مربی کی بنیادی ذمہ داریاں:
تربیت کے عمل میں مربی کی ذات بنیادی ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔ تربیتی ماحول بنانا، نصاب نافذ کرنا اور زیر تربیت افراد کی نشوونما اور ذہنی ترقی میں اس کا اہم کردار ہوتا ہے۔
تربیت ایک ایسا عمل ہے جس میں مربی کو اعلیٰ انسانی تعلق کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے تاکہ تربیت پانے والے افراد میں بھائی چارہ اور بلند اخلاقی و انسانی احساسات پیدا کرے۔
چوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ان معاملات میں بھی مربیین کے لیے چشمۂ صافی اور قابل بھروسہ حوالہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے ہم نے سوچا کہ اس دروازے پر دستک دی جائے اور یہاں سے انسانیت کے لیے بلند اخلاقی کی اقدار تلاش کی جائیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے ملا کرتی ہیں۔
اس مقصد کے لیے ہم نے درج ذیل چار پہلوؤں کا انتخاب کیا:
- وسیع اور جامع تعارف
- مؤثر رابطہ
- جذبات کا احساس کرنا
- نفسیاتی پہلو کو مد نظر رکھنا
یہ تمام پہلو مربیین کے لیے اس معاملے میں رہنما ثابت ہوں گے کہ وہ اپنے ساتھیوں کا گہرا تعارف حاصل کریں اور پھر ان کی شخصیات، صلاحیتوں، جذبات، امکانات اور احساسات کو مد نظر رکھ کر باہمی تعاون و ہم آہنگی کی فضا قائم کریں۔
یہ پہلو اس حوالے سے بھی مددگار ہیں کہ مربی اپنے ساتھیوں کے دکھ سکھ میں شریک ہوں اور زندگی کے دیگر معاملات میں فعال رابطہ قائم کرسکیں۔ یہ پہلو اس لحاظ سے بھی اہم ہیں کہ وہ اپنے ان ساتھیوں کے جذبات کا لازماََ احساس کریں جو ان سے اللہ کے لیے محبت کرتے ہیں،اور جن کے دل اُن کے رب کی محبت میں مجتمع ہوئے ہیں اوروہ اللہ ہی کی اطاعت میں باہم ملتے ہیں اور جو اس کی شریعت کی نصرت کے لیےمتحد ہیں۔ یہ باتیں اس زاویے سے بھی اہمیت کی حامل ہیں کہ وہ اپنے ان بھائیوں کی نفسیاتی ضروریات کا بھی اس طرح خیال کریں کہ گویا وہ ایک دل، ایک جسم اور ایک روح ہیں۔
لوگوں اور قوموں کی پہچان اور تعارف:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ اور مسلمانوں اور دیگر لوگوں کا جامع و ہمہ جہت تعارف رکھتے تھے اور اس بنیاد پر جو طرز عمل اختیار کرتے تھے اس سے ہم درج ذیل اہم نکات اخذ کرسکتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعامل کا بھی حصہ تھے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ارد گرد کے لوگوں کے رنگ ڈھنگ سے آشنا تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اچھے سے لوگوں کا استقبال کرتے اور ان کے دل سے خوف اور ہچکچاہٹ کو دور کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف شخصیات کے ذاتی جواہر سے واقفیت میں دل چسپی رکھتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ سے خاندانی تعلقات بھی قائم کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو سلام میں سبقت فرمایا کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم افراد کے احوال و اقدار سے واقف تھے۔
بیعت عقبہ ثانی میں جب براء بن معرور اور کعب بن مالک رضی اللہ عنھما مسجد میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس بن عبدالمطلب کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ دونوں نے سلام کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا سے پوچھا: “اے ابوالفضل! کیا تم ان دونوں کو جانتے ہو؟” حضرت عباس بن عبدالمطلب رض نے فرمایا :”یہ براء بن معرور ہیں، اپنی قوم کے سردار ہیں” اور یہ کعب بن مالک ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: “شاعر؟” انہوں نے کہا : “ہاں”، کعب بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ میں آپ کی اس بات کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ [رواہ احمد: حدیث کعب ابن مالک (460/3)]
اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تو حضرت عباس سے ان دو اہل مدینہ کا پوچھا کیوں کہ حضرت عباس تجارت کی غرض سے کثرت سے سفر کیا کرتے تھے اور لوگوں سے ان کی واقف بھی تھے۔ پھر جب انہوں نے جواب دیا کہ: یہ براء بن معرور ہیں، سردارِ قوم ہیں اور یہ کعب بن مالک”، تو آپ صلئ اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ “شاعر؟” یعنی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعراء کے ناموں سے واقف تھے حالاں کہ خود شاعر نہیں تھے جیسا کہ اللہ عزو جل کا بھی ارشاد ہے کہ: ہم نے اِس (نبی) کو شعر نہیں سکھایا ہے اور نہ شاعری اس کو زیب ہی دیتی ہے یہ تو ایک نصیحت اور صاف پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ [یٰس: ۶۹]
جب صحابہ کرامؓ پر اذیتیں شدت اختیار کرنے لگیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حبشہ کی جانب ہجرت کا کہا اور فرمایا کہ: “اگر تم وہاں چلے جاؤ تو تمہارے لیے بہتر ہے جب تک اللہ تمہیں موجودہ حالت سے نجات نہ دے د ے۔ وہ سچائی کی سرزمین ہے اور وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے دربار میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔” [تاریخ طبری، ابن ہشام 322.. 321/1، ابن إسحاق 330.328/2]۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف ممالک سے آگاہ تھے اور وہاں کے امراء و زعماء کی معلومات رکھتے تھے اور یہ بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے اختلاف کے باوجود نجاشی کے عدل کی تعریف کی۔
امام احمد کی روایت:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب طائف کی جانب گئے اور وہاں کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی اور واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عداس غلام سے ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت کیا کہ “تم کہاں سے ہو اور تمہارا دین کیا ہے؟” عداس نے جواب دیا: “میں نصرانی ہوں اور نینویٰ کا رہائشی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: “کیا یونس بن متی (علیہ السلام ) کی بستی سے؟” عداس نے حیرت سے پوچھا: “آپ یونس بن متی ( علیہ السلام) کو کیسے جانتے ہیں؟” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : “وہ میرے بھائی ہیں، میں بھی اللہ کا نبی ہوں اور وہ بھی نبی تھے۔” [ رواه الطبری؛ عن محمد بن كعب القرظي (2 / 345)]۔
اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جغرافیے کی معلومات اور تاریخی لوگوں کے حالات سے واقفیت ظاہر ہوتی ہے جو عداس کے دل میں گھر کرنے کا باعث بنی اوراور یہی بات منتظم اور رہنما کو زیب دیتی ہے کہ وہ اپنے متعلقین اور اُن کے حالات سے واقف ہو۔
صلح حدیبیہ کے وقت قریش نے اپنے نمائندہ وفد میں حلیس بن علقمۃ کو بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحیثیت سفیر بھیجا۔ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا: یہ فلاں شخص ہے۔ یہ ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہے جو قربانی کے جانوروں کا بہت احترام کرتی ہے۔ لہٰذا جانوروں کو کھڑا کردو۔ صحابہؓ نے جانوروں کو کھڑا کردیا۔ وادی کے کنارے ہی سے حلیس نے دیکھا کہ جانور کھڑے ہیں، ان کی گردنوں میں طوق ڈلا ہوا ہے۔ اور لوگ عمرہ کا تلبیہ کہتے ہوئے اس کا استقبال کررہے تھے، انہیں یہاں کھڑے آدھا مہینہ ہوچکا تھا، ان کے بال بکھرے ہوئے اور بدن غبار سے اٹے ہوئے تھے۔ یہ حالت دیکھ کرحلیس نے زور سے پکارا: سبحان اللہ! یہ لوگ کس طرح بیت اللہ سے روکے جاسکتے ہیں؟ اللہ کو یہ بات ناپسند ہے کہ لخم، جذام، کندہ اور حمیر حج کریں اور عبد المطلب کے بیٹے کو روک دیا جائے۔ یہ بات قریش کوبالکل بھی زیب نہیں دیتی کہ وہ بیت اللہ سے کسی کو روکے رکھیں۔ قریش ہلاک ہوگئے، اللہ کی قسم یہ لوگ تو صرف عمرہ کرنے کے لیے آئے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اے بنی کنانہ سے میرے بھائی! تم نے ٹھیک ہی کہا۔”
پھر قریش نے مکرز بن حفص کو بھیجا۔ جب وہ آیا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ لیا تو فرمایا: “یہ دھوکہ باز، بد نیت اور بدکردار آدمی ہے۔”
پھر قریش نے سہیل بن عمرو کو بھیجا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آتے دیکھ کر فرمایا کہ “اس شخص کو بھیج کر قریش نے اصلاح کا ارادہ کرلیا ہے” اور ایک روایت میں ہے کہ “تمہارے کام آسان ہوگئے ہیں”۔ [مصنف ابن ابی شیبہ۔ عن عروة بن الزبير رضى الله عنه- كتاب: المغازي – باب: غزوة الحديبية (20 / 313 : 323 – رقم: 38010) وأحمد ط الرسالة (31 / 512 : 520 – رقم: 18910) وحسنه الأرناؤوط ]۔
اس واقعہ سے ہم بخوبی جان پاتے ہیں کہ کس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حلیس اور اس کی قوم کے بارے میں اور ان کی جانب سے قربانی کے جانوروں، شعائر اور عبادات کے لیے تعظیم کے جذبے کی بابت علم تھا کہ جب وہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھیک اسی انداز میں اس کے ساتھ تعامل کیا جس کا وہ مستحق تھا اور جب وہ گیا تو اُس کے ذریعے جو پیغام قریش تک پہنچانا تھا، وہ بھی اس نے پہنچادیا اور یوں مطلوبہ ہدف بخوبی حاصل ہوگیا۔
پھر یہ بھی دیکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکرز بن حفص کے بارے میں اور اس کی دھوکہ بازی اور بدکرداری کی بابت بھی علم تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ بھی مناسب رویہ اختیار کیا۔ اور جب قریش نے سہیل بن عمرو کو بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بھانپ گئے کہ سہیل کے ذریعے قریش کیا پیغام دینا چاہتے ہیں اور معاملات اس طرح چلے کہ بالآخر مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان صلح ہوگئی۔
صحابہ کی نمایاں خصوصیات کی نشان دہی:
اب یہ تو دشمن سے متعلق واقفیت کا حال ہے، جہاں تک اپنے صحابہؓ سے تعلق اور ان کی صلاحتیوں سے آگہی کی بات ہے تو اس کی اس قدر مثالیں ہیں کہ شمار میں نہیں آسکتیں۔ صرف چند ہی پر ہم اکتفا کریں گے۔
- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ ابوبکرؓ کو قریش کے نسب کا وسیع علم ہے۔ اور ابن اسحاق نے بھی اپنی سیرت میں ذکر کیا ہے کہ جناب ابوبکرؓ قریش کے انساب کے بارے میں اور قریش کی خوبیوں اور خامیوں کے متعلق کافی علم رکھتے تھے، یہی وجہ تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب عرب قبائل کو دعوت دیتے تو حضرت ابوبکرؓ ساتھ ساتھ ہوتے۔
- پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مصعب بن عمیرؓ کو بیعت عقبہ اولیٰ والوں کے ساتھ مدینہ روانہ کیا تاکہ وہ انصار کو تعلیم دیں اور مدینہ والوں میں اسلام کی تبلیغ کا کام سرانجام دیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں سے اسلام کو عظیم کامیابی عطا فرمائی۔ اور یہ سب یوں ممکن ہوا کہ مصعب بن عمیرؓ ذاتی لحاظ سے، معاشرتی لحاظ سے اور ثقافتی لحاظ سے اس کے اہل تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ان صلاحیتوں کا علم بھی رکھتے تھے۔
- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار تو اپنے بعض صحابہؓ کی نمایاں صفات کا بھی تذکرہ کیا کہ: میری امت کا سب سے بڑا رحم دل ابوبکر ہیں اور اللہ کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں اور سب سے زیادہ حیاء والے عثمان ہیں اور اللہ کی کتاب کے سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں اور فرائض (میراث) کے سب سے بڑے جانکار زید بن ثابت ہیں اور حلال و حرام کے سب سے بڑے عالم معاذ بن جبل ہیں اور سنو ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں۔ اور قتادہ کی روایت میں یہ بھی ہے کہ ان میں بہترین قاضی حضرت علیؓ ہیں۔
- اسی پر دیکھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبلؓ کے متعلق فرمایا کہ “وہ حلال و حرام کے علم میں سب زیادہ ہیں”، تو جب انہیں داعی اور معلم کی حیثیت سے یمن بھیجا تو وہ بہترین معلم اور فقیہ ثابت ہوئے۔
- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباسؓ کو تفسیر قرآن کے لیے منتخب کیا اوراس خاطر انہیںاپنے سینے سے لگا کر دعا فرمائی کہ “اے اللہ! اسے حکمت کی تعلیم دے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: اے اللہ! اسے کتاب کا علم سکھا”۔ (بخاریؒ نے اسے الاصابہ فی غیر النبوۃ میں درج کیا ہے) ۔ [بخاری، مسند احمد، ترمذی]
- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن ثابتؓ کو ہی یہود کی زبان سیکھنے کا کہا اور انہوں نے صرف پندرہ دنوں میں یہ زبان سیکھ لی۔ [ ترمذی: عن خارجہ بن زید بن ثابت رض ، کتاب الاستئذان والآداب باب: جو سریانی زبان سیکھنے آئے۔ 2715 اور ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے اور بخاری نے اسے کتاب الاحکام میں نقل کیا ہے]۔
- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب میں سے حضرت علی بن ابی طالب، زید بن ثابت رض اور معاویہ بن ابی سفیان رض ایسے لوگوں کو الگ کیا جو لکھنے پڑھنے میں اچھے تھے اور انہیں وحی ، پیغامات اور خطوط کے لکھنے کے لیے خاص کرلیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انوکھا استقبالی رویہ:
ترمذی نے حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کیا ہے، پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سے مصافحہ فرماتے تو اس وقت تک اپنا ہاتھ علیٰحدہ نہیں کرتے جب تک وہ فرد خود ایسا نہ کرنا چاہے، اگر کوئی فرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر ملتا تو تب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چہرے کو اس سے نہ موڑتے تھے جب تک وہ خود نہ موڑے اور مجلس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مصاحبوں سے آگے اپنے گھٹنے نہ رکھتے تھے۔ [ترمذی، کتاب: صفۃ القیامہ والرقائق والورع 2490، ابن عساکر نے تاریخ دمشق اور سیوطی نے جمع الجوامع میں نقل کیا ہے]۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب سے خوب ہشاش بشاش ملا کرتے تھے، بلکہ ہوتا یوں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سلوک اور برتاؤ سے اتنا تاثر قائم کرلیتے کہ ہر صحابی یہ سمجھتا تھا کہ مجھ سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کوئی اور زیادہ مکرم اور صاحب عزت نہیں ہے۔
مترجم: زعیم الرحمان