بچوں کی پاکیزگی پر پرورش کرنا والدین کے کندھوں پر آنے والی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے، کیونکہ یہ انہیں گناہوں میں پڑنے اور راہ راست سے بھٹکنے سے بچاتی ہے، اور ان کی شخصیت کو متوازن اور مستحکم بناتی ہے، یہ ایک مہذب اخلاقی صفت ہے جس میں خواہشات اور فواحش سے رکنے کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر اس چیز سے، جو .نامناسب ہوتی ہے۔
اگر اس عظیم اخلاق پر نوجوانوں کی پرورش کی جائے تو اس سے دنیا میں عزت اور آخرت میں ثواب حاصل ہوتا ہے، اور اس سے نیکیوں میں بلندی حاصل ہوتی ہے، اور برائیوں سے دور چلا جاتا ہے، بلکہ اسسے کامیابی کے اسباب حاصل ہوتے ہیں اور ایمان کے وصف کا مستحق ٹھہرتا ہے، لہٰذا اس پاکیزگی و پاکدامنی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے، یہ بہت سی دوسری خوبیوں اور اخلاقیات کا نتیجہ ہے، اور نوجوانوں کی شخصیت پر اس کا گہرا اثر ہوتا ہے، جہاں انسان دل کی مضبوطی حاصل کرتا ہے، عقل کی فراوانی ہوتی ہے، انشراح قلب ہوتا ہے اور غموں اور دکھوں کا مداوا ہوتا ہے۔
اسلام میں پاکیزگی کا تصور:
العفة مصدر ہے عف کا، کہا جاتا ہے کہ اس شخص نے حرام سے عفت کی مطلب خود کو حرام کھانے سے روکا اور عورت عفیف ہے، مطلب اللہ تعالیٰ نے اس کو پاکدامن بنایا، اور اس نے مسئلہ سے عفاف طلب کیا، یعنی خود کو روکا۔
والعفيفُ: ناپاکی سے خود کو روکنے والا، اور عفيف بروزن فعیل فاعل اور مفعول دونوں ہے۔
اصطلاح میں عفت کا مطلب ہے نفس کو شہوات سے روکنا، اور تمام ملذات میں اسراف سے بچنا اور اعتدال کا راستہ اختیار کرنا، نہ تو نفس کو بے لگام چھوڑنا اور نہ ہی خواہشات کو بالکل دبا دینا۔
کہا جاتا ہے کہ پاکدامنی کا مطلب خلاف شرع خواہشات سے خود کو روکنے کا نام ہے اور یہ ایک داخلی رکاوٹ ہے جو انسان کو شہوت کے غلبہ سے روکتی ہے اور انسان کو شرعاً وعرفاََ برے کاموں سے دور رکھتی ہے اور اسے انسانی حاجتوں اور دنیوی شہوات کے مقابلے صبر کی تلقین کرتی ہے۔
ان اخلاقی اوصاف کا تصور ومفہوم صرف برائیوں سے بچنے کی تلقین کرنے والے اخلاق کو بیان کرنے تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس میں ایک سے زیادہ معنی اور مفہوم شامل ہیں، جو حرام چیزوں کو ترک کرنے کا باعث بنتے ہیں، اور اس کی کئی اقسام ہیں جن کا تعلق خدا کو ناراض کرنے والی چیزوں کو دیکھنے سے ہے، حسد سے بچنا، اور بری نگاہ سے دیکھنے کی پاکیزگی ، ممنوعات سے شرم گاہ کی حفاظت ، حرام کھانے پینے سے پیٹ کی پاکیزگی، مانگنے سے ہاتھ کی پاکیزگی، دل کی پاکیزگی، زبان کی چغلی وغیبت سے پاکیزگی اور سماعت کی پاکیزگی۔
قرآن و سنت میں پاکیزگی:
قرآن مجید میں پاکیزگی کا لفظ کئی جگہوں پر آیا ہے ، ان میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّـهَ بِهِ عَلِيمٌ [البقرة:273]، ترجمہ: ان فقیروں کے لئے جو اللہ کے راستے میں روک دئیے گئے ، وہ زمین میں چل پھرنہیں سکتے۔ ناواقف انہیں سوال کرنے سے بچنے کی وجہ سے مالدار سمجھتے ہیں ۔ تم انہیں ان کی علامت سے پہچان لو گے۔ وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے اور تم جو خیرات کرو اللہ اسے جانتا ہے۔ یعنی: جو لوگ سوال کرنے سے دور رہتے ہیں اور قناعت پسند ہوتے ہیں، جو لوگ ان کے حالات کو نہیں جانتے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ امیر مالدار ہیں۔
اور اللہ قادر مطلق ارشاد فرماتے ہیں : وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ حَسِيبًا [النساء:6]، ترجمہ: اور یتیموں کا (بطور تربیت) امتحان لیتے رہو حتی کہ جب وہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں اور تم ان میں سمجھ داری (کے آثار) دیکھو تو ان کے مال ان کے حوالے کردو۔ اور ان کے مال کو فضول خرچ کرکے ان کے بڑے ہونے کے خوف سے جلدی جلدی نہ کھاؤ اور جو (یتیم کا ولی) مال دار ہو۔ وہ (ان کا مال کھانے سے) بچتا رہے اور جو حاجت مند ہو وہ دستور کے موافق کھالے ‘ پھر جب تم ان کے مال ان کے حوالے کرو تو ان پر گواہ بنا لو ‘ اور اللہ کافی ہے حساب لینے والا، یعنی جو شخص یتیم کے مال سے بے نیاز ہو وہ اس سے دور رہے اور اس میں سے کچھ نہ کھائے۔ امام شعبی نے کہا: وہ مال مردار اور خون کی طرح ہے۔
اسی طرح کئی آیتوں میں اس معنی کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، گرچہ الفاظ کا ذکر نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ. وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّـهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔ ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت نہ دکھائیں مگر جتنا (بدن کاحصہ) خود ہی ظاہر ہے اور وہ اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹوں یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں یا اپنی (مسلمان) عورتوں یا اپنی کنیزوں پر جو ان کی ملکیت ہوں یامردوں میں سے وہ نوکر جو شہوت والے نہ ہوں یا وہ بچے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں اور زمین پر اپنے پاؤں اس لئے زور سے نہ ماریں کہ ان کی اس زینت کا پتہ چل جائے جو انہوں نے چھپائی ہوئی ہے اور اے مسلمانو! تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔خبردار ہے۔ [النور: 30-31]
زبان کی سختی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا * يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ۔ [الأحزاب: 70-71]
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہا کرو۔ اللہ تمہارے اعمال تمہارے لیے سنوار دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیک اور اچھے اخلاق کو پورا کرنے کے لئے تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پاکیزگی پیدا کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور لوگوں کو ایسا کرنے کی ترغیب دی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ثلاثةٌ حقٌّ على اللَّهِ عونُهُم: المُجاهدُ في سبيلِ اللَّهِ، والمُكاتِبُ الَّذي يريدُ الأداءَ، والنَّاكحُ الَّذي يريدُ العفافَ” ترجمہ: تین قسم کے لوگوں ، مکاتب جو کہ ادائیگی چاہتا ہو ، عفت و پاک دامنی کی خاطر نکاح کرنے والے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی اللہ ضرور مدد کرتا ہے. ۔ [ صحيح الترمذی]
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں (۱) جب بات کرو تو سچ بولو، (۲) جب وعدہ کرو تو پورا کرو، (٣) جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو ادا کرو، (٤) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو، (٥) اپنی آنکھوں کو نیچا رکھو، (٦) اور اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو۔ [ رواہ احمد]
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا صلّت المرأة خمسها، وصامت شهرها، وحفظت فرجها، وأطاعت زوجها، قيل لها: ادخلي الجنّة من أيّ أبواب الجنّة شئت” ترجمہ: جو عورت پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہو، ماہ رمضان کے روزے رکھتی ہو، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتی ہو اور اپنے شوہر کی اطاعت کرتی ہو، اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے چاہو، جنت میں داخل ہو جاؤ۔ [ رواہ احمد]
تربیتی ذرائع:
اگر ہم اپنے بچوں کی پاکیزگی، گناہوں اور معاصی سے دوری میں پرورش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کچھ طریقوں پر عمل کرنا ہوگا، جیسے:
پاکیزگی کے معنی کی وضاحت: اس کے معنی کی شرح بچوں کو ان چیزوں سے باز رہنے پر مجبور کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے حرام کی ہیں، اور ضروری ہے کہ (ستر، حیا، پاکیزگی، ڈھانپا، شائستگی، عزت) جیسے الفاظ دہرائے جائیں، تاکہ بچے ان معانی کو اپنا سکیں۔
رول ماڈل: بچے خاندان سے باہر تلاش کرنے سے پہلے اپنے رول ماڈل کو والدین میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔
آرام گاہوں و خوابگاہوں میں بچوں کے درمیان علیحدگی: یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہے: مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ، وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ ترجمہ: جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو۔ [رواه اابو داؤد]
پاکیزہ و پاکدامن لوگوں کی کہانیاں: بچوں کے لئے پاکیزہ لوگوں کی کہانیوں کا ذکر کرنا ضروری ہے، جیسے کہ یوسف علیہ السلام کا عزیز مصر کی بیوی کے ساتھ کہانی اور مریم علیہالسلام کی کہانی اور پاکیزگی و پاکدامنی میں ان کی دلچسپی۔
حرام چیزوں سے آنکھیں پھیرنا: بچوں کو ہر غیر اخلاقی چیز سے پرہیز کرنے، جگہ بدلنے اور برے دوستوں سے دور رہنے کی تلقین کرنا، اللہ تعالى کا ارشاد ہے: (قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُون) ۔ [النور: 30] ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔
اللہ تعالیٰ کی نگرانی کی یاد دہانی: اللہ تعالیٰ ہم سب کو دیکھتا ہے۔ اللہ تعالى کا فرمان ہے: (يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ) [غافر: 19]۔ ترجمہ: اللہ آنکھوں کی خیانت کوجانتا ہے اوراسے بھی جو سینے چھپاتے ہیں ۔
اللہ تعالی ٰ سے دعا کرنا کہ وہ انہیں ہر فتنہ و حرام کام سے محفوظ رکھے: اور یہ کہ ان کو مجاہدہ نفس کے لیے جدوجہد کرنے کی تربیت دینے، صبر کی تعلیم دینے اور اللہ کے اجر و ثواب کی یاد دلانے کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
بچوں، بچیوں کے لئے اچھی صحبت کا انتخاب: اچھی صحبت انہیں خوبیاں حاصل کرنے، برائیوں سے بچنے اور غض بصر کرنے میں مدد دیتی ہے۔
انہیں کم عمری سے ہی اپنے ننگے پن اور ستر کو ڈھانپنے کی تعلیم دینا اور ان ستر کو ظاہر کرنے کے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا تاکہ ان میں حیا اور شائستگی پیدا ہو۔
بچوں کو اجازت مانگنے کے آداب سکھانا: یہ گھروں میں داخل ہوتے وقت اور اہل خانہ کو سلام کرتے وقت کیا جاتا ہے۔ گھروں کے اندر کمروں میں داخل ہونے کی اجازت مانگنا، بھلے ہی گھر میں محرم کے علاوہ کوئی نہ ہو، عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سے کسی آدمی نے پوچھا: ” کیا میں اپنی ماں سے اجازت طلب کروں ؟ عمر نے کہا: کیا تم اپنی ماں کو بغیر کپڑوں کے دیکھنا پسند کرو گے ؟ اس آدمی نے جواب دیا: نہیں، تو عمر نے کہا: تو اپنی ماں سے اجازت طلب کر لیا کرو”۔
نوجوانوں کے دلوں میں اخلاقی اقدار کی نشوونما: پاکیزگی کا تصور بہت سے اعلیٰ اخلاق کے ملنے کا نتیجہ ہے، اس میں صبر اور ہوس پر قابو پانے کے معنی شامل ہیں، اور اس میں خدا اور اس کی مخلوق سے حیا کا معنی شامل ہے، اور اس میں امانت اور اس میں خیانت نہ کرنا شامل ہے، اور اس میں مردانگی، عظمت اور غیرت شامل ہے۔
اوپر مذکور طریقے ہوس کو کم کرتے ہیں: جیسے بچوں کو کم عمری سے ہی اپنے ننگے پن اور ستر کو ڈھانپنے کی تعلیم دینا اور ستر کو ظاہر کرنے کے معاملے کو زیادہ سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرنا تاکہ ان کی پرورش حیا اور شائستگی پر ہو، اور انہیں مخالف جنس کے ملاپ سے محفوظ رکھنا اور انہیں ان جگہوں سے زیادہ سے زیادہ دور رکھنا جہاں پر اختلاط مرد وزن ہوتا ہے۔
لڑکی کی دیکھ بھال کرنا: اور اس کے ستر کی اہمیت کی تربیت دینا اور ستر کو ظاہر کرنے کی صورت کو قبیح بنا کر پیش کرنا، اور اس چیز کو اس کے اندر بڑھانا، تاکہ تنہائی کی صورت میں بھی، صرف ستر کے ظاہر ہونے سے اس کے معنی میں نفرت پیدا ہو جائے، اور اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اس کی نسوانیت سنگین معاشرتی کشمکش کا موضوع ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے تمام خواہشات کے مقابلے میں مقدم کر دیا جب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔: (زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاء وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآب) ترجمہ: لوگوں کے لیے آراستہ کی گئی ان خواہشوں کی محبت عورتیں اور بیٹے اور تلے اوپر سونے چاندی کے ڈھیر اور نشان کیے ہوئے گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی یہ جیتی دنیا کی پونجی ہے اور اللہ ہے جس کے پاس اچھا ٹھکانا۔
اچھی صحبت کا انتخاب: یہ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے ہے، اچھی صحبت انہیں خوبیاں حاصل کرنے اور برائیوں سے بچنے میں مدد دیتی ہے، اور غض بصر کا التزام ہوتا ہے، اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے اپنی غفلت کے سبب شرمندہ نہیں ہوتا، وہ اپنے ارد گرد موجود اپنے ساتھیوں سے شرمندہ ہو سکتا ہے، اور جو اسے یاد دلاتے ہیں، جب وہ بھول جاتا ہے اور اگر وہ یاد کرتا ہے تو اس کی مدد کرتے ہیں۔
اس دور میں جس میں فحاشی پھیلی ہوئی ہے، سب سے بڑا تربیتی چیلنج یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کی پاکیزگی اور شائستگی پر پرورش کیسے کریں، کیونکہ یہ وہ اخلاق ہے جو انہیں دل میں طاقت، عقل میں فراوانی، نفس میں نزاہت، شرح صدر اور غم کی کمی، سے نوازتا ہے اور معاشرے میں اس کا پھیلاؤ، معاشرے کو فساد سے پاک کرتا ہے، اور اس سے الہٰی سزاؤں کو دور کرتا ہے، اور یہ ایسی غیرت کا جذبہ پیدا کرتا ہے، جو ایک ناقابل تسخیر باڑ کا کام دیتا ہے جو معاشرے کو فحاشی، بدکاری، بے حیائی میں گرنے سے بچاتا ہے۔
ماخذ اور حوالہ جات:
ابن منظور: لسان العرب 9/253
الرازي: مختار الصحاح 4/1405
أبو حيان التوحيدي: البصائر والذخائر 5/ 117، 118
الراغب الأصفهاني: الذريعة إلى مكارم الشريعة، ص 318
السيوطي: معجم مقاليد العلوم في الحدود والرسوم، ص 205
موسوعة التفسير الموضوعي للقرآن الكريم 24 /8
ابن كثير: تفسير القرآن العظيم 2/ 216
جاسم محمد المطوع: 7 أفكار لتربية أبنائنا على العفة
أماني نبيل: صناعة الطفل العفيف وتحديات العصر
مترجم: ڈاکٹر بہاء الدین