قوموں کی بیداری، امتوں کی تعمیر، اور تہذیبوں کی تشکیل ایک عظیم جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے، جس میں تمام صلاحیتیں اور خصوصاً انسانی توانائیاں یکجا ہو کر اپنا اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ یہ مقصد اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب ہمتوں کو تیز کیا جائے، عزم و ارادوں کو مضبوط کیا جائے، اور مردانگی کی تعمیر کے لیے بھرپور جدوجہد کی جائے۔ اس تناظر میں ایک ایسی جگہ کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے جو ہمتوں کو جگائے اور فرد کو سہارا دے، اور یہی حیثیت تربیتی مراکز کو حاصل ہے، جو شخصیت کی تعمیر اور تشکیل میں نہایت اہم اور فعال کردار ادا کرتے ہیں۔
خاندان، مدرسہ، مسجد، قرآن کریم کی تعلیم و حفظ کے حلقات، اسلامی بیداری کی جماعتیں، اسکولوں کے مصلّے، کتب خانے، کالجوں اور جامعات کی سرگرمیاں، اور دیگر تربیتی مراکز وہ مقامات ہیں جنہوں نے افراد اور نوجوانوں کی تربیت میں گہرا اثر چھوڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ وقت میں بالخصوص مذہبی اداروں اور دینی دعوت سے وابستہ افراد کے لیے ان پر خصوصی توجہ دینا نہایت ضروری ہے۔
مراکز(محاضن) تربیت کیا ہیں؟
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ معاشرتی اور ثقافتی تبدیلیوں نے ہم پر گہرا اثر ڈالا ہے اور ان کی پرچھائیاں تربیتی مراکز کے تعلیمی و تربیتی ماحول پر بھی پڑی ہیں۔ یہاں تک کہ بعض مربی اس بات سے ہی بے خبر ہیں کہ ان کا اپنے متعلقہ مرکز میں اصل کردار کیا ہونا چاہیے۔ بلکہ معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ ان میں سے بہت سے مراکز اب ان تربیتی مقاصد کے ساتھ ہم آہنگ نہیں رہے جن کے لیے وہ قائم کیے گئے تھے، یہاں تک کہ ان کی کاوشیں تربیت کے رائج طریقوں، رویوں اور عملی تدابیر سے بھی ہم آہنگ نہیں رہیں۔
اب آتے ہیں لفظ محضن پہ۔ لغت میں “محضن”(مرکز) کا مفہوم کسی چیز کی حفاظت اور حصار کرنا ہے۔ کہا جاتا ہے: احتضنت الشيء یعنی میں نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ اصطلاحی معنی میں “ایسا مقام اور ماحول جہاں فرد کو حفاظت، دیکھ بھال، تعلیم و تربیت اور پرورش میسر آئے”۔ یعنی وہ جگہ جو دلوں کو اللہ سے جوڑنے کا ذریعہ بنے، اقدار و اخلاق کے پیمانوں کو اللہ کے دیے ہوئے میزان سے وابستہ کرے، اور انسانیت کو جاہلیت کی عصبیت، جذباتیت اور بے قابو احساسات سے نکال کر اسلام کے وسیع اور پُرسکون معانی کی طرف لے جائے۔
نبی اکرمﷺ کے ہمراہ اولین تربیتی “محضن”:
مربی، نصاب اور محضن تربیہ ۔۔۔ یہ تین عناصر ہیں جو فتح و نصرت کے لیے تیار نسل کی تیاری اور تشکیل میں کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے مرکب سے تربیتی ماحول بنتا ہے، جس میں شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے اور نیک صحبت ملتی ہے جو عملِ تربیت کی لازمی اور بنیادی ضرورت ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرامؓ صرف اس پر اکتفا نہیں کرتے تھے کہ کوئی شخص اسلام قبول کر لے، بلکہ وہ اسے دارِارقم لے جاتے تاکہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ رہے، علم حاصل کرے، تزکیہ کرے اور اخوت کا رشتہ قائم کرے۔ اسی طرح ایک ایسی بے مثال نسل تیار ہوئی جس نے اسلام کا پیغام پوری دنیا تک پہنچایا، اس کے لیے قربانیاں دیں اور جہاد کیا۔ ان کی سب سے بڑی غایت اللہ اور آخرت تھی۔
منیر الغضبان کہتے ہیں: دارِ ارقم ایک نئے مرکزِ دعوت کی صورت اختیار کر گیا جہاں مسلمان جمع ہوتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تازہ وحی حاصل کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحتیں سنتے اور قرآن کے الفاظ پر غور کرتے۔ وہ اپنے دل کی باتیں اور حالات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھتے اور آپ انہیں اپنی نگرانی میں اس طرح تربیت دیتے جس طرح اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں آپ خود تربیت پاتے۔ یہ ایمان سے لبریز جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور آپ کا سب سے بڑا سرمایہ بن گئی۔
اللہ تعالیٰ نے پہلی صف کے رہنماؤں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم صحابہ کے لیے یہ سبب بنایا کہ وہ وحی الٰہی کے کسی حصے سے محروم نہ رہیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے اور اپنے رب سے روزانہ نیا فیض حاصل کرتے، اور انہی کے حالات اور مواقف کے مطابق وحی نازل ہوتی، اور ان کے ایمان کے درجات بلند کرنے کے لیے قرآن اترتا۔
وہی انسانیت کے رہنما اور ربانی لوگ تھے جو براہِ راست اللہ سے جڑ گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ ان کی دیکھ بھال کریں، ان پر شفقت فرمائیں اور ان کی تربیت کریں، کیونکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے قیمتی سرمایہ تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ، ترجمہ:”اور اپنے دل کو اُن لوگوں کی معیّت پر مطمئن کرو جو اپنے ربّ کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اُسے پکارتے ہیں”۔ [الکہف: 28]
ہجرت کے بعد اس تربیتی ماحول میں انصار بھی شامل ہو جاتے ہیں، تو مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم ہوتا ہے، اور نومولود اسلامی معاشرے میں تربیت کا سلسلہ جاری رہتا ہے، تاکہ آہستہ آہستہ غلبۂ دین کی صبح کی بشارتیں ظاہر ہونے لگیں۔
یقیناً تربیت کی صورت مدینہ میں مکہ کی دارِ ارقم جیسی نہ رہی، لیکن اس کا جوہر باقی رہا، جو مسجد نبوی کے ذریعے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرامؓ کے حالات کی خبرگیری کے ذریعے جاری رہا۔
محاضن تربیت کے اہداف:
تربیتی مرکز (المحضن التربوي) اجتماعی عمل کی تشکیل میں ایک بنیادی اینٹ کی حیثیت رکھتا ہے، اور اسی بنیاد پر اس کے مقاصد کو درج ذیل نکات میں سمیٹا جا سکتا ہے:
الف) مسلمان کی شخصیت کو مکمل اسلامی بنیادوں پر تشکیل دینا: تربیتی مرکز کا ایک اہم فریضہ یہ ہے کہ وہ مسلمان کی شخصیت کی تعمیر میں حصہ ڈالے تاکہ وہ اپنے اصلاحی و دعوتی کردار کو معاشرے میں ادا کرنے کے قابل ہو۔
ب) افراد کے درمیان اخوت کے معانی کو مضبوط کرنا: یہ دراصل ایک شرعی تقاضا ہے جسے اسلام نے بہت اہمیت دی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
إِنَّمَا المُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ، ترجمہ:”مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں” [الحجرات: 10]۔
ج) رائے کے تبادلے اور دوسروں کی رائے سننے کی مشق: تربیتی مرکز کے اندر بھائی چارے کے ماحول کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔
د) دعوت سے وابستگی: دعوت کے معنی، اس کے مقاصد، وسائل، تحریک، نظام اور آداب کا درک پیدا کرنا۔
ہ) فرد میں خود احتسابی کی صلاحیت پیدا کرنا: یہ ایک اہم عنصر ہے جو خود انحصاری اور مثبت سوچ کی ابتدا کرتا ہے، کیونکہ سب سے بڑی منفی بات یہ ہے کہ فرد ہمیشہ اپنے مربی، بھائیوں یا دعوت پر بوجھ بنارہے اور ہمیشہ محض لینے والا کردار ہی ادا کرے۔
و) صلاحیتوں کی دریافت اور ترقی دینے میں باہمی تعاون: جیسے خطابت کی صلاحیت، سیاسی تجزیہ، انتظامی امور، منصوبہ بندی، اہداف طے کرنا اور ان پر عمل درآمد کرنا۔
مراکز تربیت کی اہمیت:
محاضنِ تربیت کی بڑی افادیت ہے، کیونکہ انہی پر افراد اور معاشروں کی نشوونما، اصلاح اور خوشحالی کا دارومدار ہے۔ پس ضروری ہے کہ انہیں صرف اسی الٰہی منہج کی طرف لایا جائے جو اللہ نے اپنی عظیم کتاب اور اپنے برگزیدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں انسانیت کے لیے متعین فرمایا ہے۔
عصرِ حاضر کے چیلنجز کے مقابلے میں اسلامی محاضنِ تربیہ کے کردار کی غیر موجودگی نے اس موضوع کو نہایت اہم بنا دیا ہے کہ دوبارہ اس تربیتی سرچشمے کی طرف رجوع کیا جائے جس پر ابتدائے اسلام میں مسلمان پروان چڑھے۔ اس وقت ان کا منہجِ تربیت نہ خالص دنیوی تھا نہ خالص دینی، بلکہ دونوں کو ساتھ لے کر چلنے والا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ محاضنِ تربیہ کی اہمیت سامنے آتی ہے، جو لوگوں کے دلوں میں اسلام کے معانی کو اُس کے ہمہ جہت مفہوم کے ساتھ راسخ کرنے کا کام کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ محاضن کی اہمیت اس اعتبار سے بھی ہے کہ وہ اسلامی تربیت کے صحیح اور مستحکم اصولوں کو پیوست کرنے کا ذریعہ ہیں، اور وہ امتِ مسلمہ کے ثابت شدہ اصولوں سے کسی حال میں بھی دستبردار نہیں ہوتے۔ یہی اصول فردِ مسلم کی شخصیت اور معاشرے کے اسلامی ڈھانچے کی پہچان ہیں۔
محاضنِ تربیہ کی اہمیت نوجوانوں کی نشوونما اور تربیت میں بھی نمایاں ہے، اور یہ درج ذیل پہلوؤں سے سامنے آتی ہے:
تجدید و تحقیق: ضروری ہے کہ مصلحین اور مصلحات اپنی تربیتی حکمتِ عملی کا مسلسل جائزہ لیتے رہیں اور نوجوانوں کے لیے اپنے منصوبوں میں تجدید اور جدت پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔
تنوع کا خیال: طلبہ کی دلچسپیوں میں اختلاف، عمروں کے مراحل کی خصوصیات، اور انفرادی صلاحیتوں و امنگوں کے فرق کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
علمی رُجحان: نوجوانوں کے لیے ہمارا تربیتی ذریعہ علمی ہونا بے حد ضروری ہے، تاکہ ان کے مواقف ایمان اور قناعت کے منطق پر قائم ہوں، نہ کہ محض تلقین اور اندھی تقلید پر۔
تربیتِ ایمانی: نفس کا تزکیہ اور قلب کی تطہیر وہ سب سے بڑا زادِ راہ ہے جس سے نوجوان فتنوں کے مقابلے میں محفوظ ہو سکتے ہیں، اور اللہ عز وجل سے ان کے تعلق کو مزید مضبوط کیا جا سکتا ہے۔
احساس ذمہ داری: نوجوانوں کی تربیت کے اہم ترین پہلوؤں میں سے ایک ان میں ذمہ داری کے احساس کو بیدار کرنا ہے، کیونکہ اوقات کے ضیاع اور اس سے جنم لینے والی ناکامیوں یا انحرافات کی سب سے بڑی وجہ لاپرواہی اور ذمہ داری کے شعور کی کمزوری ہے۔
مثبت رویہ: اکثر نوجوان سستی کا شکار ہوتے ہیں، اور اپنی ذاتی، خاندانی یا معاشرتی مسائل کے ساتھ مؤثر طور پر جڑ نہیں پاتے۔ اس لیے محاضن کا فریضہ ہے کہ ان میں مثبت رویہ پروان چڑھائیں۔
مستقل مزاجی: تربیت کا اصل قاعدہ یہ ہے کہ وہ ایک مسلسل عمل ہے۔ اس لیے ہماری تربیت صرف محاضن کے اندر ہی محدود نہیں ہونی چاہیے، بلکہ عملی اور زندگی کے مختلف حالات پر بھی انحصار کرنا چاہیے۔
محاضن تربیت کی تعمیر کے مراحل:
جب ہم ایک مؤثر تربیتی محضن کی بنیادیں رکھنے کا ارادہ کریں تو لازمی ہے کہ ہم ان پہلوؤں پر عمل کریں:
تربیتی تصور اور محضن کا واضح کام۔ محضن کی پہچان اور اس کے مقاصد کا واضح تصور مربی کے ذہن اور دل میں ہونا چاہیے، کہ یہ محضن کس غرض سے قائم کیا گیا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ بن جبلؓ کو یمن بھیجا تو ان کے سامنے مقصد اور ہدف کو واضح کر کے بھیجا۔
عام اہداف کی تشکیل: یہ ہرگز درست نہیں کہ محاضن بغیر کسی واضح مقصد کے قائم ہوں۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ اہداف طے کیے جائیں اور انہی کے دائرے میں چلا جائے۔ ان اہداف کے لیے محضن کے معاشرتی پس منظر کا حقیقت پسندانہ اور معروضی مطالعہ کیا جائے، اور ہماری دعوتی و تربیتی ترجیحات کو اچھی طرح سمجھا جائے۔
ہم کون ہیں؟ اور کیا بنیں گے؟ اس بات کی پہچان محاضن کے ذمہ داران کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ جانیں وہ کیا ہیں؟ کیا وہ اقدار کے کاشتکار ہیں؟ یا قائدین بنانے والے؟ یا روّیوں کے معالج؟ یا صرف بچوں کے مربی؟ اسی طرح مربی کی شخصی خصوصیات کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔ ساتھ ہی یہ سوال بھی کہ آئندہ پانچ یا دس برسوں میں ہم کیا بننے والے ہیں؟
کامیاب محاضن:
کسی بھی تربیتی محضن میں کامیابی چاہنے والے مربی پر لازم ہے کہ وہ چند بنیادوں پر اسےقائم کرے، ان میں سے:
اوّل: اخوّت کی گرمی: یہ بنیاد فرد کے نفسیاتی اور سماجی پہلو سے تعلق رکھتی ہے۔ اور تربیتی محضن وہی کامیاب ہے جو اپنے افراد کی انسانی ضرورتوں کو اچھی طرح سمجھے۔
اخوّت کی گرمی تین اہم عناصر سے مکمل ہوتی ہے: رفاقت (ساتھ ہونا)، دلجوئی (فرد کی زندگی اور معاملات کا خیال رکھنا)، اور ثابت قدمی (فرد کو ثابت قدمی پر مدد دینا)۔
دوم: ایمان کا ذائقہ: ایمان کا ایک ذائقہ اور حلاوت ہے جسے صرف وہی پاتا ہے جو اپنے ایمان کے تقاضوں کو پورا کرے اور خواہشات و شبہات کے وقت ثابت قدم رہے۔ یہ (نرم نصیحتیں دینے، ایمانی تصورات کی تعمیر کرنے، اور قرآن و سنت کو تربیتی رویوں پر حاکم بنانے) سے حاصل ہوتا ہے۔
سوم: انسان کی آزادی: اس سے مراد یہ ہے کہ فرد کو ہر اس فکری اور قلبی قید سے آزاد کیا جائے جو شریعت اسلامی سے ٹکراتی ہو یا اس کے موافق نہ ہو، یا پھر طالب کے ذہن اور دل کو خالص توحید کی بھٹی میں ڈھال دیا جائے، یہاں تک کہ اس کا عقل و دل اللہ رب العالمین کے سپرد ہو جائے۔
نفسیاتی پہلؤوں پہ محضن کا اثر:
نفسیاتی پہلو ان اہم امور میں سے ہے جن پر مربیوں کو توجہ دینی چاہیے، کیونکہ تربیت کا عمل ایک ہمہ جہت عمل ہے جو انسان کے تمام پہلوؤں کو ملحوظ رکھتا ہے۔ پس محضن کے مقاصد میں سے ایک مقصد شخصیت کو نکھارنا، خود اعتمادی کو مضبوط کرنا، مختلف مہارتیں سکھانا اور صحیح سوچنا سکھانا ہے تاکہ نفسیاتی استقامت پیدا ہو اور انسان بحرانوں اور دباؤ کا مقابلہ کرسکے۔
اسی طرح ایمانی تربیت مسلمان کی حفاظت کے لیے اور اس کی فطرت و نفسیاتی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے کافی ہے، جو اللہ نے اس کی فطرت میں رکھا ہے۔ جب بندہ اللہ کے مقصد کو جانے، اللہ کے حکم پر لبیک کہے، حق کے راستے سے مطمئن ہو، اپنی تخلیق کا سبب اور دنیا کے انجام کو پہچانے تو وہ اللہ سے وابستہ ہو جاتا ہے، اپنا تعلق اسی سے جوڑ لیتا ہے، اسی سے ڈرتا ہے، اسی سے امید رکھتا ہے اور نفسیاتی بحرانوں کے دلدل میں گرنے سے محفوظ رہتا ہے۔
اس ضمن میں محضن کے لیے لازم ہے کہ والدین اور سرپرستوں کو آگاہی دے، کیونکہ محضن کی تربیت تنہا قائم نہیں رہتی اور نہ اس کی محنت اکیلے کافی ہوتی ہے۔ لہٰذا محضن کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ آگاہی پھیلائے اور والدین و مربیوں کے درمیان تعاون پیدا کرے۔ اسی طرح محضن پر لازم ہے کہ وہ مربیوں کو تیار کرے، ان کی تربیت کرے اور وقتاً فوقتاً ان کا جائزہ لے۔ اور اس میدان میں صرف وہی کام کرے جو اس کے اہل ہو، جس کے پاس مطالعہ اور علم ہو۔ عمر کے مراحل اور ان کی نفسیاتی خصوصیات کے مطالعے کے ساتھ ساتھ مربی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کے ساتھ معاملہ کرنے کی مہارت رکھے۔
بعض محاضن میں موجود غلطیاں:
کچھ محاضن ایسی غلطیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو افراد پر اثر انداز ہوتی ہیں، ان میں سے:
بعض محاضن تربیہ فرد کی شخصیت سازی میں صرف چند پہلوؤں پر زور دیتی ہیں، جیسے دین داری، علم حاصل کرنا اور اخلاق، اور اگرچہ ان پہلوؤں پر توجہ دینا درست ہے، لیکن دیگر پہلوؤں کو نظرانداز کردیا جاتا ہے، جیسے نفسیاتی پہلو کا مطالعہ۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ ترقی کی نفسیات، سیکھنے کے نظریات، شخصیتو ں کے نظریات، ذہانت کے نظریات، اور صلاحیتوں کی دریافت و پرورش کے نظریات جیسے جدید تعلیمی نظریات سے فائدہ اٹھائیں۔
بعض محاضن اپنے افراد کو ایک بند ماحول میں پروان چڑھاتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ دوسروں سے رابطہ نہیں کرتے، نہ دیگر محاضن کے امور میں دلچسپی لیتے ہیں، نہ ہی باہمی تعاون اور کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بعض محاضن تربیہ کے اندر دیواروں سے باہر ہونے والے حالات کے ساتھ معاملہ کم ہوتا ہے، اور یہ رویہ منفی سوچ کو پروان چڑھاتا ہے اور سماجی عمل کو کمزور کرتا ہے۔
بعض محاضن علم شرعی کو نظر انداز کردیتی ہیں اور اس کی اہمیت گھٹا دیتی ہیں، اور دیگر پہلوؤں کو ترجیح دیتے ہیں، جو کہ بعض اوقات خود محضن کے تربیتی پہلو کو ہی نقصان پہنچا دیتی ہیں۔