عورت پر مرد کی قوامیت ایک حق اور ذمہ داری ہے جو اللہ تعالیٰ نے شوہر کو عطا کی ہے تاکہ وہ اپنی بیوی کے معاملات میں حفاظت، دیکھ بھال اور زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ داریاں اٹھائے۔ یہ قوامیت دباؤ ڈالنے یا اپنی رائے زبردستی منوانے کے لیے نہیں ہے۔
مرد اپنی بنیادی ذمہ داریوں، فرائض اور گھر کے لیے جدوجہد، دفاع اور اہل خانہ پر خرچ کرنے کی وجہ سے مشورہ کرنے کے بعد آخری فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اس طرح یہ منصب اصل میں ذمہ داری ہے نہ کہ محض شرف و اعزاز۔ اس کا دائرہ کار اپنے گھرانے تک محدود ہے تاکہ اللہ کی شریعت کے مطابق خوشی اور سکون قائم کیا جاسکے۔
قوامیت کا مفہوم اور اس کا حکم:
عربی زبان میں قوامیت کا مطلب ہے کسی چیز پر قائم ہونا: یعنی اس کی حفاظت کرنا اور اس کے مفاد کا خیال رکھنا۔ اسی سے لفظ القيّم آیا ہے، یعنی وہ شخص جو کسی معاملے کی ذمہ داری سنبھالے اور اس کی اصلاح کرے۔ القيّم کا مطلب سردار، تدبیر کرنے والا اور راہنمائی کرنے والا بھی ہے۔ عورت کا القیّم اس کا شوہر یا ولی ہے، کیونکہ وہ اس کے امور کی ذمہ داری لیتا ہے۔
“القوّام” فعّال کے وزن پر مبالغہ ہے، جس کا مطلب ہے کسی چیز پر پوری محنت اور اجتہاد سے قائم رہنا۔ امام بغویؒ نے کہا : “القوّام اور القيّم ہم معنی ہیں، لیکن القوام زیادہ بلیغ ہے، اور یہ وہ ہے جو مفادات، تدبیر اور اصلاح کے لیے کھڑا ہو۔”
اصطلاحاً فقہاء نے “قوامیت” کا لفظ نابالغ پر ولایت، وقف پر انتظام یا بیوی پر شوہر کی ولایت کے لیے استعمال کیا ہے۔
بیوی پر شوہر کی قوامیت کی اصل قرآن کی یہ آیت ہے:
)الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِم) [النساء: 34]
ابن کثیر نے کہا: “مرد عورت پر قیّم ہے، یعنی وہ اس کا سربراہ، بڑا، حاکم اور مؤدب ہے اگر وہ ٹیڑھی ہو۔”
امام طبریؒ نے کہا: “مرد اپنی عورتوں کے اوپر قوام ہیں ان کی تربیت، اور اللہ اور اپنے حقوق کی ادائیگی میں ان پر گرفت کرنے کے حق دار ہیں۔ یہ اس لیے کہ مرد مہر دیتے ہیں، نفقہ دیتے ہیں اور کفالت کرتے ہیں، اسی لیے اللہ نے مرد کو عورت پر قوام بنایا۔”
شیخ ابن سعدیؒ نے کہا: “اللہ خبر دیتا ہے کہ مرد عورتوں پر قوام ہیں، یعنی انہیں فرائض الٰہی اور برائیوں سے روکنے پر قائم رکھتے ہیں، اور ساتھ ہی نفقہ، لباس اور مکان بھی فراہم کرتے ہیں۔”
قوامیت پر احادیث:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی احادیث میں عورت کو شوہر کی اطاعت کا حکم دیا ہے جب تک یہ شرع اور استطاعت کے دائرے میں ہو۔ قرآن میں فرمایا گیا: (وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ) [البقرة: 228]
صحیح بخاری میں ہے: “عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر روزہ رکھے جب کہ شوہر موجود ہو، نہ ہی کسی کو اس کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے بغیر اس کی اجازت کے۔”
ابن حجرؒ نے کہا: شرط یہ کہ شوہر حاضر ہو “عمومی معنی کو محدود نہیں کرتی، بلکہ یہ عام طور پر ہے۔ اگر شوہر غیر حاضر ہو تب بھی بغیر اجازت کسی کو اجازت دینا درست نہیں۔”
شوکانیؒ نے کہا: “یہ ممانعت اس وقت ہے جب شوہر کی رضا کا علم نہ ہو۔ اگر رضا کا یقین ہو تو حرج نہیں۔”
ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جب مرد اپنی بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ انکار کرے اور شوہر اس پر ناراض ہوکر رات گزارے تو فرشتے صبح تک اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔” [بخاری]
قوّامیت کے دلائل:
- عقل کی تکمیل: امام قرطبیؒ کے مطابق مرد کے پاس عقل اور تدبیر میں برتری ہے۔
- دین کی تکمیل: عورت ایام حیض و نفاس میں نماز اور روزہ ادا نہیں کرتی، اس پہلو سے مرد مکمل ہے۔
- مال خرچ کرنا: مہر اور نفقہ مرد پر واجب ہے۔
- جسمانی صلاحیت: مرد عزم، قوت اور اعتدال میں فطری طور پر مضبوط ہے، اسی لیے نبوت، رسالت، امامت، قضا اور جہاد مردوں کے ساتھ خاص کیے گئے ہیں۔
قوامیت کے ضوابط:
- مہر: عورت کا حق ہے۔ قرآن میں حکم دیا گیا: (وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً) [النساء: 4]
- نفقہ: نکاح کے بعد بیوی کا خرچ شوہر پر لازم ہے، جس میں رہائش، لباس اور خوراک شامل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت سے حاصل کیا اور اللہ کے کلمے سے ان کے ساتھ حلال ہوئے، اور ان پر تمہارا حق رزق اور لباس دینا ہے۔” [مسلم]
- معاشرت بالمعروف: قرآن نے فرمایا: (وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ) [النساء: 19] یعنی بیوی کے ساتھ اچھے برتاؤ سے رہو۔ اس میں خوش اخلاقی، نرم گفتگو، ان کی خوشی کا خیال اور ان کی تکلیف ختم کرنا شامل ہے۔
- عدل و انصاف: مرد کو اپنی قوامیت عدل اور شریعت کے مطابق برتنی چاہیے۔ یہ اختیار ظلم یا استبداد کے لیے نہیں بلکہ ذمہ داری ہے۔
زوجیت میں قوامیت ایک ایسی ولایت ہے جس کے ذریعے شوہر اپنی بیوی کے امور کی اصلاح، حفاظت اور دیکھ بھال کرتا ہے۔ یہ اس کے لیے ذمہ داری ہے اور عورت کے لیے شرف ہے، کیونکہ اس طرح وہ ایک محافظ اور کفیل کے تحت ہوتی ہے جو اس کی خوشی، سکون اور تحفظ کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ اس لیے قوامیت اصل میں عورت کی عزت اور کرامت کا ذریعہ ہے، نہ کہ بوجھ یا ظلم کا باعث ہے۔
مترجم: سجاد الحق