وقت کی پابندی اور اس کی حفاظت ان اہم صفات میں سے ہے جن سے ایک مربی اور اللہ – مبارک و متعالی – کی طرف دعوت دینے والے کو متصف ہونا چاہیے۔ یہ کامیابی اور تخلیقی صلاحیت کے عوامل میں سے ہے، چاہے عبادت کے پہلو میں ہو، تعلیمی یا عملی میدان میں۔ وقت کے صحیح استعمال کے ذریعے علماء، مبلغین اور مفکرین نے کامیابیاں حاصل کی ہے اور قوموں نے ترقی کی ہے۔ اس کے برعکس، وقت کا غلط استعمال سستی، کاہلی، بیزاری اور بورڈم کا باعث بنتا ہے، اور انسان آخر کار دنیا کو بغیر کسی اثر یا کام کے چھوڑ دیتا ہے۔
مسئلہ ہر مربی کے لیے دستیاب وقت کی مقدار میں نہیں ہے، بلکہ اس وقت کے انتظام اور سرمایہ کاری میں ہے، پھر اسے اچھی طرح سے استعمال کرنا اور مطلوبہ کاموں کی تکمیل میں فائدہ مند بنانا، اور ساتھ ہی ان رکاوٹوں پر قابو پانا جو اس قیمتی نعمت کو بغیر کسی فائدے کے ضائع کرتی ہیں۔
قرآن و سنت میں وقت کی اہمیت:
جو بھی قرآن و سنت میں موجود شرعی نصوص کا مطالعہ کرتا ہے، وہ دیکھتا ہے کہ وقت ایک اہم اور بڑی جگہ رکھتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی متعدد سورتوں کے آغاز میں اس کی قسم کھائی ہے، جیسے: “زمانے کی قسم ، انسان درحقیقت بڑ ے خسارے میں ہے” [العصر]، “قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی” [الفجر]، “قسم ہے روزِ روشن کی اور رات کی جب کہ وہ سکون کے ساتھ طاری ہوجائے” [الضحٰى]۔ مفسرین اور مسلمانوں کے نزدیک یہ معلوم حقیقت ہے کہ جب اللہ اپنی مخلوق میں سے کسی چیز کی قسم کھاتا ہے، تو یہ ان کی توجہ اس کی طرف مبذول کرانے اور اس کے عظیم فوائد اور اثرات سے آگاہ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔
وقت کی اہمیت عبادات کے اس سے تعلق سے واضح طور پر ظاہر ہوتی ہے، خاص طور پر پانچ نمازیں۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: “نما ز درحقیقت ایسا فرض ہے جو پابندی وقت کے ساتھ اہل ایمان پر لازم کیا گیا ہے” [النساء: 103]۔ اور اللہ تعالیٰ ذکر میں وقت کا استفادہ کرنے کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں: “اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں” [المنافقون: 9]۔
نبوی سنت مربیوں، مبلغین اور تمام مسلمانوں کی زندگی میں اس نعمت کی قدر کی تصدیق کرتی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ قیامت کے دن جوابدہ شخص سے پوچھے جانے والے چار بنیادی سوالوں میں سے دو اہم سوال وقت سے متعلق ہیں: معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: “قیامت کے دن کسی بندے کے قدم نہیں ہلیں گے جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں نہ پوچھا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اس نے اسے کہاں گزارا، اس کی جوانی کے بارے میں کہ اس نے اسے کیسے، کہاں کھپایا، اس کے مال کے بارے میں کہ اس نے اسے کہاں سے کمایا اور کیسے خرچ کیا، اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس نے اس پر کیا عمل کیا” [رواہ البزار و الطبرانی]۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزیں غنیمت جانو: بڑھاپے سے پہلے اپنی جوانی کو، اپنی بیماری سے پہلے اپنی صحت کو، اپنی غربت سے پہلے اپنی دولت کو، اپنی مصروفیت سے پہلے فارغ وقت کو، اور اپنی موت سے پہلے اپنی زندگی کو” [بخاری]۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سے لوگ نقصان میں ہیں: صحت اور فارغ وقت” [بخاری]۔
وقت کی اہمیت تب بڑھ جاتی ہے جب یہ نیکیوں اور اطاعت میں جلدی کرنے میں گزرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن عمر بن الخطاب کو ہدایت کرتے ہیں کہ: آپ فرماتے ہیں: “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کندھا پکڑا اور فرمایا: ‘دنیا میں ایسے رہو جیسے تم اجنبی یا مسافر ہو۔’ ابن عمر کہا کرتے تھے: ‘جب شام ہو تو صبح کی امید نہ کرو، اور جب صبح ہو تو شام کی امید نہ کرو۔ اپنی صحت سے اپنی بیماری کے لیے، اور اپنی زندگی سے اپنی موت کے لیے لے لو'” [بخاری]۔ مقصد نیک اعمال میں جلدی کرنے کی ترغیب دینا ہے، کیونکہ مستقبل نامعلوم ہے۔
اسی لیے، مربی کو چاہیے کہ:
- وقت کی پابندی کی ضرورت کو سمجھے۔ اسلام کے فرائض، شعائر اور آداب اس عظیم معنی کو ثابت کرتے ہیں۔ نماز کا اپنا مقررہ وقت ہے، حج کا اپنا وقت ہے، روزے کا اپنا مہینہ ہے، اور زکوٰۃ کا اپنا مقررہ وقت ہے جب وہ واجب ہوتی ہے۔
- وعدے کی خلاف ورزی کے نقصان کو سمجھے، جو منافقین کی صفات میں سے ہے۔ ٹال مٹول اور جو ہم نے وعدہ کیا ہے اسے فوری طور پر پورا نہ کرنے کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ وقت کے تیزی سے گزرنے اور اس کے واپس نہ آنے کی وجہ سے، ہم بہت کچھ کھو سکتے ہیں۔ وقت تلوار کی طرح ہے- اگر آپ اسے نہیں کاٹتے تو یہ آپ کو کاٹتا ہے۔ وعدہ خلافی متعاقدین کے درمیان اعتماد کو بھی کھو دیتی ہے، کام میں خلل ڈالتی ہے، اور وقت ضائع کرتی ہے جسے فائدہ مند کاموں میں استعمال کیا جانا چاہیے تھا، ساتھ ہی دوسروں کے حقوق بھی تلف ہوتے ہیں۔
حسن البنا شہیدؒ اپنے مواعظ میں کہتے ہیں: “جلدی کرو، کیونکہ یہ محض سانسیں ہیں- اگر انہیں روک لیا جائے تو تمہارے وہ اعمال جن کے ذریعے تم اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتے ہو، تم سے منقطع ہوجائیں گے۔ اللہ اس شخص پر رحم کرے جو اپنے آپ کو دیکھتا ہے اور اپنے گناہوں کی تعداد پر روتا ہے۔” پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی: “اچھا، تو اب اِن پر نزول عذاب کے لیے بیتاب نہ ہو ہم اِن کے دن گن رہے ہیں” [مريم: 84]، یعنی سانسوں کے شمار کا اختتام تمہاری روح کا نکلنا ہے، شمار کا اختتام تمہارے خاندان سے تمہاری جدائی ہے، شمار کا اختتام تمہارا قبر میں داخل ہونا ہے۔
سلف اپنے وقت کی حفاظت کرتے تھے اور اپنے وعدوں کو اس سے زیادہ پورا کرتے تھے جتنا کہ تاجر اپنے مال کی حفاظت کرتا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز کی سیرت میں ایک گہرا سبق ہے – تین سال سے بھی کم عرصے میں، انہوں نے ریاست کا رخ درست کیا، انصاف قائم کیا، اور اللہ نے ان کے ہاتھوں سے بھلائی جاری کی۔ حسن البصریؒ نے کہا: “میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو اپنے وقت کے بارے میں تم سے زیادہ محتاط تھے جتنا تم اپنے درہموں اور دیناروں کے بارے میں ہو۔”
وقت کی تنظیم کے لیے مربی کے لیے ہدایات:
اگر وقت کی حفاظت مسلمان کے لیے اہم ہے، تو مربی کو سب سے زیادہ اپنے وقت کا حریص ہونا چاہیے، کیونکہ وہ اسلام کے مورچوں میں سے ایک مورچے پر تعینات سپاہی کی مانند ہے۔ سپاہی کے لیے غفلت جائز نہیں، ورنہ وہ دشمنوں کے ہاتھوں میں قیدی بن جائے گا۔ اس قیمتی نعمت کی حفاظت کے لیے اہم ہدایات درج ذیل ہیں:
- منصوبہ بندی: قرآن کریم نے منصوبہ بندی میں انسانی نمونہ پیش کیا ہے، جس کا ذکر تعریف اور اقرار کے طور پر کیا گیا ہے۔ یہ سورہ یوسف میں آیا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: “یوسفؑ نے کہا “سات بر س تک لگاتار تم لوگ کھیتی باڑی کرتے رہو گے اس دوران میں جو فصلیں تم کاٹو اُن میں سے بس تھوڑا ساحصہ، جو تمہاری خوراک کے کام آئے، نکالو اور باقی کو اس کی بالوں ہی میں رہنے دو ۞ پھر سات برس بہت سخت آئیں گے اُس زمانے میں وہ سب غلہ کھا لیا جائے گا جو تم اُس وقت کے لیے جمع کرو گے اگر کچھ بچے گا تو بس وہی جو تم نے محفوظ کر رکھا ہو ۞ اس کے بعد پھر ایک سال ایسا آئے گا جس میں باران رحمت سے لوگوں کی فریاد رسی کی جائے گی اور وہ رس نچوڑیں گے” [یوسف: 47-49]۔
- تنظیم: جب اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو پیغمبری دی اور انہیں فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا، تو جب انہوں نے مہم کی عظمت محسوس کی، تو انہوں نے اپنے رب سے اپنے بھائی ہارون کے ساتھ اپنی مدد کرنے اور اسے اس کام میں شریک کرنے کی درخواست کی۔ اللہ تعالی ان کے بارے میں فرماتے ہیں: “اور میرا بھائی ہارونؑ مجھ سے زیادہ زبان آور ہے، اسے میرے ساتھ مدد گار کے طور پر بھیج تاکہ وہ میری تائید کرے، مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے” ۞ فرمایا “ہم تیرے بھائی کے ذریعہ سے تیرا ہاتھ مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو ایسی سطوت بخشیں گے کہ وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے ہماری نشانیوں کے زور سے غلبہ تمہارا اور تمہارے پیروؤں کا ہی ہو گا” [القصص: 34-35]۔
- رہنمائی: اللہ عز وجل کے فرمان کے مطابق: “(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے اِن کے قصور معاف کر دو، اِن کے حق میں دعا ئے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں” [آل عمران: 159]۔
- نگرانی: اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرمان کے مطابق: “اس نے کہا، “جو ان میں سے ظلم کرے گا ہم اس کو سزا دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف پلٹایا جائے گا اور وہ اسے اور زیادہ سخت عذاب دے گا ۞ اور جو ان میں سے ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا اُس کے لیے اچھی جزا ہے اور ہم اس کو نرم احکام دیں گے” [الکهف: 87-88]۔
- اپنے نفس کا محاسبہ کرنا: مربی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے، کیونکہ یہ متقیوں کا طریقہ ہے جو اپنے آپ سے اپنی نیکیوں اور برائیوں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔
- نفس کو بلند ہمتی کی تربیت دینا: مربی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو بہترین امور کی عادت ڈالے اور متشابہات سے دور رہے۔
- اللہ تعالیٰ کا ذکر: یہ وقت کو غنیمت سمجھنے کے سب سے عظیم طریقوں میں سے ہے اور یہ آسان ترین عبادت ہے جسے مسلمان ہر وقت جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ ایسی عبادت ہے جو کسی خاص مقام یا وقت کے ساتھ مخصوص نہیں، ذکر انسان کی دنیا و آخرت بدل کر رکھ دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: “لہٰذا تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو، کفران نعمت نہ کرو” [البقرة: 152]۔
- قرآن کریم کی تلاوت: یہ افضل ذکر اور مربی کے وقت کو نیکی میں استعمال کرنے کا سب سے فائدہ مند طریقہ ہے۔
- خیراتی کاموں میں شرکت: اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرمان کے مطابق: “جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں اِسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، افزونی عطا فرماتا ہے وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی” [البقرة: 261]۔
- صلہ رحمی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی روزی میں کشادگی ہو یا اس کی عمر میں برکت ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے رشتے داروں سے صلہ رحمی کرے” [بخاری]۔
- مریض کی عیادت: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “مسلمان پر مسلمان کے پانچ حقوق ہیں۔ اور ایک روایت میں آیا ہے: پانچ چیزیں ہیں جو مسلمان پر اس کے بھائی کے لیے واجب ہیں: سلام کا جواب دینا، چھینکنے والے کو جواب دینا، دعوت قبول کرنا، مریض کی عیادت کرنا، اور جنازے کے پیچھے چلنا” [مسلم]۔
- امر بالمعروف اور نہی عن المنکر: یہ ان ذمہ داریوں میں سے ہے جن کے ذریعہ مربی اپنے وقت کو نیکی میں اور لوگوں کی رہنمائی کرنے میں محفوظ رکھتا ہے۔
وقت ضائع کرنے کے أسباب:
ایسے کئی اسباب ہیں جو وقت کو بغیر کسی فائدے یا بھلائی کے ضائع کر دیتے ہیں، ہم یہاں ان میں سے بعض کی نشاندہی کر رہے ہیں تاکہ عام طور پر مسلمان، اور خاص طور پر مربی ان سے بچ سکیں:
- مقصد کا واضح نہ ہونا: مقصد کا واضح نہ ہونا یا اس کا نہ ہونا، یا اس پر غور نہ کرنا، یا اس سے غافل رہنا اور اس کے لیے کوشش نہ کرنا، یہ اوقات ضائع کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ جس نے کوئی مقصد متعین کیا ہے اور پھر اس کی طرف وہ کوشاں ہو – خواہ وہ کچھ بھی ہو – وہ اپنا وقت ضائع نہیں کرے گا۔ ہر نیک مقصد جس کے حصول کے لیے مومن کوشاں ہوتا ہے، اس میں اپنے دین، یا دنیا، یا امت کی اصلاح ہوتی ہے، اگر اس میں نیت خالص ہو اور شرعی طریقہ کے مطابق ہو تو یہ اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔
- ٹال مٹول: یہ انسان کو عبادات میں سستی، شہوات اور لذتوں میں غرق ہونے، توبہ میں تاخیر، دنیا کی خواہش اور اس کے دل پر میل، آخرت کو بھولنے، اور اس کے لیے عمل اور تیاری میں غفلت کی طرف دھکیلتا ہے۔
- انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نیٹ ورکس: مربی کو چاہیے کہ وہ ان کا شکار نہ ہو، تاکہ یہ اس کا وقت نہ کھائیں یا اسے اس کے بنیادی فرائض سے غافل نہ کریں۔
- زیادہ کھانا اور سونا: جو شخص زیادہ سوتا ہے وہ جب تک اس حالت پر ہے اپنے مقصد اور منزل تک نہیں پہنچ سکتا، نہ علم حاصل کرسکتا ہے، نہ عبادت اور زہد حاصل کر سکتا ہے، بلکہ دنیا سے بھی کچھ حاصل نہیں کر سکتا، اور اس کا وقت ہوا ہوجائے گا۔
- مسائل کو بڑا بنانا: یہ ایسا سبب ہے جو مربی کا بہت سا وقت ضائع کرتا ہے، اسے چاہیے کہ مسائل کو ان کے حجم سے بڑا نہ بنائے، نہ ہی ساری دنیا کو ایک مسئلہ میں الجھائے جو اسے پیش آیا ہو، اور نہ ہی اپنا وقت غم، افسردگی اور دل کی تنگی میں ضائع کرے، بلکہ اسے مضبوط دل اور ثابت قدم ہونا چاہیے۔
- سماجی تقریبات میں زیادہ شرکت: مربی کو ان پر بار بار نظر ثانی کرنی چاہیے، کچھ ایسی ہیں جن سے معذرت کی جا سکتی ہے، اور کچھ ایسی ہیں جنہیں تھوڑے وقت میں نمٹایا جا سکتا ہے، وغیرہ۔
- عزم کی کمزوری: یہ ایسا سبب ہے جو مضبوط مربی نہیں بناتا، بلکہ وقت ضائع کرتا ہے اور منصوبوں کو بکھیر دیتا ہے۔
بے شک وقت زندگی اور سرمایہ ہے، اور جو گزر گیا وہ واپس نہیں آئے گا اور نہ ہی اس کا معاوضہ ملے گا۔ یہ ایسی چیز ہے جسے خریدا، بیچا، کرایہ پر دیا، ادھار لیا، دوگنا کیا، بچایا یا بنایا نہیں جاسکتا، لیکن اس میں سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے اور اسے بڑھایا جا سکتا ہے۔ یہ انسان کے پاس سب سے قیمتی اور بیش بہا چیز ہے، بلکہ یہی زندگی ہے، کیونکہ زندگی منٹوں اور سیکنڈوں کے سوا کچھ نہیں، اور خوش قسمت وہ ہے جو اسے اللہ کی عبادات اور قربت میں استعمال کرے۔
مصادر و مراجع:
- ڈاکٹر خالد بن عبدالرحمن الجریسی: اسلامی اور انتظامی نقطہ نظر سے وقت کا انتظام، ص17۔
- نادر احمد ابو شیخہ: وقت کا انتظام، ص46۔
- طریق الاسلام: قرآن کریم اور سنت نبویہ میں وقت کی اہمیت کے فضائل۔
- اویس عثمان: وقت کی حفاظت۔۔ داعی کی کامیابی کی کنجی۔
- محمد محمود عبدالخالق: مسلمان کی زندگی میں وقت کی اہمیت۔
مترجِم: عاشق حُسین پیرزادہ