سوال:
ہم اپنے وطن سے دور مہاجرین ہیں۔ عیدالاضحیٰ کا مبارک دن قریب آرہا ہے۔ ہم نے اپنے وطن مصر میں رہنے والے ایک رشتہ دار کو قربانی کی رقم بھیج دی ہے تاکہ وہ ہماری طرف سے قربانی کا جانور خرید کر ذبح کر دے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں ضرورت مندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، خاص طور پر مہنگائی کی اس سخت لہر کے بعد جو ہر چیز کو متاثر کرچکی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ: کیا ہم اس طرح اپنے بچوں کو قربانی کے معنی سمجھانے اور عطیہ دینے کی ان قدروں سے محروم کر رہے ہیں جو وہ قربانی کا گوشت تقسیم کرتے وقت محسوس کرتے تھے؟ کیا اس مسئلے کا کوئی متبادل حل ہے؟
جواب:
عزیر سائل! آپ کے لیے پورا سال خیر و برکت سے پر ہو۔ اللہ تعالیٰ ہماری اور آپ کی نیک عبادتیں قبول فرمائے اور آپ کو اپنے وطن سلامتی کے ساتھ واپس لائے۔
عید الاضحیٰ، چاہے قربانی کے بغیر ہی کیوں نہ آئے، اس میں ایسی عبادتیں اور شعائر ہیں جن سے رگوں میں ایمانی لہر دوڑ جاتی ہے اور چہروں پر مسکراہٹیں پھیل جاتی ہیں۔
عید الاضحیٰ کا جشن درحقیقت ماہِ ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ یہ وہ عظیم عشرہ (دس راتیں) ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے: “وَالْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ” [سورۃ الفجر: 1-2]۔ اور اللہ عزوجل صرف عظیم چیز کی ہی قسم کھاتا ہے۔ ان دس دنوں کے ذریعے ہم انعام کے دن، یعنی عید الاضحیٰ کے مبارک دن کی تیاری کرتے ہیں۔
لہٰذا، اگر آپ کے لیے اپنی موجودہ جگہ پر قربانی کرنا ممکن نہیں ہے، تو پھر بھی ہم اپنے بچوں کو اس وقت کے بہترین دنوں (یعنی عشرہ ذی الحجہ) کی برکات میں ضرور شریک کرسکتے ہیں۔ ان میں ہم یہ کام کر سکتے ہیں:
نو دنوں کے روزے اور نیک اعمال:
پہلے نو دنوں میں ہم روزے رکھیں گے اور نیک اعمال کی کثرت کریں گے۔ نیز گھر میں بلند آواز سے تکبیرات (اللہ اکبر)، تہلیل (لا الہ الا اللہ) اور تحمید (الحمد للہ) پڑھیں گے۔ اس وقت دنیا بھر کے قرآنی ریڈیو چینلز پر تکبیر و تہلیل ہوتی ہے، ان چینلز کو گھر میں شروع کریں۔ اس سے بچوں کو دین کی عظمت اور اس کے شعائر کی خوشی کا احساس ہوگا۔
یومِ عرفہ کی برکات:
پھر یومِ عرفہ آتا ہے، جو حج کا سب سے بڑا دن ہے۔ ہم بچوں کو اس میں شریک کریں گے کہ وہ اسکرینز پر حجاجِ کرام کی مناسکِ حج کا مشاہدہ کریں اور یومِ عرفہ کی مشہور دعا پڑھیں: “خيرُ الدُّعاءِ دعاءُ يومِ عرفةَ وخيرُ ما قلتُ أنا والنَّبيُّونَ من قبلي لا إلهَ إلَّا اللَّهُ وحدَهُ لا شريكَ لهُ لهُ الملكُ ولهُ الحمدُ وهوَ على كلِّ شيءٍ قديرٌ”۔ نیز بچوں کو یومِ عرفہ کا روزہ رکھنے کی ترغیب دیں: “یومِ عرفہ کا روزہ گزشتہ اور آنے والے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے”۔
عید کا دن: پھر عید کا دن آتا ہے جس کے روشن اور خوش کن شعائر ہوتے ہیں۔ اس طرح ہم بچوں کو ایک ایسے پر مسرت ماحول میں شریک کر چکے ہوتے ہیں جو آپ کے مقام رہائش میں قربانی کی تکمیل میں جو کمی رہ گئی تھی، اس کی تلافی کر دیتا ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ کیا دوسری جگہ قربانی کرنے کا انتخاب بچوں کو خوشی کے جذبات سے محروم کر دے گا؟ ہم یومِ النحر (قربانی کے دن) کی فضیلت کو یاد کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تعمیل ہے: “فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ” ترجمہ: اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی دو [سورۃ الکوثر: 2]۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی بہت ترغیب دلائی ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “قربانی کے دن کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کو خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔ قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت آئے گا۔ اور خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبولیت کی جگہ پہنچ جاتا ہے۔ لہٰذا خوش دلی سے قربانی کرو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قربانی واجب تھی، جب کہ ہمارے لیے سنت ہے۔ اکثر علماء کے نزدیک قربانی سنتِ مؤکدہ ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تین چیزیں مجھ پر فرض ہیں اور تمہارے لیے نفل (یعنی سنت) ہیں: قربانی، وتر اور چاشت کی دو رکعتیں۔”
لہٰذا، اگر آپ نے قربانی کی نیت کر لی ہے تو سنت یہ ہے کہ آپ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹیں۔ اہلِ خانہ کا بھی ایسا کرنا مستحب ہے۔ گھر کے تمام افراد ماہِ ذی القعدہ کی آخری رات اپنے بال کٹوا لیں (اگر چاہیں) اور ناخن تراش لیں، تاکہ ذبح ہونے تک ان کاموں سے رک سکیں۔ اس طرح بچوں کو بھی شرکت کا احساس ہو گا، چاہے وہ قربانی کی جگہ موجود نہ بھی ہوں۔
اس طرح بچے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر عمل پیرا ہوں گے: “جب ذی الحجہ کا عشرہ (پہلے دس دن) داخل ہو جائے اور تم میں سے کوئی قربانی کرنا چاہے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے، یہاں تک کہ قربانی کر لے۔”
نیز مستحب یہ ہے کہ قربانی کرنے والا اگر خود ذبح نہیں کر سکتا تو کم از کم ذبح کے وقت موجود رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جیسا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: “اے فاطمہ! اپنی قربانی کے پاس جاؤ اور اس کا ذبح ہونا دیکھو۔ کیونکہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی تمہارے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔” انہوں نے پوچھا: “یا رسول اللہ! کیا یہ (فضل) ہمارے اہلِ بیت کے لیے خاص ہے یا تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے؟” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “بلکہ یہ ہمارے اور تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے۔” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات دو مرتبہ فرمائی۔ ذبح کے وقت قربانی کرنے والے کے لیے یہ پڑھنا مستحب ہے: “بِسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ”۔ مزید بہتر یہ ہے کہ اس پر یہ اضافہ کیا جائے: “اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ، اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّي أَوْ مِنْ فُلَانٍ” (اے اللہ! یہ تیری ہی عطا ہے اور تیرے ہی لیے ہے۔ اے اللہ! میری طرف سے یا فلاں کی طرف سے قبول فرما)۔
لہٰذا، اگر آپ اپنے ملک (مثلاً مصر) میں قربانی کروانا چاہتے ہیں، تو اہلِ خانہ سے اجازت لیں کہ آپ اور آپ کے بچے آواز اور ویڈیو کال کے ذریعے اس موقع پر شریک ہوسکیں۔ اپنے بچوں کی ویڈیو کلپس ریکارڈ کروائیں جس میں وہ یہ کلمات کہیں: “اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ فَتَقَبَّلْ مِنْ فُلَانٍ وَفُلَانٍ” (اے اللہ! یہ تیری ہی عطا ہے اور تیرے ہی لیے ہے، پس فلاں اور فلاں (بچوں کے نام لیں) کی طرف سے قبول فرما)۔ اس طرح بچے اپنے ناموں کو سن کر خوش ہوں گے، چاہے وہ دور ہی کیوں نہ ہوں، اور واقعہ کو قریب تر محسوس کریں گے۔
ہم نے جو کچھ بھی بچوں کو اس عبادت کا احساس دلانے کے لیے دور سے کرسکتے تھے، وہ ہم نے کر لیا۔ اگر پھر ممکن ہو تو آپ جس شخص سے اپنے ملکِ قیام (مثلاً مصر) میں قربانی کروا رہے ہیں، اس سے اجازت لیں کہ آپ اور آپ کے بچے ویڈیو کال پر اس کی قربانی دیکھ سکیں۔ یہ منفرد لمحات ہوتے ہیں، انہیں قربانی کی فرضیت کی اصل وجہ سمجھانے کے لیے استعمال کریں، یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی: “پھر جب وہ (اسماعیل) اس (ابراہیم) کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہو گئے تو انہوں نے کہا: بیٹا! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ انہوں (اسماعیل) نے کہا: ابّا جان! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے، وہ کر گزریں۔ انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔” [الصافات: 102]۔ اور پھر ان کے بدلے میں عظیم قربانی: “اور ہم نے اس (اسماعیل) کے بدلے ایک بڑی قربانی دی۔” [الصافات: 107]۔
عزیز سائل!
اللہ تعالیٰ نے ہمیں عید میں بہت سی عبادتیں اور شعائر عطا کیے ہیں۔ اگر ہم اپنی ترجیحات کے مطابق اپنے موجودہ مقام سے دور قربانی کرنے کا انتخاب کرتے ہیں، تو اللہ آپ کو آپ کی کوشش کا بہترین اجر دے۔ اور انشاء اللہ، اگر ہم عید کی مختلف علامات کی تعظیم کرنے اور انہیں زندہ کرنے کی پوری کوشش کریں گے تو عید کی خوشی ہرگز ضائع نہیں ہو گی۔
صرف ایک چیز ایسی ہے جس کی کمی دور سے قربانی کرنے کے انتخاب میں ہم شدت سے محسوس کرتے ہیں: اور وہ ہے بچوں کا ضرورت مندوں سے براہِ راست ملنا اور انہیں قربانی کا گوشت تقسیم کرنا۔ کیونکہ ان سے ملاقات میں بہت سے فوائد ہیں، جیسے اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا، بچوں کے دلوں میں مسکینوں کے لیے رحم، ہمدردی اور نرم دلی کے جذبات پیدا کرنا۔
ہم اس کمی کی تلافی یوں کرسکتے ہیں کہ اپنے بچوں کو اپنے سابقہ وطن (مثلاً مصر) میں اپنے سابقہ جاننے والے ضرورت مندوں (جیسے اسکول کا چوکیدار، صفائی والی باجی وغیرہ) کو منتخب کرنے میں شریک کریں۔ پھر اپنے رشتہ داروں سے درخواست کریں کہ وہ انہیں ہماری طرف سے سلام پہنچائیں اور ان کا قربانی کا حصہ (گوشت) ان تک پہنچا دیں۔ امید ہے کہ اس سے مکمل غیر موجودگی کی یہ کمی پوری ہو جائے گی اور وہ اس میں مناسب تلافی پائیں گے۔ اور ہمارے اخلاص کے مطابق ہمارا رب ہمیں مفید طریقوں سے نوازتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماری اور آپ کی نیک عبادتوں کو قبول فرمائے اور انہیں حسنات کے میزان میں ڈال دے۔ آمین۔
مترجم: سجاد الحق