اللہ تعالیٰ نے عرفہ کے دن دین کو مکمل اور مسلمانوں پر اپنی نعمت کو پورا کیا۔ یہ دن ہر سال ذی الحجہ کی 9 تاریخ کو آتا ہے، یہ ان دس عظیم دنوں میں سے ایک ہے جن کی اللہ نے قسم کھائی ہے۔ اس دن کا روزہ پچھلے اور آنے والے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ یہ رحمت، گناہوں کی بخشش اور آگ سے آزادی کا دن ہے، اور اس دن دعا قبول ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس دن آسمان والوں کے سامنے عرفات میں کھڑے لوگوں پر فخر کرتا ہے۔
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ دن اللہ کے نزدیک زمین کے سب سے بہترین دنوں میں سے ہے۔ حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک یہودی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: “اے امیر المؤمنین! آپ لوگ اپنی کتاب میں ایک آیت پڑھتے ہیں، اگر یہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنالیتے۔” حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: “کون سی آیت؟” اس نے کہا: اللہ کا فرمان “… آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا…” [سورہ المائدہ: 3]۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: “خدا کی قسم! مجھے اس دن کا علم ہے جب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی، اور وہ گھڑی بھی جب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ یہ عرفہ کی شام کو جمعہ کے دن نازل ہوئی تھی۔” [بخاری و مسلم]
یومِ عرفہ کی تعریف
یومِ عرفہ ذی الحجہ کا نواں دن ہے۔ عرفہ یا عرفات درحقیقت اُس دن حاجیوں کے ٹھہرنے کی جگہ کا نام ہے، جو مکہ مکرمہ سے مشرق کی جانب تقریباً 23 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
عرفہ اور عرفات کے معنی کے بارے میں:
بعض کے نزدیک دونوں الفاظ ایک ہی مقام کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ صرف “عرفات” ہی اس پہاڑ یا میدان کا نام ہے، جب کہ “عرفہ” دراصل عرفات میں ٹھہرنے کے دن کو کہتے ہیں۔
لفظ “عرفات” کے حوالے سے
بعض کہتے ہیں: یہ جمع کے صیغے میں ہے، اس لیے اس کی مزید جمع نہیں بنائی جاتی بعض کہتے ہیں: یہ “عرفہ” کی جمع ہے، گویا اس زمین کے ہر حصے کو “عرفہ” کہا جاتا ہے اور پورا مجموعہ “عرفات” کہلاتا ہے۔ بعض کا قول ہے: لفظ تو جمع ہے لیکن مراد ایک ہی جگہ ہے۔
تسمیہ کی وجہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
“ترویہ اور عرفہ کے نام اس لیے رکھے گئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ترویہ کی رات خواب دیکھا کہ انہیں اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ صبح ہوئی تو وہ پورا دن سوچ و بچار میں گزارتے رہے (یعنی “رَوَّی”): کہ کیا یہ خواب اللہ کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے؟ چنانچہ سوچ و بچار کی وجہ سے اس دن کا نام “ترویہ” پڑا۔ پھر عرفہ کی رات انہوں نے دوبارہ یہی خواب دیکھا، تو صبح ہوتے ہی انہیں پہچان (“عَرَفَ”) ہو گئی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اسی لیے اس دن کا نام “یومِ عرفہ” پڑا۔”
جغرافیائی تفصیل: عرفات ایک وسیع صحرائی میدان ہے جو مکہ کے مشرق میں حرم مکی کی حدود سے باہر واقع ہے۔
مکہ سے فاصلہ: تقریباً 20 کلومیٹر۔
کل رقبہ: 10.4 مربع کلومیٹر۔
مغربی کنارہ: وادیِ عرنہ (جو “جبلِ رحمت” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے)۔
بے شک روزِ عرفہ (یومِ عرفہ) کی بڑی فضیلت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ اور تمام مسلمانوں کے لیے اس دن کی فضیلت واضح فرمائی ہے۔ اس دن کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، جیسا کہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دن کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: “یہ گزرے ہوئے سال اور آنے والے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے” [مسلم]۔
یہ گناہوں کی مغفرت، دوزخ سے آزادی اور میدانِ عرفات میں موجود لوگوں پر اللہ کے فخر کرنے کا دن ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اللہ تعالیٰ کسی دن اتنی کثیر تعداد میں بندوں کو جہنم سے آزاد نہیں کرتا جتنا کہ یومِ عرفہ کے دن کرتا ہے۔ اور بے شک اللہ تعالیٰ (اس دن اپنے بندوں کے) قریب ہوتا ہے، پھر فرشتوں کے سامنے ان پر فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے: ’ان (بندوں) کا کیا ارادہ ہے؟‘”۔ نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اللہ تعالیٰ یومِ عرفہ کی شام اپنے فرشتوں کے سامنے عرفات میں موجود لوگوں پر فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے: “میرے ان بندوں کو دیکھو، یہ میرے پاس بکھرے ہوئے بالوں اور خاک آلود (حالت) میں حاضر ہوئے ہیں” [احمد، البانی نے اسےصحیح کہا]۔
یہ وہ دن بھی ہے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی اولاد کا عہد لیا تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “بے شک اللہ تعالیٰ نے نَعمَان (یعنی عرفات) کے مقام پر آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی پوری اولاد کا عہد لیا۔ ان کی پشت سے تمام اولاد کو نکالا اور انہیں اپنے سامنے ذرّوں کی طرح بکھیر دیا، پھر ان سے روبرو خطاب فرمایا: (اور یاد کرو) جب تمہارے رب نے آدم کی اولاد کو ان کی پشتوں سے نکالا اور ان سے خود ان کے متعلق اقرار لیا (پوچھا) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ہم گواہی دیتے ہیں (کہ تو ہی ہمارا رب ہے)۔ (یہ اس لئے کیا) تاکہ قیامت کے دن تم یہ نہ کہو کہ ہم تو اس (عہد) سے بے خبر تھے۔ یا یہ نہ کہو کہ ہمارے باپ دادا تو پہلے ہی شرک کرتے رہے اور ہم ان کے بعد ان کی اولاد ہیں، پس کیا تو ہمیں باطل پرستوں کے کرتوتوں کی پاداش میں ہلاک کر دے گا؟ [سورۃ الاعراف: 172-173] [احمد، البانی نے صحیح کہا]۔
لہٰذا حاجی پر واجب ہے کہ وہ اس دن آزادی اور مغفرت کے اسباب کو اپنائے، جو یہ ہیں:
اعضاء کو حرام کاموں سے بچانا: حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: “بے شک یہ وہ دن ہے جس میں جس شخص نے اپنے کان، آنکھ اور زبان کی حفاظت کی، اس کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں” [احمد]۔
کثرت سے تہلیل (لا الہ الا اللہ)، تسبیح (سبحان اللہ) اور تکبیر (اللہ اکبر) پڑھنا: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: “ہم یومِ عرفہ کی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم میں سے کوئی تکبیر (اللہ اکبر) کہہ رہا تھا اور کوئی تہلیل (لا الہ الا اللہ)…” [مسلم]۔
اس دن مغفرت اور آزادی کی دعاؤں کی کثرت کرنا: کیونکہ اس دن دعاؤں کی قبولیت کی بڑی امید ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “بہترین دعا یومِ عرفہ کی دعا ہے، اور بہترین کلام جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیاء نے کہا ہے وہ یہ ہے: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (کوئی معبودِ برحق نہیں سوائے اللہ کے، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہت ہے، اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں، اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے)۔ [ترمذی، البانی نے اسے حسن کہا]۔
یوم عرفہ کے روزے کا بیان
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحجہ کی 9 تاریخ کو یوم عرفات کا روزہ رکھا، اس طرح یہ سنت مؤکدہ بن گئی جس پر آپ کے صحابہ اور ان کے متبعین نے عمل کیا۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “یوم عرفات کا روزہ، میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس سے پچھلے اور آنے والے سال کے گناہوں کا کفارہ کر دے گا” [مسلم]۔
تاہم مالکی، شافعی اور حنبلی فقہاء حاجی کے لیے اس دن روزہ رکھنے کو مستحب نہیں سمجھتے، چاہے وہ قوی ہو اور روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو۔ اس کی دلیل حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا کی روایت ہے: “انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفات میں اونٹ پر کھڑے ہوئے دودھ کا پیالہ بھیجا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرمایا” [بخاری]۔ نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: “وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، پھر ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ حج پر گئے، ان میں سے کسی نے بھی (عرفات میں) روزہ نہیں رکھا” [ترمذی]۔
فقہی تفصیلات:
1. حاجی کے لیے کراہت کی وجہ:
روزہ حاجی کو وقوفِ عرفات، دعا اور عبادت میں مشغولیت سے کمزور کر سکتا ہے، اس لیے ترکِ روزہ افضل ہے۔
2. شافعی مسلک:
مسافر اور مریض کے لیے افطار ہمیشہ مستحب ہے۔ البتہ اگر کوئی حاجی رات کے وقت ہی عرفات پہنچے (دن میں نہ ہو) تو روزہ رکھنا مستحب ہے، کیونکہ کمزوری کا سبب موجود نہیں۔
3. حنفی مسلک:
اگر روزہ حاجی کو وقوفِ عرفات سے کمزور نہ کرے اور دعاؤں میں خلل نہ ڈالے تو روزہ مستحب ہے۔ اگر کمزوری کا خدشہ ہو تو روزہ مکروہ ہے۔
4. راجح (ترجیحی) رائے:
جمہور فقہاء کا مؤقف (جو حاجی کے لیے روزہ کی عدمِ استحباب پر ہے) راجح ہے، کیونکہ حاجی دیگر عبادات (وقوف، دعا وغیرہ) میں مصروف ہوتا ہے۔ نیز اس سے غیر حاجیوں کو بھی اس خاص عبادت (یوم عرفات کے روزے) میں حصہ مل جاتا ہے۔
عرفہ میں دعا
عرفہ کے دن دعا کرنے کی بہت بڑی فضیلت ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت واضح فرمایا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “بہترین دعا، عرفہ کے دن کی دعا ہے۔ اور سب سے بہتر وہ کلمہ ہے جو میں نے اور مجھ سے پہلے تمام انبیاء نے کہا: لَا إِلَـٰهَ إِلَّا ٱللَّـهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ” (یعنی: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں)۔ [حسن، مالک نے الموطا میں روایت کیا ہے]۔
لیکن مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ ان اوقات کی تلاش کرے جن میں دعا اور اللہ تعالیٰ سے مناجات کرنا مستحب ہے، چاہے وہ ایمانی برکتوں کے دن ہی کیوں نہ ہوں۔ فرض نمازوں کے بعد دعا کرنا افضل ہے، جیسا کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے: “پوچھا گیا: یا رسول اللہ! کون سی دعا زیادہ سنی جاتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدھی رات کے آخری حصے کی اور فرض نمازوں کے بعد کی”۔ [ترمذی نے روایت کیا]۔
اور اذان اور اقامت کے درمیان میں بھی دعا قبول ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اذان اور اقامت کے درمیان کی جانے والی دعا رد نہیں کی جاتی۔ صحابہ نے عرض کیا: پھر ہم کیا کہیں اے اللہ کے رسول؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ سے دنیا اور آخرت کی عافیت مانگو”۔ [ترمذی اور ابو داؤد نے روایت کیا]۔
اور سجدے میں (کی جانے والی) دعا بھی قبول ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے، اس لیے تم سجدے میں کثرت سے دعا کیا کرو”۔ [مسلم]۔
یوم عرفہ سے کیسے فائدہ اٹھائیں
چونکہ یوم عرفہ مسلمان فرد کے لیے بے حد نفع بخش ہے، اِس لیے اُسے چاہیے کہ ہر ممکن طریقے سے اِسے بھرپور استعمال کرے۔ وہ مندرجہ ذیل اعمال کر سکتا ہے:
• دل میں دن کی عظمت کو جگہ دیں، اِس کے فضائل اور دوسرے ایام پر برتری کو پہچانیں۔
• نمازوں کی پابندی، اُنہیں وقت پر اور باجماعت ادا کرنے کی کوشش کریں اور مسجد میں جلدی پہنچیں۔
• سنتوں اور سجدوں کی کثرت کریں۔
• بلند آواز سے تکبیر کہنا مسنون ہے۔
• درود شریف پڑھتے رہیں۔
• رشتہ داروں سے ملاقات اور والدین کی خدمت کریں۔
• نیکی کا حکم دیں اوررائی سے روکیں۔
• بغض و کینہ سے دور رہیں اور دلوں کو درست کریں۔
• مقید تکبیر: فرض نمازوں کے بعد پڑھی جائے، یوم عرفہ کی فجر نماز سے شروع ہوتی ہے۔
• مطلق تکبیر: کسی بھی وقت انفرادی طور پر پڑھی جا سکتی ہے، یکم ذوالحجہ سے شروع ہوتی ہے۔
• روزہ رکھیں (حاجی کے علاوہ)، یہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔
• آزادیِ جہنم، رحمت اور مغفرت کی دعا کثرت سے مانگیں۔
• حرام چیزوں سے آنکھ، کان اور زبان کو بچائیں۔
• تلبيہ پڑھیں (لبیک اللھم لبیک)، صرف اللہ کی عبادت کریں، اور صرف اُسی سے مدد طلب کریں۔
• اللہ کا خوف دل میں رکھیں اور اُس کی نافرمانی پر ندامت کریں۔
• تسبیح (سبحان اللہ)، تحميد (الحمد للہ)، تہليل (لا الہ الا اللہ)، تكبير (اللہ اکبر) اور استغفار کا ورد کریں۔
یومِ عرفہ: ایمانی و روحانی تربیت کا عظیم ترین مدرسہ
کئی ماہرینِ تعلیم کا کہنا ہے کہ یومِ عرفہ ایمانی و روحانی تربیت کا ایک عظیم ترین اور بے مثال مدرسہ ہے جس سے ہر مسلمان بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اسے بہترین طریقے سے استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو ایمانی، تربیتی، دعوتی اور عملی لحاظ سے بلند کر سکتا ہے۔ یہ ایک مکمل تربیتی مدرسہ ہے جس میں درج ذیل پہلو شامل ہیں:
1. موقعوں سے فائدہ اٹھانے کی تربیت: یہ وہ دن ہے جو زندگی میں صرف ایک بار آتا ہے۔ مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اسے اللہ تعالیٰ کی عبادات اور قربت حاصل کرنے میں استعمال کرے۔ کیونکہ اس دن میں اللہ سے قربت پانے، نفس کی پاکیزگی اور اس کی نشوونما کرنے کے بہترین مواقع موجود ہیں جو اس کی ہمت بندھاتے ہیں اور اسے زندگی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
2. مشغولیت کی تربیت: یہ مثبت مشغولیت (انگیجمنٹ) کا دن ہے جو مسلمان کو اپنے طرزِ زندگی کو بدلنے اور اپنی پچھلی پابندیوں (روٹین) کو توڑنے کا موقع دیتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب مسلمان عرفات میں حاجیوں کی عظیم اجتماعیت اور وقوف کے ساتھ جذباتی طور پر جڑ جاتا ہے، ان سے عاجزی، انکساری اور اپنے پروردگار کے سامنے گڑگڑانے کا سبق لیتا ہے، اور اللہ کے حضور دعا میں شدت سے رجوع کرنے اور التجا کرنے کی تربیت پاتا ہے۔
3. مستقل رابطے کی تربیت: یہ وہ دن ہے جس میں مسلمان کا اپنے خالقِ حقیقی سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ عبادت کے ذریعے مستقل رابطہ اور تعلق برقرار رہتا ہے۔ مختلف عبادات اور نیک اعمال کی ادائیگی سے یہ تعلق پوری زندگی جاری رہتا ہے۔ مبارک دنوں کا یہ تسلسل درحقیقت نفس میں مسلسل رابطے (کنیکٹیویٹی) کی تربیت کرتا ہے اور اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ مسلمان کی پوری زندگی اللہ کی اطاعت میں گزرتی ہے تاکہ فرد اپنے خالق کے ساتھ ہمیشہ جڑا رہے۔
4. جامعیت کی تربیت: یہ وہ دن ہے جس میں اللہ عزوجل کی رضا کے لیے کیے جانے والے نیک اعمال کی جامعیت واضح ہوتی ہے۔ اس میں مختلف نیک اعمال کی کثرت کی تربیت شامل ہے جیسے (ذکر، دعا، استغفار، نماز، روزہ، صدقہ، حج اور مکمل عمرہ)۔ نیز، عبادات کی کثرت اور ان کی مختلف اقسام انسانی نفس کی نشوونما کے تمام پہلوؤں (روح، عقل اور جسم) کو غذا فراہم کرتی ہیں۔
5. مسابقت کی تربیت: اس دن نیکیوں اور عبادات میں مسابقت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ لوگ فرض عبادات اور مطلوبہ نیکیوں مثلاً حج، عمرہ، نماز، روزہ، صدقہ، ذکر، دعا وغیرہ میں بھلائی کرنے کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں۔ اس میں فرد کی صلاحیتوں اور توانائیوں کو اس مقصد کے لیے بروئے کار لانے کی تربیتی رہنمائی موجود ہے کہ وہ اپنی مطلوبہ دینی اور اخروی غایات، یعنی جنت کی کامیابی اور دوزخ سے نجات حاصل کرنے کی طرف پوری طرح متوجہ ہو سکے۔
6. جہادِ نفس کی تربیت: اس دن جہادِ نفس اپنے عظیم ترین مظاہر میں سامنے آتا ہے۔ جب مسلمان اپنے نفس سے مقابلہ کرتا ہے اور اسے ایک ہی وقت میں ہر قسم کی عبادات پر مجبور کرتا ہے۔ اس طرح اس کے لیے نفس کی خواہشات کو توڑنے اور اپنی پوری زندگی میں مختلف سنتوں اور مذہبی شعائر کو زندہ رکھنے کی اہمیت کا ادراک کرنے کا ایک عظیم موقع حاصل ہوتا ہے۔ خاص طور پر جب کہ نیکی کا دروازہ کھلا ہوا ہے، کبھی بند نہیں ہوتا ہے۔
مترجم: سجاد الحق