اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے وقت کو تخلیق کیا اور اس کے بعض حصوں کو دوسروں پر فضیلت بخشی۔ چنانچہ ہفتہ کے دنوں میں جمعہ کا دن بہترین قرار پایا، سال کے بہترین ایام ذی الحجہ کے پہلے دس دن، مہینوں میں سب سے افضل ماہ رمضان، اور رمضان کی بہترین راتیں آخری دس راتیں، اور ان دس راتوں میں سب سے افضل لیلۃ القدر قرار دی گئی، جو ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پوری زندگی میں اللہ کی عبادت میں کوشاں رہتے تھے، لیکن رمضان المبارک میں آپ کی عبادت میں اور زیادہ اضافہ ہو جاتا تھا، پھر رمضان کے آخری عشرے میں آپ اپنی کوشش کو مزید دوگنا کر دیتے تھے اور اس مبارک رات کی تلاش میں رہتے جس میں اللہ جل شانہ نے قرآن نازل فرمایا۔ چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہؓ سے ثابت ہے کہ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے اور فرماتے تھے: رمضان کے آخری عشرے میں شب قدر کو تلاش کرو” [رواہ بخاری]۔
لیلۃ القدر کی تعریف:
کہا جاتا ہے کہ لیلۃ القدر کا نام “تقدیر” سے مشتق ہے، کیونکہ اس رات میں آنے والے سال کے رزق اور اجل (تقدیر) کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسے اس لیے لیلۃ القدر کہا گیا کیونکہ یہ بڑی شرف اور قدر والی رات ہے۔
یہ رمضان المبارک کے آخری دس دنوں کی راتوں میں سے ہے، لیکن اس سلسلے میں کسی خاص رات کا تعیین نہیں کیا گیا۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “پس تم آخری دس راتوں بالخصوص ہر طاق رات میں اسے تلاش کرو”۔
اللہ تعالیٰ نے اس رات کو عظیم شان عطا کی ہے؛ اس میں قرآن کریم کو نازل فرمایا، اس کے نزول کے مراحل میں سے ایک مرحلے میں۔ اللہ عزوجل فرماتے ہیں: “ہم نے اِس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے”۔ [القدر: 1]، اور یہ ایک مبارک رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ آنے والے سال کے امور کا فیصلہ فرماتے ہیں؛ جیسا کہ فرمایا: “ہم نے اِسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے، کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ یہ وہ رات تھی جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ ہمارے حکم سے صادر کیا جاتا ہے” [الدخان: 3-4]۔
اس رات میں نیک اعمال کا ثواب ہزار مہینوں کے عمل سے بھی افضل ہے، اللہ عزوجل فرماتے ہیں: “شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔” [القدر: 3]، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس رات میں عبادات اور ذکر و اذکار میں اتنی محنت فرماتے تھے جتنی دوسری راتوں میں نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا، ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس رات میں نیک اعمال اور عبادات کی ادائیگی میں اپنی پوری کوشش کرے، کیونکہ اس رات کا دنیا اور آخرت میں عظیم اجر ہے۔
شب قدر کی فضیلت:
قرآن کریم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عظیم رات کی فضیلت بیان کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی فضیلت میں ایک مکمل سورہ (سورہ القدر) نازل فرمائی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے اسے “القدر” یعنی اعلی مقام اور شرف کی طرف نسبت دی ہے۔ اس سے بڑھ کر مقام و شرف اور کیا ہوسکتا ہے کہ یہ ہزار مہینوں سے بہتر اور افضل ہے، یعنی اس رات میں کی جانے والی اطاعت اور عبادت، ہزار ایسے مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے جن میں لیلۃ القدر نہ ہو۔ ہزار مہینے تیراسی سال اور چار ماہ کے برابر ہوتے ہیں، یعنی یہ ایک رات ایک انسان کی طویل عمر سے افضل ہے جو تقریباً سو سال زندگی گزارے، اگر ہم اس میں بلوغت اور تکلیف سے پہلے کے سالوں کو بھی شامل کر لیں۔
یہ وہ رات ہے جس میں فرشتے اللہ کی رحمت، سلامتی اور برکتوں کے ساتھ نازل ہوتے ہیں، اور اس میں طلوع فجر تک سلامتی پھیلی رہتی ہے۔ سنت نبوی میں لیلۃ القدر کی فضیلت اور اسے آخری عشرے میں تلاش کرنے کے متعلق بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے: “جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کرتا ہے، اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں” [بخاری]۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس رات سے غفلت اور اس کے احیاء سے لاپرواہی سے ڈراتے ہیں، کیونکہ ایسا کرنے سے مسلمان اس کی خیر اور ثواب سے محروم ہو جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو، جب رمضان کا مہینہ آیا، فرمایا: “رمضان کا مہینہ تم پر سایہ فگن ہوگیا ہے، اور اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس سے محروم رہا وہ تمام تر خیر سے محروم رہا، اور اس کے خیر سے محروم صرف وہی رہتا ہے جو [حقیقی معنوں میں] محروم ہے” [اسے ابن ماجہ نے حضرت انس کی حدیث سے روایت کیا ہے، اور اس کی سند صحیح الجامع الصغیر کے مطابق حسن ہے]۔
یہی وہ رات ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: “رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں” [البقرة: 185]۔ احادیث مبارکہ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ رات رمضان کے آخری عشرے میں ہے، جیسا کہ حضرت عائشہؓ سے صحیح روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے، اور فرماتے تھے: رمضان کے آخری عشرے میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو” [متفق علیہ]۔
خاص طور پر رمضان کی آخری سات راتوں میں اس کی تلاش اور خواہش پر زور دیا گیا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ نے خواب میں لیلۃ القدر کو آخری سات راتوں میں دیکھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے خواب آخری سات راتوں میں موافق آئے ہیں، پس جو اس کی تلاش کر رہا ہو، وہ اسے آخری سات راتوں میں تلاش کرے” [متفق علیہ]۔
حضرت ابن عمرؓ سے یہ بھی روایت ہے: “اسے آخری دس راتوں میں تلاش کرو، اگر تم میں سے کوئی کمزور پڑ جائے یا عاجز ہو جائے، تو باقی سات راتوں میں [اس کی تلاش] سے غافل نہ ہو” [اسے امام احمد اور مسلم نے ابن عمرؓ سے روایت کیا ہے، جیسا کہ صحیح الجامع الصغیر میں ہے]۔ آخری سات راتیں، اگر مہینہ 29 دن کا ہو تو 23ویں رات سے، اور اگر 30 دن کا ہو تو 24ویں رات سے شروع ہوتی ہیں۔
صحابہ کرام میں سے حضرت ابی بن کعب اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم نے دیکھا کہ یہ رمضان کی 27ویں رات ہے، اور حضرت ابی ابن کعبؓ کچھ علامات کی بنا پر اس پر قسم کھاتے تھے۔ یہ بات جمہور مسلمانوں کے درمیان مشہور ہوگئی، یہاں تک کہ اس رات کو سرکاری طور پر منایا جانے لگا۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس بارے میں کوئی یقینی بات نہیں، اور اس کی تعیین میں مختلف اقوال ہیں، حتیٰ کہ حافظ ابن حجر نے اس سے متعلق 46 اقوال نقل کیے ہیں۔
ان میں سے بعض کو ایک دوسرے سے جوڑا جاسکتا ہے، اور ان سب میں سے راجح ترین قول یہ ہے کہ یہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کسی ایک میں ہے، اور یہ منتقل ہوتی رہتی ہے، جیسا کہ اس باب کی احادیث سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ اور آخری عشرے کی طاق راتوں میں سب سے زیادہ امید کی راتیں، شافعیہ کے نزدیک 21ویں رات اور جمہور کے نزدیک 27ویں رات ہے۔
لیلۃ القدر کی کئی علامات بیان کی گئی ہیں، جن میں سے اکثر صرف رات گزرنے کے بعد ہی ظاہر ہوتی ہیں، مثلاً: اس کی صبح سورج بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے، یا کم سرخ ہوتا ہے… وغیرہ۔ اسی طرح یہ بارش اور ہوا والی رات ہوتی ہے، یا یہ ایک روشن اور واضح رات ہوتی ہے، نہ زیادہ گرم نہ سرد، اور اسی طرح بہت ساری علامات حافظ ابن حجر نے “الفتح” میں ذکر کی ہیں۔
یہ رات ہر اس شخص کے لیے عام ہے جو اسے تلاش کرتا ہے، اور اس کی خیر، اجر اور اللہ کے عطا کردہ انعامات کو چاہتا ہے۔ یہ عبادت، طاعت، نماز، تلاوت، ذکر، دعا، صدقہ، صلہ رحمی، نیک اعمال اور خیر کے کاموں کی رات ہے۔ مسلمان کے لیے کم از کم اس رات میں اتنا ضروری ہے کہ وہ عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے اور صبح کی نماز بھی جماعت کے ساتھ پڑھے، کیونکہ یہ دونوں قیام اللیل کے برابر ہیں۔
شب قدر کو کیسے غنیمت سمجھیں؟
ایک مسلمان شب قدر کو عبادات، دعا اور استغفار کے ذریعے غنیمت سمجھ سکتا ہے، کیونکہ یہ ایک ایسا موقع ہے جو سال میں صرف ایک بار آتا ہے، اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے سال کی دیگر راتوں پر فضیلت دی ہے۔ اس رات میں عمل کرنے کے لیے درج ذیل وصایا ہیں:
- دعا کرنے اور اللہ سے توفیق مانگنے میں کثرت کریں۔
- ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی اس دعا کو کثرت کے ساتھ پڑھیں: “اللهم إنك عفو تحب العفو فاعف عني” (اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے، معاف کرنا آپ کو پسند ہے، پس میرے گناہ معاف فرما)۔
- عشاء کی نماز کے ساتھ ساتھ فجر کی نماز بھی جماعت کے ساتھ ادا کریں، کیونکہ ان دونوں کو جماعت کے ساتھ پڑھنے والا ایسا ہے جیسے اس نے پوری رات قیام کیا ہو۔
- قرآن کریم کی تلاوت کی کثرت کریں، کیونکہ ان راتوں میں نیکیاں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔
- دل کی اصلاح کا خیال رکھیں، تاکہ ہم اس رات سے عظیم کامیابی حاصل کرکے نکلیں۔
- ذکر کی کثرت کریں، “لا إله إلا الله” کا ورد کریں، اور مضاعف ذکر کریں: “سبحان الله وبحمده عدد خلقه ورضا نفسه وزنة عرشه ومداد كلماته” (میں اللہ کی تسبیح کرتا ہوں اور اس کی حمد کرتا ہوں، اس کی مخلوقات کی تعداد کے برابر، اس کی ذات کی رضامندی کے برابر، اس کے عرش کے وزن کے برابر، اور اس کے کلمات کے مداد کے برابر)، اور عموماً تمام اذکار کی کثرت کریں۔
- تھوڑا سا ہی سہی، صدقہ ضرور کریں۔
- متنوع عبادات کا اہتمام کریں، اور سب سے آسان عبادت اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔
- اسے سال کی بہترین رات سمجھیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس رات میں ہدایت، جد و جہد اور کوشش کو یاد رکھیں۔
- استغفار کی کثرت کریں، کیونکہ یہ ان گناہوں کے اثر کو کم کرتا ہے جو بندے اور رب کے درمیان حائل ہوتے ہیں۔ آپ اس رات میں سید الاستغفار کو دہرا سکتے ہیں: “اللهم أنت ربي لا إله إلا أنت خلقتني وأنا عبدك، وأنا على عهدك ووعدك ما استطعت، أعوذ بك من شر ما صنعت، أبوء لك بنعمتك علي، وأبوء بذنبي فاغفر لي إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت” (اے اللہ تو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں، میں اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں، میں اپنے کیے ہوئے اعمال کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، میں تیری مجھ پر نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں، اور اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں، پس مجھے معاف کر دے، کیونکہ گناہوں کو تیرے سوا کوئی معاف نہیں کرسکتا)۔
- مسجد جاتے اور آتے وقت اللہ کے ذکر سے اپنی زبان کو تر رکھنا نہ بھولیں۔
- والدین کے ساتھ نیکی کریں، ان کی ضروریات پوری کریں اور ان کے ساتھ افطار کریں۔
- نفس کے ساتھ جہاد کریں، کیونکہ طاعات میں مجاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
- گناہوں سے دور رہیں۔
- موبائل فون اور اسی طرح کے دیگر مشغلوں سے دور رہیں۔
شب قدر ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے، اس لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ اس میں نماز، قرآن کی تلاوت، ذکر اور دیگر عبادات کی کثرت کرے۔ اس کے مقابلے میں، ہمیں سماجی تعلقات کو حتی الامکان محدود رکھنا چاہیے، اسی طرح موبائل فون، بھاری بھرکم کھانوں سے پرہیز کریں، اور اپنے گھر والوں، بچوں اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو عبادت میں مشغول رہنے کی ترغیب دیں۔
ایک مسلمان کو چاہیے کہ اس رات کو تلاش کرے، اس کے علامات کی نگرانی کرے، اس میں کوشش کرے، قیام کی کثرت کرے اور اس کے قیمتی لمحات کو ضائع نہ کرے، اللہ تبارک و تعالیٰ سے معافی مانگے، اخلاص کے ساتھ عبادت کرے اور اللہ کے یہاں بہترین اجر کی امید رکھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جو شخص ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے لیلۃ القدر میں قیام کرتا ہے، اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں” [متفق علیہ]۔
مصادر و مراجع:
- لیلۃ القدر تمام راتوں میں افضل ہے۔
- شب قدر کو غنیمت سمجھنے کے لیے معاونت اور نصائح۔
- آخری عشرے اور لیلۃ القدر کی فضیلت۔
- ابن حجر: فتح الباری، 171/5۔
مترجِم: عاشق حسین پیرزادہ