السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں آپ سے ایک مسئلے میں مشورہ چاہتی ہوں جو میرے والد سے متعلق ہے، اور امید ہے کہ آپ مجھے کوئی حل تجویز کریں گے کیونکہ معاملہ نہایت سنگین ہے۔
میرے والد ایسے کام کرتے ہیں جن کا تصور بھی مشکل ہے؛ وہ عورتوں اور مردوں کے ساتھ زنا کرتے ہیں، بچوں اور اپنے محرمات (بھائیوں کے بچوں وغیرہ) اور دیگر لوگوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی کرتے ہیں، بلکہ حتیٰ کہ جانوروں کے ساتھ بھی!
ہم نے ان کو نصیحت کی، ان کے لیے ہدایت کی دعا کی، یہاں تک کہ ان کی بہتری کے لئے عمرہ بھی کیا، لیکن وہ جوں کے توں ہیں۔ میری والدہ اس سے تنگ آچکی ہیں اور اس وجہ سے بیمار بھی پڑگئی۔ اب تک دو آپریشن بھی کرا چکی ہیں اور ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں انہیں والد کی وجہ سے کوئی سنگین بیماری نہ لاحق ہو جائے۔ وہ انہیں چھوڑ دینا چاہتی ہیں، مگر ہم بیٹیوں کی وجہ سے صبر کیے ہوئے ہیں۔
اس صورت میں کیا حکم ہے؟ میری والدہ کو کیا کرنا چاہیے؟ کیا اس طرح وہ گناہ میں شریک زندگی گزار رہی ہیں؟ اور ہم اولاد کو کیا کرنا چاہیے؟
برائے مہربانی جواب دیں، اللہ آپ کو جزا دے۔
ہماری پیاری بیٹی:
ہمیں آپ کی حالت پر شدید افسوس ہے کہ آپ کو اس سنگین صورتِ حال کا سامنا ہے، ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ پر یہ آزمائش آسان کرے اور اپنی قدرت سے اس کو دور کرے۔
عزیز بیٹی! یاد رکھیں کہ ہم آزمائش کی دنیا میں ہیں: }وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً أَتَصْبِرُونَ} [الفرقان: 20] صبر ہر مصیبت میں مؤمن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور اسی کے توسط سے وہ اللہ کی تقدیر پر راضی ہو کر دنیا کے نشیب و فراز سے گزرتا ہے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ والد اپنی نافرمان اولاد کی اصلاح کے لیے دل و جان سے کوشش کرتا ہے اور اسے آزمائش سمجھ کر صبر سے برداشت کرتا ہے۔
لیکن جب معاملہ الٹ ہو جائے اور اولاد اپنے والد کی وجہ سے اذیت میں مبتلا ہو، تو والد کی عظمت اور رشتے کا مقام اسے باز رکھتا ہے کہ صحیح موقع پر اصلاح یا قطع تعلق جیسے اقدامات کرے۔ اللہ آپ کو اس کٹھن مرحلے سے نکالے۔
عزیز بیٹی! یاد رکھیں صبر کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بے عملی سے بیٹھ جائیں۔ امید ہے کہ آپ کی والدہ (جو تمام سے زیادہ اقدام کی اہل ہیں) نے آپ سب کی خاطر اصلاح کی کوششیں کی ہوگی۔ بس صرف صبر کر لینے سے بات نہیں بنتی، کچھ عملی اقدامات بھی ناگزیر ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ صرف ایک گناہ ہوتا تو نصیحت کرنا، اللہ کا ڈر دلانا، دین کی باتیں پڑھانا، نیک لوگوں سے میل جول اور دعا کافی ہوسکتی تھی۔ لیکن والد جس نہج پر جا چکے ہیں وہ انسانیت کی فطرت کو بھی مسخ کرتی ہے۔ مرد، عورت، بچے، محرمات، حتیٰ کہ جانوروں کے ساتھ بد فعلی؛ یہ سب صرف حرام ہی نہیں بلکہ انتہائی گھناؤنے افعال ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: } وَلا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ} [الانعام: 15] ترجمہ: “اور بے حیائی کے قریب نہ جاؤ چاہے ظاہر میں ہو یا پوشیدہ ہو” آپ کے والد کئی طرح کے فواحش میں پڑ چکے ہیں!
یہ سب اقدامات نہ صرف حرام ہیں بلکہ فطرت بھی انہیں مسترد کرتی ہے، خصوصاً جانوروں سے جنسی فعل، یہ فطرت کی بدترین پامالی، ذہنی اور نفسیاتی خرابی ہے۔ کیا آپ نے کبھی ماہر نفسیات سے مشورہ لیا یا علاج کی کوشش کی؟
شرعی طور پر ان بدکاریوں پر سخت سزائیں ہیں۔ شادی شدہ مرد اگر عورت سے زنا کرے تو اس کی سزا رجم (سنگسار کرنا) ہے اور بعض علماء کے نزدیک قومِ لوط کے گناہ (مرد مرد سے بدفعلی) پر بھی یہی سزا ہے۔
آپ کے والد کے معاملے میں صرف نصیحت، روکنا، دعا و ذکر کرنا ہی کافی نہیں ہے۔ یہ سب اہم ہیں لیکن ماہرِ نفسیات کے پاس لے جانا نہایت ضروری ہے۔ بے شک اس صورتحال کو بیان کرنا، سننا اور آگے بڑھانا کٹھن ہے، لیکن باپ کو اس گندگی میں چھوڑ دینا کوئی درست اور شرعی حل نہیں۔ (لا ضرر و لا ضرار) یعنی نہ خود کو نقصان پہنچاؤ نہ دوسروں کو۔
اگر آپ اصلاح کی ہر ممکن کوشش کرچکے ہیں اور والد کی بہتری نہیں ہو رہی تو ان کے اردگرد رہنے اور اس ماحول میں مزید رہنا آپ کے لیے صرف مزید نقصان کا باعث ہے۔ اللہ آپ کے حال پر رحم کرے اور والد کے دل کو بدلے۔
اکثر مائیں ایک غلط سوچ کی اسیر ہو جاتی ہیں کہ ایسا ناکام رشتہ صرف اس لیے برقرار رکھیں تاکہ بیٹیوں کی شادی کے وقت خاندان مکمل نظر آئے۔ وہ نہیں سوچتیں کہ اس ہر روز کے جھگڑے، خوفناک حالات اور باپ کی بدکرداری کا بیٹیوں کی نفسیات اور مستقبل پر کیا اثر ہو گا۔
یعنی بعض مائیں بیٹیوں کی عزت یا رشتوں کے خوف سے بچے کو ایک خراب ماحول میں رکھتی ہیں کہ بظاہر خاندان سلامت نظر آئے، حالانکہ حقیقت میں اندر سے وہ مہذب نظام انتہائی کھوکھلا ہوتا ہے۔ پھر اللہ نے طلاق کو کیوں جائز قرار دیا ہے؟
برے اور غیر مناسب ماحول سے الگ ہونا اکثر اولاد کے لیے زیادہ بہتر ہوتا ہے، اس سے کہیں بہتر کہ وہ روزانہ باپ کی برائی دیکھ کر جیتے رہیں۔
ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے یہ سبق سیکھا ہے کہ اصل وطن اور جائے پیدائش چھوڑنا شروع میں بھاری ہوتا ہے، لیکن یقیناً جدائی کے بعد عافیت و خیر نصیب ہوتی ہے۔ جب خود پر ظلم اور تکلیف حد سے بڑھ جائے اور اصلاح کا امکان نظر نہ آئے تو کبھی کبھی ہجرت (جدائی) اختیار کرنے والا بہتر ہوتا ہے، بسا اوقات باپ کو تنہا چھوڑ دینے سے اسے اپنی حالت پر رحم آتا ہے، اور ممکن ہے کہ وہ توبہ اور رجوع کر لے۔
اسی طرح والد کو اس ماحول اور جگہ سے دور لے جانا بھی فائدہ مند ہو سکتا ہے جہاں وہ برائی آسانی سے کرتا رہا ہے۔ شاید جگہ کی تبدیلی ہی کچھ بگڑی بنا دے۔
ہم نہیں جانتے کہ آپ کے والد کے کوئی بھائی یا والدہ (آپ کی دادی) زندہ ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو ضرور انہیں صحیح صورت حال بتائیں۔ یہ بات عموماً چھپی نہیں رہتی، اور ان کا کردار والد کو روکنے یا اصلاحِ حال میں آپ سے زیادہ مؤثر ہو سکتا ہے۔
عزیز بیٹی:
اگر آپ کی والدہ اس صورتحال میں صبر کر رہی ہیں تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں، جتنا صبر کریں گی اللہ انہیں اور آپ سب کو اجر دے گا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ والد کو ماہرِ نفسیات کے پاس لے جانا، مسلسل ان کے لیے دعا کرنا اور علاج پر اصرار کرنا آپ سب کے لیے ناگزیر ہے۔ اللہ اس سخت آزمائش کو آپ سب کے لیے آسان کرے اور بہتری عطا فرمائے، وہی اس پر قادر ہے۔
مترجم: سجاد الحق