سوال
جب میں اپنے بیٹے سے فلسطین میں ہونے والے مظالم کے بارے میں ہماری ذمہ داری پر بات کر رہا تھا، تو اُس نے یہ سوال پوچھ کر مجھے حیران کردیا۔ اُس نے کہا:
“ابّا: اگر آپ واقعی سمجھتے ہیں کہ فلسطینیوں کی مدد کرنا ہم پرفرض ہے، تو پھر آپ وہاں جا کر ان کا دفاع کیوں نہیں کرتے؟ کیا آپ موت سے ڈرتے ہیں؟”
یہ سوال واقعی میرے لیے پریشان کن تھا۔ ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ حکومتوں نے جہاد کے دروازے نہیں کھولے، لیکن اگر وہ کبھی کھول دیں، تو کیا ہم واقعی تیار ہیں؟ میں اپنے بیٹے کو کیا جواب دوں؟
جواب
محترم سائل!
یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ ہمیں یہ منظر دیکھنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے کہ ہمارے بھائی فلسطین اور دیگر جگہوں پر قتل کیے جا رہے ہیں، ان کے گھر تباہ کیے جا رہے ہیں، اور ہم سب ایک قوم کی طرح اُٹھ کر ان کی مدد کے لیے نہیں جا سکتے!
یہ ہمارے دور کی آزمائش ہے، ہماری کمزوریاں، ہماری دین سے دوری، شاید یہی آزمائش ہمارے لیے گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا ذریعہ بنے۔
آپ کے بیٹے کا سوال بالکل فطری ہے، کیونکہ جو اپنے بھائی کی مصیبت دیکھتا ہے، اُس کا فطری ردعمل یہی ہوتا ہے کہ وہ اُسے بچانے کے لیے دوڑے۔ بچے کی نظر میں مدد کا مطلب، جاکر دشمن سے لڑنا ہوتا ہے۔ اُسے ہم ہی نے سکھایا ہے کہ جب بھائی پر ظلم ہو تو خود جا کر اُس کا دفاع کرو۔
واقعی، ظلم و مظلومیت کے ہر منظر میں مدد واجب ہوتی ہے۔ لیکن یہ سمجھانا بھی ضروری ہے کہ مدد کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں، اور انفرادی و اجتماعی قوانین بھی مختلف ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے اجتماعی فیصلے جن پر ہمارا اختیار نہیں ہوتا۔
ہم ایسی ظالمانہ سرحدی حدود، پابندیوں اور نظاموں میں جکڑے ہوئے ہیں، جو ہمیں اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے اسلحہ تو دور حتیٰ کہ دوائیں بھیجنے سے بھی روکتے ہیں۔
لیکن! اللہ نے ہمیں پھر بھی مدد کرنے کے کئی راستے عطا کیے ہیں۔ اے میرے بیٹے! کبھی اپنے مظلوم بھائی کی مدد سے باز نہ آنا۔ جب تک تم کسی حال میں کچھ بھی کرسکتے ہو، تو کرو۔ اور جب تمہارا راستہ روکا جائے، جیسے ہمارا روکا گیا ہے تو آؤ، میں تمہیں بتاتا ہوں کہ مدد کے کیا کیا طریقے ہوسکتے ہیں، تاکہ ہم کبھی بھی بے بس نہ ہوں، ان شاء اللہ۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ “ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں”۔ نہیں! اگر ہم دل سے چاہیں، تو ہمارے پاس بہت سے راستے ہیں جو ہم اختیار کر کے اللہ کے حضور اپنی ذمہ داری پوری کر سکتے ہیں۔
شعور بیدار کرنا اور غلط فہمیوں کا ازالہ:
سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ، اپنے بچوں، اپنے گھر والوں، اپنے دوستوں، ہمسایوں، کام کے ساتھیوں، اور مسجد کے نمازیوں میں شعور اجاگر کرنا ہے۔
علم ایک ہتھیار ہے جس سے ہم ہر اُس شخص کو جواب دے سکتے ہیں جو مزاحمت کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے یا فلسطین کے دفاع کو صرف عرب قوم پرستی یا قومیّت پر مبنی سمجھتا ہے، نہ کہ اسلامی فریضہ۔
علماء نے اپنا کام بخوبی انجام دیا، اب ہماری باری ہے کہ ہم اُن سے سیکھیں اور یوٹیوب پر کئی مفت کورسز موجود ہیں۔
جہاد کی فضیلت کا مطالعہ:
اگرچہ آج ہم میدان جنگ میں نہیں، پھر بھی ہمیں اپنے دلوں کو جہاد کی خواہش سے خالی نہیں رکھنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“جو شخص نہ کبھی جہاد میں گیا، نہ اُس کے دل میں جہاد کا خیال آئے، وہ نفاق کی ایک شاخ پر مرے گا۔”
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“اور جو کچھ بھی تم اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے، وہ تمہیں پورا دے دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا” [الأنفال: 60]
ہمیں ہمیشہ تیار رہنا چاہیے کہ اگر کل بلاوا آ جائے، تو ہم دل، زبان، جسم، اور ہتھیار کے ساتھ تیار ہوں
عملی تیاری کے اقدامات:
- جہاد کی فضیلت، احکام اور مقاصد کا مطالعہ
- بچوں کی تربیت عبادات، قربانی، ایثار، اور صبر پر کرنا
- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت، غزوات، اور مجاہدین کے قصے سنانا
- فرضی کارٹون ہیروز کے بجائے حقیقی مسلم ہیروز سے روشناس کروانا
- جسمانی تربیت جیسے تیراکی، تیراندازی، گھڑسواری کروانا
- حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول: “اپنے بچوں کو تیراکی، تیراندازی، گھڑسواری سکھاؤ”
مرابطہ (سرحدی نگرانی) کی حقیقت اور عملی شکل:
مرابطہ یعنی چوکنا رہنا، تیاری کی حالت میں رہنا۔ چاہے ہم سرحد پر نہ ہوں، ہم اپنے روزمرہ کاموں میں بھی “مرابط” بن سکتے ہیں۔
- ہر شخص اپنی دی ہوئی صلاحیت کے مطابق ایک مورچے کا ذمہ دار ہے
- کوئی قرآن سکھا رہا ہو، کوئی بچوں کو شعور دے رہا ہو
- مسجد کی خدمت، صفائی اور نظم ایک عظیم نیکی ہے
- حضرت عائشہؓ نے فرمایا: “اگر میں مرد ہوتی، تو اللہ کے راستے میں مرابط ہوتی“
ایک مرابط کا قول:
“مرابطہ کے بغیر زندگی بے ذائقہ ہے، میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ عام سی زندگی گزاروں!”
مال کی قربانی:
- گھر میں “فلسطین کی پٹاری” بناؤ، جس میں بچے اور بڑے روز کچھ نہ کچھ ڈالیں
- نیت خالص ہو تو اللہ خود راہیں کھولتا ہے
- غزوہ تبوک میں ایک صحابی نے صرف ایک صاع (تقریباً 3 کلو) کھجور دی تھی
- منافقین نے مذاق اُڑایا، لیکن اللہ نے اُن پر لعنت کی [التوبہ: 79]
نکتہ:
چاہے جتنا بھی تھوڑا ہو، خلوص سے دیا گیا مال اللہ کے ہاں عظیم بن جاتا ہے۔
ابتدائی طبی امداد سیکھنا:
- ڈاکٹروں، نرسوں، طبی عملے کا کردار اس جنگ میں مجاہدین سے کم نہیں
- بچوں کو بنیادی طبی امداد سکھاؤ
- یہ بھی نصرت کی ایک عملی اور اہم صورت ہے
دعا:
- دعا ایک ایسا ہتھیار ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں
- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے [البقرہ: 249] - دعا سے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے
- ہم اپنے بھائیوں کے ساتھ قلبی طور پر جُڑتے ہیں
- دعا میں کوئی محرومی نہیں، یہ سب کر سکتے ہیں
محترم سائل!
جب آپ اپنے دل میں یہ سوچ جگائیں گے، اپنے بیٹے کی تربیت انہی بنیادوں پر کریں گے، اور عزم باندھیں گے کہ چاہے وقت کتنا بھی مشکل ہو، ہم راہِ نصرت نہیں چھوڑیں گے تو آپ کو خود ہی اپنے سوال کا جواب مل جائے گا۔
جب تک یہ ظالمانہ نظام باقی ہیں، جو سرحدیں کھینچتے ہیں، ہتھیار چھین لیتے ہیں تب تک ہم اپنی اصل تیاری کا آغاز کریں۔
سچ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر ابھی اس دشمن کے مقابلے کے لیے تیار نہیں مگر ہم دُعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں اُن لوگوں میں شامل کر لے جو اپنے حصے کی نصرت انجام دے کر اُس کی رضا کے مستحق بن جائیں۔
اے اللہ!
ہمیں اُن کاموں پر ثابت قدمی عطا فرما، جن پر تُو نے ہمیں ذمہ دار بنایا ہے،
مجاہدین کے نشانے درست فرما،
زمین کو ان کے قدموں تلے مضبوط فرما،
اور ہمارے بچوں کو ہمارے بعد اپنے دین کا مددگار بنا،
اور ہمیں اور ہمارے بچوں کو دین کی نصرت کا ذریعہ بنا۔
آمین۔
مترجم: سجاد الحق