۔
غیر شرعی مواقع و تقریبات سے بچاؤ: لوگوں سے تعلق رکھنے کا مقصد یہ نہیں کہ ان کے ساتھ غیر شرعی تقریبات اور ناجائز مواقع میں شامل ہو کر ان کا ساتھ دے۔
مسلمانوں کے موجودہ حالات سے باخبر رہنا: آج کی اسلامی دنیا شدید اور مختلف نوعیت کے واقعات و بحرانوں سے گزر رہی ہے، اور مسلم ذہن گمراہ کن میڈیا کی بعض تجزیات سے متاثر ہے؛ اس لیے لوگ مخلص مربی کی سچی بات سننے کے منتظر رہتے ہیں۔
واقعات پہ کنٹرول ممکن نہیں: مربی واقعات کو خود پیدا نہیں کرسکتا، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے تقدیر سے ہوتے ہیں؛ البتہ اسلامی تربیت کا طریقہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ مربی مناسب مواقع سے فائدہ اٹھائے اور پیش آنے والے حالات میں تربیتی سبق دے، جہاں وہ مخصوص رہنمائی کے قابل نظر آئے۔
تربیتی عملی مشق کی ضرورت: ہر مربی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسلوبِ تربیت کو عملی طور پر کیسے نافذ کیا جائے اس کی تربیت حاصل کرے، کیونکہ اطلاق کے طریقے کا جاننا محض اسالیب گنوانے سے زیادہ اہم ہے۔ اور اسلوبِ تربیت کو درست نفاذ، سچی نیت اور بلند ہمّت کی ضرورت ہے۔
متربی کو اپنی اُمت اور دنیا کے حالات سے جوڑنا: پھر ان حالات کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ساتھ مربوط کرنا تاکہ اعلیٰ مقصدِ تربیت حاصل ہو۔
محض ثقافتی لذت پر اکتفا نہ کرنا: مربی کو یقین رکھنا چاہیے کہ تربیت بالمواقف کا مقصد صرف ثقافتی لطف (کلچر۔ داڑھی، تسبیح ٹوپی پہ اکتفا۔ مترجم) نہیں۔ اس لیے اسے محض ظاہر پر نہیں رُکنا چاہیے، بلکہ اس کی گہرائی میں جا کر عملی اسباق اخذ کرنے چاہئیں۔
واقعات سے سمجھداری کے ساتھ فائدہ اٹھانا: حالات اور مواقع ایسے افراد چاہتے ہیں جو انہیں دانش مندی سے تربیت اور رہنمائی کے لیے استعمال کریں۔ جتنی زیادہ نفسی، فکری اور جسمانی شرکت مربی کی ہوگی، اتنا ہی متربی اُس سے جُڑے رہیں گے اور اس کی باتوں کو قبول کر کے ان پر عمل کریں گے۔
متربی کو شامل کرنا: بہتر ہے کہ متربی کو بھی واقعات کے ساتھ ڈیلنگ میں شریک کیا جائے؛ مثلاً اس سے کہا جائے کہ وہ واقعہ کا خلاصہ تحریری یا زبانی طور پر پیش کرے، اور اس کے اثرات اپنے اوپر بیان کرے، پھر اس پر اسے نصیحت، رہنمائی، تلقین، تنبیہ یا ضرورت پڑنے پر سزا دی جائے۔
قرآن پاک سے مثالیں:
قرآنِ کریم کی مومنوں کی تربیت کا طریقہ حوادث اور واقعات کے ذریعے سے ابتدا ہی سے دعوت اور اس دین کے پیغام کے ساتھ شروع ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
رومی قریب کی سر زمین میں مغلوب ہو گئے ہیں، اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہو جائیں گے۔ اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اور وہ دن وہ ہو گا جب کہ اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیا ں منائیں گے ۔ [الروم: 1-4]۔
یہ آیات مکّہ میں نازل ہوئیں جب مسلمان طرح طرح کے عذاب اور ظلم و ستم کا شکار تھے۔ ان آیات نے اللہ کی قدرت، اس کی وسیع سلطنت، اور یہ حقیقت واضح کردی کہ تمام امور اسی کے ہاتھ میں ہیں، اور یہ کہ نصرت ہمیشہ موحّد اور مومنوں ہی کے ساتھ ہوتی ہے۔
جو کوئی بھی اللہ کی کتاب کو دیکھے اور اس کی آیات پر غور کرے تو اس پر یہ بات بالکل نمایاں ہو جائے گی کہ تربیت کا طریقہ اکثر سورتوں میں واقعات کے ذریعے ہی سامنے آتا ہے۔ اس کی ایک مثال بدر کے دن مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان ہے، جنگ سے پہلے، دورانِ جنگ اور بعد میں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں مِل جائے گا، تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمہیں ملے مگر اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے، تاکہ حق حق ہو کر رہے اور باطِل باطِل ہو کر رہ جائے خواہ مجرموں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو [الأنفال: 7-8]۔
حنین کے دن، جب کمزور ایمان والوں کے دلوں میں غرور اور خودپسندی آ گئی، اور انہوں نے گمان کیا کہ کثرتِ لشکر اور سامان کی وجہ سے فتح ان ہی کی ہوگی، تو قرآن اور پیش آمدہ واقعہ مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے آیا تاکہ ان کی تربیت کرے اور ان کے تصورات درست کرے کہ نصرت صرف اللہ ہی کے پاس سے آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کر چکا ہے۔ ابھی غَز وہٴ حُنَین کے روز (اُس کی دستگیری کی شان تم دیکھ چکے ہو) اس روز تمہیں اپنی کثرتِ تعداد کا غَرّہ تھا مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ [التوبة: 25]۔
چنانچہ قرآنِ کریم مومنوں پر واقعات اور حالات کے مطابق نازل ہوتا رہا، حتیٰ کہ معاشرتی معاملات میں بھی، جیسے نکاح و طلاق، خرید و فروخت، صدقہ و خیرات، خرچ و انفاق، وراثت، ہبہ، مسلمانوں کے آپس کے تعلقات اور دوسروں کے ساتھ تعلقات، اور دیگر بہت سے مسائل۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ اسلوبِ تربیت بالمواقف (یعنی حالات و واقعات کے ذریعے تربیت) سے بھرپور ہے۔ یہ ایک ایسا عملی حقیقت نامہ ہے جس میں مناظر اور صورتیں بھری ہوئی ہیں جو نصیحت لینے، فائدہ اٹھانے اور واقعات کو تربیتی سرمایہ بنانے کی دعوت دیتی ہیں۔ ان میں سے چند مثالیں درج ذیل ہیں:
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ساتھ کعبہ کی تعمیر کے لیے پتھر اٹھا رہے تھے اور آپ کے جسمِ اطہر پر صرف ایک تہبند تھا۔ آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: “بھتیجے! اگر آپ اپنا تہبند کھول کر کندھوں پر رکھ لیں تو پتھروں سے بچاؤ ہو جائے گا۔” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا، لیکن جیسے ہی تہبند کندھے پر رکھا تو آپ بے ہوش ہو کر گر گئے۔ پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی برہنہ نہیں دیکھا گیا۔ [صحیح بخاری]
حضرت معاویہ بن حکم السّلميؓ کی روایت:
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک شخص نے چھینک لی۔ میں نے کہا: “یرحمک اللہ۔” تو لوگوں نے مجھے گھور کر دیکھا۔ میں نے کہا: “افسوس! تم مجھے کیوں دیکھ رہے ہو؟” پھر وہ لوگ اپنی رانوں پر ہاتھ مارنے لگے تاکہ مجھے خاموش کرائیں۔ جب میں خاموش ہو گیا اور نماز ختم ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف توجہ فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا انداز اتنا حسین تھا کہ نہ مجھے ڈانٹا، نہ مارا، نہ برا بھلا کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “یہ نماز ہے، اس میں لوگوں کی گفتگو مناسب نہیں۔ اس میں صرف تسبیح، تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے۔” [صحیح مسلم]
صحیح بخاری میں حضرت حکیم بن حزامؓ کی روایت ہے
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا تو آپ نے عطا فرمایا، پھر دوبارہ مانگا تو آپ نے عطا فرمایا، تیسری بار پھر مانگا تو آپ نے عطا فرمایا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“اے حکیم! یہ مال سبز اور میٹھا ہے۔ جو اسے دل کی سخاوت سے لے گا اس میں برکت ہوگی، اور جو اسے حرص و لالچ سے لے گا اس میں برکت نہ ہوگی۔ وہ اس شخص کی مانند ہوگا جو کھاتا ہے مگر کبھی سیر نہیں ہوتا۔ اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔”
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ میں مال کی حرص کو محسوس کیا تو اسی موقع کو استعمال کرتے ہوئے انہیں نصیحت فرمائی، جو ان پر نہایت مؤثر ثابت ہوئی۔
بخاری نے بھی ذکر کیا ہے کہ: “ایک اعرابی نے مسجد میں پیشاب کر دیا، تو لوگ اس کی طرف لپکے تاکہ اسے روکیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، اور اس کے پیشاب پر ایک ڈول پانی بہا دو (یا ایک برتن پانی بہا دو)، بے شک تم آسانی پیدا کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو، تنگی پیدا کرنے کے لیے نہیں”۔
یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے صحابہ کرامؓ کو سخت پریشان کر دیا اور وہ اس بڑے منکر کو بدلنے کے لیے کھڑے ہو گئے جو مسجدِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش آیا تھا، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع کو صحابہ کرامؓ کی تربیت کے لیے استعمال کیا تاکہ انہیں یہ تعلیم دیں کہ منکرات کو بدلنے کا سب سے درست طریقہ یہ ہے کہ کسی منکر کو اس سے بڑے منکر سے نہ بدلا جائے۔
بخاری نے جریر بن عبداللہ بجلیؓ سے روایت کیا ہے کہ: “ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی طرف دیکھا – یعنی بدر کی رات کا – اور فرمایا: تم اپنے رب کو ضرور دیکھو گے جیسے تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اور تمہیں اسے دیکھنے میں کوئی دقت نہ ہوگی۔ پس اگر تم اس بات پر قادر ہو کہ سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے کی نماز فوت نہ کرو تو ایسا ضرور کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو، طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے، اور رات کے وقت پھر اس کی تسبیح کرو اور سجدہ ریزیوں سے فارغ ہونے کے بعد بھی [ق: 39]”۔
اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ کے ساتھ قیامت کے بارے میں ان کی گفتگو سے فائدہ اٹھایا تاکہ انہیں تعلیم دیں اور ان کے دلوں میں ایمان راسخ کریں۔ چنانچہ حذیفہ بن اسید غفاریؓ سے روایت ہے کہ: “نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک بالا خانے میں تھے اور ہم نیچے بیٹھے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھانک کر فرمایا: تم کس بات کا ذکر کر رہے ہو؟ ہم نے کہا: قیامت کا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ دس بڑی نشانیاں ظاہر نہ ہو جائیں: مشرق میں زمین دھنس جانا، مغرب میں زمین دھنس جانا، جزیرۂ عرب میں زمین دھنس جانا، دھواں، دجال، دابۃ الارض، یاجوج و ماجوج، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، ایک آگ جو عدن کی گہرائی سے نکلے گی اور لوگوں کو ہانک کر لے جائے گی۔ شُعبہ نے کہا: مجھے عبدالعزیز بن رفیع نے ابوطفیل سے، اور انہوں نے ابوسریحہ سے اسی طرح بیان کیا، مگر انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہ کیا۔ اور ان دونوں میں سے ایک نے دسویں نشانی کے طور پر کہا: عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا نزول، اور دوسرے نے کہا: ایک ہوا جو لوگوں کو سمندر میں پھینک دے گی” [مسلم]۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عقیدہ کو مسلمانوں کے دلوں میں پختہ کرنے کا انداز بہت سے مواقع پر نمایاں ہوتا ہے۔ مغیرہ بن شعبہؓ روایت کرتے ہیں کہ: “نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن ہوا، اس دن جب ابراہیم (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے) کا انتقال ہوا۔ لوگوں نے کہا کہ سورج ابراہیم کی وفات کی وجہ سے گرہن میں آ گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند کسی کے مرنے یا جینے کی وجہ سے گرہن میں نہیں آتے، لہٰذا جب تم انہیں دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ سے دعا کرو” [بخاری]۔
عبادات کے پہلو میں، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو ایک شخص بھی آیا اور نماز پڑھی، پھر آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اور فرمایا: “واپس جا کر نماز پڑھو، تم نے نماز نہیں پڑھی”۔ وہ شخص پھر گیا اور اسی طرح نماز پڑھی جیسے پہلے پڑھی تھی، پھر آکر سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “واپس جا کر نماز پڑھو، تم نے نماز نہیں پڑھی”۔ تین بار ایسا ہوا، آخرکار اس نے کہا: قسم ہے اُس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، مجھے اس سے بہتر نہیں آتی، مجھے سکھا دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جب نماز کے لیے کھڑا ہو تو تکبیر کہو، پھر قرآن میں سے جو آسان ہو پڑھو، پھر رکوع کرو یہاں تک کہ اطمینان کے ساتھ رکوع میں ٹھہر جاؤ، پھر کھڑے ہو جاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدے میں اطمینان حاصل کرو، پھر اٹھو یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ، اور اپنی پوری نماز میں یہی کرو” [بخاری]۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو اخلاق کی تربیت بھی واقعات اور مواقع کے ذریعے دیتے تھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: “میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا، آپ نے نجران کی بنی ہوئی ایک سخت کناری والی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ ایک اعرابی آیا اور زور سے کھینچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی چادر سے کھینچ لیا، یہاں تک کہ میں نے آپ کے کندھے کی ہڈی پر کھردری چادر کا نشان دیکھ لیا، پھر اس نے کہا: اے محمد! اللہ کے اس مال میں سے جو آپ کے پاس ہے، مجھے حکم دیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے، پھر مسکرائے اور اسے کچھ عطا کرنے کا حکم دیا” [بخاری]۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو حلم (بردباری) کی تربیت بھی دیتے تھے۔ حضرت ابومسعود عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: “میں اپنے ایک غلام کو کوڑے سے مار رہا تھا کہ پیچھے سے ایک آواز آئی: خبردار اے ابومسعود! لیکن میں غصے کی وجہ سے اس آواز کو نہ سمجھ سکا۔ جب قریب آئے تو دیکھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، آپ فرما رہے تھے: خبردار اے ابومسعود! خبردار اے ابومسعود! میں نے ہاتھ سے کوڑا پھینک دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابومسعود! جان لو کہ اللہ تم پر اس سے زیادہ قدرت رکھتا ہے جس قدر تم اس غلام پر رکھتے ہو۔” حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: “میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اب میں کبھی کسی غلام کو نہیں ماروں گا”۔ [ایک روایت میں ہے]: “میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت سے کوڑا ہاتھ سے گرا دیا” [مسلم]۔
بلاشبہ تربیت بذریعہ واقعات بہترین اور سب سے زیادہ اثر رکھنے والے تربیتی اسالیب میں سے ہے۔ قرآنِ کریم نے اسی طریقے کو اختیار کرتے ہوئے اہلِ ایمان کی جماعت کی تربیت فرمائی، جیسے کہ غزوۂ بدر، غزوۂ اُحد، غزوۂ حنین، واقعۂ اِفک اور دیگر واقعات کے ذریعے۔ اسی طرح سنتِ نبویہ میں بھی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل و عیال، صحابہ کرام اور پوری امت کی تربیت مختلف مواقع اور واقعات کے ذریعے فرمائی۔
یہ اسلوبِ تربیت مربی اور متربی کے درمیان گفتگو اور مکالمے کے دروازے کھول دیتا ہے، جس کے نتیجے میں افکار کی افزائش اور غنا حاصل ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ یہ متربی میں بغیر کسی اُکتاہٹ کے مسلسل سیکھنے کا شوق پیدا کرتا ہے اور مربي کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ سوالات اُٹھائے اور ان کے جوابات دے۔ یہی انداز مسائل کے سائنسی اور علمی حل کا طریقہ ہے۔
مترجم: زعیم الرحمان