عوامل اور نصائح برائے تربیت:
خاندان کی حفاظت اسلامی تربیت کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے۔ قرآن کی آیات، سورتیں اور احکام اس منظم خاندانی ڈھانچے کے قیام میں مدد دیتے ہیں جو دین و شریعت کے اصولوں کے مطابق ہو، یہی احکامات اس مقدس نظام کو محفوظ رکھتے ہیں۔ اس لیے خاندان کا تحفظ ہر ایسے مربی اور داعی کی اولین ترجیح ہے(اور ہونا چاہیے) جو معاشرے کی اصلاح کا خواہاں ہو۔
اسلام نے خاندان کی تشکیل اور اس کے احکام کا آغاز منگنی سے نکاح کے معاہدے تک کیا، شوہر اور بیوی، اولاد اور قریبی رشتہ داروں کے حقوق و فرائض بیان کیے، نان و نفقہ، طلاق اور وراثت کے احکام مقرر کیے، اور خاندان کو نگہداشت اور تحفظ فراہم کیا۔ اسے سکون اور محبت عطا کی، اُلفت کے اسباب اور خوشگوار تعلقات کے ذرائع بتائے، اور باہمی حقوق کی بنیاد پر محبت کی عمارت تعمیر کی۔ ساتھ ہی اس نظام کو تباہ کرنے سے خبردار کیا، اس کے اتحاد کو مضبوط رکھنے کی تاکید کی، اور اس کے ستونوں کو ہلانے یا رشتوں کو توڑنے سے منع کیا۔
اسلام کی روشنی میں خاندان کی حفاظت:
اسلام ایک مضبوط معاشرہ تشکیل دینے کا کام کرتا ہے، تو اس کی ابتداء مضبوط خاندان سے ہوتی ہے، کیوں کہ فرد اگر خاندان میں خوشحال ہوگا تو ایک بہتر معاشرہ تشکیل پائے گا۔ لہٰذا ہمارے دین نے ایسے اصول اور قوانین پیش کیے جو خاندان کے اندر تعلقات اور رشتوں کو مضبوط اور منظم کرتے ہیں، اور معاشرے پر لازم کیا کہ ان اصولوں اور قوانین کو نافذ کرے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
“مومن مر د اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰة دیتے ہیں اور اس کے رسُول ؐ کی اطاعت کرتے ہیں” [التوبہ: 71]۔
اور خاندان میں استقامت پیدا کرنے اور آخرت میں اسے ہلاکت سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاوٴ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، جس پر نہایت تند خُو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔” [التحریم: 6]۔
اسلام نے فرد کے بجائےخاندان کو معاشرے کی بنیاد قرار دیا ہے، اور اسے پہلی اینٹ اور ابتدائی خلیہ (Cell) سمجھا ہے، (فرد کو معاشرے کی بنیاد ماننا مغربی نظریہ ہے)۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
“اور وہ اللہ ہی جس نے تمہارے لیے تمہاری ہم جنس بیویاں بنائیں اور اسی نے ان بیویوں سے تمہیں بیٹے پوتے عطا کیے اور اچھی اچھی چیزیں تمہیں کھانے کو دیں۔ پھر کیا یہ لوگ ﴿یہ سب کچھ دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی﴾ باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کےاحسان کا انکار کرتے ہیں؟” [النحل: 72]۔
اسلام نے واضح کیا کہ ایمان اسی سرزمین پر پروان چڑھتا ہے جہاں کے لوگ افزائش نسل اور تربیت کا طریقہ جانتے ہوں اور انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہوں، نہ زنا کرتے ہوں اور نہ ہی جنسی انحراف۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
“اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبّت اور رحمت پیدا کر دی ۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور وفکر کرتے ہیں”۔ [الروم: 21]
اور فرمایا:
“اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اُس کے پابند رہو۔ ہم تم سے کوئی رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم ہی تمہیں دے رہے ہیں” [طٰہٰ: 132]
اسلام نے یہ بھی تاکید کی کہ خاندان کے تمام افراد کے باہمی حقوق اور فرائض ہیں: شوہر کے اپنی بیوی پر حقوق، بیوی کے اپنے شوہر پر حقوق، اولاد کے والدین پر اور والدین کے اولاد پر حقوق۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
“اور آخر تم اُسے (مہر کی رقم) کس طرح لے لوگے جب کہ تم ایک دُوسرے سے لُطف اندوز ہو چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں”؟ [النساء: 21]
اور فرمایا:
“ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بَھلائی رکھ دی ہو” [النساء: 19]
اور فرمایا:
“مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دُوسرے پر فضیلت دی ہےاور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاوٴ، خواب گاہوں میں اُن سے علٰیحدہ رہو اور مارو پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو، یقین رکھو کہ اُوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے۔” [النساء: 34]
اسلام میں ازدواجی تعلقات باہمی احترام، رازداری، اور شریر لوگوں کی زبانوں سے حفاظت پر قائم ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
“اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلّقات بگڑجانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکَم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو۔ اگر وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صُورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے”۔ [النساء: 35]
خاندان کو امن و سکون فراہم کرنے کے بارے میں سب سے اہم احادیث میں سے ایک سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو، اور میں تم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔” [صحیح ابن ماجہ]
عقل مندی اور پختگی (میچیورٹی) کا تقاضا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو کچھ تکالیف برداشت کرنے اور کچھ ناپسندیدہ باتوں سے درگزر کرنے کا عادی بنائے، اور مرد جو کہ خاندان کا سربراہ ہے، اس پر عورت سے زیادہ صبر کرنا لازم ہے، کیونکہ عورت اپنی جسمانی و اخلاقی ساخت میں کمزور ہے۔ اگر اسے ہر بات پر پکڑا جائے تو وہ کسی کام کی نہیں رہتی، اور اس کی اصلاح میں حد سے بڑھ جانا اسے توڑ دیتا ہے، یہ ٹوٹنا طلاق پر منتج ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “بے شک عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے، وہ تمہارے لیے سیدھی نہ ہو سکے گی۔ اگر تم اس سے فائدہ اٹھاؤ تو تم اس سے فائدہ اٹھاؤ گے حالانکہ اس میں کجی ہوگی، اور اگر تم اسے سیدھا کرنے جاؤ گے تو توڑ دو گے، اور اس کا ٹوٹنا اس کی طلاق ہے۔” [صحیح مسلم]
خاندان بعض اوقات میاں بیوی کے درمیان مسائل میں دوسروں کی مداخلت کی وجہ سے ٹوٹ سکتا ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو یہ سکھانے کا اہتمام کیا کہ ان مسائل میں مداخلت نہ کریں، سوائے بھلائی کے اور تفصیلات میں پڑے بغیر۔ بخاری میں سہل بن سعد الساعدیؓ سے روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہؓ کے گھر تشریف لائے تو علیؓ کو گھر میں نہ پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے چچا زاد کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا: میرے اور ان کے درمیان کچھ ہوا، تو وہ مجھ سے ناراض ہو کر نکل گئے اور میرے پاس نہیں ٹھہرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: دیکھو وہ کہاں ہیں۔ وہ آیا اور کہا: یا رسول اللہ! وہ مسجد میں سو رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے، دیکھا کہ وہ لیٹے ہوئے ہیں، ان کا چادر کا ایک حصہ گر گیا ہے اور ان کے جسم پر مٹی لگ گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے مٹی صاف کرنے لگے اور فرما رہے تھے: اُٹھو ابو تراب! اُٹھو ابو تراب! (ابو تراب معنی مٹی والے یا مٹی کے باپ، مراد ان کے جسم پہ موجود مٹی کا ہونا ہے۔ ایسے دلنشین انداز میں سسر کی محبت پا کر داماد معاملات کیونکر نہ سنوارے گا!)
احادیث میں خاندان کے نظام سے متعلق بہت سے احکام آئے ہیں، جن میں والد اور اولاد کے تعلقات کا نظم بھی شامل ہے۔ نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: “میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہبہ کیا ہے۔” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “کیا تم نے اپنے تمام بیٹوں کو اسی طرح دیا ہے؟” انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تو اسے واپس لو۔” [صحیح النسائی]
اسلام نے کچھ ایسے عوامل متعین کیے ہیں جو خاندان کی حفاظت اور اس میں استحکام و امن قائم رکھنے کا سبب بنتے ہیں، جن میں سے اہم یہ ہیں:
- نیک بیوی کے انتخاب کا اہتمام، تاکہ شوہر یہ سمجھے کہ اس کی شادی اللہ کے لیے ہو، نفس کی حفاظت، عفت، نگاہوں کو نیچا رکھنے، شرمگاہ کی حفاظت، اور نیک اولاد پیدا کرنے کے مقصد سے ہو جو اسلام کا بوجھ اٹھا سکے۔ اس لیے ضروری ہے کہ شوہر دیندار اور بااخلاق مؤمنہ بیوی کا انتخاب کرے اور بیوی کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر رکھے تاکہ ان کے درمیان دینی تعلق قائم ہو— صرف بستر کا تعلق نہیں — جو حسنِ سلوک، باہمی اعتماد، محبت اور رحمت پر قائم ہو۔
- اولاد کی تربیت کا اہتمام، یعنی شوہر اپنی اولاد کی اسلامی تربیت کرے۔ استاد ابوالاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں: “تمہاری اولاد اور بیویاں جن کے کھانے، پینے، لباس اور رہائش کے بارے میں تم ہمیشہ فکر مند رہتے ہو، سب سے پہلے تمہیں ان کو آگ سے بچانے کی فکر کرنی چاہیے اور ان کی عاقبت سنوارنے کے لیے اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے۔”
- شوہر کی یہ کوشش کہ اس کا گھر ایک چھوٹا سا اسلامی معاشرہ بنے، یعنی ہر مسئلے کا حل اسلامی طریقے سے ہو، گھر میں اسلامی شعور اور تاریخِ اسلام و اس کی شخصیات پر فخر پیدا ہو، اسلامی شخصیت اپنائی جائے، اسلامی عادات، آداب اور روایات گھر میں پھیلائی جائیں، ہر معاملے میں حلال اختیار کیا جائے اور حرام سے بچا جائے، اور شوہر اپنے گھر کی تمام صلاحیتیں اسلام کی خدمت میں لگائے اور بیوی بچوں کو اسلام سے جوڑے۔
- مسلمان گھر کے اثر کو آس پاس تک پہنچانے کا اہتمام، یعنی پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے، ان کے حقوق ادا کرے، رشتہ داروں میں اسلامی شعور پھیلائے، صلہ رحمی کرے، تاکہ مسلمان گھر کا اثر اپنے اردگرد کے ماحول تک وسیع ہو۔
- میاں بیوی کے درمیان مشاورت، جو خاندان کے استحکام اور اس کے قائم رہنے کے عوامل میں سے ہے۔ شوریٰ ہمارے دین کا ایک طرزِ حیات ہے، اور اس کا حکم قرآن میں مسلمانوں کی امتیازی صفات میں سے ایک کے طور پر آیا ہے: {وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ} “اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں۔” [الشورى: 38]۔
- شادی کے عبادت ہونے کو پیش نظر رکھنا، کیونکہ شریعت نے نکاح کے رشتے کو اتنی قدر دی ہے کہ اسے اللہ کے قریب کرنے والے اعمال میں شمار کیا ہے، اور یوں ہر اس نظریے کو رد کر دیا جو شادی کو صرف جنسی خواہش کی تسکین یا اولاد پیدا کرنے تک محدود سمجھتا ہے، جس کا آخرت سے کوئی تعلق نہ ہو۔
- قوام ہونے کی حیثیت کا صحیح استعمال، لہٰذا شوہر کے لیے جائز نہیں کہ قوام ہونے کے نام پر اپنی ذمہ داری کی حدود سے تجاوز کرے، اور نہ ہی اسے یہ حق ہے کہ اسے نظرانداز کرے جب کہ اللہ نے اسے ایسا حق دیا ہے جس میں کوئی اس سے تنازعہ نہیں کر سکتا۔ بیوی پر لازم ہے کہ شوہر کی قوامیت کی حدود سمجھے، تاکہ نہ تو وہ اس حق میں اس سے جھگڑا کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے، اور نہ ہی اس بات پر راضی ہو کہ وہ اس ذمہ داری کو پورا نہ کرے جو اللہ نے اس پر ڈالی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللهُ بَعْضَهُمْ عَلى بَعْضٍ وَبِما أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوالِهِمْ} “مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دُوسرے پر فضیلت دی ہےاور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں “[النساء: 34]۔
- اعتدال اور نرمی، جو جس چیز کے ساتھ ہوتی ہے اسے سنوار دیتی ہے اور جس سے نکال دی جائے اسے بگاڑ دیتی ہے، اور اللہ نرمی پر وہ عطا کرتا ہے جو کسی اور چیز پر نہیں کرتا۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ میاں بیوی میں سے کوئی ایک دوسرے کی کوتاہیوں یا لغزشوں کو برداشت کرے۔
- واجبات کی ادائیگی میں تعاون، کیونکہ ازدواجی رشتہ اصل میں استحکام اور دوام کے لیے ہوتا ہے، اور اسلام اس رشتے کو ہر اس ضمانت سے گھیرتا ہے جو اس کے استحکام اور دوام کو یقینی بنائے۔ اس مقصد کے لیے اسے عبادات کے درجے تک بلند کرتا ہے، ضرورت مند مردوں اور عورتوں کی شادی کے لیے بیت المال سے مدد فراہم کرتا ہے، اور ایسے آداب کا حکم دیتا ہے جو بے پردگی اور فتنہ سے روکتے ہیں تاکہ جذبات مستحکم رہیں اور دل بازاروں میں بے پردہ فتنوں کی طرف مائل نہ ہوں۔
- حسنِ معاشرت، کیونکہ ازدواجی تعلق دائمی اور مستقل ہے، جب کہ چپقلش اور تنازع ناگزیر طور پر عارضی ہوتا ہے؛ اس لیے اس تعلق کو احسان کے غلاف میں لپیٹنا ضروری ہے تاکہ معاملہ ازدواجی حقوق پر جھگڑے میں نہ بدل جائے۔ امام غزالیؒ نے فرمایا: “جان لو کہ عورت کے ساتھ حسنِ اخلاق صرف یہ نہیں کہ اسے ایذا نہ دی جائے، بلکہ اس کی طرف سے آنے والی ایذا کو برداشت کرنا، اور اس کے جوش یا غصے کے وقت حلم سے کام لینا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا۔ آپ کی بیویاں آپ سے بات میں تکرار کرتی تھیں اور ان میں سے کوئی ایک آپ سے ایک دن رات تک ناراض رہتی تھی”۔
- عفت اور خواہش کی تکمیل، اور شوہر پر لازم ہے کہ بیوی کے حقِ عفت اور جنسی تسکین کو پورا کرے، اس لیے مرد کے لیے جائز نہیں کہ بلا شرعی عذر بیوی کے بستر سے کنارہ کشی کرے، اور نہ ہی یہ کہ عبادات یا طلبِ علم کے بہانے بیوی سے تعلق توڑ لے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تجرد اختیار کرنے اور عورتوں سے تعلق ترک کرنے سے منع فرمایا ہے۔
خاندان کے استحکام کے لیے نصیحتیں:
یوں تو بہت سی نصیحتیں ہیں جو مسلمان خاندان کی حفاظت کا ذریعہ ہیں۔ بہرحال یہاں ہم ان میں سے کچھ نصیحتیں درج کرتے ہیں:
ہفتہ وار خاندانی مجلس برائے تدبر قرآن: ہفتے میں کسی ایسے دن جو پورے گھر کے لیے مناسب ہو، وقت نکال کرجمع ہوں اور قرآن کا بااہتمام مطالعہ کریں۔ کتاب اللہ کی آیات کا مطالعہ کریں کہ اس سے سکینت طاری ہوتی ہے، خدا اپنی رحمت سے ڈھانپ دیتا ہے اور فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور اللہ اپنی مجلس میں ان لوگوں کا ذکر کرتا ہے جو اپنے ہاں اس کا ذکر کرتے ہیں۔
سفر عبادت: اللہ کی عبادت کے لیے سفر کریں خواہ مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کی زیارت ہو یا مدینہ منورہ میں مسجد النبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی۔
اپنے بچوں کی تربیت اس نہج پہ کریں کہ وہ مہمانوں کا اکرام کریں، ہمسایوں سے اچھا برتاؤ رکھیں، رشتہ داروں سے صلہ رحمی کریں، مسلمانوں کے جنازوں میں شریک ہوں، مریضوں کی عیادت کریں، امت کے قضایا بالخصوص فلسطین کے لیے درد دل رکھیں، فنڈز دیں ، ہر نفع بخش چیز میں سے صدقہ و خیرات کریں مثلاََ استعمال شدہ کپڑوں وغیرہ کومستحقین تک پہنچائیں۔
بچوں کی نگرانی کریں کہ وہ صبح و شام کی دعاؤں اور مختلف مواقع کی دعاؤں (جیسے کھانے، سونے، گھر میں داخل ہونے اور نکلنے، بیت الخلا میں داخل ہونے وغیرہ کی دعا) کا اہتمام کریں۔
قرآنِ کریم حفظ کرنے کا منصوبہ، کہ سب اس بات پر متفق ہوں کہ روزانہ ایک آیت حفظ کریں۔ اس طرح قلیل مدت میں ہر فرد کے پاس قرآنِ کریم کی ایک بڑی مقدار حفظ ہو جائے گی۔
مقابلے، چاہے وہ گھر کے افراد کے درمیان شام کی محفل میں ہوں یا سیر و تفریح کے موقع پر۔ مقابلے دلوں میں محبت پیدا کرتے ہیں اور خوشی پھیلاتے ہیں، اور یہ معلومات پہنچانے اور تصورات درست کرنے کا سب سے آسان طریقہ ہیں۔
مساجد کے قریب رہائش اختیار کرنے کا اہتمام کرنا تاکہ گھر کے افراد اذان اور خطبات سن سکیں اور اس میں ہونے والی دعوتی و سماجی سرگرمیوں میں شریک ہوں، اور بیٹوں کو مسجد میں نماز پڑھنے، صفِ اول میں پہنچنے اور جمعہ کی نماز کے لیے جلد آنے پر آمادہ کرنا۔
نفل روزے رکھنا، جیسے پیر اور جمعرات کا روزہ، ہر ماہ تین دن، محرم کی نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ، یومِ عرفہ اور شوال کے چھ دن۔
تمت بالخیر!
مترجم: زعیم الرحمان