فضیلؒ بن عیاض سے جب عاجزی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: حق کے سامنے جھکنا، اس کے تابع ہونا اور جو بھی اس نے کہا ہو اس کو قبول کرنا۔ جنیدؒ نے کہا: عاجزی کا مطلب ہے پر جھکانا اور رویے میں نرمی اختیار کرنا۔ امام غزالیؒ نے عاجزی کے بارے میں فرمایا: یہ دوسرے تمام اخلاق کی طرح ہے، اس کی بھی دو انتہائیں اور ایک درمیانی متوازن راہ ہے؛ اس کا ایک سرا تکبر ہے اور اس کا دوسرا سرا پستی اور ذلت ہے، جب کہ درمیانی اور پسندیدہ درجہ عاجزی و تواضع ہے۔
لفظ “تواضع” مادہ “وضع” سے ماخوذ ہے اور اس کا مطلب ہے کسی چیز کو نیچا کرنا۔ علمائے اخلاق کے نزدیک عاجزی کا مفہوم ہے: رویے میں نرمی اختیار کرنا اور نفس کے غرور سے بچنا۔ گویا متواضع انسان اپنے آپ کو اس درجہ سے نیچے رکھتا ہے جس کا وہ مستحق ہے، اپنے نفس کا حق گھٹا دیتا ہے اور اسے غرور سے بچا لیتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ عاجزی کا مطلب ہے: مخلوق کے ساتھ نرمی کرنا، حق کے سامنے جھکنا اور پر جھکانا۔
تواضع کے فضائل:
اس کی فضیلت دو وجوہات سے ہے:
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے ذریعے بلندی کا حاصل ہونا: سیدنا عیاض بن حماد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے مجھ پر وحی نازل فرمائی ہے کہ تم تواضع اختیار کرو، یہاں تک کہ کوئی شخص دوسرے پر فخر نہ کرے اور کوئی شخص دوسرے پر ظلم نہ کرے۔ [مسلم] اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا، اور اللہ تعالیٰ عفو و درگذر پر عزت بڑھاتا ہے، اور جو کوئی اللہ کے لیے عاجزی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بلندی عطا کرتا ہے۔ [مسلم]
جنت کا وعدہ: حدیث میں ہے”خوشخبری ہے اس کے لیے جو بغیر معصیت کے تواضع کرے، اور بغیر سوال کے اپنے نفس میں انکساری اختیار کرے، اور ایسا مال خرچ کرے جو اس نے بغیر معصیت کے جمع کیا ہو، اور ذلت و مسکنت والوں پر رحم کرے، اور اہلِ فقہ و حکمت کے ساتھ میل جول رکھے۔ خوشخبری ہے اس کے لیے جس کی کمائی پاکیزہ ہو، جس کا باطن درست ہو، جس کا ظاہر کریمانہ (یعنی شریف) ہو، اور جس نے لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھا ہو۔ خوشخبری ہے اس کے لیے جس نے اپنے علم پر عمل کیا، اپنے مال کے زائد حصے کو خرچ کیا اور اپنی زبان کے زائد کلام کو روک لیا” [بغوی، طبرانی، بزار]۔
عاجزی تکبر اور خودپسندی کی ضد ہے، اور تکبر کے بارے میں بہت سی وعیدیں آئی ہیں۔ صحیحین میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اللہ عز وجل فرماتا ہے: عزت میری چادر ہے اور کبریائی میری رداء ہے، پس جو کوئی ان دونوں میں سے کسی ایک میں مجھ سے جھگڑا کرے گا میں اسے عذاب دوں گا”۔
ایک صحیح حدیث میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا”۔ ایک شخص نے عرض کی: آدمی یہ چاہتا ہے کہ اس کا لباس اچھا ہو اور اس کی جوتی اچھی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے، تکبر حق کو ٹھکرانا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے”۔
تکبر کی نحوست یہ ہے کہ یہ اپنے صاحب کو حق کو سمجھنے اور قبول کرنے سے روک دیتا ہے: سَأَصْرِفُ عَنْ آَيَاتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ، ترجمہ: میں اپنی نشانیوں سے اُن لوگوں کی نگاہیں پھیر دوں گا جو بغیر کِسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں [الاعراف: 146]
جہاں تک خودپسندی (عُجب) کا تعلق ہے تو امام غزالیؒ نے فرمایا: یہ قرآن و سنت میں مذموم ہے اور اس پر دو چیزیں کافی ہیں: وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ، ترجمہ: اس روز تمہیں اپنی کثرتِ تعداد کا غَرّہ تھا مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ [التوبہ: 25]
حدیث شریف میں ہے: جب تم دیکھو کہ بخل کی اطاعت کی جا رہی ہے، خواہش نفس کی پیروی کی جا رہی ہے، دنیا کو ترجیح دی جا رہی ہے اور ہر صاحبِ رائے کو اپنی رائے پر عجب (یعنی خود پسندی کی حد تک اصرار۔ یہ اردو والا عجب نہیں بلکہ عربی کا عُجب ہے۔ مترجم) ہے تو اپنے نفس کی فکر کرو۔ [ترمذی]
نبی کریم ﷺ کی زندگی میں سے مثالیں اور سلف صالحین کا طرز عمل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عاجزی کے بیان میں امام ابو حامد غزالیؒ نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بلند منصب کے باوجود سب سے زیادہ متواضع تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گدھے پر سوار ہوتے، مریض کی عیادت کرتے، جنازے کے پیچھے چلتے، غلام کی دعوت قبول فرماتے، جوتا گانٹھتے اور کپڑا سی لیتے۔ اپنے گھر والوں کے ساتھ ان کے کام کاج میں شریک ہوتے۔ صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھڑے نہ ہوتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ اسے ناپسند فرماتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں سلام کرتے۔
ایک مرتبہ ایک شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو وہ آپ کے رعب سے کانپنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے آپ کو آسان رکھو، میں بادشاہ نہیں ہوں، بلکہ ایک قریشی عورت کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کھایا کرتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے درمیان ایسے بیٹھتے جیسے ان ہی میں سے ایک ہوں۔ یہاں تک کہ کوئی اجنبی آتا تو پہچان نہ پاتا کہ آپ کون ہیں، یہاں تک کہ پوچھنا پڑتا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ آپ کو میری جان سے بڑھ کر سلامت رکھے، کھانے کے وقت سہارا لے کر ٹیک لگا لیا کریں، یہ آپ کے لیے آسان ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اتنا جھکا دیا کہ قریب تھا پیشانی زمین کو چھو لے، پھر فرمایا: بلکہ میں اسی طرح کھاتا ہوں جیسے غلام کھاتا ہے اور اسی طرح بیٹھتا ہوں جیسے غلام بیٹھتا ہے۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ بیٹھتے تو اگر وہ آخرت کے بارے میں گفتگو کرتے تو آپ بھی شامل ہو جاتے، اگر وہ کھانے پینے کے بارے میں بات کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بات کرتے، اگر وہ دنیا کے بارے میں گفتگو کرتے تو آپ بھی ان کے ساتھ بات کرتے، ان پر نرمی اور عاجزی کے ساتھ۔ کبھی کبھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اشعار پڑھتے یا جاہلیت کی باتیں ذکر کرتے اور ہنستے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکرا دیتے، اور صرف حرام بات سے انہیں روکتے۔
اس امت کے سلف میں عاجزی کی نشانیاں نہایت شاندار انداز میں ظاہر ہوئیں۔ حضرت عمر بن خطابؓ پھٹا ہوا کپڑا پہنتے، بڑھیا کے لیے آٹا اٹھاتے، بچوں کے کھانے کے لیے آگ پر پھونک مارتے تاکہ کھانا پک جائے، اور صدقے کے اونٹوں کو ان کے علاج کے لیے خود روغن لگاتے یہاں تک کہ وہ صحت مند ہو جائیں۔ ایک دن انہوں نے لوگوں کو مسجد میں جمع کیا اور خطبہ دیتے ہوئے اللہ کی حمد کے بعد فرمایا: اے لوگو! میں نے ایسا بھی زمانہ دیکھا ہے کہ اپنی خالاؤں (بنی مخزوم کی عورتوں) کے لیے بکریاں چرایا کرتا تھا، اور کھجور یا کشمش کی ایک مٹھی مل جاتی تو سارا دن اسی پر گزارا کرتا۔ پھر منبر سے اتر آئے۔ اس پر عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا: اے امیرالمؤمنین! آپ نے تو بس اپنی ہی ہتک کی ہے۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا: اے ابن عوف! افسوس ہے تم پر، میں اکیلا تھا تو میرے دل نے مجھے کہا کہ تُو امیرالمؤمنین ہے، تجھ سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے؟ تو میں نے چاہا کہ اپنی حقیقت اسے یاد دلاؤں۔
اسی طرح جب عمرؒ بن عبدالعزیز کے بیٹے نے ایک قیمتی انگوٹھی خریدی تو عمرؒ نے اس کو خط لکھا: مجھے خبر ملی ہے کہ تم نے ایک ہزار درہم کی انگوٹھی خریدی ہے۔ جب میرا یہ خط تمہیں ملے تو اس انگوٹھی کو بیچ دینا اور اس کی قیمت سے ایک ہزار بھوکے پیٹ بھر دینا، اور اپنے لیے دو درہم کی ایک انگوٹھی خرید لینا اور اس پر لکھوانا: اللہ اس شخص پر رحم کرے جس نے اپنی حقیقت پہچانی۔
تواضع کی اقسام:
تواضع یا عاجزی کی کئی قسمیں اور صورتیں ہیں۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے دین کے آگے جھک جائے، اسے قبول کرے، اس کے آگے سر تسلیم خم کرے، اس میں اپنی رائے یا خواہش کو شامل نہ کرے اور نہ ہی اس پر اعتراض کرے۔
اس کے بعد درجہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عاجزی کا، کہ انسان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مقابلے میں کوئی بات نہ لائے، اور نہ ہی اپنی خواہش کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف چلائے، بلکہ ادب، محبت اور ہدایت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اقتداء کرے۔
اس کے بعد عاجزی مخلوق کے ساتھ ہے، کہ انسان دوسرے کا حق محفوظ رکھے، خواہ وہ دشمن ہو یا دین میں مخالف۔ عذر پیش کرنے والے کا عذر قبول کرے، اور جہاں سے بھی حق ظاہر ہو اسے مان لے، چاہے وہ کسی بھی طرف سے آیا ہو۔
پھر انسان کو اپنی ذات کے ساتھ بھی عاجزی کرنی چاہیے، یعنی اپنے نفس میں ایسی بڑائی اور غرور کا دروازہ نہ کھولے جو اسے دھوکے یا تکبر میں ڈال دے، بلکہ اپنے نفس کو قابو میں رکھے، اسے دبائے اور روکے تاکہ وہ اترائے یا کج روی اختیار نہ کرے۔
البتہ عاجزی یا تواضع اسی وقت حقیقی ہے جب وہ طاقت و اختیار کے باوجود ہو۔ اگر کوئی شخص محض ڈر یا خوف کی وجہ سے کسی کے سامنے جھک جائے یا ٹوٹ جائے تو یہ عاجزی نہیں۔ اصل عاجزی یہ ہے کہ بڑا چھوٹے کے ساتھ کرے، طاقتور کمزور کے ساتھ کرے، عالم جاہل کے ساتھ کرے، اور مالدار غریب کے ساتھ کرے۔
تواضع بھی ایک حد کے اندر ہونا چاہیے، کیونکہ اگر انسان اس میں حد سے بڑھ جائے تو وہ اپنی حیثیت کو تمسخر یا بدگمانی کا نشانہ بنا لیتا ہے۔ اس لیے پسندیدہ بات یہ ہے کہ انسان عاجزی کرے لیکن ایسی عاجزی نہ کرے جو ذلت یا پست ہمتی کی صورت اختیار کر لے۔
تواضع کا اکتساب اور تکبر کا علاج:
تکبر ہلاکت خیز گناہوں میں سے ہے، اور کوئی انسان ایسا نہیں جو اس سے بالکل خالی ہو۔ اس کا دور کرنا فرضِ عین ہے، اور یہ صرف خواہش کرنے سے ختم نہیں ہوتا بلکہ علاج کے ذریعے ہی دور ہوتا ہے۔
اس کے علاج کے دو مرحلے ہیں:
اس کی جڑ کو دل سے اکھاڑ دینا اور اسے بالکل ختم کر دینا-
ان وقتی اسباب کو دفع کرنا جن کی وجہ سے انسان دوسروں پر تکبر کرتا ہے۔
یہ علاج دو پہلو رکھتا ہے: علمی اور عملی، اور مکمل شفاء دونوں کے مجموعے سے ہی ممکن ہے۔
علمی علاج یہ ہے کہ انسان اپنی حقیقت پہچانے اور اپنے رب کو پہچانے۔ کیونکہ جب وہ اپنی حقیقت کو صحیح طور پر جان لے گا تو اسے معلوم ہوگا کہ وہ سب سے زیادہ ذلیل اور سب سے کم حیثیت رکھنے والا ہے، اس کے لیے عاجزی کے سوا کچھ مناسب نہیں۔ اور جب وہ اپنے رب کو پہچان لے گا تو جان لے گا کہ عظمت اور کبریائی صرف اللہ کے شایانِ شان ہے۔
عملی علاج یہ ہے کہ وہ متواضع لوگوں کے اخلاق پر عمل پیرا ہو۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “میں اسی طرح کھاتا ہوں جیسے غلام کھاتا ہے۔”
عملی علاج کی چند صورتیں یہ ہیں:
1) اگر بھائی کی زبان سے حق کی کوئی بات ظاہر ہو اور اسے قبول کرنا، بھاری لگے تو یہ چھپے ہوئے تکبر کی علامت ہے۔ ایسے موقع پر وہ اپنے آپ کو حق ماننے پر مجبور کرے، زبان سے اس کی تعریف کرے، اپنی عاجزی کا اقرار کرے اور استفادے پر اس کا شکر ادا کرے۔
2) اپنے ہم مرتبہ لوگوں کو اپنے اوپر ترجیح دے اور ان کے پیچھے چلے۔
3) غریب غرباء کی دعوت قبول کرے اور دوستوں و رشتہ داروں کے ساتھ بازار جا کر ان کی ضرورت پوری کرے۔
اسی طرح اس مسنون دعا کو لازم پکڑے:
اللَّهمَّ اهدني لأحسنِ الأخلاقِ لا يَهدني لأحسنِها إلَّا أنتَ، وقني سيِّئَ الأعمال والأخلاق لا يقي سيئَها إلا أنتَ
ترجمہ: اے اللہ! مجھے بہترین اخلاق کی ہدایت دے، ان کی ہدایت نہیں دے سکتا مگر تو ہی، اور مجھے برے اعمال اور برے اخلاق سے بچا، ان سے بچانے والا بھی تو ہی ہے۔
مترجم: زعیم الرحمان