کئی والدین اپنے بچوں کو کامیابی اور ترقی کی طرف مائل کرنے اور محنت کروانے کے لیے ان کا آپس میں موازنہ کرتے ہیں، مگر یہ طریقہ اکثر اُلٹا اثر ڈالتا ہے۔ موازنہ کی یہ عادت حسد، نفرت، اور انتقامی رویوں کو جنم دیتی ہے، خاص طور پر جب بچہ دوسروں کی سطح تک پہنچنے سے قاصر ہو۔ یہ ایک طرح کا ظلم ہے، کیونکہ ہم دوسروں کے بچوں کے بارے میں صرف وہی جانتے ہیں جو بظاہر نظر آتا ہے، جب کہ کوئی بھی بچہ مکمل نہیں ہوتا اور ہر ایک میں کچھ نہ کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں۔
چاہے موازنہ بہن بھائیوں کے درمیان ہو یا رشتے داروں میں، یہ ایک سنگین غلطی ہے، جس میں بہت سے والدین ملوث ہوتے ہیں جس کے نتائج بچے کی شخصیت پر گہرے نفسیاتی اثرات چھوڑتے ہیں۔ ایسے نقوش جو وقت کے ساتھ بھی مٹ نہیں پاتے۔ بچوں کو ہمیشہ حوصلہ افزائی، تحفظ، محبت، اور تجربے کی آزادی کی ضرورت ہوتی ہے، چاہے ان کے نتائج معمولی ہی کیوں نہ ہوں۔
بچوں کا آپس میں موازنہ ایک بڑی غلطی:
ماہرینِ تعلیم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بچوں کا موازنہ کرنا ایک بڑی تربیتی غلطی ہے، کیونکہ ہر انسان اللہ تعالیٰ کی منفرد تخلیق ہے۔ ہر بچے کی فطرت، خصوصیات اور صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں، یہاں تک کہ جڑواں بچوں میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔ اس لیے منفی موازنہ کے نقصانات درج ذیل ہو سکتے ہیں:
- بہن بھائیوں میں مقابلہ بازی: اگر والدین بڑے بچوں کا موازنہ چھوٹے بہن بھائیوں سے کریں تو اس سے مقابلہ بازی بڑھے گی، اس کے بعد بڑے بچے چھوٹوں کے ساتھ لڑائی جھگڑے، مار پیٹ اور ناروا رویے پر اتر آئیں گے۔
- احساسِ جدائی: جب بچوں کا موازنہ بہن بھائیوں، دوستوں یا رشتے داروں سے کیا جائے، تو وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں اور والدین سے دُور ہو جاتے ہیں۔ ان کے رویے اور نشو ونما پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔
- سزا میں اضافہ: موازنہ کی وجہ سے والدین اور بچوں کے درمیان دوری بڑھتی ہے، اور دونوں کے درمیان خلیج مزید بڑھتی جاتی ہے۔
- صلاحیتوں کا دب جانا: جب بچے کی قدر نہ کی جائے اور مسلسل اس کا دوسروں سے موازنہ کیا جائے، تو اس کی پوشیدہ صلاحیتیں پروان نہیں چڑھتیں۔
- سماجی تعلقات میں کمزوری: بار بار مذاق یا تنقید کا نشانہ بننے سے بچہ والدین کی موجودگی میں دوسروں سے گھلنا ملنا بند کر دیتا ہے۔
- کارکردگی میں سرد مہری: مایوسی کے باعث بچہ گھر، اسکول یا عام زندگی میں بہتری کی کوشش ترک کر دیتا ہے۔ کیونکہ بچہ اپنے اور دوسروں کے درمیان موجود انفرادی خصوصیات کی حقیقت کو نظر انداز کر دیتا ہے۔
- حسد اور دشمنی: مسلسل موازنہ بچے میں منفی جذبات پیدا کرتا ہے، وہ ان افراد سے نفرت کرنے لگتا ہے جن سے اس کا موازنہ کیا جاتا ہے۔
- نفسیاتی تھکن: موازنہ کے دباؤ سے بچہ چڑچڑا، جلد ناراض ہونے والا اور غیر متوازن رویہ اختیار کر لیتا ہے۔ کیونکہ اسے لگتا ہے کہ وہ والدین کو کبھی خوش نہیں کرسکتا ہے۔
- احساسِ کمتری: بچے کو یہ لگتا ہے کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں، جو اس کی خود اعتمادی کو بری طرح مجروح کرتا ہے۔
- خود اعتمادی کی تباہی: بچہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ کبھی بھی والدین کی توقعات پر پورا نہیں اُتر سکتا۔ اور نہ کبھی اچھا کام کرسکتا ہے۔
- دباؤ میں اضافہ: موازنہ بچے میں مستقل بے چینی، نیند کی کمی اور اعصابی دباؤ پیدا کرتا ہے۔
- والدین کی طرف سے مسترد کیے جانے کا احساس: بچہ ایک “مصنوعی” شخصیت اپناتا ہے تاکہ والدین کو خوش رکھ سکے، مگر اندر ہی اندر ٹوٹتا رہتا ہے۔
- خود پسندی: بچہ اپنی خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر اور دوسروں کی خامیوں کو نمایاں کر کے موازنہ کا بدلہ لیتا ہے۔
- حوصلہ شکنی: موازنہ سے بچہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ کبھی کچھ حاصل نہیں کر سکے گا۔
- لاپروائی: بچہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی کوئی قدر نہیں، تو کوشش کرنا بے کار ہے۔
- دوسروں کی خوبیوں کا غیرحقیقی تصور: موازنہ کی شدت بچوں کو اس حد تک لے جاتی ہے کہ وہ دوسروں کو خود سے بہت بہتر سمجھنے لگتے ہیں، حالانکہ ہر کسی کی کہانی الگ ہوتی ہے۔
موازنہ کب فائدہ مند ہو سکتا ہے؟
اگر والدین موازنہ کرنا چاہیں تو اس کے لیے مثبت اور محتاط انداز اختیار کرنا ضروری ہے، مثلاً:
- بچے کی اپنی کامیابیاں یاد دلانا: کسی اور کی بات کرنے سے پہلے بچے کی اپنی خوبیوں اور کامیابیوں کا ذکر کریں۔ تاکہ اس کی توجہ حاصل کریں۔
- بچے کی مہارتوں کی تعریف کرنا: جس کام میں بچہ اچھا ہے، اس کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ مزید بہتری کی طرف بڑھے۔
- کوشش کی تعریف کریں، صرف نتائج کی نہیں: صرف نتائج پر زور دینے سے دباؤ بڑھتا ہے، جب کہ کوشش کی تعریف بچہ میں اعتماد پیدا کرتی ہے۔
- آزادی دینا: بچے کو تجربہ کرنے کی آزادی دیں، بغیر اس کے کہ وہ محسوس کرے کہ اس پر نظر رکھی جا رہی ہے۔
بچوں کو مثبت انداز میں اُبھارنے کے مشورے:
والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو مؤثر طریقے سے حوصلہ دیں۔ درج ذیل طریقے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں:
- یومیہ معمول بنائیں: بچوں کو تحفظ اور اعتماد دینے کے لیے ایک واضح یومیہ روٹین بنائیں۔ تاکہ انہیں معلوم ہو کہ آج ان سے کس کام کی توقع ہے اور کل کیا کرنا ہے۔
- خود پر انحصار سکھائیں: بچے کو خود نہانے، کھانے، یا تیار ہونے کے کام سکھائیں تاکہ وہ خود مختار بنے۔ یہ تربیت تدریجی انداز میں تسلسل کے ساتھ انجام دیں یہاں تک کہ بچہ اپنے کاموں کو خود کرنے پر قدرت حاصل کرے۔
- بچے کو دنیا کو دریافت کرنے دیں: حفاظتی جذبہ اہم ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ والدین بچے کو چوبیس گھنٹے اپنی نگرانی میں رکھیں اور اسے کوئی کوشش نہ کرنے دیں بلکہ بچے کو معقول حدود سے آگاہ کرکے نئی چیزیں دیکھنے اور سیکھنے کا موقع بھی دیں۔
- توجہ سے سنیں: بچے سے روز کچھ وقت نکال کر بات کریں، اس کی بات سنیں تاکہ وہ اپنا دل کھول کر بیان کرے۔
- مثبت ردِعمل دیں: جب بچہ کوئی مشکل سر انجام دے، تو اسے سراہیں۔ اس طرح اس کی حوصلہ افزائی ہوگی اور اس کی صلاحیت بڑھے گی۔
- محبت اور شفقت دکھائیں: بچے کو روز گلے لگائیں، پیار دیں اور یہ باور کرائیں کہ وہ محبوب ہے۔ اس کے کھیل کود میں شریک ہوجائیں، اس کی بات تفصیل سے سنیں، کیونکہ محبت و شفقت کے جذبات اس کے اندر اطمینان پیدا کریں گے اور وہ پوری طرح نشو و نما پائے گا۔
- توجہ اور سکون سکھائیں: بچوں کی تعلیم و تربیت میں ایک ضروری بات جذبات کی صحیح نگرانی ہے، یعنی انہیں یہ سمجھانا کہ دباؤ اور گھبراہٹ کا سامنا کیسے کیا جائے۔ انہیں سمجھایا جائے کہ دباؤ محسوس کرنا فطری ہے اور یہ کہ مشکل کام کرتے وقت یا زندگی کے اہم فیصلے لیتے وقت یہ دباؤ بڑھتا ہے لیکن ہمیں چاہیے کہ ہم انہیں یہ شعور عطا کریں اور فرق کرنا سکھائیں، اور ان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے انہیں اس دباؤ سے نکلنے میں مدد کریں۔
- محنت کی قدر کریں: پھر چاہے وہ کھیل کود کے لیے باہر نکلنے سے پہلے اپنا ہوم ورک مکمل کرنا ہو، دسترخوان بچھانے یا اسکول کی یونیفارم کیوں نہ پہننی ہو، ہر چھوٹی سے چھوٹی کوشش کی تعریف ضرور کریں تاکہ وہ زیادہ بہتر کارکردگی دکھا سکے۔
- انعام دیں: چھوٹے چھوٹے انعامات بچوں کو اچھی عادات اپنانے پر آمادہ کرتے ہیں۔
- زبردستی سے گریز کریں: نرمی سے سمجھانا زیادہ مؤثر ہوتا ہے، ورنہ ضد اور بغاوت پیدا ہو سکتی ہے۔
- مسائل خود حل کرنے کا موقع دیں: فوراً مداخلت نہ کریں، پہلے بچے کو کوشش کرنے دیں۔ پھر اگر مسئلہ حل نہ ہوسکے تو آپ مدد اور رہنمائی کر سکتے ہیں۔
- اختیار دیں: بچوں کو چھوٹے فیصلے خود لینے دیں، اس سے ان میں خود اعتمادی بڑھے گی۔
- اچھا نمونہ بنیں: والدین خود پڑھیں، ورزش کریں، نرمی اور احترام سے بات کریں — بچے سیکھتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں۔
- حوصلہ افزائی اور اعتماد دیں: بچے کو بتائیں کہ آپ اس پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کے کامیاب ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ جب بچے کو معلوم ہوتا ہے کہ والدین اس پر بھروسہ رکھتے ہیں تو وہ جی توڑ محنت کرتا ہے۔
- کامیابی کا موقع دیں: غیر حقیقی توقعات سے بچیں، اور چیلنجز میں اس کی مدد کریں۔
- حوصلہ افزا ماحول بنائیں: بچے کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ پیار، اعتماد اور تعاون میں پروان چڑھ رہا ہے۔ تو وہ کوشش کے لیے زیادہ مستعد رہتا ہے یہ اس وقت ممکن ہے جب ہم اس کی بات سنیں گے اس کے کاموں میں شریک ہوں گے اور اس کی کامیابی میں اسے حوصلہ افزائی کریں گے۔
- صبر سے کام لیں: بچوں کو متحرک کرنا وقت لیتا ہے، اس لیے مربی کو چاہیے کہ صبر سے کام لے اور تب تک بچے کی مسلسل حمایت کرے یہاں تک کہ مقصد میں کامیاب ہوجائے۔
اپنے بچوں کا دوسروں سے موازنہ کرنا مناسب نہیں، کیونکہ ہر بچے کی شخصیت، صلاحیت اور حالات مختلف ہوتے ہیں۔ والدین بعض اوقات لاشعوری طور پر موازنہ کرتے ہیں، یہ سوچ کر کہ یہ بچے کو کامیابی پر اُبھارے گا، مگر حقیقت میں یہ زیادہ تر منفی اثرات ہی مرتب کرتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ہم بچے کا موازنہ اُس کے ماضی کے ساتھ کریں، یعنی اُس کی اپنی ترقی اور سیکھنے کے سفر کو مدنظر رکھ کر اس کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ مناسب مہارات حاصل کرے۔
مترجم: سجاد الحق