قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں نفسیاتی اضطراب اور اس کے علاج کا ذکر ہے، اور یہ پہلو سورۂ یوسف میں خاص طور پر نمایاں ہے، جو حسد، غم، غصہ، خوف اور خوشی کے جذبات کی تفصیلات بیان کرتی ہے، اور ساتھ ہی حضرت یوسفؑ اور ان کے والد حضرت یعقوبؑ پر آنے والے ابتلاؤں کی جھلکیاں بھی پیش کرتی ہے۔
یہ سورت واضح کرتی ہے کہ ابتلاء چاہے کتنی ہی طویل ہو، اللہ کی رحمت سے ناامیدی جائز نہیں۔ اسی طرح اس کی آیات بتاتی ہیں کہ جذبات کو کیسے سنبھالا جائے اور کیسے ان پر قابو پایا جائے، جیسے مصیبت پر صبر اور اللہ سے امید رکھنا، غصہ کو چھپانا، محبت میں عفت اختیار کرنا، اور غم کو اللہ ہی کے سامنے بیان کرنا اور صرف اسی سے دعا کرنا۔
نفسیاتی اضطراب کا مفہوم اور اس کی فطرت:
نفسیاتی اضطراب ایک ایسا سائیکولوجیکل مسئلہ، نفسیاتی الجھن اور رویہ ہے جو انسان میں تنگی یا بے بسی کے احساس کے نتیجے میں ظاہر ہوتا ہے، کچھ لوگ اسے دماغی مہارتوں کی غیر فطری ترقی بھی سمجھتے ہیں، یہ اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب دماغ میں کچھ مسائل پیدا ہوتے ہیں یا انسانی زندگی میں وراثتی عوامل اور تجربات کی پیچیدگی کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔
سورۂ یوسف میں جن نفسیاتی اضطرابات کا ذکر آیا ہے وہ کبھی شدید ہوتے ہیں اور کبھی دبے ہوئے، جیسے کہ پُر جوش محبت، ہلاک کر دینے والا غم، جان لیوا حسد وغیرت، مہلک دشمنی، شدید حیرت اور دلچسپی، دبایا ہوا غصہ، تشویش و خوف، خوشی میں شرمانا، نیکی کی شدید چاہت، بدی کی شدید نفرت، مصنوعی غم، توجہ، اور شدید خوشی وغیرہ۔
سورۂ یوسف میں نفسیاتی اضطراب:
سورۃ یوسف میں بعض نفسیاتی اضطرابات اور ان کا تجزیہ یوں کیا گیا ہے:
بھائیوں کا یوسفؑ کی جانب والد کی محبت کو محسوس کرنا:
(إِذْ قَالُوا لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَى أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ) [یوسف: 8]
یہ بھائیوں کے دل کا خیال ہے جو ان کے والد کی محبت پر ان کی حرص کو ظاہر کرتا ہے، اور پھر وہ اس عدم محبت و توجہ کے باعث اپنے والد کو واضح گمراہی کا الزام تک دے بیٹھتے ہیں۔ محبت انسانی ضرورت ہے اور شخصیت جو محبت سے محروم رہتی ہے وہ بیمار و ناخوش ہو جاتی ہے، محبت صحت، سعادت اور انسانی عقل کی سلامتی میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔
غیرت و حسد:
غیرت دراصل غصے اور ملکیت کے جذبے کا مرکب ہے، اس کے بنیادی عناصر میں اپنی پسندیدہ شے کے چھن جانے کا خوف اور حریف کے لیے نفرت شامل ہے۔ حسد وہ کیفیت ہے جس میں انسان چاہتا ہے کہ دوسروں کی خوبی یا نعمت ان سے چھن جائے اور اس کے پاس آجائے۔
یوسف کے بھائیوں میں بھی غیرت کے باعث حسد نے جڑ پکڑ لی اور انہوں نے اتنی شدت سے اس کا ارتکاب کیا کہ وہ یوسف کو والد سے دور کرنے اور انہیں کنویں میں پھینکنے تک پہنچ گئے، اور اس حسد نے ان کے ضمیر کو بھی دبا کر رکھ دیا۔
غصے کا اضطراب:
(وَلَئِنْ لَمْ يَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِنَ الصَّاغِرِينَ) [یوسف: 32]
یعنی: اگر اس نے میری بات نہ مانی تو ضرور اسے قید کر دوں گی اور وہ ذلیل و رسوا ہوگا۔
حسد سے ڈرنا:
(يَا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ) یوسف: 67]
حضرت یعقوبؑ نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ ایک دروازے سے مت جانا بلکہ الگ الگ دروازوں سے جانا، کہ تم سب ایک ساتھ خوبصورت اور وجیہہ ہو، کہیں نظر نہ لگ جائے۔
قلق (بے چینی):
(قَالَ إِنِّي لَيَحْزُنُنِي أَنْ تَذْهَبُوا بِهِ) [یوسف: 13]
یعنی مجھے یہ بات غمگین کرتی ہے کہ تم اسے لے جاؤ، کیونکہ میں اس میں خوبیوں اور نبوت کی علامات دیکھ رہا ہوں۔
محبت کا اضطراب:
(وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ … قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا) [یوسف: 30]
عزیز مصر کی بیوی یوسف پر فریفتہ ہو گئی تھی۔
غم کا اضطراب:
(وَقَالَ يَا أَسَفَى عَلَى يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ) [یوسف: 84]
یعنی حضرت یعقوبؑ یوسف کے غم میں اتنے محزون ہوئے کہ ان کی آنکھیں سفید ہو گئیں اور وہ غم کو چھپاتے رہے۔
خوشی، شرم:
(قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَإِنْ كُنَّا لَخَاطِئِينَ) [یوسف: 91]
اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی اور ہم نے آپ کے ساتھ خطا کی۔
شدید حیرت:
(فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ …) [یوسف: 31]
جب عورتوں نے یوسف کو دیکھا تو وہ حیرت زدہ ہو کر اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور کہنے لگیں کہ یہ انسان نہیں، یہ تو بزرگ فرشتہ ہے۔
دشمنی:
(اقْتُلُوا يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا …) [یوسف: 9]
یوسف کو قتل کر دو یا اسے کسی دور جگہ پر چھوڑ آؤ، تاکہ باپ کی توجہ و محبت ہمیں مل جائے۔
شدید انکار (رذیلیت سے نفرت):
(قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ …) [یوسف: 33]
اے میرے رب! قیدخانہ مجھے اس فعل سے زیادہ پسند ہے جس کی طرف مجھے عورتیں بلا رہی ہیں۔
سرور اور خوشی:
(اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَذَا فَأَلْقُوهُ عَلَى وَجْهِ أَبِي …) [یوسف: 93]
حضرت یوسفؑ نے قمیص دیا کہ اسے لے جاؤ اور میرے باپ کے چہرے پر ڈال دو تاکہ ان کی بینائی واپس آجائے۔
توجہ:
(وَجَاءَ إِخْوَةُ يُوسُفَ …) [یوسف: 58]
یوسف کے بھائی آئے تو یوسف نے انہیں پہچان لیا لیکن وہ نہ پہچان سکے۔
نفسیاتی اضطرابات کا علاج:
سورۂ یوسف نفسیاتی اضطرابا ت کے ذکر کے ساتھ ان کے علاج کی طرف اشارے بھی کرتا ہے، جیسے:
- جذبات کے اخراج اور ان پر قابو پانے کے لئے، مصیبت کے وقت صبر اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، محبت میں عفت پر قائم رہنا، غم کو اللہ سے بیان کرنا اور دعا کرنا سیکھنا۔
- اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو جذبات کو قابو کر لیتے ہیں دنیا و آخرت میں اجر دیتا ہے۔
- اللہ کی توحید اور اس پر توکل کرنے سے دنیا کی تمام مشکلات سے نجات ملتی ہے اور اللہ کے عدل کے بارے میں جاننا اور حق کی پہچان کرکے اسے باطل کے مقابلے میں غالب کرنے کے لیے مددگار بننا۔
- حسد، بغض اور غیرت سے دوری، سچائی، امانت و دیانت کا التزام کامیابی کی ضمانت ہے۔
- غلطی کرنے والے رشتہ دار کو معاف کرنا اور اولاد کے درمیان فرق نہ کرنا بہت ضروری ہے، تاکہ نفرت اور حسد نہ پیدا ہو۔
- اللہ کی قضا و قدر اور اس کی حکمت پر ایمان رکھنا قلب کے سکون اور غم و حزن کے خاتمے کا باعث ہے۔
- سورۂ یوسف میں نمایاں طور پر یوسفؑ نے اپنے جذبات پر قابو رکھا، خواہ خوف ہو یا غصہ یا خوشی یا انتظار۔
- ترغیب، ترہیب سے زیادہ مؤثر ہے، اگرچہ دونوں کی ضرورت ہے جیسے جنت و دوزخ، وعدہ و وعید۔
- اہم اور مشکل معاملات کے فیصلے کے لیے مراحل اور مناسب حکمتِ عملی ضروری ہے، جس میں متعلقہ افراد کو اعتماد میں لینا اور راضی کرنا بہت اہم ہے۔
- حضرت یعقوبؑ نے بیٹوں کی زیادتیوں کے باوجود کبھی اپنی شفقت پدری کی ذمہ داری نہیں چھوڑی، نہ ہی غم یا غصے میں نامناسب فیصلے کئے۔
- کسی مشکل معاملے کو منوانے کے لیے بعض اوقات انسان پر ایسی حالت طاری کی جاتی ہے کہ اس کی عقل وقتی طور پر مفلوج ہو جائے، جیسا کہ عزیز مصر کی بیوی نے عورتوں کو یوسفؑ کے حسن میں محو کرکے کیا تاکہ وہ اس کی مدد کریں۔
- قیادت کی صلاحیت آزمائش و مشکلات میں ظاہر ہوتی ہے، جیسے یوسفؑ کی بادشاہ کے ساتھ گفتگو میں ثابت ہوئی۔
- جذباتی توازن براہِ راست جسمانی صحت کو متاثر کرتا ہے۔ جیسے یعقوبؑ کا غم میں نابینا ہونا اور یوسف سے مل کر خوشی میں بینائی لوٹ آنا۔
- جذبات کو دبانا جسم پر مضر اثرات ڈالتا ہے، جیسے السر اور ڈپریشن وغیرہ، اس لئے بہتر ہے انسان اپنا غم کسی ہمدرد سے بیان کرے۔
- بھائی کی کمزور حالت سے فائدہ اٹھا کر مزید زخمی کرنے کے بجائے اسے حوصلہ دینا چاہیے، یوسفؑ نے اپنے بھائیوں کے ساتھ یہی کیا۔
- بڑے اور غیر معمولی نفسیاتی صدمے علاج اور مشکل سے نکلنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، جیسے قمیص کا حضرت یعقوبؑ کے چہرے پر یکدم ڈالنا۔
- تجربات اور واقعات، جیسا کہ یوسفؑ کا کنویں میں ڈالا جانا، عزیز کی بیوی کے ساتھ آزمائش اور قید، یہ سب اس کی ہدایت اور طاقت کا باعث بنے۔
سورۂ یوسف نے متعدد نفسیاتی اضطرابات اور ان کے علاج کی راہیں بیان کیں، اس میں یوسف علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام کو مصائب میں ڈال کر انسانیت کے بہترین جذبات اور صبر و برداشت کے بے مثال نمونے پیش کیے گیے ہیں جو انسانوں کے لئے نمونۂ عمل ہیں، تاکہ وہ ان سے سبق سیکھ کر اپنی زندگی سنوار سکیں۔
مترجم: سجاد الحق