میری بیٹی دس سال کی ہے۔ اس نے نیل پالش خریدی ہے اور چاہتی ہے کہ عید کے دن وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ نیل پالش لگا کر باہر جائے۔ ہمیں جیسا کہ معلوم ہے کہ نیل پالش ایک طرح کی زینت ہے جس سے اجتناب کا حکم ہے، اور ساتھ ہی یہ بھی کہ نیل پالش وضو میں مانع ہوتی ہے، اور جب تک وہ موجود ہو، اس کا وضو صحیح نہیں ہوگا، اور یوں اس کی نماز بھی باطل ہو جائے گی۔ حالانکہ وہ نماز کے حکم کی عمر میں داخل ہو چکی ہے۔ تو کیا مجھے اسے روک دینا چاہیے؟ یا یہ سوچ کر اجازت دے دوں کہ وہ ابھی بالغ نہیں ہوئی؟
اللہ ہمیں اور آپ کو عید کی خوشیاں نصیب فرمائے۔ بیٹی کی رہنمائی اور اس کی خیر خواہی کے جذبے پر اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
آپ کے سوال سے ظاہر ہے کہ وہ ابھی تک بالغ نہیں ہوئی، جی ہاں، وہ نماز کی عمر میں ضرور آ گئی ہے، مگر ابھی حجاب اس پر فرض نہیں ہوا، اور وہ اپنی اس خواہش (نیل پالش لگانے) کو نماز کے ساتھ جمع کرسکتی ہے، بشرطیکہ وہ پہلے وضو کر لے اور اس کے بعد نیل پالش لگائے، اور کوشش کرے کہ وضو قائم رکھے۔
یوں ہم اسے اس انداز میں خوشی منانے سے نہ روکیں جو اس کی مسرت چھین لے، اور ہم نے اپنا فرضِ نصیحت بھی پورا کر دیا۔
مزید یہ کہ اب بازار میں ایسے تیار شدہ رنگین ناخن دستیاب ہیں جو آسانی سے چپکائے اور اتارے جاسکتے ہیں، یہ ایک متبادل حل ہو سکتا ہے تاکہ وضو کے ٹوٹنے یا پانی کے نہ پہنچنے کا مسئلہ نہ ہو۔
تاہم اصل میں ہمیں آپ کے سوال کے بعض پہلو زیادہ اہم لگے۔
آپ نے کہا کہ آپ کی بیٹی نے نیل پالش خریدی ہے۔ یہ وضاحت نہیں کی کہ کیا یہ آپ کی اجازت سے ہوا یا آپ کے علم کے بغیر؟
بہتر یہ ہوتا کہ بیٹی کی ظاہری آرائش سے متعلق ایسے فیصلے ماں کی نگرانی میں ہوں، تاکہ مشورے اور اجازت کا عمل ہو، اور وہ اچانک ایسا کوئی عمل نہ کر بیٹھے جو طے شدہ نہ ہو۔
ہم سمجھ سکتے ہیں کہ شاید وہ کم عمری سے نیل پالش خریدنے اور لگانے کی عادی ہو، اور اب چونکہ عمر بڑھ گئی ہے تو جو چیز پہلے مناسب تھی، اب مناسب نہیں رہی۔
اس لیے پہلے سے مشورہ، شرائط کا تعین اور باہم اتفاق بہتر ہے، اس کے بجائے کہ بچے ہمیں اچانک کسی دوراہے پر لا کھڑا کریں اور پھر اختلافات ہوں۔
دوسری بات یہ کہ ہم آپ کو اور تمام ماؤں کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ بیٹیوں کی اچھی تربیت کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کی نسوانیت کو سمجھیں اور نکھاریں:
ان کی صفائی، ظاہری خوبصورتی اور باطنی خوبیوں (اخلاق، حیاء) کی تربیت کریں،
تاکہ ایک ایسی بیٹی پروان چڑھے جو اپنی شرعی حدود کو سمجھتی ہو، اور جانتی ہو کہ کیا جائز ہے اور کیا ناجائز۔
بعض والدین سختی کو ترجیح دیتے ہیں، اس خوف سے کہ کہیں بیٹی خراب نہ ہو جائے۔ مگر وہ یہ بات نہیں سمجھتے کہ بچپن کی یہ سختی بعض اوقات بیٹی کی نسوانیت کو دبا دیتی ہے۔
جب وہ شادی شدہ زندگی میں شوہر کو خوش رکھنا چاہے تو اسے بچپن میں والدین کی سرد مہری اور سختی یاد آتی ہے۔
نیز ہر بار جب وہ اپنی زینت کی طرف راغب ہوتی ہے تو وہی ماضی کی منفی باتیں اسے روک دیتی ہیں، نتیجہ یہ کہ وہ بیوی بن کر بھی وہ عورت نہیں بن پاتی جو بننی چاہیے۔
یہ شکایت اکثر شوہروں کی جانب سے آتی ہے۔
والدین اپنی بیٹی کو ماہر خانساماں بنانے میں لگ جاتے ہیں، مگر اس کی فطری نسوانیت کو دبا دیتے ہیں، اس سب کے پیچھے خوف ہوتا ہے جو نسل در نسل چلا آ رہا ہے، اور اس کا حل وہ سختی یا دباؤ میں ڈھونڈتے ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ جب ہم بیٹیوں کو حیاء اور عفت سکھائیں، اور زینت صرف محارم کے لیے محدود کریں، تو اسی کے ساتھ ہم انہیں زینت کے سامان بھی لا کر دیں، اور انہیں جائز حدود میں استعمال کی اجازت دیں، تاکہ جب وہ گھر کے اندر یہ زینت استعمال کرنے کی عادی ہو جائیں، تو ان کی طبیعت باہر دوسروں کی نقالی کی طرف مائل نہ ہو، کیونکہ ان کے اندر اس خواہش کی تسکین پہلے ہی ہوچکی ہوتی ہے اور حدود واضح ہو چکی ہوتی ہیں۔
بعض اوقات ہم لڑکیوں کو بغیر کسی رہنمائی کے خود پر چھوڑ دیتے ہیں، پھر جب اچانک ان کے لیے حجاب کا وقت آتا ہے، تو وہ ان بہت سے ممنوعات سے حیران ہوتی ہیں جن کے بارے میں اسے پہلے کوئی علم نہ تھا۔
یوں گھر والوں سے اس کا تصادم ہو جاتا ہے،
اور حجاب جو قربِ الٰہی کا ذریعہ بننا چاہیے تھا،
اس کے لیے پیچھے ہٹنے کا سبب بن جاتا ہے،
اور پھر شکایات اور ناراضی کی صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔
اس نکتے کا خلاصہ یہ ہے:
- بچپن میں بیٹیوں کو حلال اور مباح زینت سے لطف اندوز ہونے دیں۔
- شروع ہی سے حدود واضح کریں تاکہ لڑکی کو معلوم ہو کہ گھر میں اس کا ظاہری انداز مختلف ہوتا ہے۔
- جیسے جیسے وہ بلوغت کے قریب ہو، آہستہ آہستہ حجاب اور حیا کی تربیت دی جائے، تاکہ وہ اچانک سخت تبدیلی سے دوچار نہ ہو۔
ہم والدین کے اپنی بیٹیوں کے لیے غیرت و حساسیت کو سمجھتے ہیں،
اور یہی جذبات بعض اوقات انہیں ان مباحات میں بھی تنگ کر دیتے ہیں جن میں وسعت ہونی چاہیے۔
مگر ہم کہتے ہیں کہ عید ایک استثنائی موقع ہے،
تو ان بچیوں کو وہ حلال خوشیاں منانے دیں جو ان کے لیے جائز ہیں۔
بس انہیں یاد دلا دیں کہ جب وہ حجاب پہن لیں گی تو یہ زینت ان کے لیے جائز نہیں رہے گی۔
اور آپ سب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یاد دلائیں:
“جس شخص کو بیٹیوں کی آزمائش دی گئی اور اس نے ان کے ساتھ حسن سلوک کیا، تو وہ اس کے لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گی۔”
لہٰذا بیٹیوں کے ساتھ بھلائی کریں،
انہیں خوش رکھیں، وہ آپ کے لیے جہنم سے ڈھال بنیں گی۔
اللہ ہر ماں باپ کو بیٹیوں کی درخواستوں کا سامنا کرنے اور ان کے نازک جذبات کا لحاظ رکھنے کی توفیق دے۔
اور نرمی کا ذکر آیا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو “شیشے کے برتن” قرار دیا اور فرمایا:
“عورتوں کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ، کیونکہ وہ شیشے کی مانند ہیں۔”
لہٰذا جب ہم بیٹیوں کی رہنمائی کریں، تو نرمی اور محبت سے کریں۔
ان کے زینت کے شوق کو سمجھیں، کیونکہ وہ اسی پر پیدا ہوئی ہیں۔
ہم ان کی اصلاح اور تربیت اس انداز میں کریں جو ان کی فطری نسوانیت کے ساتھ میل کھاتا ہو۔
جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:
“عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا، اور سب سے زیادہ ٹیڑھا پن اوپر والے حصے میں ہوتا ہے۔ اگر تم سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ دو گے، اور اگر چھوڑ دو گے تو ٹیڑھا ہی رہے گا۔ پس عورتوں سے بھلائی کرو۔”
آئیے ہم کوشش کریں کہ عید کے دن ان پر اللہ کی حلال کی ہوئی خوشیاں نچھاور کریں،
اللہ ہمیں اور آپ کو عید خیریت سے نصیب فرمائے، اور ہماری نیکیاں قبول فرمائے۔ آمین
مترجم: زعیم الرحمان