اللہ کی نعمتیں اور برکتیں صرف رمضان المبارک تک محدود نہیں ہیں، بلکہ پورے سال میں متعدد مواقع پر ملتی ہیں جن سے مومن فیض حاصل کرتا ہے اور تقویٰ کا زادِ راہ اکٹھا کرتا ہے۔ چنانچہ شوال کے 6 روزے ماہِ قرآن کے اختتام اور عید الفطر کی خوشیاں منانے کے بعد آتے ہیں، تاکہ اللہ کے بندوں پر نعمت کو مکمل کریں اور انسانی نفس کی تربیت کرکے خواہشات پر قابو پائیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی شریعت دو بنیادی عناصر پر مبنی ہے جنہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا: قرآن کریم اور سنت نبویہ۔ قرآن کریم شریعت کا پہلا مصدر ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی تحریف اور تبدیلی سے محفوظ رکھا ہے، جب کہ دوسرا مصدر سنت نبویہ مطہرہ ہے۔ ایک مسلمان پر لازم ہے کہ کامل ایمان حاصل کرنے اور اپنے اعمال کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق انجام دینے کے لیے وہ سنتِ مطہرہ کا اتباع اسی طرح کرے جیسے وہ قرآن کی پیروی کرتا ہے۔
شوال کے 6 روزوں کی فضیلت اور ان کا طریقہ:
حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو وہ سارا سال روزے رکھنے کے برابر ہے۔” [صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1164، امام احمد، ابو داؤد اور ترمذی نے بھی روایت کیا ہے]
شوال کے چھ روزوں کی فضیلت کے بارے میں احناف، شوافع اور حنابلہ کے فقہاء نے ذکر کیا ہے کہ رمضان کے بعد ان کا روزہ رکھنا پورے سال کے فرض روزوں کے برابر ہے۔ بہرحال نفلی روزوں میں بھی ثواب کا مضاعفہ ثابت ہے، کیونکہ ایک نیکی کا دس گنا ثواب ملتا ہے۔ نسائی اور ابن ماجہ کی روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اللہ نے ہر نیکی کا دس گنا ثواب مقرر کیا ہے، پس ایک مہینہ دس مہینوں کے برابر ہے اور چھ دنوں کے روزے پورے سال کی تکمیل ہیں۔”
اجر میں اضافے کا موقع ہونے کے ساتھ ساتھ یہ رمضان میں ہونے والی کمی کو بھی پورا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مسلمان ماہِ قرآن کے دوران کبھی اپنی خواہشات اور شہوات کے سامنے کمزور پڑ جائے، کبھی عبادت میں کوتاہی کرے، یا کبھی کوئی گناہ کر بیٹھے جو اس کے روزے کو مطلوبہ طریقے سے مکمل کرنے میں رکاوٹ بن جائے۔ اس لیے اللہ نے مسلمان کو ان دنوں کے روزے رکھنے کا موقع دے کر اکرام کیا ہے تاکہ وہ رمضان میں ہونے والی کمی کو پورا کر سکے۔
صرف یہی نہیں، بلکہ یہ بندے کے اپنے رب سے قریب ہونے کا موقع بھی ہے کیونکہ نفلی روزے بندے کی فرائض کی ادائیگی اور محبتِ الہی کی دلیل ہیں اور ان کو جاری رکھنے کی خواہش کا ثبوت ہیں۔ نفلی روزے ایک مسلمان کو اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی محبت حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں، جیسا کہ حدیث قدسی میں آیا ہے: “میرا بندہ مجھے سب سے زیادہ محبوب فرائض کی ادائیگی کے وقت ہوتا ہے، اور جب کہ نوافل کے ذریعے وہ مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔” [بخاری]
افضل یہ ہے کہ ان چھ دنوں کے روزے مسلسل رکھے جائیں، لیکن پورے مہینے میں متفرق طور پر بھی روزے رکھنا جائز ہے۔ صنعانی نے سبل السلام میں فرمایا ہے: “جان لو کہ ان روزوں کا ثواب متفرق یا مسلسل رکھنے سے حاصل ہوتا ہے، اور جو عید کے فوراً بعد یا مہینے کے دوران میں رکھے۔”
علماء کے اقوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر شوال کا مہینہ گزر جائے اور کوئی ان روزوں کو نہ رکھ سکے تو یہ قضا نہیں کیے جاتے، کیونکہ یہ ایک سنت ہے جس کا وقت گزر چکا ہے۔ شارع نے انہیں خصوصاً شوال کے ساتھ مخصوص کیا ہے، لہٰذا جو کسی اور مہینے میں رکھے گا اسے وہ فضیلت حاصل نہیں ہوگی۔

Fasting 6 Days Of SHAWWAL
شوال کے 6 روزے اور نفس کی تربیت:
آخرت کے اجر کے علاوہ شوال کے یہ چھ روزے نفس کی تربیت اور خواہشات پر قابو پانے کا ذریعہ ہیں۔ یہ عہد کی تجدید، نیکی پر ثابت قدمی، صداقت کی تاکید، قول کی تصدیق، سفر کو جاری رکھنے، کمال کی تلاش، مقصد کے حصول، رضوانِ الٰہی کی طرف تیزی سے بڑھنے، مغفرت کی طرف سبقت لے جانے اور مستقل تعلق اور اعلیٰ مقامات تک پہنچنے کی خواہش کا مظہر ہیں۔
یہ دن گنتی میں چھ ہیں لیکن پورے دہر کی مکمل عبادت کے برابر ہیں، تاکہ پوری زندگی روزوں کے زمرے میں آ جائے۔ جو بندہ رمضان کے بعد ان دنوں کے روزے رکھنے کا حریص ہے، اس پر ‘صوم الدہر’ (پوری عمر روزہ رکھنے) کا وصف صادق آتا ہے، جس سے نفس خیر کا عادی ہو جاتا ہے اور شر سے نفرت ہونے لگتی ہے۔
ان دنوں کے روزے ایک طاعت کے بعد دوسری طاعت کی پیروی ہیں، اصل کے ساتھ اس کا الحاق ہے، اور اسی جیسی چیز سے اس کی تقویت ہے، تاکہ روزہ دار کا ایمان بڑھتا رہے، اس کا نفس پستی سے بلند ہو اور وہ درجہ کمال کو پہنچے۔
یہ ایسے دن ہیں جو عبادات، نمازوں اور تلاوت سے بھرپور مہینے کے بعد آتے ہیں، تاکہ طاقتور لوگ اپنے نفس پر غلبہ جاری رکھیں، اپنی خواہشات پر نئے سرے سے قابو پائیں، اور اپنے دشمن پر فتح پائیں، اور ان کے نور میں اضافہ ہو۔
یہ ایسے دن ہیں جن میں مومن رمضان کے ان حسین لمحات کی یاد میں جیتا ہے جو ابھی گزرے ہیں، ان کی مٹھاس اور خوبصورتی کو دوبارہ محسوس کرتا ہے، اور جانتا ہے کہ استقامت کی راہ پر چلنا اور اسی طریق پر گامزن رہنا ضروری ہے، چاہے وہ اس قوت اور زادِ راہ کے ساتھ نہ ہو جو رمضان میں تھا۔ لیکن رکنا نہیں ہے اور نہ ہی پیچھے ہٹنا ہے، اور مومن کو اپنے رب کے ساتھ مستقل تعلق برقرار رکھنا چاہیے یہاں تک کہ اسے یقین (موت) آ جائے اور اس کا انجام جنت النعیم میں ہو۔
اگرچہ عید آرام کا وقت ہے، لیکن مومن کا مکمل اور حقیقی آرام جنت میں ہے، اور اس دنیا میں اسے کھیل کود اور لہو کے لیے نہیں بنایا گیا، بلکہ اسے اپنے خالق اور رازق کی اطاعت میں مستقل رہنا چاہیے۔ لہٰذا مختلف طاعات اور ان کی اصل روزے سے بھرے مہینے کے بعد، مسلمان نیکیاں کمانے، خالی پن کو بھرنے اور خیرات کے دروازوں پر کھڑے رہنے میں مستقل رہتا ہے، اور یہ ان ہی دنوں کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔
مشاغل اور نا معلوم رکاوٹوں سے پہلے ان کی ادائیگی کریں:
جس نے پورا مہینہ روزے رکھے، اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ عزائم کے فتور، مشاغل کے آنے اور نامعلوم رکاوٹوں کے پیدا ہونے سے پہلے شوال کے چھ روزے رکھنے میں جلدی کرے۔ یہ روزے کتنے میٹھے ہیں کہ دل ان سے قریبی عہد میں ہو، اور کتنے ہلکے ہیں کہ بدن ابھی تک ان کے علاوہ کسی چیز کا عادی نہ ہوا ہو۔ ان کا اصل (رمضان) کے ساتھ جڑے ہونے کی وجہ سے یہ آسان ہو جاتے ہیں، اور اپنے رکھنے والے کی صداقت اور عزم کی گواہی دیتے ہیں۔
چھ روزے جو ایک مہینے کے بعد آتے ہیں، پورے دہر (سال) کے روزوں کو محقق کرتے ہیں، کیونکہ ایک نیکی کا دس گنا ثواب ملتا ہے کیونکہ ہمارا معبود بہت کریم ہے۔ یہ بندے کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ایسے راستے سے منقطع نہ ہو جو اسے عزیز و حکیم کا قرب دلائے، خاص طور پر جب اس نے اس راہ کی مٹھاس کا ذائقہ چکھ لیا ہو اور اس کا ثمر جان لیا ہو۔
یہی وجہ ہے کہ نیکی کی راہ پر سفر جاری رکھنا ہی اولوالعزمی ہے کیونکہ جو کچھ اللہ تبارک و تعالیٰ کے پاس ہے وہ محض خواہشات پر عمل پیرا ہونے سے حاصل نہیں ہوتا۔
اپنے نفس کو اپنے رب کی رحمت کے مواقع سے فائدہ اٹھا کر عزت بخشیں اور ان چھ روزوں کو رکھیں، کیونکہ آپ نے پورا مہینہ روزے رکھے ہیں، اور یہ دن ایک بہترین موقع ہیں، اور جب کہ ایسے مواقع بار بار نہیں آتے۔ ممکن ہے جو اس سال اپنے آپ میں روزے رکھنے کی قدرت پاتا ہے، وہ آنے والے دنوں میں اس قابل نہ رہے۔
مصادر و مراجع:
- شوال کے چھ روزے سنت ہیں، بدعت نہیں
- شوال کے چھ روزوں کی فضیلت
- شوال کے چھ روزوں کے بارے میں علماء کے فتاوی
مُترجِم: عاشِق حُسین پیرزادہ