رضا کا مقام صرف اللہ کے خاص نیک بندوں کو حاصل ہوتا ہے، کیونکہ اس تک پہنچنے کے لیے سب سے پہلے صبر کو حاصل کرنا ضروری ہے، پھر نفس کو قابو میں لا کر اسے رضا پر آمادہ کرنا پڑتا ہے، تب جا کر دل کو اطمینان، خوشی اور کشادگی حاصل ہوتی ہے، خواہ حالات کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں اور زمانے کی مصیبتیں کیسی ہی نہ ہوں۔
یہ قلبی عبادت “الصعبہ” (یعنی مشقت)، اللہ پر توکل کے اعلیٰ ترین درجات میں سے ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے بندوں پر فرض نہیں کیا بلکہ ان پر رحم کرتے ہوئے اور ان کے لیے آسانی پیدا کرنے کی خاطر اسے لازم نہیں ٹھہرایا، مگر اس نے ہمیں اس کی ترغیب دی ہے، اور اہلِ رضا کی تعریف کی ہے، اور بتایا ہے کہ ان کا اجر اللہ کی رضا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَرِضْوَانٌ مِنْ اللَّهِ أَكْبَرُ﴾ ترجمہ: اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی خوشنودی انھیں حاصل ہوگی [التوبہ: 72] یعنی اللہ کی رضا اہلِ جنت کے لیے جنت اور اس کی نعمتوں سے بھی بڑھ کر اور عظیم تر ہے۔
رضا کا مطلب اور اس کی شرعی بنیاد:
اہل لغت کے نزدیک رضا کو (ر ض و) مادہ سے ماخوذ قرار دیا گیا ہے، جو ناراضگی کے برخلاف ہے۔ کہا جاتا ہے: رَضِيَ يَرْضَى رِضًى، اور “الرضوان” کا مطلب ہے بہت زیادہ رضا۔ پس رضا، ناراضگی کی ضد ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے: “اللهم إني أعوذ برضاك من سخطك”
ترجمہ: اے اللہ میں پناہ مانگتا ہوں تیری ناراضی سے اور آتا ہوں تیری رضا میں [ابو داؤد، ترمذی، نسائی]۔
اصطلاحی معنیٰ میں، مناوی کہتے ہیں: “رضا اس بات کا نام ہے کہ انسان کو جو کچھ پہنچے یا چھن جائے، اس پر دل مطمئن ہو، بغیر کسی اضطراب کے۔ اور کہا گیا: یہ دل کا فیصلے پر خوش ہونا اور گھبراہٹ سے خالی ہونا ہے۔” پس رضا کا مفہوم یہ ہے کہ نفس کسی بات کو قبول کرے اور اس پر ناراضی ظاہر نہ کرے، اور یہ لغوی معنی سے مختلف نہیں۔
قرآن کریم نے تاکید کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا جنت کا سب سے بڑا انعام اور سب سے بڑی نعمت ہے، اور یہ ایسی غایت ہے جس سے آگے کوئی غایت نہیں، جیسا کہ فرمایا:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ، ترجمہ: “دوسری طرف انسانوں ہی میں کوئی ایسا بھی یے جو رضائے الہی کی طلب میں اپنی جان کھپا دیتا ہے اور ایسے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہے۔” [البقرہ: 207]
اسی طرح فرمایا:
لَّا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّن نَّجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا، ترجمہ: “لوگوں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر و بیشتر کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔ ہاں اگر کوئی پوشیددہ طور پر صدقہ و خیرات کی تلقین کرے یا کسی نیک کام کے لیے یا لوگوں کے معاملات میں اصلاح کرنے کے لیے کسی سے کچھ کہے تو یہ البتہ بھلی بات ہے۔ اور جو کوئی اللہ کی رضا جوئی کے لیے ایسا کرے گا اسے ہم بڑا اجر عطا کریں گے۔ [النساء: 114]۔
اللہ کی رضا جزا کے طور پر ملتی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قَالَ اللَّهُ هَذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ، ترجمہ: تب اللہ فرمائے گا “یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی نفع دیتی ہے اور ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے، یہی بڑی کامیابی ہے”۔ [المائدہ: 119]۔
قرآن نے یہ بھی واضح کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے دین کو مکمل کر دیا، اور اپنی نعمت اسلام کے ذریعے مکمل کی، فرمایا: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا، ترجمہ: آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔ [المائدہ: 3]۔
اور اللہ تعالیٰ کا مؤمنین سے راضی ہونے کا ذکر بھی آیا، جیسا کہ فرمایا:
لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا، ترجمہ: اللہ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے دلوں کا حال اس کو معلوم تھا اس لیے اس نے ان پر سکینت نازل فرمائی اور انعام میں فتح بخشی [الفتح: 18]۔
اور قرآنِ کریم نے نیک اعمال پر اللہ تعالیٰ کی رضا کا ذکر کیا ہے: فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّن قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ، ترجمہ: سلیمان ؑ اس کی بات پر مُسکراتے ہوئے ہنس پڑا اور بولا”اے میرے ربّ، مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تُو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عملِ صالح کروں جو تجھے پسند آئے (جس سے تو راضی ہو) اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر [النمل: 19]۔
اور قرآنِ کریم نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ مؤمنین کی صفات میں سے ایک صفت اللہ کے فیصلے پر راضی ہونا اور اس پر اعتراض نہ کرنا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا، ترجمہ: کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا [الاحزاب: 36]۔
ان آیات میں سے جو اس عبادت (رضا) کے بارے میں آئی ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی ہونے کا ذکر ہے جو شرعاً واجب ہے، ارشاد فرمایا:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا، ترجمہ: نہیں، اے محمد ؐ !تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اِختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسُوس کریں، بلکہ سربسر تسلیم کرلیں [النساء: 65]۔
سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس کلام کی تائید کی ہے جو مسلمان کے رضا اور اللہ تعالیٰ کے حکم و تقدیر کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کے بارے میں ہے، کہ بندہ دل کی خوشی اور حسنِ نیت سے راضی ہو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ایمان کا ذائقہ چکھ لیا اُس شخص نے جو اللہ کو رب، اسلام کو دین، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مانے” [مسلم]۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اللہ تمہارے لیے تین چیزوں کو پسند کرتا ہے اور تین چیزوں کو ناپسند کرتا ہے؛
تو وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے: کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور اللہ کی رسی کو سب مل کر تھام لو اور تفرقہ نہ کرو۔
اور وہ تمہارے لیے ناپسند کرتا ہے: فضول باتیں، کثرت سے سوال کرنا، اور مال ضائع کرنا۔”
اور ایک روایت میں ناپسندیدہ چیزوں میں ’اور تفرقہ نہ کرو‘ کا ذکر نہیں فرمایا [مسلم]۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اے ابو سعید! جو اللہ کو رب، اسلام کو دین، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مانے، اُس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔ “
ابو سعید کو تعجب ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول! یہ بات پھر سے دہرائیں۔
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دہرایا، پھر فرمایا: “اور ایک اور عمل ہے جس کے ذریعے بندے کو جنت میں سو درجے بلند کیے جاتے ہیں، ہر دو درجوں کے درمیان آسمان و زمین کا فاصلہ ہوتا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: وہ کیا ہے، اے اللہ کے رسول؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد، اللہ کے راستے میں جہاد” [مسلم]۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: “ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوسَیف قین کے پاس گئے، جو حضرت ابراہیم (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے) کے رضاعی والد تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم کو لیا، انہیں بوسہ دیا اور سونگھا۔ پھر ہم دوبارہ ان کے پاس گئے جب کہ ابراہیم جان کنی کی حالت میں تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ بھی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن عوف! یہ تو رحمت ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور آنسو بہایا، اور فرمایا: بے شک آنکھ آنسو بہاتی ہے، دل غمگین ہوتا ہے، لیکن ہم وہی کہتے ہیں جس سے ہمارا رب راضی ہو، اور اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے یقیناً غمگین ہیں” [بخاری]۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تباہ ہو جائے دینار، درہم، موٹے کپڑے اور عمدہ چادر کا بندہ، اگر اسے دیا جائے تو راضی ہو، اور اگر نہ دیا جائے تو راضی نہ ہو” [بخاری]۔
جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: “بیشک کچھ زکوٰۃ وصول کرنے والے ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم پر ظلم کرتے ہیں”۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اپنے زکوٰۃ لینے والوں سے راضی رہا کرو”۔ جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: “جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے، میں نے کبھی کسی عامل زکوۃ کو ناراضی کی حالت میں نہیں رخصت کیا [مسلم]۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تو معاملہ یہ تھا کہ وہ زندگی کے تمام معاملات میں مقام رضا پہ پہنچ چکے تھے۔ یہی حال تابعین و صالحین کا تھا ۔ چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: “تم میں سے کسی کا دہکتا ہوا انگارہ منہ میں دبائے رکھنا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو جائے، اس سے بہتر ہے کہ وہ اللہ کے کسی فیصلے پر کہے: کاش یہ نہ ہوا ہوتا”۔
ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: “ایمان کی بلندی چار چیزوں میں ہے: فیصلے پر صبر، تقدیر پر رضا، توکل میں اخلاص، اور رب عز وجل کے سامنے مکمل سپردگی”۔
امام مالک رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ان تک یہ بات پہنچی کہ ابو درداء رحمہ اللہ ایک آدمی کے پاس گئے جو وفات کے قریب تھا اور وہ اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا، تو ابو درداء نے فرمایا: “تم نے درست کیا؛ جب اللہ کوئی فیصلہ کرتا ہے تو پسند کرتا ہے کہ اس پر رضا کا اظہار کیا جائے”۔
زمعة بن صالح کہتے ہیں: بنی امیہ میں سے کسی نے ابو حازم کو خط لکھا کہ وہ اپنی ضرورتیں ان کے پاس بھیجا کریں، تو ابو حازم نے جواب میں لکھا: “اما بعد، مجھے تمہارا خط ملا جس میں تم نے مجھ پر لازم کیا کہ میں اپنی ضرورتیں تمہیں بھیجوں، حالانکہ میں نے تو اپنی تمام حاجات اپنے رب کے حضور پیش کر دی ہیں، جو اس نے عطا کیں، قبول کر لیں، اور جو روک لیں، ان پر قناعت کی”۔
علی بن حسین سے مروی ہے: “المصیصہ (علاقہ) میں ایک شخص تھا جس کا نچلا دھڑ ناکارہ ہو چکا تھا، جسم کے کچھ حصے میں جان باقی تھی، اندھا تھا اور سوراخ دار چارپائی پر پڑا تھا۔ ایک آدمی اس کے پاس آیا اور پوچھا: اے ابو محمد! صبح کیسی ہوئی؟ اس نے جواب دیا: وہ شخص دنیا کا بادشاہ ہے جو اللہ سے وابستہ ہے، مجھے اس سے صرف ایک ہی حاجت ہے کہ مجھے اسلام پر موت دے”۔
جب ایک شخص کے بیٹے کا انتقال ہوا، تو مشہور تابعی عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اس کے پاس تعزیت کے لیے آئے، وہ شخص بہت اچھی طرح تعزیت کر رہا تھا، تو مجلس میں موجود ایک شخص نے کہا: “یہ تو واقعی رضا ہے”، اس پہ عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا:” بلکہ یہ صبر ہے۔” سلیمان کہتے ہیں: “صبر، رضا سے کمتر ہے، رضا یہ ہے کہ انسان مصیبت آنے سے پہلے راضی ہو کہ جو بھی ہو، اور صبر یہ ہے کہ مصیبت کے بعد برداشت کا مظاہرہ کرے”۔
ابن عون کہتے ہیں: “اللہ کے فیصلے پر راضی رہو، چاہے وہ تنگی میں ہو یا فراخی میں، بے شک یہ تمہارے غم کو کم کرے گا، اور آخرت کے فائدے کے لیے زیادہ مؤثر ہو گا۔ اور جان لو کہ بندہ رضا کی حقیقت کو نہیں پا سکتا جب تک کہ وہ تنگی اور آزمائش میں اسی طرح راضی نہ ہو جس طرح فراخی اور آسانی میں ہوتا ہے”۔
جب عروہ بن زبیر رحمہ اللہ کی ٹانگ میں ایسی چوٹ آئی کہ کاٹنے کی ضرورت پیش آئی، تو لوگوں نے کہا: “کیا ہم کسی طبیب کو بلائیں؟”انہوں نے فرمایا: “کوئی حرج نہیں”، پھر لوگوں نے کہا: “ہم تمہیں ایسا مشروب دیں گے جس سے تمہارا ہوش ختم ہو جائے (یعنی بے ہوشی کی دوا)”
تو انہیں یہ بات پسند نہ آئی اور فرمایا: “میں نے کبھی یہ گمان بھی نہ کیا تھا کہ کوئی ایسا مشروب پیے گا جو اس کی عقل چھین لے، یہاں تک کہ وہ پہچانا نہ جا سکے”۔ پھر ان کی بائیں ٹانگ پر آرا رکھا گیا، مگر ان کے منہ سے کوئی آہ یا کراہت نہ نکلی، اور جب وہ ٹانگ کاٹ دی گئی تو وہ کہنے لگے: “(اے اللہ!)اگر تو نے لے لیا ہے تو باقی بھی رکھا ہے، اور اگر آزمائش دی ہے تو عافیت بھی عطا کی ہے”۔ اور انہوں نے اپنے قرآن کے ورد کو ترک نہیں کیا۔
رضا کے ثمرات:
رضا کے ثمرات اور فوائد درج ذیل ہیں:
مغفرت کا سبب: حدیث میں ارشاد ہے، جس نے مؤذن کی آواز سن کر کہا: رضیت با اللہ ربا و باالاسلام دینا وبمحمد رسولا، تو اس کے گناہ معاف کیے جاتے ہیں۔
جنت واجب ہونے کا سبب: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اے ابو سعید! جو شخص اللہ کو رب، اسلام کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مانے، اس پر جنت واجب ہو گئی” [مسلم]۔
اللہ کے فیصلے پر راضی شخص سب سے زیادہ غنی ہوتا ہے:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “حرام چیزوں سے بچو، سب سے زیادہ عبادت گزار بنو، اور اللہ کی تقسیم پر راضی ہو جاؤ، سب سے زیادہ غنی بنو” [ترمذی]۔
راضی شخص ایمان کا مزہ چکھ لیتا ہے:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ایمان کا ذائقہ چکھ لیا اُس شخص نے جو اللہ کو رب، اسلام کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مانے” [مسلم]۔
اللہ کے احکامِ شرعی و قدری پر اعتراض سے حفاظت:
ابلیس نے اللہ کے حکمِ قدری (آدم کو فضیلت دینے) اور حکمِ شرعی (آدم کو سجدہ کرنے) پر اعتراض کیا، تو اسے جنت سے نکال دیا گیا۔
رضا انسان کو اپنے رب کے بارے میں حسنِ ظن عطا کرتی ہے:
کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ کا ہر فیصلہ عدل، رحمت اور حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔
ایمانی حقیقتوں کو دل میں راسخ کرتی ہے:
جیسے اللہ پر بھروسا، استعانت، خشیت، توبہ، انابت اور استغاثہ۔
نفسیاتی سکون عطا کرتی ہے:
رضا غم و غصے کو ختم کرتی ہے، مصیبتوں کو ہلکا کرتی ہے، اور فکروں و پریشانیوں کو دور
کرتی ہے۔
مصیبتوں کو اجر میں بدل دیتی ہے:
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ما أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ، ترجمہ: کوئی مصیبت نہیں آتی مگر اللہ کے اذن سے۔ اور جو کوئی اللہ پر ایمان رکھتا ہو اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے۔ [التغابن:11]۔
قناعت اور عزتِ نفس پیدا کرتی ہے:
مومن جانتا ہے کہ رزق اللہ کی طرف سے لکھا جا چکا ہے، اور جب تک
مکمل نہ ہو، وہ نہیں مرے گا۔
رضا انسان کو متواضع بناتی ہے:
کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جو نعمت اسے ملی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے، اگر اللہ چاہتا تو وہ نعمت واپس لے لیتا۔
رضا شکر کی بنیاد بنتی ہے:
شکر ایمان کا اعلیٰ مقام ہے، اور حقیقتِ ایمان بھی ہے، جو اللہ کی عطا، حکم، تدبیر، لینے اور دینے پر راضی نہ ہو وہ شکرگزار نہیں ہو سکتا۔
مایوسی سے لڑتی ہے:
جو اللہ کی تقدیر پر راضی نہیں ہوتا، وہ مایوسی اور قنوط کا شکار ہو جاتا ہے، اور یاس ایک زہر ہے جو انسان کو خیر سے روک دیتا ہے۔
سینہ صاف اور دل پاک کر دیتی ہے:
کیونکہ راضی شخص اللہ کی حکمت پر یقین رکھتا ہے، اس کے دل میں نہ حسد ہوتا ہے، نہ بغض، نہ نفرت۔
خوشی و غم میں توازن عطا کرتی ہے:
رضا انسان کو ایسا راستہ دیتی ہے کہ وہ نعمت پا کر مغرور نہ ہو اور مصیبت پا کر مایوس نہ ہو۔
اللہ کی دائمی رضا کے حصول کا ذریعہ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا: اے اہلِ جنت! کیا تم راضی ہو؟ وہ کہیں گے: کیوں نہ ہوں جب آپ نے ہمیں وہ کچھ دیا جو تو نے کسی کو نہیں دیا۔ تو اللہ فرمائے گا: میں تمہیں اپنی رضا عطا کرتا ہوں، جس کے بعد تم پر کبھی ناراض نہیں ہوں گا” [بخاری و مسلم]۔
تربیتی نکات:
مسلمان کی زندگی میں رضا حاصل کرنے کا راستہ بعض تربیتی ذرائع پر عمل کا متقاضی ہے، جن میں نمایاں درج ذیل ہیں:
- اس بات کا علم رکھنا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بندگی کا یہ تقاضا ہے کہ اس کی رضا میں راضی ہوا جائے۔
- اس کا یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ کا مؤمن بندے کے لیے کیا گیا انتخاب اس کے اپنے انتخاب سے بہتر ہوتا ہے۔
- اللہ تعالیٰ پر بھروسا اور اس کی بہترین تدبیر پر حسنِ ظن رکھنا۔
- اس بات کو یاد رکھنا کہ وہ مسلمان ہے، اور مسلمان وہ ہے جو اللہ کے سامنے سراپا تسلیم ہو، اور اس کے فیصلوں پر اعتراض نہ کرے۔
- یہ یاد رکھنا کہ وہ محض ایک بندہ ہے، اور بندہ کبھی اپنے رب کے فیصلوں پر اعتراض نہیں کرتا۔
- یہ یاد رکھنا کہ وہ اللہ کا محب ہے، اور سچا محب وہی ہے جو اپنے محبوب کے ہر معاملے پر راضی ہو۔
- قرآن و سنت میں اہلِ رضا کے حق میں وارد شدہ نصوص پر غور و تدبر کرنا۔
- رضا والوں کے لیے مقرر کردہ اجر و ثواب کو ذہن میں رکھنا۔
- جب کوئی ناپسندیدہ چیز پیش آئے تو اس سے بھی بدتر چیزوں کو یاد کرنا۔
- اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کے اسماء و صفات کے ساتھ صحیح پہچان حاصل کرنا۔
- یہ جاننا کہ اللہ ہی سب سے پہلا ہے اور سب کے بعد باقی رہنے والا ہے، اور وہی ہر چیز کو ظاہر کرنے والا، ہر چیز کا مالک ہے، وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہے چن لیتا ہے۔
- اس بات پر کامل یقین رکھنا کہ اللہ کے کلمات میں کوئی تبدیلی نہیں، اس کے حکم کو کوئی رد نہیں کر سکتا، جو اللہ چاہے وہی ہوتا ہے، اور جو نہ چاہے وہ ہرگز نہیں ہوتا۔
- یہ جاننا کہ اللہ کا فیصلہ بندے میں نافذ ہوتا ہے، اور اس کا قضا بندے پر عدل ہے۔
- یہ جاننا کہ مقدر میں سے بندے کا حصہ وہی ہے جو وہ رضا یا ناراضی کے ساتھ حاصل کرے، پس جو راضی ہوا اس کے لیے رضا ہے، اور جو ناراض ہوا اس کے لیے ناراضی ہے۔
- یہ جاننا کہ کامل بندگی اسی میں ہے کہ بندہ ان احکام پر بھی راضی ہو جو اس کے نفس کو ناپسند ہوں۔
- یہ جاننا کہ ہر وہ قضا جو بندے کو ناگوار ہو اور اس کا نفس اسے ناپسند کرے، وہ یا تو گناہ پر سزا ہے، تو یہ اس کے مرض کی دوا ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اس پر مہربانی کی تاکہ یہ مرض اس کو ہلاکت کی طرف نہ لے جائے۔
پس رضا کی منزلت بہت عظیم ہے، اور جس نے اللہ کی ربوبیت، اس کی الوہیت، اس کے دین، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اس کی قضا و قدر، اور اس کے عطا کردہ رزق پر رضا حاصل کی، اس نے ایمان کا ذائقہ چکھا، اس کے گناہ معاف ہوئے، اور وہ دنیا و آخرت میں سعادت کی بلند منزل تک پہنچ گیا۔
مترجم: زعیم الرحمان