سوال: میرا بیٹا ایک “بے کار” قسم کا نوجوان ہے جو شادی کرنا چاہتا ہے۔ کیا یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اس کے لئے دلہن تلاش کروں ؟
میرے لیے امانت کا مسئلہ درپیش ہے، اور جس امانت کے متعلق میں آپ سے مشورہ طلب کرنا چاہتا ہوں وہ کوئی مال و جائداد کی امانت نہیں ہے، بلکہ عزتوں کی امانت ہے، میرا بڑا بیٹا شادی کرنا چاہتا ہے اور کسی مہذب خاندان سے تعلق رکھنے والی اچھی لڑکی کی خواہش رکھتا ہے، اور یہ فطرتاََ ایک اچھی چیز ہے جس کی تلاش ہر کوئی انسان کرتا ہے، لیکن میرا بیٹا ان معمولی اور بے کار قسم کے نوجوانوں میں سے ایک ہے جن کی کوئی اچھائی میں کسی کے سامنے بیان نہیں کر سکتا بلکہ اگر اس قسم کا کوئی نوجوان میری خود کی بیٹی کو نکاح کا پیغام بھیجے گا تو میں اسے ہرگز قبول نہ کروں گا۔
میں جب بھی اس کے بارے میں کسی سے بات کرنے کا سوچتا ہوں تو مجھے اس پر اور اس کے رویے پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے، اور میں لوگوں کی بیٹیوں کے متعلق اس سے ڈرتا ہوں، تو میں اپنا ارادہ ترک کرتا ہوں، لیکن ساتھ ہی یہ ڈر بھی ستاتا ہے کہ کہیں وہ فتنوں میں مبتلا نہ ہوجائے، اس لیے میں اپنی رائے پر نظر ثانی کرتا ہوں اور اس کے لیے ایک اچھی دلہن کی تلاش پر دوبارہ سوچتا ہوں۔ اور اب میں الجھن میں ہوں! کہ کیا مجھے اس کے لئے ایک دلہن تلاش کرنی چاہئے جس کو میں استحکام اور خوشی کی ضمانت نہیں دے سکتا؟ یا اسے اکیلا اپنے حال پر چھوڑ دوں؟ پھر چاہے وہ اپنے جیسی کسی لڑکی کا انتخاب ہی کیوں نہ کرے؟ براہ مہربانی میری رہنمائی کریں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
آپ کوئی پہلے شخص نہیں ہیں جس کے اندر یہ تشویش پائی جاتی ہے، بلکہ یہ ایک عمومی پریشانی ہے جو اس وقت پیش آتی ہے جب دو انسانوں کو رشتۂ ازدواج پر متفق کرنے کی بات چلتی ہے، اس فیصلے پر شادی شدہ زندگی کے عمومی اختلافات جو کہ میاں بیوی کے فطری اختلافات پر مبنی ہوتے ہیں، اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس پر ایسے اجتماعی رسمیں بھی اثر ڈالتی ہیں جو جنازے میں تو ساتھ چلنے پر زور دیتے ہیں لیکن شادی شدہ جوڑوں کو ساتھ چلنے نہیں دیتے ہیں! لیکن آپ کے معاملے میں مسئلہ اس وجہ سے بڑھ چکا ہے کیونکہ آپ کے سامنے بیٹے کی شخصیت کی خامیاں اور کمزرویاں نمایاں ہوگئی ہیں۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آپ نے خیر کے لیے سعی چھوڑ دی ہے اور اس پرفتن وقت میں نکاح جیسی پاکیزہ چیز کو نظر انداز کیا ہے اور یہ کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے۔
آپ کا آپ کے بیٹے کے بارے میں منفی سوچ کے باوجود، ہمیں اچھی علامات نظر آتی ہیں، جن میں سے پہلی نشانی آپ کے بیٹے کی ایک اچھی لڑکی سے شادی کرنے اور اس کے ساتھ تعلق قائم کرنے کی خواہش ہے حالانکہ دوسرے نوجوان ذمہ داری سے بچنے کے لئے اس خیال کو دل سے نکال دیتے ہیں، اور ان میں سے کچھ حرام تعلقات پر مطمئن دکھائی دیتے ہیں جو خدا کو پسند نہیں ہیں۔
آپ کے بیٹے کے اندر خیر کی دوسری نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کو لڑکی کا انتخاب کرنے اور اس میں مدد کرنے کی اجازت دیتا ہے، جب کہ دوسرے نوجوان انتخاب کا حق اپنے پاس ہی رکھتے ہیں جس میں کوئی برائی تو نہیں ہے لیکن بعض اوقات اس کی وجہ سے خاندان پر نامناسب انتخاب مسلط ہو جاتا ہے جہاں وہ خاندان کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ہے، اور اگر ایسا آپ کے بیٹے کی طرف سے ہوتا تو آپ بھی اسے کبھی قبول نہ کرتے۔
دوسری بات یہ کہ آپ اپنے بیٹے کو ناپسندیدہ نظروں سے دیکھنا چھوڑ دیں اور اسے غیر مناسب مثالی معیار پر پرکھنے سے پرہیز کریں۔ کیونکہ یہ چیز آپ کی نظر میں اس کی شادی کی اہلیت کو کم کر دیتی ہے، لہٰذا اس کے بارے میں اس کے سب سے قریبی لوگوں کی رائے لیں جس میں اس کا والد بھی شامل ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ آپ اس پر کوئی ظلم نہ کر بیٹھیں۔
پھر اس کے بعد ان دو چیزوں میں فرق کریں کہ کس کمزوری کے باوجود گھر قائم رہے گا اور اس کے اندر کون سی کمزوری ہے جو گھر قائم نہیں رکھ سکتی؟ مثال کے طور پر، جس چیز سے گھر قائم نہیں ہوسکتا ہے وہ اس کا اپنے خاندان کی حفاظت کرنے میں عدم دلچسپی اور خلوص کی کمی ہے، اس کا ذمہ داری اٹھانے سے کترانا، مال کمانے کی کوشش نہ کرنا اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنا ہے، یا وہ خدا سے بے خوف ہوکر حرام کا ارتکاب کرے۔ اسی طرح آپ پر یہ ذمہ داری ہے کہ آپ اس کی شخصیت کے بارے میں ٹھیک ٹھیک رائے قائم کریں۔
پھر آپ کو چاہیے کہ اس کے اندر موجود ان خامیوں کو دور کرنے میں اس کی مدد کریں جو آپ دیکھتی ہیں۔ آپ براہ راست اسے کسی مناسب تربیتی کورس میں داخل کریں، یا اسے کسی دانا نوجوان کی صحبت میں رکھیں جس کے پاس تجربہ ہو، یا اس کے ساتھ نرمی اور احترام کے ساتھ تبادلہ خیال کریں اور اسے آگے آنے والی مشکلات سے آگاہ کریں جو اس کی ان خصوصیات کی سبب پیدا ہوسکتی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ گھر، آپ کے اور آپ کے شوہر کے آپسی معاملات اس کے سامنے ایک مثال ہو کیونکہ جہاں تک اس کے ذاتی تجربے کی بات ہے تو یہ اس کے لیے قریب ترین عملی مثال ہے۔
اس کے والدسے درخواست کیجئے کہ وہ اس کے قریب رہے، اسے اپنی صحبت میں رکھے اور ہمیشہ اسے نصیحت کرتا رہے، اور ہم آپ سے یہ امید رکھتے ہیں کہ آپ نے اس خط میں بیٹے کے لیے جو بعض کلمات استعمال کیے ہیں وہ آپ اس کے منہ پر نہیں کہیں گی، مثال کے طور پر آپ اسے یہ نہیں بتائیں گے کہ ( تم ناکارہ اور فضول ہو اور میں اپنی بیٹی کے لیے کبھی تم جیسا انسان قبول نہیں کروں گی ) کیونکہ اس طرح ہم اسے اس کی تصویر دکھاتے ہیں اور شادی کے معاملے میں اس کے غیر ذمہ دارانہ طرزعمل کی بلواسطہ حمایت کرتے ہیں۔ اس کے بدلے ہمیں چاہیے کہ ہم اسے یہ بتائیں کہ ہمیں اس پر فخر ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ وہ بلوغت کی اس عمر تک پہنچا ہے کہ خود مختاری سے زندگی گذارے، اور ہمیں ہر قدم پر اس کا ساتھ دینا ہوگا، ہم ان عادات پر اسے متنبہ کریں گے جن کے اندر دوسرے لوگ گر چکے ہیں اس طرح اللہ تعالیٰ کے اس قول کی بھی تصدیق ہوگی {راستبازی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کو تعاون کرو}
اگر والدین اپنے بچوں کے حامی اور مشیر نہیں بنیں گے، تو وہ انہیں کس کے بھروسے چھوڑیں گے؟ اور کیا ہم انہیں اپنے حال پر چھوڑنے کے نتائج پر مطمئن ہوں گے؟ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں فرمایا: “جو شخص اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ اس کی مدد کرتا ہے” تو کیا ہمیں بیٹے کی شادی کرنے اور پاکیزگی اختیار کرنے کی حاجت کی کوئی فکر نہیں ہے؟ پہلی شرط یہ ہے: { تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہے}
مجموعی طور ہمیں اقدامات اٹھانے کا مکلف بنایا گیا ہے ہم نتائج کی ضمانت کے ذمہ دار نہیں ہیں، اور مشکلات ہمارے اختیار کی خواہش میں ہرگز رکاوٹ نہیں بننی چاہیے، اور فریقین کے درمیان ایک دوسرے کے لئے چاہے جتنی بھی موزوںیت موجود ہو، لیکن ازدواجی اختلافات کا ہونا فطری بات ہے، یہ چیز ان کے درمیان افہام تفہیم، بہترین طریقے پر تعامل اور رشتے کی پختگی میں مفید ثابت ہوتا ہے، اور نئے نئے ازدواجی تعلق میں فریقین کے رشتے میں چاہے پختگی جو بھی ہو، یہ صرف وقت کے ساتھ ساتھ فریقین کے درمیان آپسی شعور میں اضافہ اور بہت سے امتحانات سے گزر کر ہی ایک اٹوٹ رشتہ بنتا ہے۔ بہت سے نوجوانوں کے لیے شادی اصلاح کا ذریعہ بنتا ہے اور چیزوں کے متعلق ان کے نظریے کو بدلتا ہے۔
ہمیں ہم آہنگی یا یکسانیت دیکھنے کے بجائے حسب استطاعت مساوات ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ گھروں کی نجات ایک دوسرے کی تکمیل کرنے میں ہے، لیکن مفادات اور ذمہ داریوں کی سطح میں زیادہ فرق نہ ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں ایک اچھی لڑکی کی تلاش کرنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے: {پس تم دین والی کو ترجیح دو تاکہ نجات حاصل کرلو تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں} اور ہاں جس گھر کی لڑکی کو ہم پسند کریں اس گھر کی جانچ پڑتال کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ انہیں بھی چاہیے کہ لڑکے کے بارے میں تحقیق کریں اور پھر فیصلہ کریں اور اس تجربے سے گزرنا اپنے آپ میں بہت فائدہ مند ہے کیونکہ اس طرح اسے صورتحال کی نوعیت سمجھ آتی ہے پھر چاہے اسے مسترد ہی کیوں نہ کر دیا جائے۔
مترجم: ڈاکٹر سجاد الحق