ایک دوسرے سے مکالمہ کرنے کے لیے تربیتی رہنما
مکالمہ کو اسلام میں ثانوی نہیں مرکزی حیثیت دی گئی ہے، بلکہ یہ اس کا ایک نمایاں وصف ہے، کیونکہ قرآن مکالمے کے ساتھ آیا، اسی کی دعوت دی، اس کے ضوابط متعین کیے، اور اس کی لغزشوں سے خبردار کیا، چنانچہ مکالمہ اسلام کے اہم ترین ستونوں میں سے ہے، جو افراد اور گروہوں کے درمیان باہمی احترام اور اچھے معاملات کو یقینی بناتا ہے۔
آج ہمیں مکالمے کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے، ان نتائج و چیلنجز کے پیش نظر جو ہمیں گھیرے ہوئے ہیں، یہی ایک ایسی لازمی قدر ہے جو دوسروں سے بات چیت اور تعلقات کے فروغ کے لیے استعمال ہوتی ہے، نیز یہ سنجیدہ سماجی تعامل اور تعمیری گفتگو کے لیے ایک مؤثر ذریعہ ہے، جو نزاع و تصادم سے بلند ہو کر، سمجھوتے، ہم آہنگی، رواداری اور باہمی بقائے باہمی کی طرف لے جاتی ہے۔
“مکالمہ” کا مفہوم:
عربی میں مکالمہ یا ڈائلاگ کے لیے “الحوار” کا لفظ مستعمل ہے۔ یہ “الحور” سے ہے جس کا معنی کسی کی طرف رجوع کرنا ہے۔ ایک اور مطلب بات چیت کرنا ہے۔ اسی طرح محاورہ کا مطلب دلیل اور منطق سے بات کرنا۔ الحوار کا مطلب کلام میں تبادلہ۔
اصطلاح میں “حوار” سے مراد ہے گفتگو کا باہم تبادلہ جو دو فریقوں کے درمیان ہوتا ہے، اور بعض نے اس کی تعریف یوں کی ہے کہ یہ دو افراد یا دو گروہوں کے درمیان ہونے والی ایک قسم کی گفتگو ہے جس میں دونوں طرف سے بات چیت یکساں انداز میں کی جاتی ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی ایک فریق دوسرے پر حاوی ہو جائے۔ اس میں پرسکون انداز غالب ہوتا ہے اور یہ جھگڑے اور تعصب سے دور ہوتا ہے۔ یہ اعلیٰ درجے کا ادب اور گفتگو کا اسلوب ہے۔
مکالمے کا مقصد سچائی تک پہنچنا ہوتا ہے، طرفین میں مختلف خیالات اور نقطہ ہائے نظر کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس کا مطلب ہے کہ دو مختلف فریقین کے درمیان باہمی تعاون اور تبادلہ خیال ہو، تاکہ کسی خاص سچائی تک پہنچا جاسکے، اس کی معرفت حاصل ہو اور اس کی تفصیلات جانی جاسکیں، اس طرح کہ ہر فریق دوسرے کے سامنے اپنا مؤقف واضح کرے۔
مکالمہ کے برخلاف “جدال” ہے، اس میں سختی اور اپنے مؤقف پر اصرار اور تعصب پایا جاتا ہے، اور “مناظرہ” کا لفظ “نظر” اور “تفکر” سے نکلا ہے، اور اس کا رائج مفہوم یہ ہے کہ دو افراد کے درمیان کسی علمی مسئلے پر بحث ہو۔
قرآن و حدیث میں “مکالمہ” کا بیان:
اگرچہ علم مکالمہ (کمیونیکیشن اسکلز/ ڈیبیٹ) کا شمار حالیہ دنوں میں رائج ہونے والی اصطلاحات میں ہوتا ہے، مگر جب ہم اسلامی تراث کی طرف رجوع کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ یہ کوئی نیا تصور نہیں، بلکہ یہ قدیم ہے۔ قرآن کریم میں “حوار” کا لفظ تین آیات میں آیا ہے، جن میں سے دو سورۂ کہف میں ہیں، جن میں دو افراد کے درمیان باغ کی کہانی کے ضمن میں مکالمہ ذکر ہوا ہے، جہاں ایک مالدار شخص اپنے کم مال والے ساتھی سے گفتگو کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے متعلق پہلی جگہ فرمایا: {وَكَانَ لَهُ ثَمَرٌ فَقَالَ لِصَاحِبِهِ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَنَا أَكْثَرُ مِنكَ مَالًا وَأَعَزُّ نَفَرًا} [الکہف: 34]
یہ کچھ پا کر ایک دن وہ اپنے ہمسائے سے بات کرتے ہوئے بولا ”میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور تجھ سے زیادہ طاقتور نفری رکھتا ہوں”۔
اور اسی سورت میں آگے فرمایا: قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا [الکہف: 37 ]
اُس کے ہمسائے نے گفتگو کرتے ہوئے اُس سے کہا ”کیا تُو کُفر کرتا ہے اُس ذات سے جس نے تجھے مٹی سے اور پھر نطفے سے پیدا کیا اور تجھے ایک پورا آدمی بنا کر کھڑا کیا”؟
تیسری آیت جس میں “تحاور” کا لفظ آیا ہے، سورۃ المجادلہ کی آیت ہے:
قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ} [المجادلة: 1]
اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملہ میں شوہر میں تم سے تکرار کر ہی ہے ۔ اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے ۔ اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے۔ وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے ۔
اور چونکہ مکالمہ ایک وسیع تر مفہوم رکھتا ہے، اس لیے قرآن میں اس کے لیے قریبی الفاظ بھی آئے ہیں، جن میں سب سے اہم “الجدل” ہے، جو کہ انتیس مقامات پر آیا، جیسے کہ:
{وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنفُسَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا} [النساء: 107]
جو لوگ اپنے نفس سے خیانت کرتے ہیں، اُن کی حمایت نہ کرو۔ اللہ کو ایسا شخص پسند نہیں ہے جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو۔
اور فرمایا:
{هَا أَنْتُمْ هَؤُلاءِ جَادَلْتُمْ عَنْهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَمَنْ يُجَادِلُ اللَّهَ عَنْهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمْ مَنْ يَكُونُ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا} [النساء: 109]
ہاں ! تم لوگوں نے اِن مجرموں کی طرف سے دنیا کی زندگی میں تو جھگڑا کرلیا، مگر قیامت کے روز ان کی طرف سے کون جھگڑا کرے گا؟
قرآنِ کریم میں “دوسروں کے ساتھ مکالمے” کے جو اصول بیان ہوئے ہیں، ان میں یہ نکات شامل ہیں:
- اس بات پر زور دینا کہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کا رب ہے، تمام انسانوں کا رب، نہ کہ کسی خاص قوم یا ملت کا۔
- انسان کو مطلق عزت دینا، رنگ، نسل یا مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہ کرنا۔
- انسانوں میں فرق و امتیاز قابل رسائی (ہر ایک کے لیے) اور کھلے معیار (اوپن میرٹ) پر ہونا چاہیے۔
- تشدد، قتال اور خونریزی کو رد کرنا، اور اس بات کا اعلان کرنا کہ اصل چیز امن ہے، اور قتال صرف ضرورت اور دفاع میں جائز ہے۔
- انصاف و عدل واجب ہے حتی کے اسلام کے منکرین اور دشمنوں کے ساتھ بھی جو اگرچہ جنگ کرتے ہوں۔
- اسلام نے سابقہ آسمانی مذاہب کا اعتراف کیا، اور ان پر ایمان لانا عقیدے کا حصہ ہے۔
- اسلام نے دوسرے مذاہب کے ساتھ رواداری اور پرامن بقائے باہمی کی بنیاد رکھی، جیسا کہ فرمایا: {لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ} تمھارے لیے تمھارا دین، میرے لیے میرا دین [الکافرون: 6]
- دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں اسلام میں قابلِ احترام ہیں اور ان کا تحفظ ضروری ہے، جیسے کہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کا۔
- مذاہب کا اختلاف انسانوں کے قتل کا سبب نہیں بننا چاہیے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں ہمیں مکالمے کی ثقافت کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں، جو مختلف صورتوں میں سامنے آتی ہیں اور ہمارے لیے سبق آموز ہیں۔ ان میں سے ایک مثال:
ابو امامہ باہلیؓ سے روایت ہے کہ ایک نوجوان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: “یا نبی اللہ! کیا آپ مجھے زنا کی اجازت دیتے ہیں؟” لوگوں نے اس پر غصہ کیا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اسے قریب لاؤ”۔ وہ قریب آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “کیا تُو اسے اپنی ماں کے لیے پسند کرے گا؟” اس نے کہا: “نہیں، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے”۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “لوگ بھی اپنی ماؤں کے لیے اسے پسند نہیں کرتے”۔ پھر پوچھا: “کیا تُو اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند کرے گا؟”، اس نے کہا: “نہیں”۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “لوگ بھی اپنی بیٹیوں کے لیے اسے پسند نہیں کرتے”۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہن، پھوپھی، خالہ کا ذکر کیا، اور ہر بار وہ کہتا: “نہیں، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے”۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر میں اپنا دستِ مبارک اس کے سینے پر رکھا اور فرمایا: “اللهم طهر قلبه، واغفر ذنبه، وحصن فرجه” یعنی “اے اللہ! اس کا دل پاک کر دے، اس کا گناہ معاف فرما، اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما”۔ راوی کہتے ہیں: اس واقعے کے بعد زنا اس نوجوان کو سب سے ناپسندیدہ چیز لگنے لگا۔ [روایت احمد، صحیح سند کے ساتھ]۔
اسلامی فلسفۂ تعلیم میں مکالمے کا تصور:
اسلام مکالمے کی بنیادوں کو تعارف، نیکی میں تعاون، عدل اور دعوت الی اللہ پر استوار کرتا ہے۔ یہ اساس درج ذیل اصولوں پر ہے:
- انسانی عظمت و شرافت، خواہ کسی بھی دین، رنگ، جنس یا نسل سے تعلق ہو، بغیر کسی امتیاز کے۔
- اختیار کی آزادی، اور کسی بھی حال میں جبر و اکراہ نہ ہونا۔
- مشترکہ قدریں اور أصول
- دوسرے کے ساتھ انصاف اور فیصلہ کرنے میں غیر جانبداری۔
- تصادم نہیں بلکہ پرامن بقائے باہمی۔
مکالمہ کے اہداف:
دوسروں سے مکالمہ اختیار کرنے کے مقاصد درج ذیل ہیں:
- عقیدے کا مقصد: اسلام کے بارے میں پھیلی ہوئی غلط تصویر کی اصلاح کرنا۔
- اخلاقی مقصد: ایک اللہ پر ایمان کو مضبوط کرنا، اور یہ یقین پیدا کرنا کہ دوسروں کا سائنسی و تکنیکی غلبہ محض انسانیت کی خدمت اور خوشحالی کا ایک ذریعہ ہے، نہ کہ کوئی مادی برتری۔
- سیاسی مقصد: اقوام عالم میں اپنی تہذیب کو بلند مقام دلانا؛ کیونکہ مکالمہ صرف برابری کی بنیاد پر قائم تہذیبوں کے درمیان ممکن ہوتا ہے۔
- معاشی مقصد: اقتصادی طور پر ترقی یافتہ ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھانا؛ اس میں کوئی حرج نہیں کہ دوسرے کے ساتھ علمی تعاون کیا جائے اور اس مکالمے کو عملی طور پر تعلیم کے ذریعے بروئے کار لایا جائے۔
- تہذیبوں کے درمیان جذب و انضمام کے عمل کو روکنا، اور قوموں کے رویے میں اعتدال اور عقلیت لانے کی دعوت دینا، نیز طاقت کے بل پر تسلط جمانے کی کوششوں کو روکنا۔
- خوف، نسل پرستی، اور نفرت جیسے منفی ماحول کو ختم کرنا، اور مفید ثقافتی، سائنسی، اور تجرباتی تبادلے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا۔
- دوسروں کے ساتھ رواداری اور پرامن بقائے باہمی کو یقینی بنانا، اور برتری و غلبے کے جذبات کی تردید کرنا۔
- دوسرے کو اس یقین کے ساتھ دیکھنا کہ تمام انسانوں کی اصل ایک ہے۔
- دوسرے کی تصویر کو رواداری اور مشترکہ انسانی اقدار کو فروغ دینے کی مشترکہ خواہش کے ساتھ ازسرنو ترتیب دینا۔
مکالمے کے عمومی اصول:
دوسروں سے مکالمہ کچھ عمومی اصولوں پر قائم ہوتا ہے جن کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، ان میں نمایاں درج ذیل ہیں:
- ہر نظریے یا دعوے کے لیے ٹھوس دلائل پیش کرنا۔
- منقول یا روایت کردہ متون کی صحت کا خیال رکھنا۔
- عقل و منطق کو بنیاد بنانا۔
- اس بات پر توجہ دینا کہ مقصد واضح ہو، اور ہدف عقل و احساسات دونوں کے لحاظ سے قابلِ قبول ہو۔
- دعوے یا پیش کردہ دلیل میں تضاد نہ ہو۔
- مخاطب کے ساتھ انصاف کرنا۔
- مقصد کو متعین اور واضح کرنا۔
- درست سوچ کے لیے پُرسکون ماحول پیدا کرنا۔
- مکالمے کے لیے علمی منصوبہ بندی کرنا۔
- اس مقصد کو نمایاں کرنا جس کے گرد بات چیت گھوم رہی ہو۔
مکالمے کی شرائط و آداب:
دوسروں سے مکالمے کی ثقافت کچھ ضوابط، شرائط اور آداب کی پابند ہوتی ہے، جنہیں درج ذیل نکات میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے:۔
اوّلًا: مکالمے کی شرائط:
- زبان کو مؤثر، الفاظ کو واضح اور خیالات کو مرتب ہونا چاہیے۔
- سختی اور تندی سے بچتے ہوئے بہترین انداز اختیار کرنا۔
- تخصیص کا احترام (یعنی جن امور پہ بات سودمند نہ ہو انھیں ترک کردینا) اور ایسے موضوعات میں مکالمے سے گریز جن کا مخاطب کی فکر و دلچسپی سے تعلق نہ ہو۔
- جذبات سے بالاتر ہو کر صرف حق کی تلاش۔
ثانیًا: مخاطب کی شرائط:
- اندھے تعصّب سے پاک ہو اور مکالمے و مباحثے پر یقین رکھتا ہو۔
- سنجیدہ فکری کا حامل ہو اور خواہش نفس و ذاتی رجحان سے آزاد ہو۔
- نرم گفتار ہو اور چیلنج یا شرمندہ کرنے کے انداز سے گریز کرے۔
- طے شدہ وقت کی پابندی کرے، خواہ کچھ بھی ہو۔
- دوسرے کی قدر کرے اور اس کا احترام کرے۔
- صرف خیال اور اس کے مضمون پر توجہ دے، نہ کہ اس کے قائل اور اس کی پس منظر پر۔
- مؤدب، بااخلاق اور رواداری و نرم خوئی سے معمور ہو۔
ثالثًا: مکالمے کے آداب:
- بعض جزوی آرا سے دستبرداری تاکہ اتحاد اور ہم آہنگی حاصل ہو، بشرطیکہ یہ اصولی عقائد سے متصادم نہ ہوں۔
- دوسرے سے فائدہ اٹھانے کی رغبت رکھنا۔
- فکری رواداری اختیار کرنا۔
- بات کی طرف نظر رکھنا، نہ کہ کہنے والے کی طرف۔
- غرور کے بغیر اپنی غلطی کو تسلیم کرنا۔
- دوسرے کی تنقید کو خوش دلی سے قبول کرنا۔
- خود احتسابی کرنا۔
- دوسروں سے نصیحت اور اصلاح کی خواہش رکھنا۔
دوسروں سے مکالمے کی راہ میں رکاوٹیں:
جیسے کہ ہر مسئلے کو کچھ مشکلات پیش آتی ہیں، اسی طرح دوسرے کے ساتھ مکالمہ بھی بعض ایسی رکاوٹوں کا سامنا کرتا ہے جو اس سے حاصل ہونے والے متوقع فائدے پر اثر ڈال سکتی ہیں، جن میں شامل ہیں:
اوّلًا: شخصی رکاوٹیں، جن کی صورتیں یہ ہیں
- فضول گوئی اور بات کو غیر ضروری طور پر طول دینا۔
- گفتگو میں وضاحت کا نہ ہونا۔
- دلائل اور شواہد کا فقدان۔
- سچائی کے ایک حصے کو پیش کرنا اور دوسرے کو چھپا لینا۔
- غصہ اور تعصب۔
ثانيًا: موضوعاتی رکاوٹیں، جن میں شامل ہیں
- شور شرابہ اور خلفشار۔
- مفاہیم کا مختلف ہونا، اور ہر فریق کا مکالمے سے قبل اپنے تصورات کی وضاحت نہ کرنا۔
- نسلوں کی سوچ میں فرق، ان کے مفادات کا اختلاف، اور ان کے زندگی کے نظریات کا باہمی تضاد۔
- عمل اور پیداوار کی اہمیت کو نظر انداز کر کے صرف بات چیت کو مکالمے کا مقصد بنانا۔
- باہمی تعلقات کا فساد، کہ بہت سے مسلمان آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں اور ہر اُس آواز پر لبیک کہتے ہیں جو ان کے درمیان دشمنی کو بھڑکاتی ہے۔
ثالثًا: اندرونی اسلامی رکاوٹیں
- موجودہ عرب و اسلامی تہذیبی پسماندگی۔
- جامد شناختوں میں قید ہو جانا۔
- صرف محدود خواص کی کوششوں پر اکتفا، اور رابطے کے دائرے کو وسیع نہ کرنا۔
- اختلاف کو ٹکراؤ کی صورت میں دیکھنا اور انسانی مشترکات کو نظر انداز کرنا۔
رابعًا: دوسرے فریق سے متعلق رکاوٹیں
- دوسرے کا یہ یقین کہ اسلام ایک طاقتور مگر دہشت گردی کو فروغ دینے والا مذہب ہے۔
- فکری جہالت، جو اسلام کی مسخ شدہ تصویر سے جنم لیتی ہے۔
- اپنی رائے اور خود پسندی پر فخر کرنا۔
- اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تاریخی طور پر چلے آنے والی دشمنی۔
لہٰذا، اسلام میں مکالمے کی ثقافت ایسے آداب، اقدار، تربیتی اور اخلاقی منہج کی حامل ہے جو انسان اور اس کی آزادی کو احترام دیتا ہے، ساتھ ہی اختلاف اور دلیل کے حق کو بھی تسلیم کرتا ہے۔ اور آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ: “جو نیکی کرے گا وہ اپنے ہی لیے کرے گا، اور جو برائی کرے گا وہ اس کا وبال بھی خود اٹھائے گا، اور تیرا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے” [حم السجدہ]۔
مصادر و مراجع:
محمد حسن جمعہ، مکالمے کی اسلامی تعلیمات
اسلام میں مکالمہ کی اہمیت
ابن منظور: لسان العرب 4/218
الفیروز آبادی: القاموس المحیط 1/486
یحیی زمزمی:الحوار آدابہ و ضوابطہ فی ضوء الکتاب والسنہ ص22
فهده الخضيري: ثقافة الحوار في الإسلام، دراسة وصفية تحليلية نقدية، ص555-561
مترجم: زعیم الرحمان