اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطری طور پر ایک پاکیزہ جبلت یعنی "غیرت” کا مادہ دے کر پیدا کیا ہے۔ اسلام نے آکر اس اعلیٰ صفت کی قدر کو اور بڑھایا، اس کی اہمیت کو جہاد کے درجے تک پہنچایا، اور اس کے لیے جان قربان کرنے والوں کو شہادت کا درجہ اور جنت کی بشارت دی ہے۔
یہ دل کی پاکیزہ صفت مردوں اور عورتوں دونوں میں اعتدال اور توازن کی متقاضی ہے۔ اگر اسے مناسب طریقے سے اپنایا جائے تو یہ حقیقی مردانگی، دیانتداری، عزت کی حفاظت، پاکیزگی کی چاردیواری، اللہ کے احکام کی تعظیم، اور مضبوط ایمان کی نشانی بن جاتی ہے۔ دوسری طرف مغربی معاشروں اور ان جیسی قوموں میں غیرت کی کمی کی وجہ سے اخلاقی زوال، بےحیائی، فحاشی، اور برائیاں عام ہوگئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنے اسلامی معاشروں میں اس صفت (غیرت) کو کیسے پروان چڑھائیں اور برقرار رکھیں؟
غیرت کا تصور اور قرآن و سنت میں اس کا تذکرہ:
لغوی اعتبار سے، لفظ غَیرَت "دل کی تبدیلی” (تغیّر القلب) اور کسی ایسی چیز میں شریک ہونے پر غصے کے ابھرنے سے متعلق ہے جس پر انسان اپنی انفرادیت سمجھتا ہے۔ جو مرد اس صفت کا حامل ہو اسے غَیُور، غَیران یا مُغیار کہا جاتا ہے، جب کہ عورت کو غَیراء کہتے ہیں۔ عرب انتہائی غیرت مند مرد کو المُشْفْشِف یا المُشَفْشَف کہتے ہیں، یعنی وہ شخص جس کا دل غیرت کی وجہ سے "پتلا” یا کمزور ہو گیا ہو، جس سے وہ لاغر ہو جاتا ہے۔ لفظ شَفْشَف ایسے شخص کو بھی کہتے ہیں جو غیرت کی شدت سے کانپ رہا ہو یا بے چین ہو۔
امام نووی فرماتے ہیں: علماء بیان کرتے ہیں کہ غَیرَت (غین پر فتحہ کے ساتھ) کا ماخذ "رکاوٹ” (المنع) کے تصور سے ہے۔ مرد کی اپنے اہل خانہ پر غیرت کا مطلب ہے کہ وہ انہیں اجنبیوں سے نظر، بات چیت یا کسی اور طریقے سے ملنے سے روکتا ہے۔۔۔ اور غیرت کمال کی صفت ہے۔
اصطلاحی معانی کے لحاظ سے، الجرجانی نے غَیرَت (حفاظتی غیرت) کی تعریف "اپنے حق کو دوسروں کے ساتھ بانٹنے سے نفرت” کے طور کی ہے۔” الکفوی نے اسے "کسی شخص کا دوسروں کو اپنے حق میں شریک ہونے سے ناپسندیدگی” قرار دیا۔ السیوطی نے اسے "مقدس حدود کی حفاظت کے لیے غصے کا ابل پڑنا ” بتایا، جب کہ الراغب الاصفہانی نے وضاحت کی کہ یہ "عزت کی حفاظت کے لیے غصے کا جوش ہے”، خاص طور پر عورتوں کے حوالے سے اس کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
قرآن پاک میں لفظ غَیرَت کا صراحتاً ذکر نہیں ہوا، لیکن اس کی طرف دوسرے الفاظ کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے، جیسے الحمیّۃ (جوشِ حمیت)۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے اس جوش کی مذمت کی ہے، کیونکہ یہ باطل اور بے بنیاد تعصب پر مبنی غصے کو ظاہر کرتا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: "جب کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلیت کا جوش (الحمیّۃ) بھر لیا، تو اللہ نے اپنے رسول اور مومنین پر اپنی سکینت نازل فرمائی اور انہیں تقویٰ کے کلمے کا پابند بنایا، کیونکہ وہی اس کے سب سے زیادہ حقدار اور اہل تھے، اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔” [القرآن 48:26]۔
اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ معاشرہ بنانے کے لیے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی زینت کو چھپائیں اور اپنی خوبصورتی کو دکھانے سے بچیں۔ قرآن میں فرمایا گیا: "اور وہ اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود ظاہر ہو، اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں…” [سورۃ النور: 30-31]۔ نیز فرمایا: "اپنے گھروں میں ٹھہری رہو، اور جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنی آرائش دکھاتی نہ پھرو” [سورۃ الاحزاب: 33]۔
اللہ نے مردوں اور عورتوں دونوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے: "مومن مردوں سے کہو کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی پاکدامنی کی حفاظت کریں … اور مومن عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی زینت نہ دکھائیں” [النور: 30-31]۔ عورتوں کو نرم آواز میں بات کرنے سے منع کیا گیا ہے: ” تاکہ دل میں بیماری رکھنے والے لوگ لالچ نہ کریں، اس لیے تم سیدھی اور صاف بات کرو” [الاحزاب: 32]۔
اللہ نے ان لوگوں کو ڈرایا ہے جو اس کے احکام کو نظرانداز کرتے ہیں۔ ایک جگہ فرمایا: "جب یہ برے کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا بھی یہی کرتے تھے، اور اللہ نے ہمیں یہی حکم دیا ہے۔ کہو: اللہ کبھی بےحیائی کا حکم نہیں دیتا۔ کیا تم اللہ پر جھوٹ باندھتے ہو؟” [الأعراف: 28]۔ دوسری جگہ فرمایا: "ان کے بعد ایسی نسلیں آئیں جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشات کے پیچھے پڑ گئیں۔ یہ جلد ہی برے انجام کو پہنچیں گی” [مریم: 59]۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ غیرت والے تھے۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: "اگر میں اپنی بیوی کے پاس کسی مرد کو دیکھوں تو اسے تلوار سے مار دوں گا۔” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: "کیا تم سعد کی غیرت پر حیران ہو؟ اللہ کی قسم! میں ان سے بھی زیادہ غیرت والا ہوں، اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت والا ہے!” [بخاری و مسلم]۔
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے۔ جو اپنے دین کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے۔ جو اپنی جان کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے۔ اور جو اپنے خاندان کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے۔” [ترمذی]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "غیرت (کے جذبات) میں سے ایک قسم وہ ہے جسے اللہ پسند کرتا ہے، اور ایک قسم وہ جسے اللہ ناپسند کرتا ہے۔ اسی طرح تکبر میں بھی ایک قسم اللہ کو محبوب ہے اور ایک مبغوض۔ وہ غیرت جو اللہ کو پسند ہے، وہ جائز شک (یعنی عزت و آبرو کی حفاظت) کے معاملے میں ہے۔ اور وہ غیرت جو اللہ کو ناپسند ہے، وہ بے بنیاد شک کے معاملے میں ہے۔ تکبر کی وہ قسم جو اللہ کو پسند ہے، وہ ہے جنگ کے میدان اور صدقہ و خیرات میں اپنے آپ پر فخر کرنا۔ اور وہ تکبر جو اللہ کو ناپسند ہے، وہ جھوٹ اور ناحق بات پر غرور ہے۔” [نسائی]
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی غیرت کے بارے میں روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے خواب میں دیکھا کہ جنت میں ہوں۔ وہاں ایک محل کے پاس ایک عورت وضو کر رہی تھی۔ میں نے پوچھا: ‘یہ محل کس کا ہے؟’ جواب ملا: ‘عمر بن خطاب کا۔’ پھر مجھے عمر کی غیرت یاد آئی، تو میں پیچھے مڑ گیا (اندر جانے سے گریز کیا)۔” یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور بولے: "یا رسول اللہ! کیا میں آپ پر بھی غیرت کروں گا؟” [بخاری]
مسلم خواتین کو بھی حفاظتی غیرت کی اہمیت سکھائی جاتی تھی۔ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: "میں زبیر رضی اللہ عنہ کے گھر کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ ان کے پاس ایک گھوڑا تھا، جس کی میں دیکھ بھال کرتی تھی۔ مجھے اس گھوڑے کی دیکھ بھال سے بڑھ کر کوئی کام مشکل نہ لگتا تھا۔ میں اس کے لیے گھاس کاٹتی، اس کی دیکھ بھال کرتی، اور اس کی ضروریات پوری کرتی۔”
اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (جنگ سے) قیدیوں کو حاصل کیا اور آپ نے مجھے ایک لونڈی عطا فرمائی۔ اس نے گھوڑے کی دیکھ بھال کے کام سے مجھے آزادی دلائی اور اس ذمہ داری کو مجھ سے اٹھا لیا۔ ایک دن ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا: اے عبداللہ کی ماں (اسماء)! میں ایک غریب آدمی ہوں اور آپ کے گھر کے سائے میں اپنا سامان بیچنا چاہتا ہوں۔ میں نے جواب دیا: اگر میں زبیر کی اجازت کے بغیر تمہیں اجازت دوں گی تو وہ انکار کر دیں گے۔ تم ان کی موجودگی میں آ کر مجھ سے پوچھ لو۔ جب وہ شخص آیا تو زبیر موجود تھے۔ اس نے اپنی درخواست دہرائی اور کہا: اے عبداللہ کی ماں! میں غریب ہوں اور آپ کے گھر کے سائے میں سامان بیچنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا: کیا مدینہ میں تمہارے لیے میرے گھر کے علاوہ کوئی جگہ نہیں؟ زبیر نے کہا: تم ایک غریب آدمی کو یہاں سے کیوں روک رہی ہو؟ چنانچہ وہ شخص وہاں سامان بیچنے لگا یہاں تک کہ اس نے کچھ منافع کما لیا۔ بعد میں، میں نے اس لونڈی کو بیچ دیا۔ جب زبیر اندر آئے اور اس کی قیمت میری گود میں دیکھی تو کہنے لگے: اسے مجھے دے دو (بطور تحفہ)۔ میں نے جواب دیا: میں نے اسے خیرات کر دیا ہے۔” [صحیح مسلم]
غیرت کی کمزوری کے أسباب:
غیرت (حفاظتی جذبہ) کی کمزوری کے کئی اسباب ہیں، جن میں درج ذیل شامل ہیں:
۱۔ ایمان کی کمزوری: جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ غیرت رکھتا ہے، اور مومن بھی غیرت رکھتا ہے” [بخاری و مسلم]۔ اس لیے کہ ایمان سے سینہ آباد ہوتا ہے تو انسان میں غیرت پیدا ہوتی ہے۔
۲۔ گناہوں کی کثرت: ابن القیم رحمہ اللہ نے کہا: "گناہوں کی سزا یہ ہے کہ وہ دل سے غیرت کی آگ بجھا دیتے ہیں، جو دل کی زندگی اور پاکیزگی کے لیے ضروری ہے، جیسے جسمانی گرمی جسم کی زندگی کے لیے ضروری ہے۔”
۳۔ بے حیائی کا پھیلاؤ: یہ صرف مغرب میں نہیں بلکہ مسلم معاشروں میں بھی دیکھا جاتا ہے۔ ابن القیم رحمہ اللہ نے گناہوں کے اثرات بیان کرتے ہوئے کہا: "گناہوں میں زیادہ ملوث ہونے سے دل اپنی، اپنے خاندان اور معاشرے کے لیے غیرت کھو دیتا ہے، یہاں تک کہ دل اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ برائیوں سے کوئی نفرت نہیں رہتی، خواہ وہ خود میں ہوں یا دوسروں میں۔”
۴۔ حیا کا فقدان: اللہ کے خوف کے بغیر کھلم کھلا گناہ کرنا، عورتوں کا "بے پردہ لباس” (ظاہر میں ملبوس مگر بے حیا) پہننا، اور اللہ کی حرام کردہ چیزوں اور دینی فرائض کی نگرانی میں کمزوری۔
۵۔ بعض مردوں میں کردار کی کمزوری: مردوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کی حفاظت اور رہنمائی کریں، جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے: "مرد عورتوں کے محافظ ہیں” [قرآن 4:34]۔
۶۔ غیرت کی اہمیت سے ناواقفیت: غیرت کے مقابلے میں "دیوثیت” (بے غیرتی) ہے، اور غیرت مند کے مقابلے میں "دیوث” (بے غیرت) ہوتا ہے۔ یہ خاندان کی ذمہ داری کی سنگینی سے غفلت کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔
۷۔ کافروں اور فاسقوں کی نقل: جو لوگ غیرت سے خالی ہیں، وہ مسلمانوں کے دلوں سے یہ خوبی مٹانا چاہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو کسی قوم کی نقل کرے گا، وہ انہی میں سے ہوگا” ([ابو داؤد، البانی نے صحیح قرار دیا]۔
۸۔ فاسد میڈیا: معاشرے کو بگاڑنے میں میڈیا کا اہم کردار ہے۔
۹۔ نرم شرعی فتویٰ: خاص طور پر عورتوں کے معاملات، مرد وزن کا اختلاط، غیر محرم سے تنہائی، بغیر محرم کے سفر، اور اسی قسم کے دیگر مسائل سے متعلق فتویٰ۔
غیرت کو فروغ دینے کے تعلیمی طریقے:
- بچپن سے ہی بچوں میں یہ قدر پیدا کرنا: پرورش اور تعلیم کے ذریعے ان کے دلوں میں یہ خوبی پروان چڑھائیں۔
- تحفظی غیرت کو کمزور کرنے والے اسباب سے اجتناب: غیر اخلاقی سیٹلائٹ چینلز، فحش میگزینز، خدا کو ناراض کرنے والے آن لائن مواد، اور دیگر تباہ کن اثرات سے دور رہیں۔
- مذہبی اقدار سے دوبارہ جوڑنا: ان اصولوں کو لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں گہرائی تک پیوست کریں۔
- خاندان میں مرد کے کردار پر زور دینا: قوامیت قائم کریں، جو مردوں کو ذمہ داری سنبھالنے اور دیکھ بھال فراہم کرنے کا پابند بناتی ہے۔
- میڈیا کے ذریعے معاشرتی بیداری پیدا کرنا: گھرانوں کی حفاظت اور آنے والی نسلوں کی پرورش میں تحفظی غیرت کی اہمیت کو اجاگر کریں۔
- عزت کی حرمت کو بلند کرنا: اس کے ضائع ہونے کے سنگین نتائج پر زور دیں۔
- نوجوان لڑکیوں کو حیا اور شائستگی سکھانا: ابتدائی عمر سے ہی لباس اور برتاؤ میں عاجزی کی ترغیب دیں۔
قابل تعریف غیرت کے فوائد اور ثمرات:
بے شک قابل تعریف غیرت کے بے شمار فوائد اور ثمرات ہیں، جن میں یہ شامل ہیں:
- اللہ پر مضبوط ایمان کی علامت۔
- اللہ تعالیٰ کی محبت کا حصول، جب تک کہ یہ غیرت مسلمانوں کی عزت کی حفاظت کے لیے برتی جائے۔
- حجاب کی حفاظت کرنے والا اخلاقی پردہ، جو بے حیائی، نقاب کشائی، اور نامحرموں کے ساتھ اختلاط کو روکتا ہے۔
- دل اور اعضاء کی حفاظت، نیز برے اور فحش کاموں سے روکنا۔
- اللہ کے لیےغصے کا اظہار جب اس کی مقدس حدود کو توڑا جائے۔
- برائی کی مذمت کرنے کی ترغیب دینے والا عامل۔
- معاشرے کو برائیوں سے پاک کرنا اور عزتوں کی حفاظت کرنا
غیرت ایک فطری جبلت اور خالص فطری مزاج رکھنے والوں کی خصوصیت ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ خوبی بچپن سے ہی پروان چڑھانا ضروری ہے، خاص طور پر کیونکہ یہ محض تکمیلی نہیں بلکہ ایک بنیادی اور فطری خوبی ہے۔ جہاں بھی یہ غیرت موجود ہوتی ہے، معاشرہ اپنے اخلاقی اصولوں، اقدار اور اصولوں کو قائم رکھتا ہے۔ عزتیں محفوظ رہتی ہیں اور فساد غالب نہیں آتا۔
مآخذ و حوالہ جات:
- ابن حجر: فتح الباری
- الزبیدی: تاج العروس
- النووی: امام نووی کی شرح المسلم
- امام الجرجانی : تعریفات
- امام کفوی: کلیات
- امام سیوطی: علم کے خزانے کی کنجیاں
- راغب اصفہانی: مکارم شریعت تک پہنچنے کا ذریعہ
- ابن قیم الجوزی: گلشن محبین
- امام غزالی: علم دین کا احیاء
- نور الدین حلبی: سیرت حلبی
- عبداللہ المانع: عورت پر غیرت
- ابو زید بکری: اخلاق کی حفاظت
مترجم: سجاد الحق